پاکستان کے سخت سفارتی موقف نے امریکا کو مذاکرات پر مجبور کردیا

امریکی حکام پاکستان کوملکی سالمیت اورخود مختاری کا احترام کرنے کی یقین دہانیاں کرانے لگے

تعلقات کی مکمل بحالی کو پاکستان نے ڈورن حملوں کی بندش کی یقین دہانی سے مشروط کر دیا، ذرائع۔ فوٹو: فائل

ڈرون حملے کے بعد پاکستان کے سخت گیر سفارتی موقف نے امریکا کو تعلقات کی بحالی کیلیے مذاکرات پر مجبور کردیا ہے۔

امریکی انتظامیہ گزشتہ کئی دنوں سے پس پردہ سفارتی رابطوں کے توسط پاکستانی حکام سے رابطے میں ہے ۔اس بیک ڈورسفارتی پالیسی کے سبب دونوں ممالک پیدا ہونے والی تناؤ کی صورتحال میں بتدریج کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور امریکا نے تمام معاملات کو مذاکرات سے حل کرنے کیلیے پاکستان کو دوبارہ مذاکرات شروع پر قائل کرلیا ہے۔ اس لیے اعلیٰ سطح پر ان دنوں امریکی حکام کے پاکستان کے دوروں کا سلسلہ جاری ہے۔


ان دوروں میں امریکی حکام پاکستان کو یقین دہانیاں کررہے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کیا جائے گا اور تمام شعبوں میں تعاون سمیت امداد پر عائد کی جانے والی پاپندیوں کے خاتمے کیلیے ہرممکن اقدامات کیے جائیں گے تاہم تعلقات کی مکمل بحالی کو پاکستان نے ڈورن حملوں کی بندش کی یقین دہانی سے مشروط کردیا ہے اور امریکا کو واضح طور پر آگاہ کیا گیا ہے کہ پاکستان بھی تمام معاملات کو مذاکرات سے حل کرنا چاہتا ہے تاہم امریکا کے ساتھ مستقبل میں دوطرفہ تعلقات اس وقت ہی ممکن ہیں جب امریکا پاکستان کے ساتھ تمام شعبوں میں برابری کی سطح پر تعاون کرے گا اور ڈرون حملے نہیں کیے جائیں گے۔

وفاق کے اہم ترین ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں سخت تناؤ پیدا ہوگیا تھا اور سیاسی وعسکری قیادت نے ڈرون حملے کو پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف قرار دیا۔امریکا کو واضح سفارتی پیغام دیا گیا کہ اس طرح کے حملے آئندہ کیے گئے تو پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات پرمکمل نظر ثانی کرسکتا ہے۔ ان تعلقات میں دوریاں مذید اس وقت پیدا ہوئیں جب نیوکلیئر سپلائی گروپ کی رکنیت کیلیے امریکا صرف بھارت کی حمایت کی۔ چین اور دیگر ممالک کی مداخلت کے سبب بھارت اس گروپ میں شامل نہیں ہوسکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا کو معلوم ہے کہ افغان مفاہمتی عمل پاکستان کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔

 
Load Next Story