اپنی فلائنگ کک سے چچا کی موت آج تک نہیں بھلا سکا ناصر بھولو
نامور پہلوان ناصر بھولو کے ساتھ ایک نشست کا احوال
ABBOTTABAD:
پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، پنڈت جواہر لال نہرو نے ذاتی طور پر ملاقات کر کے انہیں بھارت نہ چھوڑنے کے عوض ہر طرح کی مراعات دینے کی پیشکش کی، مگر وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے، پاکستان آنے کے صرف ایک سال بعد ہی رستم پاکستان کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
بعد ازاں اپنے بھائیوں کے ہمراہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر بے شمار کامیابیاں سمیٹ کر ملک وقوم کا نام روشن کیا، ماضی کے وہ نامور پہلوان حاجی منظورحسین المعروف بھولو پہلوان تھے جو اپنے فن میں یکتا کہلائے، بعد میں باپ کے مشن کو ان کے بیٹے ناصر بھولو نے بھی جاری رکھا اور انٹرنیشنل سطح پر ان گنت کامیابیاں سمیٹ کر دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا، رستم زمان گاما پہلوان رشتے میں ان کے نانا، امام بخش دادا اور میاں نواز شریف کی شریک حیات بیگم کلثوم نواز ان کی سگی خالہ زاد ہیں، وہ 1982ء میں بنگلادیش میں فری سٹائل ریسلنگ میں ایشین چیمپئن بنے۔
نامور جاپانی پہلوان انوکی نے انہیں بھاری معاوضے کے عوض جاپان میں تربیت حاصل کرنے کی پیشکش کی جس کو والد کے کہنے پر ٹھکرادیا، پاکستانی فلم ''چٹان'' میں بطور ہیرو کام بھی کیا، پاکستان میں فن پہلوانی کے زوال کا بڑا سبب وہ اس کھیل سے برتی جانے والی بے توجہی اور کسی قسم کی سرپرستی نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ ماضی کے اس عظیم پہلوان ناصر بھولو سے ''ایکسپریس'' نے ان کی علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں واقع رہائشگاہ میں خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل ذیل میں کچھ یوں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میرا تعلق پہلوانوں کے خاندان سے ہے، نانا گاما پہلوان نے 1910ء میں انگلینڈ میں زوبیسکو کو شکست دے کر رستم زمان کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، ان کا یہ اعزاز 106 برس گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے، دادا امام بخش بھی رستم ہند رہے جبکہ میرے والد بھولو پہلوان سمیت چچا حصوپہلوان، اعظم پہلوان، اسلم پہلوان، اکرم پہلوان اور گوگا پہلوان سب ٹائٹل ہولڈرز تھے، اپنے نانا گاما پہلوان کے زبیسکو کے ساتھ مقابلے کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ وہ 1910 تک برصغیر کے تمام معروف پہلوانوں کو شکست دے چکے تھے، اسی سال انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی امام بخش اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ بحری راستے سے انگلینڈ کا سفر کیا۔
لندن پہنچنے کے بعد انہوں نے یہ کہہ کر تمام یورپی پہلوانوں کو مقابلے کی دعوت مبازرت دی کہ وہ کسی بھی 3 پہلوانوں کو خواہ وہ کسی بھی کیٹگری کے ہوں محض 30 منٹ میں چت کردیں گے، بعد ازاں گاما پہلوان نے اس وقت کے مشہور پہلوانوں زبسکو اور فرینک گوچ کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یا تو وہ انہیں پچھاڑ دے گا بصورت دیگر وہ انہیں انعام کی رقم دے کر اپنے وطن روانہ ہوجائے گا۔
اس اعلان کے بعد پہلے بنجمن رولرنامی امریکی پہلوان گاما کے مقابلے پر آیا اورصرف 40سیکنڈ میں مقابلہ ہار کر چلتا بنا، اگلے دن گاما پہلوان نے 12مزید پہلوانوں کو چت کر کے بین الاقوامی کشتی کے اکھاڑے میں قدم رکھ دیا، یہ صورتحال دیکھ کر اس وقت کے ہیوی ویٹ ورلڈ چیمپئن زبسکو نے گاما کے مد مقابل آنے کا چیلنج قبول کیا، 10ستمبر 1910کو دونوں پہلوانوں کے درمیان کم و بیش ڈھائی گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا لیکن فیصلہ نہ ہو سکا۔
اس صورت حال کے بعد دونوں پہلوانوں کو اگلے مقابلے کے لیے ایک ہفتے بعد یعنی 17ستمبر کی تاریخ دیدی گئی، مقررہ تاریخ کو گاما اکھاڑے میں موجود رہے لیکن ان کا حریف زبسکو مقابلے پر نہ آیا اور اس طرح اصولی طور پر گاما پہلوان کو جان بل بیلٹ دیدی گئی اور یوں گاما دنیا کے نمبر ون پہلوان بن گئے، زبسکو اپنی ہزیمت کو بھولا نہیں تھا اور17سال کی تیاری کے بعد اس نے گاما پہلوان کو چیلنج کردیا۔ 1927 کو برصغیر کے شہر پٹیالہ میں یہ مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں گاما نے زبیسکو کو محض 10منٹ میں ہی پچھاڑ دیا۔
اپنے والد منظورحسین عرف بھولو پہلوان کے بارے میں یادیں تازہ کرتے ہوئے ناصر بھولوکا کہنا تھا کہ وہ رستم ہند امام بخش کے بڑے بیٹے اور رستم زماں گاماں پہلوان کے بھتیجے تھے، یونس پہلوان کو ہرا کر ''رستم پاکستان '' کا اعزاز حاصل کیا ، رستم زماں گاماں کے انتقال کے بعد انہوں نے دنیا بھر کے پہلوانوں کو کشتی لڑنے کا چلینج دیا لیکن جن پہلوانوں نے ان کا چیلنج قبول کیا ان سے کہا کہ صرف وہی شخص ان سے کشتی لڑ سکتا ہے جو پہلے ان کے پانچوں بھائیوں کو باری باری پچھاڑے گا، چنانچہ دنیا کا کوئی بھی پہلوان بھولو سے مقابلے کا اعزاز حاصل نہ کرسکا، دسمبر 1963 میں ان کو گاما کا جانشین مقرر کیا گیا، ان کو گاما کاگرز، سونے کی پیٹی اور زری پگڑی دی گئی۔
اپنے کیریئر کے حوالے سے ناصر بھولو یوں گویا ہوئے کہ پہلی فری سٹائل کشتی میٹرک کے دوران لڑی، جو برابر رہی، اس کے بعد اپنے کیریئر کے دوران کبھی شکست کا سامنا نہیں کیا، زیادہ تر کشتیاں پاکستان، لندن، خلیجی ممالک اور بنگلہ دیش میں لڑیں،1982ء میں بنگلہ دیش کے اندر فری سٹائل کشتیوں کے مقابلے ہوئے جن میں دنیا بھر سے نامور پہلوانوں نے شرکت کی۔
اس تقریب کی خاص بات یہ بھی تھی کہ بنگلہ دیشی صدر جنرل ارشاد حسین نے کرفیو کے اوقات میں تبدیلی کا حکم دیا تاکہ لوگ ان مقابلوں سے لطف اندوز ہو سکیں، میں یہاں نامور پہلوانوں کو ہرا کر ایشین چیمپئن بنا، انوکی نے میرے کھیل سے متاثر ہوکر بھاری معاوضے پر جاپان آنے کی پیشکش کی تاہم میرے والد نے مجھے جانے کی اجازت نہیں دی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے ایک تو خاندان میں فن پہلوانی کو نقصان ہوگا، دوسرا انوکی نے اکرم چچا کو گرایا ہے، اس لیے بھی میرا اس کے ساتھ جانا مناسب نہیں، والدصاحب میں خودداری اور وطن سے محبت کا جذبہ تھا، میں جاپان چلا جاتا تو نہ جانے کتنا عروج مجھے مل جاتا، لیکن انہوں نے منع کردیا تو پھر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، پہلوانی میں بڑوں کا حکم آپ ٹال نہیں سکتے۔
ادب، فنِ پہلوانی کا پہلا اصول ہے، جو بھی اس سے انحراف کرے گا، وہ کامیاب نہیں ہوسکتا، میرے نانا گاما پہلوان رستم زمان بن کر گھر لوٹے تو بے شمار لوگ مبارکباد دینے وہاں آئے، ایسے میں ان کے خلیفہ نے جن کا پہلوان میں بہت دبدبہ تھا، آواز دی ''اوئے گامے چل میرے لئے چلم بھر کر لیا'' والد لوگوں کے بیچ میں سے تیر کی طرح اٹھے اور دوڑے چلم بھرنے کو، خلیفہ نے کہا بس ٹھیک ہے، بیٹھ جاؤ، یہ دیکھنا تھا کہ ذہن میں رستم زمان بننے کا خناس تو نہیں بیٹھ گیا، بدقسمتی سے آج کی نوجوان نسل میں یکسوئی ہے اور نہ ہی شدید محنت کی عادت، یہ دس دن ہلکی پھلکی ورزش کر لیں تو شیشے میں اپنے ڈنڈ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
ان کے نزدیک پہلوانی نام ہے صاف ستھرے کردار کا، ماضی میں اس طرف آنے والے تہجد گزار اور کردار کے کھرے ہوتے تھے، جب بھاری جسم والے ہر ایرے غیرے نے پہلوان کہلوانا شروع کر دیا تو اس شعبے کو بھی زوال آ گیا، بدمعاشی سچے پہلوان کا شیوہ نہیں، والد ہمیں رات کو 2 بجے اٹھا کر ورزش شروع کرا دیتے، ہمیں حکم تھا کہ بیٹھک لگاتے وقت گنتی کی بجائے اللہ ہو کہنا ہے،کشتی کے مقابلوں سے قبل گھروںمیں آیت کریمہ کا ورد کرایا جاتا، پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ہمارے ہاں پہلوانی کا معیار یہ تھا کہ مقامی چیمپئن ہی ورلڈ چیمپئن خیال کیا جاتا، طاقت کا یہ عالم تھا کہ میرے دادا، نانا، والد، چچا دھاتی شیٹ کو کاغذ کی طرح پھاڑ دیتے تھے، وہ جہاں جاتے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے، انہیں دیکھنے کے لیے خواتین اور بچے گھروں کی چھتوں پر امنڈ آتے، عوام مہنگے ٹکٹ خرید کر اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے،اب تو سارا سسٹم ہی ختم ہو چکا۔
اپنی زندگی کے ناخوشگوار واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ناصر بھولونے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان میں فری سٹائل کشتی میں مجھے اپنے چچا گوگا سے نبرد آزما ہونا تھا، اس مقابلے سے ایک روز قبل وہ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے با آسانی ہرادیں گے اور ادھر میں اپنے والد سے کہہ رہا تھا کہ چچا بڑے پہلوان ضرور ہوں گے لیکن کل میں انہیں ہرادوں گا، اپنے چچا گوگا سے میں نے فلائنگ کِک سیکھی تھی، فائٹ کے دوران میں نے انہیں کا سکھایا حربہ آزمایا، جواب میں انہوں نے بھی فلائنگ کک ماری، اس پر پلٹ کر میں نے جو کک ماری وہ ایسے زور سے چچا کے سینے پر لگی کہ ان کے منہ سے فقط اتنا نکلا ''آہستہ'' یہ کہنے کے بعد وہ رنگ کے کونے کے پاس گرے اور انتقال کرگئے، میرے والد سمیت سارا خاندان ادھر موجود تھا، اس واقعے نے ہم پر غموں کا پہاڑ توڑ دیا، اس کی یاد مجھے آج بھی درد میں مبتلا کردیتی ہے۔
آج فن پہلوانی کے زوال کو دیکھتا ہوں تو میرا دل کڑھتا ہے، یہ مہنگا کھیل ہے اور مقابلوں کی تیاریوں کے دوران تو خرچے میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے، اچھے ریسلر کے لیے گوشت، مربے، عرق، مکھن، گھی، بادام، دودھ اور سردائی کا استعمال بہت ضروری ہوتا ہے، متحدہ ہندوستان میں تو راجے مہاراجے باقاعدہ طور پر پہلوانوں کی سرپرستی کرتے تھے، میرے نانا گاما پہلوان کو مہاراجہ پورے بکرے کے ساتھ 100 بیٹروں کی یخنی بھی بنوا کر دیتے تھے، مہنگائی کے اس دور میں کوئی پہلوان بھی پہلوانی کے لیے مہنگی خوراک افیورڈ نہیں کر سکتا، حکومت اور میڈیا کی ساری توجہ کرکٹ کی طرف ہے، حکومت آج بھی فن پہلوانی کی طرف توجہ دے تو صورتحال کافی سدھر سکتی ہے۔
پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، پنڈت جواہر لال نہرو نے ذاتی طور پر ملاقات کر کے انہیں بھارت نہ چھوڑنے کے عوض ہر طرح کی مراعات دینے کی پیشکش کی، مگر وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے، پاکستان آنے کے صرف ایک سال بعد ہی رستم پاکستان کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
بعد ازاں اپنے بھائیوں کے ہمراہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر بے شمار کامیابیاں سمیٹ کر ملک وقوم کا نام روشن کیا، ماضی کے وہ نامور پہلوان حاجی منظورحسین المعروف بھولو پہلوان تھے جو اپنے فن میں یکتا کہلائے، بعد میں باپ کے مشن کو ان کے بیٹے ناصر بھولو نے بھی جاری رکھا اور انٹرنیشنل سطح پر ان گنت کامیابیاں سمیٹ کر دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا، رستم زمان گاما پہلوان رشتے میں ان کے نانا، امام بخش دادا اور میاں نواز شریف کی شریک حیات بیگم کلثوم نواز ان کی سگی خالہ زاد ہیں، وہ 1982ء میں بنگلادیش میں فری سٹائل ریسلنگ میں ایشین چیمپئن بنے۔
نامور جاپانی پہلوان انوکی نے انہیں بھاری معاوضے کے عوض جاپان میں تربیت حاصل کرنے کی پیشکش کی جس کو والد کے کہنے پر ٹھکرادیا، پاکستانی فلم ''چٹان'' میں بطور ہیرو کام بھی کیا، پاکستان میں فن پہلوانی کے زوال کا بڑا سبب وہ اس کھیل سے برتی جانے والی بے توجہی اور کسی قسم کی سرپرستی نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ ماضی کے اس عظیم پہلوان ناصر بھولو سے ''ایکسپریس'' نے ان کی علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں واقع رہائشگاہ میں خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل ذیل میں کچھ یوں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میرا تعلق پہلوانوں کے خاندان سے ہے، نانا گاما پہلوان نے 1910ء میں انگلینڈ میں زوبیسکو کو شکست دے کر رستم زمان کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، ان کا یہ اعزاز 106 برس گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے، دادا امام بخش بھی رستم ہند رہے جبکہ میرے والد بھولو پہلوان سمیت چچا حصوپہلوان، اعظم پہلوان، اسلم پہلوان، اکرم پہلوان اور گوگا پہلوان سب ٹائٹل ہولڈرز تھے، اپنے نانا گاما پہلوان کے زبیسکو کے ساتھ مقابلے کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ وہ 1910 تک برصغیر کے تمام معروف پہلوانوں کو شکست دے چکے تھے، اسی سال انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی امام بخش اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ بحری راستے سے انگلینڈ کا سفر کیا۔
لندن پہنچنے کے بعد انہوں نے یہ کہہ کر تمام یورپی پہلوانوں کو مقابلے کی دعوت مبازرت دی کہ وہ کسی بھی 3 پہلوانوں کو خواہ وہ کسی بھی کیٹگری کے ہوں محض 30 منٹ میں چت کردیں گے، بعد ازاں گاما پہلوان نے اس وقت کے مشہور پہلوانوں زبسکو اور فرینک گوچ کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یا تو وہ انہیں پچھاڑ دے گا بصورت دیگر وہ انہیں انعام کی رقم دے کر اپنے وطن روانہ ہوجائے گا۔
اس اعلان کے بعد پہلے بنجمن رولرنامی امریکی پہلوان گاما کے مقابلے پر آیا اورصرف 40سیکنڈ میں مقابلہ ہار کر چلتا بنا، اگلے دن گاما پہلوان نے 12مزید پہلوانوں کو چت کر کے بین الاقوامی کشتی کے اکھاڑے میں قدم رکھ دیا، یہ صورتحال دیکھ کر اس وقت کے ہیوی ویٹ ورلڈ چیمپئن زبسکو نے گاما کے مد مقابل آنے کا چیلنج قبول کیا، 10ستمبر 1910کو دونوں پہلوانوں کے درمیان کم و بیش ڈھائی گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا لیکن فیصلہ نہ ہو سکا۔
اس صورت حال کے بعد دونوں پہلوانوں کو اگلے مقابلے کے لیے ایک ہفتے بعد یعنی 17ستمبر کی تاریخ دیدی گئی، مقررہ تاریخ کو گاما اکھاڑے میں موجود رہے لیکن ان کا حریف زبسکو مقابلے پر نہ آیا اور اس طرح اصولی طور پر گاما پہلوان کو جان بل بیلٹ دیدی گئی اور یوں گاما دنیا کے نمبر ون پہلوان بن گئے، زبسکو اپنی ہزیمت کو بھولا نہیں تھا اور17سال کی تیاری کے بعد اس نے گاما پہلوان کو چیلنج کردیا۔ 1927 کو برصغیر کے شہر پٹیالہ میں یہ مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں گاما نے زبیسکو کو محض 10منٹ میں ہی پچھاڑ دیا۔
اپنے والد منظورحسین عرف بھولو پہلوان کے بارے میں یادیں تازہ کرتے ہوئے ناصر بھولوکا کہنا تھا کہ وہ رستم ہند امام بخش کے بڑے بیٹے اور رستم زماں گاماں پہلوان کے بھتیجے تھے، یونس پہلوان کو ہرا کر ''رستم پاکستان '' کا اعزاز حاصل کیا ، رستم زماں گاماں کے انتقال کے بعد انہوں نے دنیا بھر کے پہلوانوں کو کشتی لڑنے کا چلینج دیا لیکن جن پہلوانوں نے ان کا چیلنج قبول کیا ان سے کہا کہ صرف وہی شخص ان سے کشتی لڑ سکتا ہے جو پہلے ان کے پانچوں بھائیوں کو باری باری پچھاڑے گا، چنانچہ دنیا کا کوئی بھی پہلوان بھولو سے مقابلے کا اعزاز حاصل نہ کرسکا، دسمبر 1963 میں ان کو گاما کا جانشین مقرر کیا گیا، ان کو گاما کاگرز، سونے کی پیٹی اور زری پگڑی دی گئی۔
اپنے کیریئر کے حوالے سے ناصر بھولو یوں گویا ہوئے کہ پہلی فری سٹائل کشتی میٹرک کے دوران لڑی، جو برابر رہی، اس کے بعد اپنے کیریئر کے دوران کبھی شکست کا سامنا نہیں کیا، زیادہ تر کشتیاں پاکستان، لندن، خلیجی ممالک اور بنگلہ دیش میں لڑیں،1982ء میں بنگلہ دیش کے اندر فری سٹائل کشتیوں کے مقابلے ہوئے جن میں دنیا بھر سے نامور پہلوانوں نے شرکت کی۔
اس تقریب کی خاص بات یہ بھی تھی کہ بنگلہ دیشی صدر جنرل ارشاد حسین نے کرفیو کے اوقات میں تبدیلی کا حکم دیا تاکہ لوگ ان مقابلوں سے لطف اندوز ہو سکیں، میں یہاں نامور پہلوانوں کو ہرا کر ایشین چیمپئن بنا، انوکی نے میرے کھیل سے متاثر ہوکر بھاری معاوضے پر جاپان آنے کی پیشکش کی تاہم میرے والد نے مجھے جانے کی اجازت نہیں دی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے ایک تو خاندان میں فن پہلوانی کو نقصان ہوگا، دوسرا انوکی نے اکرم چچا کو گرایا ہے، اس لیے بھی میرا اس کے ساتھ جانا مناسب نہیں، والدصاحب میں خودداری اور وطن سے محبت کا جذبہ تھا، میں جاپان چلا جاتا تو نہ جانے کتنا عروج مجھے مل جاتا، لیکن انہوں نے منع کردیا تو پھر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، پہلوانی میں بڑوں کا حکم آپ ٹال نہیں سکتے۔
ادب، فنِ پہلوانی کا پہلا اصول ہے، جو بھی اس سے انحراف کرے گا، وہ کامیاب نہیں ہوسکتا، میرے نانا گاما پہلوان رستم زمان بن کر گھر لوٹے تو بے شمار لوگ مبارکباد دینے وہاں آئے، ایسے میں ان کے خلیفہ نے جن کا پہلوان میں بہت دبدبہ تھا، آواز دی ''اوئے گامے چل میرے لئے چلم بھر کر لیا'' والد لوگوں کے بیچ میں سے تیر کی طرح اٹھے اور دوڑے چلم بھرنے کو، خلیفہ نے کہا بس ٹھیک ہے، بیٹھ جاؤ، یہ دیکھنا تھا کہ ذہن میں رستم زمان بننے کا خناس تو نہیں بیٹھ گیا، بدقسمتی سے آج کی نوجوان نسل میں یکسوئی ہے اور نہ ہی شدید محنت کی عادت، یہ دس دن ہلکی پھلکی ورزش کر لیں تو شیشے میں اپنے ڈنڈ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
ان کے نزدیک پہلوانی نام ہے صاف ستھرے کردار کا، ماضی میں اس طرف آنے والے تہجد گزار اور کردار کے کھرے ہوتے تھے، جب بھاری جسم والے ہر ایرے غیرے نے پہلوان کہلوانا شروع کر دیا تو اس شعبے کو بھی زوال آ گیا، بدمعاشی سچے پہلوان کا شیوہ نہیں، والد ہمیں رات کو 2 بجے اٹھا کر ورزش شروع کرا دیتے، ہمیں حکم تھا کہ بیٹھک لگاتے وقت گنتی کی بجائے اللہ ہو کہنا ہے،کشتی کے مقابلوں سے قبل گھروںمیں آیت کریمہ کا ورد کرایا جاتا، پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ہمارے ہاں پہلوانی کا معیار یہ تھا کہ مقامی چیمپئن ہی ورلڈ چیمپئن خیال کیا جاتا، طاقت کا یہ عالم تھا کہ میرے دادا، نانا، والد، چچا دھاتی شیٹ کو کاغذ کی طرح پھاڑ دیتے تھے، وہ جہاں جاتے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے، انہیں دیکھنے کے لیے خواتین اور بچے گھروں کی چھتوں پر امنڈ آتے، عوام مہنگے ٹکٹ خرید کر اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے،اب تو سارا سسٹم ہی ختم ہو چکا۔
اپنی زندگی کے ناخوشگوار واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ناصر بھولونے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان میں فری سٹائل کشتی میں مجھے اپنے چچا گوگا سے نبرد آزما ہونا تھا، اس مقابلے سے ایک روز قبل وہ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے با آسانی ہرادیں گے اور ادھر میں اپنے والد سے کہہ رہا تھا کہ چچا بڑے پہلوان ضرور ہوں گے لیکن کل میں انہیں ہرادوں گا، اپنے چچا گوگا سے میں نے فلائنگ کِک سیکھی تھی، فائٹ کے دوران میں نے انہیں کا سکھایا حربہ آزمایا، جواب میں انہوں نے بھی فلائنگ کک ماری، اس پر پلٹ کر میں نے جو کک ماری وہ ایسے زور سے چچا کے سینے پر لگی کہ ان کے منہ سے فقط اتنا نکلا ''آہستہ'' یہ کہنے کے بعد وہ رنگ کے کونے کے پاس گرے اور انتقال کرگئے، میرے والد سمیت سارا خاندان ادھر موجود تھا، اس واقعے نے ہم پر غموں کا پہاڑ توڑ دیا، اس کی یاد مجھے آج بھی درد میں مبتلا کردیتی ہے۔
آج فن پہلوانی کے زوال کو دیکھتا ہوں تو میرا دل کڑھتا ہے، یہ مہنگا کھیل ہے اور مقابلوں کی تیاریوں کے دوران تو خرچے میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے، اچھے ریسلر کے لیے گوشت، مربے، عرق، مکھن، گھی، بادام، دودھ اور سردائی کا استعمال بہت ضروری ہوتا ہے، متحدہ ہندوستان میں تو راجے مہاراجے باقاعدہ طور پر پہلوانوں کی سرپرستی کرتے تھے، میرے نانا گاما پہلوان کو مہاراجہ پورے بکرے کے ساتھ 100 بیٹروں کی یخنی بھی بنوا کر دیتے تھے، مہنگائی کے اس دور میں کوئی پہلوان بھی پہلوانی کے لیے مہنگی خوراک افیورڈ نہیں کر سکتا، حکومت اور میڈیا کی ساری توجہ کرکٹ کی طرف ہے، حکومت آج بھی فن پہلوانی کی طرف توجہ دے تو صورتحال کافی سدھر سکتی ہے۔