دو وقت کی روٹی
جھٹ بیگ کھولا اور بسکٹ کا ایک چھوٹا پیکٹ نکالا، کھولا اور بچی کے ہاتھ میں پکڑا دیا
دو سالہ بچی رونے لگی تو ماں نے جھٹ اپنا بڑا سا بیگ کھولا اور اس میں سے ایک بنٹی کا پیکٹ نکالا اسے کھولا اور بچی کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ سامنے سے ٹوں ٹوں بجاتا آئس کریم والا گزر رہا تھا، سات سالہ بیٹے کو شدید طلب ہوئی ماں کا دوپٹہ کھینچنا شروع کردیا تو انھوں نے اپنی دس سالہ بیٹی کو آواز دے کر پکارا اور بیس روپے کا نوٹ بیگ سے نکال کر بچی کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ جاکر بیس روپے والی آئس کریم بھائی کے لیے خرید لائے۔
بچی نے بھی ضد کی تو ایک تھپڑ بچی کے رسید کیا تھوڑا بکی جھکی پھر دوبارہ بیگ کھولا بیس روپے کا نوٹ نکال کر اس کے حوالے کیا اتنے میں دو سالہ بچی جو میٹھی گولیاں کھا کر فارغ ہوچکی تھی دوبارہ ماں کے پاس آئی اور اوں اوں کرنے لگی ماں نے ذرا پیار سے چمکارا تو محسوس کیا کہ بچی اب مزید کچھ اور کھانا چاہتی ہے۔
جھٹ بیگ کھولا اور بسکٹ کا ایک چھوٹا پیکٹ نکالا، کھولا اور بچی کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ یہی کوئی بیس پندرہ منٹ بعد سات سالہ بچہ جو آئس کریم کھا کر فارغ ہوچکا تھا پھر ماں کے دوپٹے کو کھینچنے لگا ''اب کیا چاہیے؟'' ماں نے چڑکر پوچھا تو بچے نے واضح جواب نہ دیا بلکہ رونی صورت بناکر دوپٹہ کھینچتا رہا۔ ماں نے پھر بیگ کھولا اور اس میں سے میٹھی چھالیہ کی ایک تھیلی نکالی اس کے ہاتھ میں پکڑائی اور ساتھ میں ایک ہلکی سی چپت بھی بچے کے سر پر لگائی، جس کا اس پر مطلق کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنی چیز پاکر ایسا مسرور ہوا اور بڑے مزے سے اپنے چھوٹے چھوٹے دانتوں سے چھالیہ کا ریپر چھیلنے لگا اسے دیکھ کر دس سالہ بچی بھی نہ رہ سکی۔ امی...! اس نے ذرا ٹھنک کر بس اتنا ہی کہا کہ ماں نے پھر بیگ کھولا اور میٹھی چھالیہ اس کی جانب بڑھائی۔ ''پٹائی لگاؤں گی اب...!'' پتہ نہیں بچی نے سنا بھی تھا یا نہیں چھالیہ تھامی اور مسکراتی ہوئی اپنے بھائی کے ہمراہ ذرا آگے سرک گئی۔
پچھلے ایک گھنٹے سے ان خاتون کا عمل ایسا ہی تھایا تو اپنے عمرو عیار کی زنبیل جیسے بیگ سے کھانے پینے کی چیزیں بچوں کو پکڑاتی رہتی یا ہر دوسرے گزرنے والے پھیری والے سے چیزیں خرید خرید کر دیتی رہتی۔ یہ عمل ان خاتون کا نرالا نہ تھا کیونکہ آج کل اس قسم کی خواتین آپ کو اپنے اردگرد نظر آتی رہتی ہیں جو اس طرح اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا کرتی رہتی ہیں۔ اس قسم کے عمل سے بچوں میں کھانے پینے کی عادات میں نمایاں فرق دیکھنے کو آیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پچھلے چند برسوں میں معیار زندگی میں بتدریج ترقی آئی ہے۔ ایک اوسط درجے کے گھرانے سے لے کر نچلے درجے تک کے گھرانوں کے بچے بازاروں سے ایسی مہنگی چیزیں خرید کر کھاتے رہتے ہیں جن کا ہم اپنے بچپن میں حصول بڑی بات سمجھتے تھے۔ جیسے بچپن میں آئس کریم ہی بہت بڑا آئٹم ہوتی، لیکن آج کل مختلف فلیورز دستیاب ہیں جو بچے ہر دن جب دل چاہا پیسے والدین سے لیے اور کھالی۔ اس قسم کی طرز زندگی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے بے ترتیبی پیدا کر رہی ہے۔ جن میں اسٹریٹ کرائم سے لے کر بڑے بڑے جرائم تک شامل ہیں، خواہشات کا دائرہ اتنا وسیع ہوچکا ہے کہ یہی بچے ذرا بڑے ہوکر لوٹ مار اور ڈاکا زنی میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ ذرا غور سے اخبارات کا معائنہ کیجیے۔
بارہ سے لے کر بیس اکیس سال کے نوجوان اسٹریٹ کرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں اور یہ ضروریات اس قدر شدید ہوجاتی ہیں جو قتل و غارت گری سے بھی پرہیز نہیں کرتی، اس کے برخلاف جس تیزی سے نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں۔ لندن کے ایک غذائی ماہر کے مطابق بچے جس قدر تیزی سے موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں اس سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مرض اکیسویں صدی میں وبائی شکل اختیار کرلے گا۔ جب کہ پاکستان میں عام طور پر مائیں اپنے بچوں کی جانب سے پریشان ہی رہتی ہیں کہ ان کا بچہ کھانا نہیں کھاتا ان سے مزید معلومات حاصل کریں تو پتا چلتا ہے کہ بچے باہر سے تمام اشیا خرید کر بڑے شوق سے کھاتے ہیں جن میں کھٹی میٹھی ٹافیوں سے لے کر مہنگے داموں ملنے والی آئس کریم تک شامل ہوتی ہیں۔ ذرا خود سوچیے جب بچوں کو مختلف مزے کے کھٹے اور اتنی میٹھی چیزیں کھانے کو ملیں گی تو وہ گھر کا پکا ہوا دال، چاول، لوکی کی بھجیا، ٹینڈا، آلوپالک اور شوربہ کھانے میں کیوں دلچسپی لیں گے۔
ایک جاننے والی خاتون کو اس وقت اپنے بچے کی صحت کے بارے میں شدید تشویش ہوگئی تھی جب ڈاکٹر نے ان کے بچے کو شوگر ٹیسٹ لکھ کر دیا تھا، خاتون کا خیال تھا کہ بچہ کھانا کم کھاتا ہے لیکن پھر بھی موٹا ہو رہا ہے جب کہ بچے کے مطابق اسے آئس کریم بہت پسند ہے، یاد رہے کہ شکرکی زیادتی نہ صرف ذیابیطس کے مرض میں مبتلا کردیتی ہے بلکہ یہ کینسر جیسے موذی مرض کو بھی جنم دیتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ اوٹووار برگ ایم ڈی پی ایچ ڈی نے 1931 میں اس پر ریسرچ کرکے ثابت کیا تھا کہ خون میں شکرکی زیادہ مقدار سے لبلبے اور جگر کا سرطان ہوجاتا ہے جب کہ نئی ریسرچ کے مطابق شوگر کو خواتین میں سینے کے کینسر کا اہم سبب قرار دیا ہے۔ آپ نے اپنے بڑے بوڑھوں سے سنا ہوگا کہ ان کے زمانے میں اتنی بیماریاں عام نہ تھیں جتنی کہ آج کل کے زمانے میں سنی جاتی ہیں اور اس کی اہم وجہ ہمارا وہ معیار زندگی ہوگیا ہے جس نے ہمیں صحت اور معاشی طور پر تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔
کھانے پینے کے مطابق اسلام کیا کہتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کا تصور ایک زبردست ڈائٹ پلان ہے جس پر عمل کرکے ہم موٹاپے اور مختلف قسم کی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ ایک مقامی ہومیوپیتھک کالج میں پڑھانے والے ایک سینئر استاد جو ساٹھ برس میں بھی اس وقت اپنے آپ کو جوان لڑکوں کی طرح محسوس کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ وہ دوپہر کے کھانے پر یقین نہیں رکھتے صبح وہ ڈٹ کر ناشتہ کرتے ہیں اور شام کو یعنی مغرب کی نماز کے بعد وہ فوراً کھانا کھا لیتے ہیں اس دوران کام کے باعث اور عادتاً بھی انھیں کھانے کی زیادہ طلب نہیں ہوتی پھر بھی اگر دل چاہے تو چند بسکٹ سے بھی گزارا ہوسکتا ہے لیکن عموماً وہ ایسا نہیں کرتے، دو وقت کی روٹی کے تصور کو ہم رمضان کے مہینے میں باقاعدہ پریکٹس کے طور پر اختیار کرتے ہیں اور فلاح کے ساتھ صحت بھی پاتے ہیں۔
بچوں کی تربیت کے مراحل میں ان کے کھانے پینے، کھیل کود اور دیگر مشاغل پر توجہ والدین کی ذمے داری ہے، محض اپنی جان چھڑانے کی خاطر ان کا منہ بازار میں فروخت الا بلا سے بھرنے کی بجائے ان کی عادات کو اس طرح پختہ بنائیں کہ ان میں اپنی خواہشات کو لگام ڈال کر کنٹرول کرنے کی عادت بن جائے جس کا فائدہ نہ صرف اس کی ذات کو بلکہ پورے معاشرے کو ہوگا۔ (انشا اللہ)
بچی نے بھی ضد کی تو ایک تھپڑ بچی کے رسید کیا تھوڑا بکی جھکی پھر دوبارہ بیگ کھولا بیس روپے کا نوٹ نکال کر اس کے حوالے کیا اتنے میں دو سالہ بچی جو میٹھی گولیاں کھا کر فارغ ہوچکی تھی دوبارہ ماں کے پاس آئی اور اوں اوں کرنے لگی ماں نے ذرا پیار سے چمکارا تو محسوس کیا کہ بچی اب مزید کچھ اور کھانا چاہتی ہے۔
جھٹ بیگ کھولا اور بسکٹ کا ایک چھوٹا پیکٹ نکالا، کھولا اور بچی کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ یہی کوئی بیس پندرہ منٹ بعد سات سالہ بچہ جو آئس کریم کھا کر فارغ ہوچکا تھا پھر ماں کے دوپٹے کو کھینچنے لگا ''اب کیا چاہیے؟'' ماں نے چڑکر پوچھا تو بچے نے واضح جواب نہ دیا بلکہ رونی صورت بناکر دوپٹہ کھینچتا رہا۔ ماں نے پھر بیگ کھولا اور اس میں سے میٹھی چھالیہ کی ایک تھیلی نکالی اس کے ہاتھ میں پکڑائی اور ساتھ میں ایک ہلکی سی چپت بھی بچے کے سر پر لگائی، جس کا اس پر مطلق کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنی چیز پاکر ایسا مسرور ہوا اور بڑے مزے سے اپنے چھوٹے چھوٹے دانتوں سے چھالیہ کا ریپر چھیلنے لگا اسے دیکھ کر دس سالہ بچی بھی نہ رہ سکی۔ امی...! اس نے ذرا ٹھنک کر بس اتنا ہی کہا کہ ماں نے پھر بیگ کھولا اور میٹھی چھالیہ اس کی جانب بڑھائی۔ ''پٹائی لگاؤں گی اب...!'' پتہ نہیں بچی نے سنا بھی تھا یا نہیں چھالیہ تھامی اور مسکراتی ہوئی اپنے بھائی کے ہمراہ ذرا آگے سرک گئی۔
پچھلے ایک گھنٹے سے ان خاتون کا عمل ایسا ہی تھایا تو اپنے عمرو عیار کی زنبیل جیسے بیگ سے کھانے پینے کی چیزیں بچوں کو پکڑاتی رہتی یا ہر دوسرے گزرنے والے پھیری والے سے چیزیں خرید خرید کر دیتی رہتی۔ یہ عمل ان خاتون کا نرالا نہ تھا کیونکہ آج کل اس قسم کی خواتین آپ کو اپنے اردگرد نظر آتی رہتی ہیں جو اس طرح اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا کرتی رہتی ہیں۔ اس قسم کے عمل سے بچوں میں کھانے پینے کی عادات میں نمایاں فرق دیکھنے کو آیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پچھلے چند برسوں میں معیار زندگی میں بتدریج ترقی آئی ہے۔ ایک اوسط درجے کے گھرانے سے لے کر نچلے درجے تک کے گھرانوں کے بچے بازاروں سے ایسی مہنگی چیزیں خرید کر کھاتے رہتے ہیں جن کا ہم اپنے بچپن میں حصول بڑی بات سمجھتے تھے۔ جیسے بچپن میں آئس کریم ہی بہت بڑا آئٹم ہوتی، لیکن آج کل مختلف فلیورز دستیاب ہیں جو بچے ہر دن جب دل چاہا پیسے والدین سے لیے اور کھالی۔ اس قسم کی طرز زندگی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے بے ترتیبی پیدا کر رہی ہے۔ جن میں اسٹریٹ کرائم سے لے کر بڑے بڑے جرائم تک شامل ہیں، خواہشات کا دائرہ اتنا وسیع ہوچکا ہے کہ یہی بچے ذرا بڑے ہوکر لوٹ مار اور ڈاکا زنی میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ ذرا غور سے اخبارات کا معائنہ کیجیے۔
بارہ سے لے کر بیس اکیس سال کے نوجوان اسٹریٹ کرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں اور یہ ضروریات اس قدر شدید ہوجاتی ہیں جو قتل و غارت گری سے بھی پرہیز نہیں کرتی، اس کے برخلاف جس تیزی سے نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں۔ لندن کے ایک غذائی ماہر کے مطابق بچے جس قدر تیزی سے موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں اس سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مرض اکیسویں صدی میں وبائی شکل اختیار کرلے گا۔ جب کہ پاکستان میں عام طور پر مائیں اپنے بچوں کی جانب سے پریشان ہی رہتی ہیں کہ ان کا بچہ کھانا نہیں کھاتا ان سے مزید معلومات حاصل کریں تو پتا چلتا ہے کہ بچے باہر سے تمام اشیا خرید کر بڑے شوق سے کھاتے ہیں جن میں کھٹی میٹھی ٹافیوں سے لے کر مہنگے داموں ملنے والی آئس کریم تک شامل ہوتی ہیں۔ ذرا خود سوچیے جب بچوں کو مختلف مزے کے کھٹے اور اتنی میٹھی چیزیں کھانے کو ملیں گی تو وہ گھر کا پکا ہوا دال، چاول، لوکی کی بھجیا، ٹینڈا، آلوپالک اور شوربہ کھانے میں کیوں دلچسپی لیں گے۔
ایک جاننے والی خاتون کو اس وقت اپنے بچے کی صحت کے بارے میں شدید تشویش ہوگئی تھی جب ڈاکٹر نے ان کے بچے کو شوگر ٹیسٹ لکھ کر دیا تھا، خاتون کا خیال تھا کہ بچہ کھانا کم کھاتا ہے لیکن پھر بھی موٹا ہو رہا ہے جب کہ بچے کے مطابق اسے آئس کریم بہت پسند ہے، یاد رہے کہ شکرکی زیادتی نہ صرف ذیابیطس کے مرض میں مبتلا کردیتی ہے بلکہ یہ کینسر جیسے موذی مرض کو بھی جنم دیتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ اوٹووار برگ ایم ڈی پی ایچ ڈی نے 1931 میں اس پر ریسرچ کرکے ثابت کیا تھا کہ خون میں شکرکی زیادہ مقدار سے لبلبے اور جگر کا سرطان ہوجاتا ہے جب کہ نئی ریسرچ کے مطابق شوگر کو خواتین میں سینے کے کینسر کا اہم سبب قرار دیا ہے۔ آپ نے اپنے بڑے بوڑھوں سے سنا ہوگا کہ ان کے زمانے میں اتنی بیماریاں عام نہ تھیں جتنی کہ آج کل کے زمانے میں سنی جاتی ہیں اور اس کی اہم وجہ ہمارا وہ معیار زندگی ہوگیا ہے جس نے ہمیں صحت اور معاشی طور پر تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔
کھانے پینے کے مطابق اسلام کیا کہتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کا تصور ایک زبردست ڈائٹ پلان ہے جس پر عمل کرکے ہم موٹاپے اور مختلف قسم کی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ ایک مقامی ہومیوپیتھک کالج میں پڑھانے والے ایک سینئر استاد جو ساٹھ برس میں بھی اس وقت اپنے آپ کو جوان لڑکوں کی طرح محسوس کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ وہ دوپہر کے کھانے پر یقین نہیں رکھتے صبح وہ ڈٹ کر ناشتہ کرتے ہیں اور شام کو یعنی مغرب کی نماز کے بعد وہ فوراً کھانا کھا لیتے ہیں اس دوران کام کے باعث اور عادتاً بھی انھیں کھانے کی زیادہ طلب نہیں ہوتی پھر بھی اگر دل چاہے تو چند بسکٹ سے بھی گزارا ہوسکتا ہے لیکن عموماً وہ ایسا نہیں کرتے، دو وقت کی روٹی کے تصور کو ہم رمضان کے مہینے میں باقاعدہ پریکٹس کے طور پر اختیار کرتے ہیں اور فلاح کے ساتھ صحت بھی پاتے ہیں۔
بچوں کی تربیت کے مراحل میں ان کے کھانے پینے، کھیل کود اور دیگر مشاغل پر توجہ والدین کی ذمے داری ہے، محض اپنی جان چھڑانے کی خاطر ان کا منہ بازار میں فروخت الا بلا سے بھرنے کی بجائے ان کی عادات کو اس طرح پختہ بنائیں کہ ان میں اپنی خواہشات کو لگام ڈال کر کنٹرول کرنے کی عادت بن جائے جس کا فائدہ نہ صرف اس کی ذات کو بلکہ پورے معاشرے کو ہوگا۔ (انشا اللہ)