انسانی و اخلاقی اقدار کا انحطاط

سوئٹزر لینڈ سے متعلق برطانوی اخبار میں جو خبر شائع ہوئی تھی،

ibhinder@yahoo.co.uk

''ترقی یافتہ، مہذب'' مغربی ممالک کے اخبارات میں اکثر ایسی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ وہاں کے لوگوں میں جانوروں کے ساتھ جنسی عمل کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ انسانی و اخلاقی اقدار پر یقین رکھنے والے دانشور ایسے افعال کو پسند نہیں کرتے۔ معاشرہ مغربی ہو یا مشرقی، یہ اعلیٰ و ادنیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کے تصورات کی فوقیتی ترتیب پر قائم ہے۔ اگرچہ ان میں بعض ایسی اقدار بھی رہی ہیں جو مقتدرطبقات کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھیں۔ تاہم بحیثیت مجموعی مغربی معاشروں میں جانوروں کے ساتھ جنسی عمل کو قدرکی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

سوئٹزر لینڈ سے متعلق برطانوی اخبار میں جو خبر شائع ہوئی تھی، اس میں زور اس بات پر نہیں تھا کہ جانوروں کے ساتھ ایسا کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے کیونکہ جانور کی رضامندی کا علم نہیں ہوتا۔ جانوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں نے ''ترقی یافتہ'' سرمایہ دارانہ معاشروں میں اس عمل کے ارتکاب کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور جدید سرمایہ داری کی پیداوار جدید لبرل انسان سے جانوروں کو محفوظ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انسان کے اندر حیوان کے جاگنے کا یہ عمل ایسا نہیں ہے کہ جس کی ذمے داری کسی بیرونی 'دشمن' پر یہ کہہ کر ڈال دی جائے کہ وہ مغربی اقدارکا دشمن ہے، وہ مغربی معاشرے میں جانوروں کے حقوق کا احترام نہیں کرتا، اس لیے اس نے چند لوگوں کے اذہان کو جانوروں کے حوالے سے ''انتہا پسند'' بنا کر مغربی ممالک کے خلاف 'سازش' کی ہے۔ یہ سب 'ترقی یافتہ' مغربی معاشروں کی ان اقدار کا اظہار ہیں، بیگانگی جن کے وسط میں موجود ہے اور جو سرمایہ دارانہ سماج سے مطابقت رکھتا ہے۔

یہ انسان کی انسان ہونے سے بیگانگی ہے کہ جنسی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ فطری عمل کی بجائے جانوروں پر انحصارکرنے لگا ہے۔ بعض احباب کیمطابق ان افعال کی جڑیں تو ابتدائی معاشروں میں بھی موجود تھیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ ایک مختلف نظام میں بیگانگی اپنا اظہار کن انسانی افعال کی شکل میں کرتی ہے! جدید مغربی معاشروں میں دیکھا یہ گیا ہے کہ انسان کا شعور اگلی سطح پر پہنچ کر ان غیر انسانی افعال کا خاتمہ نہیں کر سکا۔ بیگانہ شعور ایسے قبیح افعال کو بخوشی قبول کر لیتا ہے۔ بیگانگی کا عمل کسی واحد بیانیے کے تحت نہیں ہوتا، اس کا اظہار مختلف اشکال میں ہوتا ہے۔ سرمائے کے ارتکازکا عمل اپنی سرشت میں نوعِ انسانی سے بیگانگی کا عمل ہی ہے۔

بظاہر تو ایسا لگتا ہے خود شعوری کے حامل انسان سے اس قسم کے غیر اخلاقی افعال کی توقع نہیں کی جا سکتی، وہ انسان جس کی مرکزیت کی بنیاد پر مغرب میں روشن خیال پروجیکٹ کی تشکیل ہوئی، جس نے اعلیٰ انسانی اقدارکی تشکیل کا دعویٰ کیا۔ جس نے مسیحی الٰہیات کو انسانی سرشت سے متصادم گردانتے ہوئے تمام الٰہیاتی جہات کو مرکز سے ہٹا دیا، یہ کہہ کرکہ چونکہ یہ اخلاقیات انسان کی تعقل سے متصادم ہیں، اس لیے ان پر اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔

اسی فکر کے ساتھ ہی جدیدیت میں قدم رکھتے ہوئے انسان نے ہر مافوق الفطرت ہستی کو تعقلاتی فلسفیانہ فکر کے تابع کر لیا۔ انسانی و اخلاقی اقدار کی جو تذلیل مغربی معاشروں کا وتیرہ بنتی جا رہی ہے، اس کی جڑیں قدیم معاشروں میں تلاش نہیں کی جا سکتیں، بلکہ جس نظام میں انسان رہ رہا ہے، اسی سے ان کی مطابقت کے پہلوکا تجزیہ کرنا ہے۔ جس سے یہ واضح ہو سکے کہ کوئی نظام کس حد تک اقدارکا خاتمہ کر سکتا ہے اور اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو تصورات تشکیل دیے گئے ہیں ان کی قبولیت یا استرداد کی اس میں کتنی صلاحیت موجود ہے!


صنعتی سماج کے ارتقا نے انسان کی مرکزیت کا جو تصور پیش کیا اس میں سب سے پہلے جو فلسفیانہ تحریک تھی جس نے انسان سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ اپنے حسیات کے علاوہ علم کے ہر دوسرے مآخذ کو تشکیک کی نظر سے دیکھے، وہ برطانیہ کی تجربیت کی فلسفیانہ روایت تھی، جس کا گہرا تعلق برطانیہ میں تشکیل پانے والے صنعتی سماج کے ساتھ تھا۔ صنعتی سماج میں جوں جوں صنعت کا ارتقا ہوتا گیا، برطانوی تجربیت بھی تشکیک سے گزرتی رہی۔

جرمنی میں تعقل پسندی کی فلسفیانہ روایت تشکیل پا رہی تھی جو برطانوی تجربیت کو کسی خاطر میں نہیں لاتی تھی، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ جرمن معاشرہ صنعتی ارتقا میں برطانیہ سے بہت پیچھے تھا۔ فرانسیسی معاشرے میں بیک وقت مادیت اور تعقل پسندی پروان چڑھ رہے تھے۔ یہی وہ عہد ہے جب بوسیدہ مسیحی اقدار کی شکست و ریخت کا عمل مکمل ہوتے ہوئے نظر آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت ہر وہ قدر پروان چڑھ رہی تھی جس کا مسیحیت کی دقیانوسی تشریحات کی بنیاد پر پادریوں نے گلا دبا رکھا تھا۔

المیہ یہ ہے کہ نئے جنم لینے والے انسان نے دعویٰ تو آفاقیت کا کیا، مگر اپنی نوع میں اس کی حیثیت مقامی اور طبقاتی تھی، جو سرمائے اور محنت کے اس تضاد پرکھڑا تھا، جس کی تحلیل اس کے اپنے وجود کی تحلیل پر ہی منتج ہونی تھی۔ یہ حقیقی معنوں میں اس بالائی طبقے کا نمایندہ بھی ہے اور اس کا مرکز بھی! جدید لبرل سرمایہ داری کا وہ بحران جو کہ ایک انسانی و اخلاقی المیہ بن چکا ہے وہ ان معنوں میں اس تعقل پسند، منطقی انسان اور اس سے جڑی تمام اقدارکا المیہ ہے، جس کی بنیاد جدید سرمایہ داری نظام پر ہے۔

جانوروں سے بدفعلی اور قریبی انسانی رشتوں کے ساتھ برضا و رغبت جنسی تعلقات کا اس کے علاوہ اورکوئی مفہوم نہیں کہ انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتوں کی اہمیت، ان کی عظمت، ان کے تقدس کو تیزی سے کھو رہا ہے۔ روشن خیالی غیر روشن خیالی میں بدل گئی ہے، ثقافت، ردِ ثقافت میں تبدیل ہو گئی ہے، انسان کی مرکزیت اس کی لامرکزیت کا سبب بن گئی ہے۔

جدید سرمایہ داری کا ایک انتہائی بنیادی المیہ یہ ہے کہ اس میں انسان کو دولخت کرنے کا بھی رجحان پایا جاتا ہے، انسان کا دولخت ہو جانا یا اس کے اندر کسی 'فتق' کا رونما ہو جانا کہ جس سے وہ گزشتہ اقدار سے کٹ جائے اور اسے یہ شعور ہی نہ رہے کہ یہ تمام بدفعلیاں انسانی اقدار کے بحران کی علامات ہیں، جو کسی انسانی خوبی سے عبارت نہیں ہیں کہ جس کا جشن مابعد جدیدیت مناتی دکھائی دیتی ہے۔

یہ سرمایہ داری کے بُعد زدہ (Reified ( ہونے کا نتیجہ ہیں۔ جس میں انسان یہ یقین کرنے لگتا ہے کہ حقیقی تعلقات انسانوں کے درمیان نہیں ہیں، پیداوار کا عمل سماجی نہیں، انفرادی ہے، مرکزی حیثیت انسان کی نہیں، اشیا کی ہے اور انسانوں کے مابین تعلقات درحقیقت ان اشیا کی وجہ سے ہیں۔ انسان، انسان کا حوالہ نہیں رہتا اور جب اشیا اولین حوالہ بن جائیں تو انسان مرکز میں نہیں رہتا۔ اور جو بھی فلسفہ اس گہرے تضادکے باوجود اسے مرکز میں تصورکرنے پر اصرارکرے، وہ دہشت و بربریت کا حامی بن جاتا ہے۔

یہی وہ مرکزی نکتہ ہے کہ جس کے تحت بورژوا فلسفوں کا تمام فلسفہ جو صنعتی انقلاب کا ماحصل اور اس کا محرک بنا، اس کا بنیادی نقص عیاں ہو جاتا ہے۔ سرمایہ داری کا انحطاط ایک خاص سطح پر نمایاں ہوتا ہے، مگر اس کے انحطاط کے تمام عوامل اس کی تشکیل کے عمل میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ سرمایہ داری کا مقصد کسی اعلیٰ انسانی آدرش کی تکمیل کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا اکلوتا مقصد انسانی اقدارکی قیمت پر سرمائے کا ارتکاز ہے، یہی وجہ ہے کہ لبرل معاشروں کا بحران اب انسانی اقدار کے بحران میں تبدیل ہو چکا ہے۔
Load Next Story