عدلیہ کو دھمکانا
ان کو فنڈز فراہم کرنے والوں کے مکمل خاتمے میں ابھی کئی سال کا عرصہ درکار ہو گا۔
کراچی دو سال پہلے کی نسبت قدرے زیادہ محفوظ محسوس ہونے لگا لیکن اس سے ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ دہشت گرد اور سیاسی ٹارگٹ کلر ختم ہو گئے ہیں، ان کی گہری جڑیں اب بھی بہت مضبوط ہیں۔
ان کو فنڈز فراہم کرنے والوں کے مکمل خاتمے میں ابھی کئی سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ سندھ رینجرز نے اگرچہ غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کراچی کے حالات بہتر بنانے کی کامیاب کوشش کی لیکن دو ہائی پروفائل واقعات نے جن میں -1چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ کے فرزند اویس شاہ ایڈووکیٹ کا اغوا، جس کا ہنوز سراغ بھی نہیں مل سکا اور دوسرا واقعہ ملک کے عالمی شہرت کے حامل فنکار امجد صابری کا شہر کی سڑک پر دن دہاڑے قتل جو کہ دہشت گردی کی واردات بھی کہی جا سکتی ہے جس کے پیچھے ملکی سیاست بھی کارفرما ہو سکتی ہے کیونکہ وہ لوگ روپ بدل بدل کر وارداتیں کرتے ہیں۔
یہاں میں اپنے کالمWhere have all the flowers gone? یعنی وہ سارے پھولوں جیسے بچے کہاں چلے گئے؟ میں دسمبر2014ء کو پشاور کے اے پی ایس کے سانحے کا تذکرہ تھا جس میں دہشت گردوں نے آبادی کی نفسیات میں ڈر' خوف اور دہشت کو بٹھانے کے لیے اسقدر ہولناک ظلم کا ارتکاب کیا۔ اوپر سے میڈیا نے اس ڈر اور خوف کو چہار سو پھیلانے میں اپنا منصبی کردار ادا کیا اور اس دہشت کو عوام الناس تک پھیلا دیا۔ بہرحال ہمیں اس قسم کے چھوٹے موٹے گھاؤ سہنے ہی ہونگے چہ جائیکہ ان عناصر کو یہ موقع دیدیا جائے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہمارے سسر پر سوار ہو جائیں'' اس شرمناک مہم میں عدلیہ کی تذلیل کرنا' ججوں اور ان کے بچوں کو اغوا کرنا کوئی نئی بات نہیں۔
1985ء میں کولمبیا کے شہر بگوٹا میں ایک دہشت گرد تنظیم ایم 19 گوریلا گروپ نے سپریم کورٹ کے 25 ججوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اسی نوعیت کے ایک اور واقعے میں ایک خون آشام فوجی کارروائی میں 12 ججوں اور31 دیگر افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس عدالت میں کولمبیا کے منشیات کے سب سے بڑے اسمگلر پابلو ایس کوبر پر سنگین جرائم کا مقدمہ چل رہا تھا۔ بعدازاں ایس کوبر نے اعتراف کیا کہ اسے باغیوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں سے چند فائلوں کو چرانے کے لیے ایک ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی تھی تاکہ سپریم کورٹ کے جج ایس کوبر کو کولمبیا کی حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ صادر نہ کر دیں۔
30 نومبر1997ء کو وزیراعظم نواز شریف سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوئے جب کہ پارٹی کارکنوں کے علاوہ صوبائی وزرائے اعلیٰ' وفاقی اور صوبائی وزراء بھی طاقت کے مظاہرے کے لیے ان کے ہمراہ تھے۔ بعدازاں مسلم لیگ ن کے سیکڑوں کارکنوں نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ کی عدالت پر دھاوا بول دیا۔معروف وکیل ایس ایم ظفر وکیل صفائی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس سجاد علی شاہ دیگر جج حضرات کے ہمراہ کمرہ عدالت سے واپس چلے گئے۔ بعد ازاں بھی ہنگامے کی ایک جھلک نظر آئی ۔
جس میں پی ٹی وی کے اینکر طارق عزیز نے قائداعظم محمد علی جناح پورٹریٹ کو نقصان پہنچایا۔ ہمارے حکمرانوں کو اس تلخ حقیقت کی بھی آگاہی ہو گئی ہے کہ رشوت کے علاوہ بھی عدلیہ کو دھمکانے کے دیگر طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ دسمبر 1997ء میں چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو ہٹا دیا جانا اور 2007ء میں مشرف کی طرف سے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیا جانا اور اب چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کا اغوا یہ سب عدلیہ کو ڈرانے دھمکانے کی ذیل میں آتا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو سندھ ہائی کورٹ سے کسی انتہائی حساس مقدمے کا فیصلہ اپنے حق میں چاہتے ہیں۔
دہشت گرد کا مائنڈ سیٹ ایک ایسے قاتل کا ہوتا ہے جو انتہائی ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سنگدل بھی ہو۔ یہ تاثر عمومی اذہان میں راسخ ہو چکا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کو اپنی کارکردگی دکھانے کی اجازت ہی نہیں دی جا رہی۔ دنیا کے کسی ملک میں آدم خوری کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں کیونکہ یہ ایسا جرم ہے جس کے بارے میں شعوری طور پر سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قانون کتابوں میں موجود نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کہتے ہیں کہ ملک میں قوانین کی تو بہت بھرمار ہے مگر کمزور گورننس یا بری حکمرانی کے باعث قوانین کو موثر انداز سے نافذ العمل ہی نہیں کیا جا رہا۔
چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے حلف اٹھانے کے پہلے ہی دن خود احتسابی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے 30 ججوں کو او ایس ڈی بنا دیا۔ ہم تو یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس صاحب اصلاحی عمل میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عدالتوں سے بہت سارے دہشت گرد عدم ثبوت کی بنا پر رہا بھی ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت عدلیہ کے ججوں کی صحیح معنوں میں حفاظت کے لیے کوئی قابل اطمینان بندوبست نہیں کر سکی۔ جج حضرات کے ساتھ ساتھ پراسیکیوٹر اور گواہ کی حفاظت بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہے جتنی کہ جج کی۔
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ دہشت گردی کا منظم جرائم کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ جرائم پیشہ افراد کس طرح قانون کا تحفظ حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے قابل احترام جج حضرات کو امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس اولیور وینڈل ہولم کی تحریر کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے جس میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ پر سیاسی یا انتظامی مداخلت ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے حکمران اس طرف کب توجہ دیں گے۔
ان کو فنڈز فراہم کرنے والوں کے مکمل خاتمے میں ابھی کئی سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ سندھ رینجرز نے اگرچہ غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کراچی کے حالات بہتر بنانے کی کامیاب کوشش کی لیکن دو ہائی پروفائل واقعات نے جن میں -1چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ کے فرزند اویس شاہ ایڈووکیٹ کا اغوا، جس کا ہنوز سراغ بھی نہیں مل سکا اور دوسرا واقعہ ملک کے عالمی شہرت کے حامل فنکار امجد صابری کا شہر کی سڑک پر دن دہاڑے قتل جو کہ دہشت گردی کی واردات بھی کہی جا سکتی ہے جس کے پیچھے ملکی سیاست بھی کارفرما ہو سکتی ہے کیونکہ وہ لوگ روپ بدل بدل کر وارداتیں کرتے ہیں۔
یہاں میں اپنے کالمWhere have all the flowers gone? یعنی وہ سارے پھولوں جیسے بچے کہاں چلے گئے؟ میں دسمبر2014ء کو پشاور کے اے پی ایس کے سانحے کا تذکرہ تھا جس میں دہشت گردوں نے آبادی کی نفسیات میں ڈر' خوف اور دہشت کو بٹھانے کے لیے اسقدر ہولناک ظلم کا ارتکاب کیا۔ اوپر سے میڈیا نے اس ڈر اور خوف کو چہار سو پھیلانے میں اپنا منصبی کردار ادا کیا اور اس دہشت کو عوام الناس تک پھیلا دیا۔ بہرحال ہمیں اس قسم کے چھوٹے موٹے گھاؤ سہنے ہی ہونگے چہ جائیکہ ان عناصر کو یہ موقع دیدیا جائے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہمارے سسر پر سوار ہو جائیں'' اس شرمناک مہم میں عدلیہ کی تذلیل کرنا' ججوں اور ان کے بچوں کو اغوا کرنا کوئی نئی بات نہیں۔
1985ء میں کولمبیا کے شہر بگوٹا میں ایک دہشت گرد تنظیم ایم 19 گوریلا گروپ نے سپریم کورٹ کے 25 ججوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اسی نوعیت کے ایک اور واقعے میں ایک خون آشام فوجی کارروائی میں 12 ججوں اور31 دیگر افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس عدالت میں کولمبیا کے منشیات کے سب سے بڑے اسمگلر پابلو ایس کوبر پر سنگین جرائم کا مقدمہ چل رہا تھا۔ بعدازاں ایس کوبر نے اعتراف کیا کہ اسے باغیوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں سے چند فائلوں کو چرانے کے لیے ایک ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی تھی تاکہ سپریم کورٹ کے جج ایس کوبر کو کولمبیا کی حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ صادر نہ کر دیں۔
30 نومبر1997ء کو وزیراعظم نواز شریف سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوئے جب کہ پارٹی کارکنوں کے علاوہ صوبائی وزرائے اعلیٰ' وفاقی اور صوبائی وزراء بھی طاقت کے مظاہرے کے لیے ان کے ہمراہ تھے۔ بعدازاں مسلم لیگ ن کے سیکڑوں کارکنوں نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ کی عدالت پر دھاوا بول دیا۔معروف وکیل ایس ایم ظفر وکیل صفائی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس سجاد علی شاہ دیگر جج حضرات کے ہمراہ کمرہ عدالت سے واپس چلے گئے۔ بعد ازاں بھی ہنگامے کی ایک جھلک نظر آئی ۔
جس میں پی ٹی وی کے اینکر طارق عزیز نے قائداعظم محمد علی جناح پورٹریٹ کو نقصان پہنچایا۔ ہمارے حکمرانوں کو اس تلخ حقیقت کی بھی آگاہی ہو گئی ہے کہ رشوت کے علاوہ بھی عدلیہ کو دھمکانے کے دیگر طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ دسمبر 1997ء میں چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو ہٹا دیا جانا اور 2007ء میں مشرف کی طرف سے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیا جانا اور اب چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کا اغوا یہ سب عدلیہ کو ڈرانے دھمکانے کی ذیل میں آتا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو سندھ ہائی کورٹ سے کسی انتہائی حساس مقدمے کا فیصلہ اپنے حق میں چاہتے ہیں۔
دہشت گرد کا مائنڈ سیٹ ایک ایسے قاتل کا ہوتا ہے جو انتہائی ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سنگدل بھی ہو۔ یہ تاثر عمومی اذہان میں راسخ ہو چکا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کو اپنی کارکردگی دکھانے کی اجازت ہی نہیں دی جا رہی۔ دنیا کے کسی ملک میں آدم خوری کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں کیونکہ یہ ایسا جرم ہے جس کے بارے میں شعوری طور پر سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قانون کتابوں میں موجود نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کہتے ہیں کہ ملک میں قوانین کی تو بہت بھرمار ہے مگر کمزور گورننس یا بری حکمرانی کے باعث قوانین کو موثر انداز سے نافذ العمل ہی نہیں کیا جا رہا۔
چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے حلف اٹھانے کے پہلے ہی دن خود احتسابی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے 30 ججوں کو او ایس ڈی بنا دیا۔ ہم تو یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس صاحب اصلاحی عمل میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عدالتوں سے بہت سارے دہشت گرد عدم ثبوت کی بنا پر رہا بھی ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت عدلیہ کے ججوں کی صحیح معنوں میں حفاظت کے لیے کوئی قابل اطمینان بندوبست نہیں کر سکی۔ جج حضرات کے ساتھ ساتھ پراسیکیوٹر اور گواہ کی حفاظت بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہے جتنی کہ جج کی۔
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ دہشت گردی کا منظم جرائم کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ جرائم پیشہ افراد کس طرح قانون کا تحفظ حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے قابل احترام جج حضرات کو امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس اولیور وینڈل ہولم کی تحریر کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے جس میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ پر سیاسی یا انتظامی مداخلت ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے حکمران اس طرف کب توجہ دیں گے۔