کم ٹرن آؤٹ والا بلدیاتی الیکشن ہنوز نامکمل
بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ تسلی بخش تو نہیں لیکن خوش آئند ہے کہ عوام کی شمولیت برقرار ہے
الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات 2015 پر اپنی رپورٹ جاری کردی ہے، جس کے مطابق عام انتخابات کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم رہا۔ الیکشن ٹریبونل 120 دن میں 4053 عذر داریوں میں سے صرف 984 نمٹا سکا۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس ایسے اختیارات نہیں کہ اپنی ذمے داریاں پوری نہ کرنے والے ٹریبونلز کے خلاف کارروائی کرے۔ مذکورہ بلدیاتی انتخابات کے لیے 23 کروڑ 43 لاکھ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے تھے۔ ان انتخابات پر 6 ارب 25 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے ڈیڑھ ارب روپے کمائے جو صوبوں کے خزانے میں چلے گئے۔ ایک کثیر رقم خرچ کرکے ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 236 رجسٹرڈ جماعتوں میں سے 91 نے الیکشن میں حصہ لیا۔ پنجاب میں 61.1 فیصد ٹرن آؤٹ رہا، سندھ 46.2 فیصد، خیبرپختونخوا 43.5 فیصد، بلوچستان 26.8 فیصد، اسلام آباد 54.8 فیصد رہا۔
پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں ٹرن آؤٹ کم رہا۔ بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ تسلی بخش تو نہیں لیکن خوش آئند ہے کہ عوام کی شمولیت برقرار ہے، مگر خدشہ ہے کہ جس طرح آخری مرحلے میں میئر و چیئرمینوں کے انتخاب میں تاخیری حربے استعمال کر کے بلدیاتی نظام کے مکمل نفاذ کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہیں عوام مایوسی کا شکار ہوکر اگلے انتخابات میں مزید کم ٹرن آؤٹ نہ دیں۔
صوبائی حکومتوں کو آخری مرحلے میں میئر، ڈپٹی میئر و چیئرمین کے انتخابات میں مزید تاخیر نہیں برتنی چاہیے۔ مذکورہ عمل نہ صرف بلدیاتی انتخابات میں کامیابی میں رکاوٹ بلکہ عوام میں بے چینی و اضطراب کا باعث بھی بن رہا ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ بھی جلد از جلد آخری مرحلہ نمٹانے کے لیے آبزرویشن دے چکی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے میئر، ڈپٹی میئر و چیئرمین کے انتخاب کو جلد از جلد مکمل کرلینا چاہیے۔
الیکشن کمیشن نے ڈیڑھ ارب روپے کمائے جو صوبوں کے خزانے میں چلے گئے۔ ایک کثیر رقم خرچ کرکے ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 236 رجسٹرڈ جماعتوں میں سے 91 نے الیکشن میں حصہ لیا۔ پنجاب میں 61.1 فیصد ٹرن آؤٹ رہا، سندھ 46.2 فیصد، خیبرپختونخوا 43.5 فیصد، بلوچستان 26.8 فیصد، اسلام آباد 54.8 فیصد رہا۔
پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں ٹرن آؤٹ کم رہا۔ بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ تسلی بخش تو نہیں لیکن خوش آئند ہے کہ عوام کی شمولیت برقرار ہے، مگر خدشہ ہے کہ جس طرح آخری مرحلے میں میئر و چیئرمینوں کے انتخاب میں تاخیری حربے استعمال کر کے بلدیاتی نظام کے مکمل نفاذ کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہیں عوام مایوسی کا شکار ہوکر اگلے انتخابات میں مزید کم ٹرن آؤٹ نہ دیں۔
صوبائی حکومتوں کو آخری مرحلے میں میئر، ڈپٹی میئر و چیئرمین کے انتخابات میں مزید تاخیر نہیں برتنی چاہیے۔ مذکورہ عمل نہ صرف بلدیاتی انتخابات میں کامیابی میں رکاوٹ بلکہ عوام میں بے چینی و اضطراب کا باعث بھی بن رہا ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ بھی جلد از جلد آخری مرحلہ نمٹانے کے لیے آبزرویشن دے چکی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے میئر، ڈپٹی میئر و چیئرمین کے انتخاب کو جلد از جلد مکمل کرلینا چاہیے۔