ہم اور ہمارا بھارت

عید یا یوں کہیں کہ میری حد تک عیدی میں زیادہ دن باقی نہیں ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

عید یا یوں کہیں کہ میری حد تک عیدی میں زیادہ دن باقی نہیں ہیں۔ میں اب عیدی لینے کے زمانے پر مدتیں ہوئیں گزر چکا ہوں اور اب عید بقر عید کے موقع پر جیسے لاتعداد بچوں اور بعض بزرگوں کا مقروض ہو گیا ہوں اور سب مجھ پر حملہ آور ہیں اور یہ شاید میری زندگی کا پہلا حملہ ہے جو مجھے بہت پیارا لگ رہا ہے کیونکہ اس کی سپاہ میرے لیے پیاری ہے جو زیادہ سے زیادہ عیدی کے لیے ضد کر رہی ہے اور عیدی کے طلبگار نے اپنی کسی پسند کی چیز کی قیمت زمین میں رکھ کر عید طلب کی ہے۔

کہاں ہمارا عیدی کا زمانہ کہ کھانے کی چند اشیاء یا ایک آدھ کھلونا ہماری عید کی خوشی تھی۔گاؤں کے تمام دکاندار ہندو تھے اور وہ عید سے پہلے مسلمانوں اور ان کے بچوں سے پوچھ کر عید کی چیزیں لے کر آتے تھے اور ہم کچھ اپنی عیدی اور کچھ کسی کپڑے میں رکھے ہوئے گندم کے دانے دکاندار کے پاس لے جاتے تھے اور اس طرح جتنی رقم جمع ہو جاتی اس کی عیدیاں یعنی کھلونے اور شیرینی خرید لیتے جو زیادہ سے زیادہ شام تک ختم ہو جاتیں اور اس طرح گویا عید بھی ختم ہو جاتی۔

عید کا دوسرا دن بڑا اداس دن ہوا کرتا تھا۔ تکیے کے نیچے کچھ بچا کھچا عید کا سامان صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی باہر نکال لیتے، یہ کھلونے زیادہ تر ٹوٹ پھوٹ چکے ہوتے تھے لیکن ان کے ساتھ عید کی یادیں وابستہ ہوتیں اور یہ یادیں کچھ وقت تک زندہ اور تازہ رہتیں اور یوں خوشی یعنی عید کا یہ دن رفتہ رفتہ اداسی میں ڈھل جاتا، نئے سال کی عید کے انتظار میں بچوں بڑوں کو اداس چھوڑ جاتا جو اپنی اس اداسی کو سال بھر انتظار کے لیے اپنی یادوں میں محفوظ کر لیتے۔

میں پہلے بھی کبھی لکھ چکا ہوں اور اب پھر اسے زندہ کرتا ہوں کہ ایک بار بھارت کے دورے سے پہلے ایک کالم لکھا جس میں لکھ دیا کہ میں بھارت میں شاپنگ کرنے نہیں آیا ہوں کیونکہ میں نے زندگی کی شاپنگ اپنے بچپن میں گانوں کے ہندو دکاندار سے کر لی تھی۔ یہ کالم کیا چھپا ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ صدر ضیاء الحق جن کے ہمراہ میں بھارت کے سفر پر تھا انھوں نے مجھے بلا کر پوچھا کہ میں کیا لکھ رہا ہوں کہ پورے بھارت میں غلغلہ برپا ہے۔ وہ اس پر بہت خوش تھے لیکن سچ بات ہے اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ میں نے کیا لکھ دیا ہے۔


اس وقت اتفاق سے ہم سب کے دوست راجندر سیرین بھی آ گئے، صدر صاحب نے ان سے پوچھا کہ بھئی کیا غلطی ہو گئی کہ آپ کے ملک میں ایک کالم پر ہنگامہ برپا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ قادر صاحب نے اپنے بچپن میں ہندو دکانداروں سے جو شاپنگ کی تھی اس کے تذکرے پر ناراضی ہے۔ صدر ضیا نے تعجب اور حیرت سے ہنس کر کہا کہ یہ شاپنگ تو میں نے بھی کی ہے لیکن ایک صحافی کے کالم پر بھارت کا پریس بلبلا اٹھا، ظاہر ہے کہ حکومت ہندوستان کے اشارے پر ملک بھر کے اخباروں نے اس کالم کی مذمت میں بہت کچھ چھاپا۔ جس نے بھی پڑھا اسے تعجب ہوا اور جنرل مجیب جو اس وقت ہمارے سیکریٹری اطلاعات تھے اس پر بہت خوش تھے۔

اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہندو پڑوسی کس حد تک تنگ دل واقع ہوئے ہیں اور حکومتی سطح پر بھی وہ اپنی تنگ دلی سے باز نہیں آتے۔ اب تو بھارت کے ساتھ ہمارا صحافتی رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر کچھ ہے بھی تو وہ لکھنے والوں کے ذاتی مقاصد کے تحت ہے اور اس لیے اس کا کچھ زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ جب ہماری تحریروں میں قومی مقاصد اجاگر ہوں گے تو ہمارے دشمنوں کو بھی یہ تحریریں محسوس ہوں گی اور اس طرح دونوں ملکوں کے پریس رجحانات سامنے آئیں گے اور آتے رہیں گے کیونکہ ایک بات قدرے تعجب کی ہے کہ بھارت پاکستان کے مقابلے میں بڑا ہونے کا دعوے دار ہے، ہمیں بھی اس سے انکار نہیں ہے لیکن بھارتیوں کے سینوں میں جو دل ہے افسوس کہ وہ بڑا نہیں ہے۔

اس میں برداشت نہ ہونے کے برابر ہے مثلاً یہی بات کہ کسی مسلمان نے بچپن میں گاؤں کے ہندوؤں سے کچھ خرید لیا تو اس میں آخر کون سی قومی عزت و بے عزتی ہے۔ ایک بات میں بتانی بھول گیا کہ بھارت میں مجھے وہاں کے اطلاعات کے خارجہ مرکز نے دعوت دی اور اس کے سربراہ نے جن کا نام بھی بھول رہا ہوں تفصیل سے گفتگو کی اور پھر مجھے بھارت کے ہر شہر اور مقام کے دورے کی دعوت دی، نام یاد آیا مانی شنکر آئر جو بعد میں وزیر بھی بن گئے تھے اور پاکستان میں بھی ایک عرصہ تک متعین رہے۔ بھارت کے قومی تاثر کے اظہار میں یہ سب سے آگے رہے اور میری خوب خاطر تواضع کی۔ وہ میاں خورشید محمود قصوری کے آکسفورڈ میں ہم جماعت رہے مگر ان کی جو ہندوانہ ذہنیت تھی اس پر وہ کبھی قابو نہ پا سکے۔

یونہی بھارت کی ذہنیت کا ذکر آ گیا تو پاکستانی خبردار رہیں کہ بھارت کا ہندو ان کو محکوم رکھنے کی شدید خواہش میں مبتلا ہے اور ہر قدم پر پاکستان کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہتا ہے خواہ وہ میرے جیسے ایک عام اخبار نویس کی تحریر بھی کیوں نہ ہو جس میں اسے بھارت پر پاکستان کی برتری دکھائی دے۔ وہ اسے برداشت نہیں کرے گا، ہمارے ہاں کی تاریخ میں مسلمانوں کی برتری بھارتیوں کو فراموش نہیں۔ یہ وہی برتری ہے جسے مادام اندرا گاندھی مسلمانوں کی ہزار سالہ غلامی قرار دیتی رہی ہیں۔
Load Next Story