استنبول میں تیسرا دن
سمندر پر باسفورس پل جو استنبول کے ایشیائی اور یورپی حصوں کو ملاتا یا جدا کرتا ہے
سمندر پر باسفورس پل جو استنبول کے ایشیائی اور یورپی حصوں کو ملاتا یا جدا کرتا ہے ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا تھا، دراصل اس پر بے تحاشہ ٹریفک کی وجہ سے گاڑیوں کی رفتار بے حد سست تھی اور ہم بھی اس میں پھنسے ہوئے تھے۔ ہماری منزل حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار تھا جو ابھی کافی فاصلے پر تھا۔ ؎
جتنی گاڑیاں سامنے سے یعنی Ayup Sulttan Distyct کی طرف سے آ رہی تھیں، اتنی ہی ہمارے سمیت مزار کی سمت جا رہی تھیں شاید اسی ٹریفک کے پیش نظر ہمیں مشورہ دیا گیا تھا کہ اپنی کار سے جانے کی بجائے بس کے ذریعے سفر آسانی اور تیز رفتاری سے کٹے گا۔ بہر حال ہمارا مزار حضرت انصاری کی طرف سفر افطار سے آدھا گھنٹہ قبل مکمل ہو گیا۔ مزار اور مسجد ایوب انصاری کے چاروں طرف زائرین کا ہجوم ہمارے لیے انوکھا تجربہ تھا، ہم نے اس سے قبل اتنی زیادہ تعداد میں زائرین کبھی نہیں دیکھے تھے۔
پہلی مشکل کار کو کسی جگہ پارک کرنے کی تھی، تمام کار پارک پیک تھے۔ کافی فاصلے پر موجود خالی پلاٹوں کو ان کے مالکان نے پارکنگ کے لیے مخصوص کر کے ان پر بورڈ لگا کر OTO PARKING کا نام دے رکھا تھا جسے ہم VALLETS PARKING کہہ سکتے ہیں۔ پہلا مرحلہ توقع سے زیادہ بہتر طریقے سے سر ہو گیا بلکہ OTO PARKING زیادہ محفوظ ثابت ہوئی۔ اتنے ہجوم کے باوجود ہر طرف انتہا کا SELF DISCIPLINE تھا۔
ماسوائے رستوں اور عمارات کے اکثر زائرین فیملیز چادریں بچھائے ان پر گھر سے لایا افطاری کا سامان رکھے، افطار ٹائم یعنی اذان مغرب کا انتظار کر رہی تھیں۔کئی جگہ ہم نے ایسے گروپ چادریں بچھائے اور اپنے سامنے کھانے اور برتن و دیگر سامان سجائے ہوئے افطار وقت کا انتظار کرتے ہوئے جن کے ٹرے چھوٹے چھوٹے لیکن بالکل ایک جیسے تھے اتنی بڑی تعداد میں ہم شکل کھانے کے ٹرے پڑے دیکھے تو حیرت ہوئی لیکن تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بہت سے ریستورانوں نے افطار MENUE کے نام سے گاہکوں کے لیے TAKE AWAY ٹرے بنا کر رکھے ہیں جو روزہ داروں کو ٹرے سمیت کھانا پکڑا کر فارغ کر دیتے ہیں، ایسا بندوبست ہمارے لیے انوکھا مشاہدہ تھا۔
ریستورانوں کے اندر اور باہر لگی ٹیبلیں مہمان زائرین سے بھری تھیں، شاید اسی لیے ریستوران والوں کو رمضان ٹرے کا Package متعارف کرانے کا آئیڈیا آیا ہو گا۔ کولڈ ڈرنکس میں ان کا لسی شامل کرنا بھی اچھا لگا۔ایوب سلطان مسجد اور اس کا صحن بھی افطار کے منتظر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا، اکثر کے سامنے افطار پیکیج ٹرے موجود تھا۔ اذان کی آواز کے ساتھ ہی افطار شروع ہو گئی لیکن قابل تعریف مناظر یہ تھے کہ کھانا بڑی خاموشی اور سکون کے ساتھ کھایا جا رہا تھا نہ کوئی افراتفری نہ کھینچاتانی۔
مجھے اپنے یہاں کے عوامی کھانوں اور ولیموں کے مناظر یاد آ گئے جہاں لوگ ایک دوسرے سے کھانا چھین کر یا پراتوں میں سے ڈائریکٹ ہاتھوں سے نکال کر کھا رہے ہوتے ہیں۔ پھر مجھے اپنی خوش حال اشرافیہ یاد آئی جس کے کانوں میں کسی تقریب میں میزبان کی آواز پڑتی ہے کہ ''حضرات کھانا کھل گیا ہے'' تو اس پر شرفا کی طرف سے کیسی حالت جنگ کا ردعمل دیکھنے میں آتا ہے۔افطاری اور پھر نماز مغرب ہو چکی تو زائرین حضرت ابو ایوب انصاری کے مرقد پر فاتحہ خوانی کے لیے قطار اندر قطار جانے لگے۔ ہماری باری بھی آ گئی۔
انصاری صاحب کے بارے میں ہر کسی کو معلوم ہے کہ وہ اللہ کے نبی آخر الزماں کے قریبی صحابی اور ساتھی رہے تھے، یہ وہ شخصیت تھے کہ جب حضورؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت ہوئی تو ہر انصار کی خواہش تھی کہ حضورؐ اس کے ہاں قیام کریں جس پر حضور نے فیصلہ فرمایا کہ ان کی اوٹنی جس کے مکان کے سامنے رک جائے گی وہ اس کے مہمان ہوں گے۔ اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری کے مکان کے سامنے رک گئی جس پر انھوں نے ان کے مکان پر قیام کیا۔
یہ قیام کئی ماہ تک رہا یعنی یہ وہ شخصیت تھے جنھیں طویل عرصہ تک حضورؐ کی میزبانی کا شرف حاصل رہا، انھوں نے کفار کے خلاف حضور کی ہمراہی میں قریباً ہر جنگ میں حصہ لیا ، بنی نجار قبیلہ کے خالد بن زیاد پیدا ہونے والے صحابی بعد میں بیٹے کی نسبت سے ابوایوب کہلائے۔ ان کی جنگی خدمات کے علاوہ دینی خدمات کا بھی شمار نہیں۔ وہ محدث تھے' فقیہہ تھے' امام تھے' حافظ قرآن تھے اور حضورؐ کے قریبی ساتھی تھے۔
مسلمانوں کا لشکر جنگ کے لیے موجودہ ترکی کی طرف روانہ ہوا تو حضرت ایوب کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی لیکن وہ عالم دین ہی نہیں بہادر جنگ جو بھی تھے، مسلمانوں کے لیے دشمنوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینا فرض سمجھتے تھے۔ وہ محاذ جنگ پر پہنچ گئے، انھیں بڑھاپے کے پیش نظر جنگ میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن انھوں نے اپنی تلوار لہرا کر انکار کر دیا۔ اسی دوران وہ بیمار ہو کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جب عثمانی ترکوں نے بالآخر قسطنطنیہ فتح کر لیا تو حضرت انصاری اور دیگر صحابہ کی قبریں تلاش کر کے یادگاریں تعمیر کی گئیں۔
ایوب سلطان مسجد کی تعمیر بھی عرصہ بعد 1458 عیسویں میں ہوئی۔ جس روز ہم نے حضرت ابو ایوب انصاری صحابی کے مزار پر حاضری دی ،کم و بیش پندرہ بیس ہزار زائرین مزار و مسجد کے گرد و نواح موجود ہوں گے، وہاں فاتح خوانی نماز افطار یا صرف حاضری و سیاحت کے لیے موجود لوگوں کا جذبہ اور اظہار عقیدت روح پرور منظر پیش کرتا تھا۔ رات گیارہ بجے ہماری واپسی کے وقت تک مسجد و مزار کا علاقہ جگمگا رہا تھا اور ایک میلے کا سماں پیش کر رہا تھا۔
جتنی گاڑیاں سامنے سے یعنی Ayup Sulttan Distyct کی طرف سے آ رہی تھیں، اتنی ہی ہمارے سمیت مزار کی سمت جا رہی تھیں شاید اسی ٹریفک کے پیش نظر ہمیں مشورہ دیا گیا تھا کہ اپنی کار سے جانے کی بجائے بس کے ذریعے سفر آسانی اور تیز رفتاری سے کٹے گا۔ بہر حال ہمارا مزار حضرت انصاری کی طرف سفر افطار سے آدھا گھنٹہ قبل مکمل ہو گیا۔ مزار اور مسجد ایوب انصاری کے چاروں طرف زائرین کا ہجوم ہمارے لیے انوکھا تجربہ تھا، ہم نے اس سے قبل اتنی زیادہ تعداد میں زائرین کبھی نہیں دیکھے تھے۔
پہلی مشکل کار کو کسی جگہ پارک کرنے کی تھی، تمام کار پارک پیک تھے۔ کافی فاصلے پر موجود خالی پلاٹوں کو ان کے مالکان نے پارکنگ کے لیے مخصوص کر کے ان پر بورڈ لگا کر OTO PARKING کا نام دے رکھا تھا جسے ہم VALLETS PARKING کہہ سکتے ہیں۔ پہلا مرحلہ توقع سے زیادہ بہتر طریقے سے سر ہو گیا بلکہ OTO PARKING زیادہ محفوظ ثابت ہوئی۔ اتنے ہجوم کے باوجود ہر طرف انتہا کا SELF DISCIPLINE تھا۔
ماسوائے رستوں اور عمارات کے اکثر زائرین فیملیز چادریں بچھائے ان پر گھر سے لایا افطاری کا سامان رکھے، افطار ٹائم یعنی اذان مغرب کا انتظار کر رہی تھیں۔کئی جگہ ہم نے ایسے گروپ چادریں بچھائے اور اپنے سامنے کھانے اور برتن و دیگر سامان سجائے ہوئے افطار وقت کا انتظار کرتے ہوئے جن کے ٹرے چھوٹے چھوٹے لیکن بالکل ایک جیسے تھے اتنی بڑی تعداد میں ہم شکل کھانے کے ٹرے پڑے دیکھے تو حیرت ہوئی لیکن تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بہت سے ریستورانوں نے افطار MENUE کے نام سے گاہکوں کے لیے TAKE AWAY ٹرے بنا کر رکھے ہیں جو روزہ داروں کو ٹرے سمیت کھانا پکڑا کر فارغ کر دیتے ہیں، ایسا بندوبست ہمارے لیے انوکھا مشاہدہ تھا۔
ریستورانوں کے اندر اور باہر لگی ٹیبلیں مہمان زائرین سے بھری تھیں، شاید اسی لیے ریستوران والوں کو رمضان ٹرے کا Package متعارف کرانے کا آئیڈیا آیا ہو گا۔ کولڈ ڈرنکس میں ان کا لسی شامل کرنا بھی اچھا لگا۔ایوب سلطان مسجد اور اس کا صحن بھی افطار کے منتظر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا، اکثر کے سامنے افطار پیکیج ٹرے موجود تھا۔ اذان کی آواز کے ساتھ ہی افطار شروع ہو گئی لیکن قابل تعریف مناظر یہ تھے کہ کھانا بڑی خاموشی اور سکون کے ساتھ کھایا جا رہا تھا نہ کوئی افراتفری نہ کھینچاتانی۔
مجھے اپنے یہاں کے عوامی کھانوں اور ولیموں کے مناظر یاد آ گئے جہاں لوگ ایک دوسرے سے کھانا چھین کر یا پراتوں میں سے ڈائریکٹ ہاتھوں سے نکال کر کھا رہے ہوتے ہیں۔ پھر مجھے اپنی خوش حال اشرافیہ یاد آئی جس کے کانوں میں کسی تقریب میں میزبان کی آواز پڑتی ہے کہ ''حضرات کھانا کھل گیا ہے'' تو اس پر شرفا کی طرف سے کیسی حالت جنگ کا ردعمل دیکھنے میں آتا ہے۔افطاری اور پھر نماز مغرب ہو چکی تو زائرین حضرت ابو ایوب انصاری کے مرقد پر فاتحہ خوانی کے لیے قطار اندر قطار جانے لگے۔ ہماری باری بھی آ گئی۔
انصاری صاحب کے بارے میں ہر کسی کو معلوم ہے کہ وہ اللہ کے نبی آخر الزماں کے قریبی صحابی اور ساتھی رہے تھے، یہ وہ شخصیت تھے کہ جب حضورؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت ہوئی تو ہر انصار کی خواہش تھی کہ حضورؐ اس کے ہاں قیام کریں جس پر حضور نے فیصلہ فرمایا کہ ان کی اوٹنی جس کے مکان کے سامنے رک جائے گی وہ اس کے مہمان ہوں گے۔ اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری کے مکان کے سامنے رک گئی جس پر انھوں نے ان کے مکان پر قیام کیا۔
یہ قیام کئی ماہ تک رہا یعنی یہ وہ شخصیت تھے جنھیں طویل عرصہ تک حضورؐ کی میزبانی کا شرف حاصل رہا، انھوں نے کفار کے خلاف حضور کی ہمراہی میں قریباً ہر جنگ میں حصہ لیا ، بنی نجار قبیلہ کے خالد بن زیاد پیدا ہونے والے صحابی بعد میں بیٹے کی نسبت سے ابوایوب کہلائے۔ ان کی جنگی خدمات کے علاوہ دینی خدمات کا بھی شمار نہیں۔ وہ محدث تھے' فقیہہ تھے' امام تھے' حافظ قرآن تھے اور حضورؐ کے قریبی ساتھی تھے۔
مسلمانوں کا لشکر جنگ کے لیے موجودہ ترکی کی طرف روانہ ہوا تو حضرت ایوب کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی لیکن وہ عالم دین ہی نہیں بہادر جنگ جو بھی تھے، مسلمانوں کے لیے دشمنوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینا فرض سمجھتے تھے۔ وہ محاذ جنگ پر پہنچ گئے، انھیں بڑھاپے کے پیش نظر جنگ میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن انھوں نے اپنی تلوار لہرا کر انکار کر دیا۔ اسی دوران وہ بیمار ہو کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جب عثمانی ترکوں نے بالآخر قسطنطنیہ فتح کر لیا تو حضرت انصاری اور دیگر صحابہ کی قبریں تلاش کر کے یادگاریں تعمیر کی گئیں۔
ایوب سلطان مسجد کی تعمیر بھی عرصہ بعد 1458 عیسویں میں ہوئی۔ جس روز ہم نے حضرت ابو ایوب انصاری صحابی کے مزار پر حاضری دی ،کم و بیش پندرہ بیس ہزار زائرین مزار و مسجد کے گرد و نواح موجود ہوں گے، وہاں فاتح خوانی نماز افطار یا صرف حاضری و سیاحت کے لیے موجود لوگوں کا جذبہ اور اظہار عقیدت روح پرور منظر پیش کرتا تھا۔ رات گیارہ بجے ہماری واپسی کے وقت تک مسجد و مزار کا علاقہ جگمگا رہا تھا اور ایک میلے کا سماں پیش کر رہا تھا۔