پاکستان افغانستان پہلے سے مراسم نہ سہی
ہم پاکستانی قوم دوستی میں حساب کتاب کو بہت برا سمجھتے ہیں
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک کوئی بھی ہو اس کے ساتھ دوستی انسانوں کی باہمی دوستیوں کی طرح جذبات کی تابع ہوتی ہے۔ اخلاقیات کی اور نہ ہی نسل یا مذہب کی۔ یہاں دوستی اور دشمنی صرف ایک بنیاد پر ہوتی ہے اور اس کا نام ہے قومی مفاد، اس دوستی کے دورانیے میں جس نے بہتر سودا کیا وہی کامیاب ٹھہرتا ہے، جو جذبات کی رو میں بہہ گیا یا جس فراق نے دوستی کا فائدہ ملک اور قوم کو دینے کی بجائے حکمرانوں یا ملک کے کسی خاص طبقے کی جھولی میں سمیٹنے کی کوشش کی وہی خسارے میں رہا۔
ہم پاکستانی قوم دوستی میں حساب کتاب کو بہت برا سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں حد درجہ جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بسا اوقات ریاستوں کے درمیان دوستی کو بھی اس نظر سے دیکھنے لگتے ہیں، حالانکہ بین الاقوامی سیاست میں تعلقات صرف اور صرف مفاد کی خاطر ہی استوار ہوتے ہیں اور توڑے جاتے ہیں۔
یوں تو پوری دنیا میں مفاد پرستی کا یہ رجحان زوروں پر ہے لیکن حاجت پوری ہونے کے بعد آنکھیں پھیرلینے میں امریکا کا کوئی ثانی نہیں، ہماری قوم نے امریکا کے ساتھ دوستی کی قیمت تو بہت چکادی لیکن جو حاصل کیا وہ حکمرانوں نے حاصل کیا، ملک کے حصے میں کچھ نہ آیا اور اب بھارت اور ایران کے ساتھ مل کر امریکا جب دوبارہ دشمنی پر اتر نے والا ہے تو قیمت پورے ملک کو چکانی ہوگی۔
افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور اس سر زمین نے جنگجو ہی نہیں بلکہ ایسے صوفیا بھی پیدا کیے جنھوں نے برصغیر پاک و ہند میں اسلامی تعلیمات کو پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کیا اور ہمارا اس ملک سے واقعی ایک عجیب رشتہ برسوں سے چلا آرہاہے۔ محمود غزنوی، شہاب الدین محمد غوری اور احمد شاہ ابدالی کو پاکستانیوں کی ایک بھاری اکثریت بہر طور اپنا ہیرو مانتی ہے اور یہ بھی جانتی اور مانتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین محبت اور نفرت بھی آج سے بہت سال ہا سال سے چلی آرہی ہے ان دونوں ممالک کے عوام میں محبت کا رشتہ بہت گہرا ہے لیکن حکمران اشرافیہ کی غلط فہمیاں اور تضادات بعض اوقات ایسی نفرتوں کو جنم دے ڈالتے ہیں جن کلی آگ سے ایک نہیں بلکہ دونوں ہمسایوں کو نقصان پہنچتا ہے، پاکستان اور افغانستان کے ارباب اختیار کی کارستانیوں کی وجہ سے ایک ایسی آگ لگائی گئی جس میں برسوں سے دونوں ممالک کے لوگ جھلس رہے ہیں۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ پاکستان میں امن وامان کی صورت حال خراب کرنے میں افغانستان نے بہت بڑا کردار ادا کیا جو ملک پاکستان کی اقوام متحدہ رکنیت کی سر عام مخالفت کرسکتا ہے وہ پس پردہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ طور خم بارڈر والا واقعہ اس کی واضح مثال ہے اور یہاں یہ بھی بات واضح ہوجاتی ہے کہ قومیں الفاظ کی بجائے اعمال سے پہچانی جاتی ہیں۔
کوئی نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ غیر ملکی ایجنسیاں عرصہ دراز سے افغانستان کی زمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہی ہیں اور ہمارا مسئلہ اس وقت سب سے بڑا یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ 2600 کلو میٹر وہ غیر محفوظ سرحد جس پر اب ہمیں کوئی سمجھوتہ کیے بغیر معنی خیز کارروائی کرنی ہوگی۔ افغانستان کے راستے پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کو ہوا دینا بھارت کی طویل منصوبہ کا حصہ ہے۔
اس مقصد کے لیے اس نے پاکستان کی سرحد کے قریب افغانستان میں دو درجن کے قریب قونصل خانوں کی صورت میں جاسوسی، تخریب کاری کی تربیت اور اسلحہ بندی کے اڈے قائم کر رکھے ہیں اور بھارتی فوج بھی افغانستان میں موجود ہے، بد قسمتی سے اس معاملے میں بھارت کو امریکا کی در پردہ حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ صورت حال اس خطے کے امن وامان اور استحکام کے لیے علاقے کے ملکوں کے علاوہ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔
ملک کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات سے یہ امر یا یہ ثبوت تک پہنچ چکا ہے کہ دہشت گردوں کی تاریں افغانستان ہی سے ہلائی جاتی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ طور خم بارڈر پر آمد و رفت کو کسی ضابطے کا پابند بنانے کے لیے کوئی بھی اقدام کرے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طور خم بارڈر پر گیٹ کی تعمیر کے معاملے پر شروع ہونے والی کشیدگی اور باہمی جھڑپوں پر امریکی انتظامیہ کی یہ وضاحت کے تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے اس کی جانب سے کوئی ثالثی نہیں کی جائے گی۔
دونوں ملکوں کے حکام سے سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے، امریکا کے اس موقف کی روشنی میں افغانستان اور پاکستان کے تمام متعلقہ فریقوں کو سمجھنا چاہیے کہ خطے میں امن کا قیام فی الحقیقت سب سے زیادہ دونوں ملکوں کی اپنی ضروریات ہے ان کے کم و بیش چوتھائی ارب باشندوں کی ترقی اور خوشحالی کا خواب پائیدار امن کے قیام کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا لہٰذا اس کے لیے دونوں کو باہمی کاوشوں ہی سے اس کی راہیں تلاش کرنی ہوںگی اور اس حقیقت کو بھی کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ کسی بھی جانب سے دوسرے ملک کو اعتما دمیں لیے بغیر کوئی قدم اٹھانا منفی نتائج کا سبب بنے گا۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ طور خم بارڈر کی تعمیر آج کی شرط اولین چیز ہے جہاں سے عام حالات میں25 ہزار افراد روزانہ سرحد پار کرتے ہیں جب تک 2640 کلو میٹر طویل اس سرحد کو محفوظ نہیں بنایا جاتا نہ تو افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان سے دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وہ ملک جسے ہم اپنی اسٹریٹجک گہرائی تصور کرتے اور جس کے 30 لاکھ مہاجرین کو 35 برسوں سے پناہ فراہم کرتے اور انھیں اپنے مہمانوں کی طرح پالتے پوستے رہے۔
اس کے فوجی طور خم چیک پوسٹ کے اندر داخل ہوکر ہمارے فوجی محافظوں پر بلا اشتعال حملے کررہے ہیں، ماضی سے حالات کچھ اور تھے لیکن گزشتہ تیرہ سال سے افغان حکومت یہ الزام لگارہی ہے کہ طالبان پاکستان سے آکر اس کے خلاف کارروائی کررہے ہیں جب کہ گزشتہ دس سال سے پاکستان بھی یہ شکایت کرنے لگا ہے کہ بلوچ عسکریت پسند اور پاکستانی طالبان افغانستان میں پناہ لے کر اس کی ریاست کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔
ایسے میں اب بارڈر مینجمنٹ کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہورہی ہے کیوں کہ جب تک دونوں ملکوں کے مابین روزانہ چالیس سے پچاس ہزار لوگ بغیر کسی دستاویزات اور چیکنگ کے سرحد کے آر پار جائیںگے تو ان کی آڑ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن باوجود ان سب حقیقتوں کے اس تناظر میں افغانستان کی طرف سے کوئی ایسی حرکت کہ جس کے نتیجے میں طور خم،چمن، غلام خان یا انگور اڈہ کا راستہ بند ہو حماقت اور اپنے معصوم عوام کے ساتھ زیادتی کے سوا کچھ نہیں لیکن پاکستان کی طرف سے ایسی کوئی حرکت کہ جس کے نتیجے میں افغانستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو یا پھر سرحد بند ہو، اس سے بھی بڑی حماقت اور خود پاکستان کے لیے ظلم ہے۔
پاکستان کے لیے اس وقت افغانستان ہی سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور اپنی مارکیٹ کا راستہ خود بند کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں، دوسری طرف پاکستان کی اس وقت سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ افغانستان اس کے ہاتھ سے نکل کر دشمنوں کی طرف جارہاہے۔ ان حالات میں ایسا کوئی قدم اٹھانا کہ جس سے افغانستان کا ہندوستان اور ایران کی طرف جانے کا سفر تیز ہو پاکستان کے ساتھ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ امریکا، بھارت اور افغانستان ہم پر دہرا کھیل کھیلنے کا الزام لگارہے ہیں یعنی مار بھی رہے ہیں اور رونے بھی نہیں دینا چاہتے، یہ ماناکہ انسان سے ہی غلطیاں ہوتی ہیں لیکن پیہم حماقتوں کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، ہماری ماضی، حال اور مستقبل کی حکمت عملیاں اگر بغور دیکھی جائیں تو لگتا ہے کہ ہم حاصل ہونے والے تجربے سے سیکھنے کے لیے بنے ہی نہیں۔
ہم پاکستانی قوم دوستی میں حساب کتاب کو بہت برا سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں حد درجہ جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بسا اوقات ریاستوں کے درمیان دوستی کو بھی اس نظر سے دیکھنے لگتے ہیں، حالانکہ بین الاقوامی سیاست میں تعلقات صرف اور صرف مفاد کی خاطر ہی استوار ہوتے ہیں اور توڑے جاتے ہیں۔
یوں تو پوری دنیا میں مفاد پرستی کا یہ رجحان زوروں پر ہے لیکن حاجت پوری ہونے کے بعد آنکھیں پھیرلینے میں امریکا کا کوئی ثانی نہیں، ہماری قوم نے امریکا کے ساتھ دوستی کی قیمت تو بہت چکادی لیکن جو حاصل کیا وہ حکمرانوں نے حاصل کیا، ملک کے حصے میں کچھ نہ آیا اور اب بھارت اور ایران کے ساتھ مل کر امریکا جب دوبارہ دشمنی پر اتر نے والا ہے تو قیمت پورے ملک کو چکانی ہوگی۔
افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور اس سر زمین نے جنگجو ہی نہیں بلکہ ایسے صوفیا بھی پیدا کیے جنھوں نے برصغیر پاک و ہند میں اسلامی تعلیمات کو پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کیا اور ہمارا اس ملک سے واقعی ایک عجیب رشتہ برسوں سے چلا آرہاہے۔ محمود غزنوی، شہاب الدین محمد غوری اور احمد شاہ ابدالی کو پاکستانیوں کی ایک بھاری اکثریت بہر طور اپنا ہیرو مانتی ہے اور یہ بھی جانتی اور مانتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین محبت اور نفرت بھی آج سے بہت سال ہا سال سے چلی آرہی ہے ان دونوں ممالک کے عوام میں محبت کا رشتہ بہت گہرا ہے لیکن حکمران اشرافیہ کی غلط فہمیاں اور تضادات بعض اوقات ایسی نفرتوں کو جنم دے ڈالتے ہیں جن کلی آگ سے ایک نہیں بلکہ دونوں ہمسایوں کو نقصان پہنچتا ہے، پاکستان اور افغانستان کے ارباب اختیار کی کارستانیوں کی وجہ سے ایک ایسی آگ لگائی گئی جس میں برسوں سے دونوں ممالک کے لوگ جھلس رہے ہیں۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ پاکستان میں امن وامان کی صورت حال خراب کرنے میں افغانستان نے بہت بڑا کردار ادا کیا جو ملک پاکستان کی اقوام متحدہ رکنیت کی سر عام مخالفت کرسکتا ہے وہ پس پردہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ طور خم بارڈر والا واقعہ اس کی واضح مثال ہے اور یہاں یہ بھی بات واضح ہوجاتی ہے کہ قومیں الفاظ کی بجائے اعمال سے پہچانی جاتی ہیں۔
کوئی نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ غیر ملکی ایجنسیاں عرصہ دراز سے افغانستان کی زمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہی ہیں اور ہمارا مسئلہ اس وقت سب سے بڑا یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ 2600 کلو میٹر وہ غیر محفوظ سرحد جس پر اب ہمیں کوئی سمجھوتہ کیے بغیر معنی خیز کارروائی کرنی ہوگی۔ افغانستان کے راستے پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کو ہوا دینا بھارت کی طویل منصوبہ کا حصہ ہے۔
اس مقصد کے لیے اس نے پاکستان کی سرحد کے قریب افغانستان میں دو درجن کے قریب قونصل خانوں کی صورت میں جاسوسی، تخریب کاری کی تربیت اور اسلحہ بندی کے اڈے قائم کر رکھے ہیں اور بھارتی فوج بھی افغانستان میں موجود ہے، بد قسمتی سے اس معاملے میں بھارت کو امریکا کی در پردہ حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ صورت حال اس خطے کے امن وامان اور استحکام کے لیے علاقے کے ملکوں کے علاوہ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔
ملک کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات سے یہ امر یا یہ ثبوت تک پہنچ چکا ہے کہ دہشت گردوں کی تاریں افغانستان ہی سے ہلائی جاتی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ طور خم بارڈر پر آمد و رفت کو کسی ضابطے کا پابند بنانے کے لیے کوئی بھی اقدام کرے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طور خم بارڈر پر گیٹ کی تعمیر کے معاملے پر شروع ہونے والی کشیدگی اور باہمی جھڑپوں پر امریکی انتظامیہ کی یہ وضاحت کے تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے اس کی جانب سے کوئی ثالثی نہیں کی جائے گی۔
دونوں ملکوں کے حکام سے سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے، امریکا کے اس موقف کی روشنی میں افغانستان اور پاکستان کے تمام متعلقہ فریقوں کو سمجھنا چاہیے کہ خطے میں امن کا قیام فی الحقیقت سب سے زیادہ دونوں ملکوں کی اپنی ضروریات ہے ان کے کم و بیش چوتھائی ارب باشندوں کی ترقی اور خوشحالی کا خواب پائیدار امن کے قیام کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا لہٰذا اس کے لیے دونوں کو باہمی کاوشوں ہی سے اس کی راہیں تلاش کرنی ہوںگی اور اس حقیقت کو بھی کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ کسی بھی جانب سے دوسرے ملک کو اعتما دمیں لیے بغیر کوئی قدم اٹھانا منفی نتائج کا سبب بنے گا۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ طور خم بارڈر کی تعمیر آج کی شرط اولین چیز ہے جہاں سے عام حالات میں25 ہزار افراد روزانہ سرحد پار کرتے ہیں جب تک 2640 کلو میٹر طویل اس سرحد کو محفوظ نہیں بنایا جاتا نہ تو افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان سے دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وہ ملک جسے ہم اپنی اسٹریٹجک گہرائی تصور کرتے اور جس کے 30 لاکھ مہاجرین کو 35 برسوں سے پناہ فراہم کرتے اور انھیں اپنے مہمانوں کی طرح پالتے پوستے رہے۔
اس کے فوجی طور خم چیک پوسٹ کے اندر داخل ہوکر ہمارے فوجی محافظوں پر بلا اشتعال حملے کررہے ہیں، ماضی سے حالات کچھ اور تھے لیکن گزشتہ تیرہ سال سے افغان حکومت یہ الزام لگارہی ہے کہ طالبان پاکستان سے آکر اس کے خلاف کارروائی کررہے ہیں جب کہ گزشتہ دس سال سے پاکستان بھی یہ شکایت کرنے لگا ہے کہ بلوچ عسکریت پسند اور پاکستانی طالبان افغانستان میں پناہ لے کر اس کی ریاست کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔
ایسے میں اب بارڈر مینجمنٹ کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہورہی ہے کیوں کہ جب تک دونوں ملکوں کے مابین روزانہ چالیس سے پچاس ہزار لوگ بغیر کسی دستاویزات اور چیکنگ کے سرحد کے آر پار جائیںگے تو ان کی آڑ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن باوجود ان سب حقیقتوں کے اس تناظر میں افغانستان کی طرف سے کوئی ایسی حرکت کہ جس کے نتیجے میں طور خم،چمن، غلام خان یا انگور اڈہ کا راستہ بند ہو حماقت اور اپنے معصوم عوام کے ساتھ زیادتی کے سوا کچھ نہیں لیکن پاکستان کی طرف سے ایسی کوئی حرکت کہ جس کے نتیجے میں افغانستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو یا پھر سرحد بند ہو، اس سے بھی بڑی حماقت اور خود پاکستان کے لیے ظلم ہے۔
پاکستان کے لیے اس وقت افغانستان ہی سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور اپنی مارکیٹ کا راستہ خود بند کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں، دوسری طرف پاکستان کی اس وقت سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ افغانستان اس کے ہاتھ سے نکل کر دشمنوں کی طرف جارہاہے۔ ان حالات میں ایسا کوئی قدم اٹھانا کہ جس سے افغانستان کا ہندوستان اور ایران کی طرف جانے کا سفر تیز ہو پاکستان کے ساتھ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ امریکا، بھارت اور افغانستان ہم پر دہرا کھیل کھیلنے کا الزام لگارہے ہیں یعنی مار بھی رہے ہیں اور رونے بھی نہیں دینا چاہتے، یہ ماناکہ انسان سے ہی غلطیاں ہوتی ہیں لیکن پیہم حماقتوں کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، ہماری ماضی، حال اور مستقبل کی حکمت عملیاں اگر بغور دیکھی جائیں تو لگتا ہے کہ ہم حاصل ہونے والے تجربے سے سیکھنے کے لیے بنے ہی نہیں۔