سرمایہ داری کا سفینہ ڈانواڈول
یورپی یونین، یورپی عوام کی بھلائی یا دنیا کے عوام کی بھلائی کے لیے تشکیل نہیں پائی تھی
آج سے تقریبا ڈیڑھ سوسال قبل کامریڈ میخائل الیکزینڈرباکونن نے کہا تھا کہ 'جس طرح غلامی اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوا، اسی طرح سرمایہ داری کا بھی خاتمہ ہو گا اور فطری کمیونسٹ یا امداد باہمی کا بے ریاستی نظام قائم ہو کر دنیا ایک ہو جائے گی' آج اس کا ثبوت قدم قدم پہ مل رہا ہے۔ کارل مارکس نے بھی 'داس کیپٹل' میں کہا ہے کہ 'جوں جوں سائنس اور ٹیکنیک میں ترقی ہوگی، ایک جانب دولت کا انبار ہو گا تو دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج۔ آج دنیا بھر میں یہی ہو رہا ہے۔
یورپی یونین، یورپی عوام کی بھلائی یا دنیا کے عوام کی بھلائی کے لیے تشکیل نہیں پائی تھی بلکہ سامراجی اب الگ الگ رہ کر لوٹ مار کر نے کے قابل نہ رہے۔ اس لیے انھوں نے متحد ہو کر لوٹنے کا پروگرام بنایا، مگرعالمی سرمایہ داری چونکہ انتہائی بحران اور انحطاط پذیری کی کا شکار ہے کہ اب وہ ایک ہو کر بھی گزارہ نہیں کرسکتے۔ عوام ان کی بھول بھلیوں سے نکل آئے ہیں۔ اس لیے ریفرنڈم کے ذریعے برطانوی عوام نے یورپی یونین کو مسترد کر دیا۔ جس کے نتیجے میں دنیا بھرکی مالیاتی منڈیوں میں زلزلے آ گئے ہیں اور نئے عالمی اقتصادی بحران کے خدشے کا اظہارکیا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی پر ہونیوالے ریفرنڈم کے نتائج کا خلاف توقع انخلا کے حق میں اعلان آنے پر ایشیا و یورپ سمیت دنیا بھرکی حصص مارکیٹیں منہ کے بل آ گریں، لندن کی اسٹاک مارکیٹ سات اعشاریہ پانچ فیصد گر گئی اور پاؤنڈکریش کر گیا، اس کی قدر دس فیصد کی کمی سے 1.3229 ڈالر رہ گئی جو 31 سال کی کم ترین سطح ہے، یورو کی قیمت بھی امریکی ڈالرکے مقابل گر گئی، یورپی حصص مارکیٹس میں سرمایہ کاروں کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں بھی بگاڑ دیکھا گیا، شیئرز پرائز تیزی سے نیچے آئیں۔
واضح رہے کہ تجزیہ کار اور ماہرین پیش گوئی کر رہے تھے کہ برطانوی شہریوں کی اکثریت یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دے گی۔ سروے نتائج بھی اسی رائے کو تقویت دے رہے تھے، تاہم خلاف توقع نتائج سے سرمایہ کار گھبرا گئے، حصص، فاریکس اور ڈیٹ مارکیٹس میں افراتفری دیکھی گئی۔ سرمایہ ڈوبنے کے خدشات پر برطانیہ میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر پاؤنڈ فروخت کرنا شروع کر دیے تھے۔ یونی کریڈٹ ریسرچ اکنامک کے ڈینیل ور نازا نے کہا ہے کہ برطانوی ووٹرز نے اقتصادی ماہرین کی وارننگزکو رد کر دیا، جس سے عالمی مالیاتی منڈیوں میں زلزلے کی سی کیفیت دیکھی گئی۔
یورو زون کی بڑی مارکیٹس بشمول فرینکفرٹ اور پیرس کو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں حصص مارکیٹس آغاز میں دس فیصد سے زیادہ گر گئیں، سب سے زیادہ فروخت فنانشل اسٹاکس میں ہوئی، منڈیوں میں بعد ازاں کچھ ٹھہراؤ آیا مگر سرمایہ کار شدید بے یقینی کا شکار ہیں۔ ای ٹی ایف سیکورٹیز میں سرمایہ کاری و تحقیقی شعبے کے سر براہ جیمزبیٹر فل نے کہا کہ یہ خوف ناک ہے، میں نے پہلے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی، بہت سے لوگ پھنس گئے ہیں، متعدد سرمایہ کاروں کو اپنے سرمائے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
برطانوی سرمایہ کاری بینک جے پی مارگن چیز نے برطانیہ میں ملازمت ختم کرنے کا انتباہ دیا ہے، ساتھ ہی یوروپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں بھی ایسے ہی ریفرنڈم کے خدشات اور اس کے نتیجے میں 60 سال قبل قائم کیے جانے والے گروپ کے خاتمے کا خوف جنم لے رہا ہے، یہ خطرہ یورو زون کی کمزور معیشتوں کے لیے زیادہ پریشان کن ہے، جہاں اٹلی اور اسپین کی حصص مارکیٹس دس فیصد سے زیادہ نیچے چلی گئیں جب کہ یونانی اسٹاک مارکیٹس میں تیرہ فیصد سے زائد مندی دیکھی گئی، پیرس اسٹاک کے 8.2 فیصد نیچے جانے کے علاوہ ایشیا میں جاپانی مارکیٹ 7.90 فیصد ، چین کی شنگھا ئی 1.3 فیصد اور ہانگ کانگ 2.9 فیصد آگئی ، دیگرمنڈیوں کی صوتحال بھی مختلف نہیں ۔ ای ٹی ایکس کیپٹل کے ہیڈآف ٹریڈنگ جورینڈل نے کہا کہ برطانوی ریفرنڈم کا نتیجہ تاریخ کا سب سے بڑا مارکیٹ شاٹ ہے ۔
دوسری طرف سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ ڈوبنے سے بچانے کے لیے جاپانی ین اور سوئس فرانک جیسی کرنسیوں اور جرمن بانڈز جیسے ڈیٹ میں لگانا شروع کردیا جس سے کئی کرنسیوں کی قدر میں اضافہ اور دیگر قدریں گرگئیں جب کہ دس سالہ جرمن با نڈز پرمنافع منفی ہوگیا اور اس کی قیمتوں کو پر لگ گئے، برطانوی حکومتی بانڈزکا منافع بھی تاریخ کی کم ترین سطح پرآ گیا جب کہ سونے کی عالمی قیمت دوسال کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ، تاہم دوسری منڈیوں میں سرمایہ کار اربوں ڈالر سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بھارتی روپے، کینیڈین ڈالر اور سنگاپور ڈالرکو بڑے پیما نے پر نقصان ہوا جب کہ جنوبی افریقی رینڈ کی قیمت چھ فیصد گرگئی، فاریکس مارکیٹ میں امریکی ڈالر جاپانی کرنسی کے مقابل 2013ء کے بعد پہلی بار 100 ین سے گر گیا، تاہم بعد میں 102 ین پر ٹریڈ ہوتا دیکھا گیا، ریفرنڈم نتائج نے ابھرتی معیشتوں کو بڑا دھچکا پہنچایا، تیل کی قیمتوں پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ۔ مالیاتی منڈیوں میں سراسیمگی دیکھ کر مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کی۔
یورپی سینٹرل بینک نے فوری طور پر مارکیٹس کو ضرورت پڑنے پر اضافی سرمائے کی فراہمی کا اعلان کردیا، جب کہ بینک آف جاپان نے کہا ہے کہ وہ بھی ایسے ہی اقدامات کے لیے اپنے ہم منصوبوں کے ساتھ مل کرکام کرے گا ۔ بینک آف انگلینڈ نے کہا ہے کہ وہ مالیاتی نظام کو ضرورت پڑنے پر 250 ارب پا ؤنڈ (370ارب ڈالر) سے زائد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، سوئیزسینٹرل بینک نے کہا ہے کہ وہ سوئیزفرانک کی قدرمیں اضافے کو روکنے کے لیے فارن ایکسچینج میں مداخلت کرے گا۔ یہ ہیں سر مایہ دارانہ نظام کی کھلواڑ۔ اس کے نتیجے میں لا کھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہونگے ۔اس کا متبادل صرف امداد باہمی کا آزاد معاش رہ ہے۔ اس وقت سرمایہ داری ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے۔ لوگ خود سرحدیں توڑ رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ، افغانستان اور فاٹا سے تقریبابیس لاکھ افراد یورپ ہجرت کرچکے ہیں ۔ یورپ اور امریکا میں کروڑوں ایشیائی اورافریقی عوام نے باقاعدہ وہاں کی شہریت حاصل کرلی ہے۔ اگر دنیا کی سرحدیں ختم ہوجائیں توگنجان اورغربت والی آبادی، وسیع رقبے رکھنے والے اور وسائل سے بھرمارعلا قوں میں منتقل ہوکر دنیا کے شہری بھوک، افلاس اور غربت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں جیسا کہ آ سٹریلیا ایک براعظم ہے اور یہاں کی کل آ بادی ڈھائی کروڑکی ہے، اسی طرح کینیڈٖا وسیع رقبے کا مالک ہے اور وسائل بھی بے پناہ ہے جب کہ آبادی ساڑھے تین کروڑکی ہے ۔ ان دونوں علاقوں میں ہندوستان، پاکستان اورچین سے کروڑوں لوگ منتقل ہوسکتے ہیں۔
افریقہ کے غریب ترین علا قوں سے کروڑوں لوگوں کو یورپ اور امریکا منتقل کیا جاسکتا ہے، اگر ساری دنیا سارے لوگوں کی ہوجائے تو پھر سرحدوں کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ سا تھ ساتھ سرمایہ داری اورجاگیرداری کا خاتمہ کرکے دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کے حوالے کردیا جائے تو دنیا ایک خوشحال، پرلطف اورمحبت سے لبریز سرزمین بن سکتی ہے یعنی کہ ایک آسمان تلے ایک خاندان ہو گا،کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست ۔
یورپی یونین، یورپی عوام کی بھلائی یا دنیا کے عوام کی بھلائی کے لیے تشکیل نہیں پائی تھی بلکہ سامراجی اب الگ الگ رہ کر لوٹ مار کر نے کے قابل نہ رہے۔ اس لیے انھوں نے متحد ہو کر لوٹنے کا پروگرام بنایا، مگرعالمی سرمایہ داری چونکہ انتہائی بحران اور انحطاط پذیری کی کا شکار ہے کہ اب وہ ایک ہو کر بھی گزارہ نہیں کرسکتے۔ عوام ان کی بھول بھلیوں سے نکل آئے ہیں۔ اس لیے ریفرنڈم کے ذریعے برطانوی عوام نے یورپی یونین کو مسترد کر دیا۔ جس کے نتیجے میں دنیا بھرکی مالیاتی منڈیوں میں زلزلے آ گئے ہیں اور نئے عالمی اقتصادی بحران کے خدشے کا اظہارکیا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی پر ہونیوالے ریفرنڈم کے نتائج کا خلاف توقع انخلا کے حق میں اعلان آنے پر ایشیا و یورپ سمیت دنیا بھرکی حصص مارکیٹیں منہ کے بل آ گریں، لندن کی اسٹاک مارکیٹ سات اعشاریہ پانچ فیصد گر گئی اور پاؤنڈکریش کر گیا، اس کی قدر دس فیصد کی کمی سے 1.3229 ڈالر رہ گئی جو 31 سال کی کم ترین سطح ہے، یورو کی قیمت بھی امریکی ڈالرکے مقابل گر گئی، یورپی حصص مارکیٹس میں سرمایہ کاروں کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں بھی بگاڑ دیکھا گیا، شیئرز پرائز تیزی سے نیچے آئیں۔
واضح رہے کہ تجزیہ کار اور ماہرین پیش گوئی کر رہے تھے کہ برطانوی شہریوں کی اکثریت یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دے گی۔ سروے نتائج بھی اسی رائے کو تقویت دے رہے تھے، تاہم خلاف توقع نتائج سے سرمایہ کار گھبرا گئے، حصص، فاریکس اور ڈیٹ مارکیٹس میں افراتفری دیکھی گئی۔ سرمایہ ڈوبنے کے خدشات پر برطانیہ میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر پاؤنڈ فروخت کرنا شروع کر دیے تھے۔ یونی کریڈٹ ریسرچ اکنامک کے ڈینیل ور نازا نے کہا ہے کہ برطانوی ووٹرز نے اقتصادی ماہرین کی وارننگزکو رد کر دیا، جس سے عالمی مالیاتی منڈیوں میں زلزلے کی سی کیفیت دیکھی گئی۔
یورو زون کی بڑی مارکیٹس بشمول فرینکفرٹ اور پیرس کو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں حصص مارکیٹس آغاز میں دس فیصد سے زیادہ گر گئیں، سب سے زیادہ فروخت فنانشل اسٹاکس میں ہوئی، منڈیوں میں بعد ازاں کچھ ٹھہراؤ آیا مگر سرمایہ کار شدید بے یقینی کا شکار ہیں۔ ای ٹی ایف سیکورٹیز میں سرمایہ کاری و تحقیقی شعبے کے سر براہ جیمزبیٹر فل نے کہا کہ یہ خوف ناک ہے، میں نے پہلے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی، بہت سے لوگ پھنس گئے ہیں، متعدد سرمایہ کاروں کو اپنے سرمائے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
برطانوی سرمایہ کاری بینک جے پی مارگن چیز نے برطانیہ میں ملازمت ختم کرنے کا انتباہ دیا ہے، ساتھ ہی یوروپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں بھی ایسے ہی ریفرنڈم کے خدشات اور اس کے نتیجے میں 60 سال قبل قائم کیے جانے والے گروپ کے خاتمے کا خوف جنم لے رہا ہے، یہ خطرہ یورو زون کی کمزور معیشتوں کے لیے زیادہ پریشان کن ہے، جہاں اٹلی اور اسپین کی حصص مارکیٹس دس فیصد سے زیادہ نیچے چلی گئیں جب کہ یونانی اسٹاک مارکیٹس میں تیرہ فیصد سے زائد مندی دیکھی گئی، پیرس اسٹاک کے 8.2 فیصد نیچے جانے کے علاوہ ایشیا میں جاپانی مارکیٹ 7.90 فیصد ، چین کی شنگھا ئی 1.3 فیصد اور ہانگ کانگ 2.9 فیصد آگئی ، دیگرمنڈیوں کی صوتحال بھی مختلف نہیں ۔ ای ٹی ایکس کیپٹل کے ہیڈآف ٹریڈنگ جورینڈل نے کہا کہ برطانوی ریفرنڈم کا نتیجہ تاریخ کا سب سے بڑا مارکیٹ شاٹ ہے ۔
دوسری طرف سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ ڈوبنے سے بچانے کے لیے جاپانی ین اور سوئس فرانک جیسی کرنسیوں اور جرمن بانڈز جیسے ڈیٹ میں لگانا شروع کردیا جس سے کئی کرنسیوں کی قدر میں اضافہ اور دیگر قدریں گرگئیں جب کہ دس سالہ جرمن با نڈز پرمنافع منفی ہوگیا اور اس کی قیمتوں کو پر لگ گئے، برطانوی حکومتی بانڈزکا منافع بھی تاریخ کی کم ترین سطح پرآ گیا جب کہ سونے کی عالمی قیمت دوسال کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ، تاہم دوسری منڈیوں میں سرمایہ کار اربوں ڈالر سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بھارتی روپے، کینیڈین ڈالر اور سنگاپور ڈالرکو بڑے پیما نے پر نقصان ہوا جب کہ جنوبی افریقی رینڈ کی قیمت چھ فیصد گرگئی، فاریکس مارکیٹ میں امریکی ڈالر جاپانی کرنسی کے مقابل 2013ء کے بعد پہلی بار 100 ین سے گر گیا، تاہم بعد میں 102 ین پر ٹریڈ ہوتا دیکھا گیا، ریفرنڈم نتائج نے ابھرتی معیشتوں کو بڑا دھچکا پہنچایا، تیل کی قیمتوں پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ۔ مالیاتی منڈیوں میں سراسیمگی دیکھ کر مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کی۔
یورپی سینٹرل بینک نے فوری طور پر مارکیٹس کو ضرورت پڑنے پر اضافی سرمائے کی فراہمی کا اعلان کردیا، جب کہ بینک آف جاپان نے کہا ہے کہ وہ بھی ایسے ہی اقدامات کے لیے اپنے ہم منصوبوں کے ساتھ مل کرکام کرے گا ۔ بینک آف انگلینڈ نے کہا ہے کہ وہ مالیاتی نظام کو ضرورت پڑنے پر 250 ارب پا ؤنڈ (370ارب ڈالر) سے زائد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، سوئیزسینٹرل بینک نے کہا ہے کہ وہ سوئیزفرانک کی قدرمیں اضافے کو روکنے کے لیے فارن ایکسچینج میں مداخلت کرے گا۔ یہ ہیں سر مایہ دارانہ نظام کی کھلواڑ۔ اس کے نتیجے میں لا کھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہونگے ۔اس کا متبادل صرف امداد باہمی کا آزاد معاش رہ ہے۔ اس وقت سرمایہ داری ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے۔ لوگ خود سرحدیں توڑ رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ، افغانستان اور فاٹا سے تقریبابیس لاکھ افراد یورپ ہجرت کرچکے ہیں ۔ یورپ اور امریکا میں کروڑوں ایشیائی اورافریقی عوام نے باقاعدہ وہاں کی شہریت حاصل کرلی ہے۔ اگر دنیا کی سرحدیں ختم ہوجائیں توگنجان اورغربت والی آبادی، وسیع رقبے رکھنے والے اور وسائل سے بھرمارعلا قوں میں منتقل ہوکر دنیا کے شہری بھوک، افلاس اور غربت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں جیسا کہ آ سٹریلیا ایک براعظم ہے اور یہاں کی کل آ بادی ڈھائی کروڑکی ہے، اسی طرح کینیڈٖا وسیع رقبے کا مالک ہے اور وسائل بھی بے پناہ ہے جب کہ آبادی ساڑھے تین کروڑکی ہے ۔ ان دونوں علاقوں میں ہندوستان، پاکستان اورچین سے کروڑوں لوگ منتقل ہوسکتے ہیں۔
افریقہ کے غریب ترین علا قوں سے کروڑوں لوگوں کو یورپ اور امریکا منتقل کیا جاسکتا ہے، اگر ساری دنیا سارے لوگوں کی ہوجائے تو پھر سرحدوں کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ سا تھ ساتھ سرمایہ داری اورجاگیرداری کا خاتمہ کرکے دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کے حوالے کردیا جائے تو دنیا ایک خوشحال، پرلطف اورمحبت سے لبریز سرزمین بن سکتی ہے یعنی کہ ایک آسمان تلے ایک خاندان ہو گا،کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست ۔