سپریم کورٹ کا کراچی میں از سر نو انتخابی حلقہ بندیوں کا حکم
حلقہ بندیاں کثیراللسانی ہونی چاہئیں،بینچ ، نئی مردم شماری کے بغیر ایسا ممکن نہیں،ریجنل ڈائریکٹر الیکشن کمیشن
KARACHI:
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں کثیراللسانی انتخابی حلقہ بندیاں تشکیل دینے کاحکم دیاہے ۔
جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے تاحال سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر28 نومبر کوسیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ذاتی طور پرمتعلقہ ریکارڈکے ہمراہ پیش ہونے کاحکم دیا ہے ،فاضل بینچ نے ملزمان کی گرفتاری سے متعلق رینجرزکی رپورٹ مستردکرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل رینجرز کوبھی طلب کیا ہے ،حکومت سندھ کی جانب سے نئی اسلحہ پالیسی عدالت میں پیش کردی گئی ، فاضل بینچ نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ ریاست کی زمینیں کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ بانٹ دی جائیں، اراضی کے80فیصد اندراج غلط ہیں ، سرکاری اراضی جعلی مالکان کو سونپ دی گئی ہے۔
عدالت نے پیرول پر چھوڑے گئے25ملزمان کی تفصیلی فہرست پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے، موجودہ حکومت نے بھی مقدمہ قتل میں ملوث ملزمان کو رہا کیا جس کی قانون میں گنجائش نہیں ، پیر کو سپریم کورٹ کے5 رکنی لارجر بینچ نے بدامنی کیس میں عدالت عظمی کی ہدایات پرعملدرآمدکا جائزہ لیا ،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر عطاالرحمن نے بینچ کے روبرو موقف اختیارکیاکہ نئی مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیوں میں رد وبدل نہیں ہوسکتا،یہ ایکٹ کی دفعہ151(5)(2)سے بھی متصادم ہے ،انھوں نے بینچ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق وطن پارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا تھا،لیکن یہ بات سامنے آئی کہ یہ قابل عمل نہیں ہے ،اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے فیصلے بھی نئی حلقہ بندیوں کیخلاف آچکے ہیں ۔
جسٹس انورظہیر جمالی نے الیکشن کمیشن کے رویے کو معانداہ قراردیتے ہوئے کہاکہ آپ قوانین کی غلط تشریح کررہے ہیں ، آپ انتخابی نشستوں کی کمی بیشی کی بات کررہے ہیں جس کا انحصارمردم شماری پر ہوتا ہے تاہم عدالت عظمی نے آپ کوپہلے سے موجودنشستوں کے حلقوں میں پولرائزیشن کے خاتمے کے لیے ہدایت کی تھی کہ حلقہ بندیاں اس طرح تشکیل دی جائیں کہ یہ کسی ایک گروپ کی جیب میں چلی جائیں بلکہ یہاں مختلف طبقات کی آبادی ہونا چاہیے تاکہ آزادانہ انتخابات ہوسکیں ، انھوںنے الیکشن کمیشن کے نمائندے کے پیش کردہ مواد کے بارے میںکہا کہ یہ مواد پہلے بھی سپریم کورٹ کے روبرو پیش کیا جاچکا ہے اس کے باوجود الیکشن کمیشن کو ہمارے فیصلے میں ابہام نظرآرہا تھا تو نظرثانی کی اپیل یا ریفرنس دائر کرنا چاہیے تھا ، الیکشن کمیشن سپریم کورٹ سے بالاتر ادارہ نہیں کہ اپنے طور پر کوئی بھی فیصلہ کرلے۔
یہاں علاقے بانٹ لیے گئے ہیں، قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ایسی ہونی چاہیں جہاں صرف ایک زبان بولنے والے نہیں مخلتف قومیتیں آباد ہوں ،ملی جلی آبادی پر مشتمل حلقوں سے ہی حقیقی نمائندے منتخب ہوسکتے ہیں ، عدالت نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر سیکریٹری الیکشن کمیشن خود پیش ہوکر وضاحت کریں بصورت دیگر توہین عدالت کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے، ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتاح ملک اور سینئرممبربورڈ آف ریونیو شہزاد شمعون نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری اراضی کے سروے کیلیے کام کاآغاز کردیا گیا ہے اور عدالتی حکم کے مطابق 3ماہ میں سروے مکمل کرلیا جائے گا،سرکاری اراضی کا ریکارڈ ازسرنو مرتب کرنے کاکام بھی شروع کردیا گیا ہے،جعلی دستاویزات تیار کرنے والے بعض مختیارکاروں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ جن افسران کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ان کی تفصیلات پیش کی جائیں، جسٹس امیرہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کی مہربانیوں کے باعث یہ قبضے ہورہے ہیںاور تجاوزات کے خلاف سیل بھی تپے دارکی سربراہی میں قائم کیا گیاہے،جسٹس انورظہیرجمالی نے آبزروکیا کہ جعلی اندراج کیذریعے زمینوں پر قبضے کرائے جاتے ہیںاور اصل مالکان کو نقصان پہنچتا ہے،جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ حالات ٹھیک نہ ہوئے تو معاملہ نیب کو بھیج دیا جائے گا،رینجرز کی جانب سے میجر اشفاق نے ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ اور پولیس کے ساتھ مشترکہ کارروائی کا ریکارڈ پیش کیا جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے مفصل اور جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، فاضل بینچ نے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل رینجرز کو بھی پیش ہونے کی ہدایت کی ۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ یہ رپورٹ جعلی ہے ، رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کے نام اور دیگر تفصیلات بھی بتائی جائیں،یہ بھی بتایا جائے کہ ملزم کو کس رینجرز افسر نے کس وقت گرفتارکیا اور اسے کب اورکس پولیس افسر کے حوالے کیا گیا ،بعض ملزمان کی گرفتاری پر پہلے رینجرزاور بعد میں پولیس پریس کانفرنس کردیتی ہے، اس طرح ملزن کو کبھی سزا نہیں ہوسکتی،رینجرزبعض ملزمان کو دو دو ماہ اپنی حراست میں رکھتی ہے جس سے شواہد ضائع ہوجاتے ہیں، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ کمپیوٹرائزڈ اسلحہ لائسنس کے اجرا کیلیے ترمیمی قانون کا مسودہ تیار کرلیا گیاہے، جس کے اہم نکات یہ ہیں کہ25سال سے کم عمر شہری کواسلحہ لائسنس جاری نہیں کیا جائیگا، لائسنس یافتہ شخص کے کسی جرم میں ملوث ہونے کی صورت میں لائسنس منسوخ کردیا جائیگا، عدالت نے نئے قوانین میں ممنوعہ قرار دئیے گئے بعض اسلحے سے متعلق اعتراض کیا۔
جسٹس سرمدجلال عثمانی نے آبزرو کیا کہ تھری ناٹ تھری(303) اب بازار میں آسانی سے دستیاب ہے اور یہ اسلحہ اب مسلح افواج استعمال نہیں کرتیں جبکہ تمام خودکار ہتھیاروں کو بھی ممنوعہ قرارنہیں دیا جاسکتاکیوں کہ ٹی ٹی جیسی معمولی پستول بھی اب خود کار ہے لہٰذا صرف مسلح افواج کے زیر استعمال اسلحہ کو ہی ممنوعہ قراردیا جائے، جسٹس انورظہیرجمالی نے ہدایت کی کہ اس حوالے سے قانون سازی کیلیے ماہرین اور سابق فوجیوں سے بھی مدد لی جائے،جسٹس امیرہانی مسلم نے ہدایت کی کہ اسلحہ لائسنس کے اجرا کا ایسا نظام ترتیب دیا جائے کہ علاقہ پولیس کی رپورٹ اور اطمینان کے بغیر اسلحہ جاری نہ ہواور پولیس کے پاس بھی مرکزی نظام ہو جس سے کسی اسلحہ لائسنس کو چیک کیا جاسکے،عدالت نے ہدایت کی صوبے بھر میں پولیس کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے تاکہ ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے تو اس کا سابقہ ریکارڈ بھی منسلک ہو،آئی جی سندھ فیاض لغاری نے استفسار پربتایا کہ3سے6ماہ میں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرلیا جائے گا،عدالت نے ہدایت کی کہ ریکارڈ3 ماہ میں مکمل کرلیا جائے، عدالت نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ اس ضمن میں محکمہ پولیس کی مدد کی جائے کیوں کہ امن قائم ہوگا تو دیگر مسائل بھی حل ہوجائیں گے، پراسیکیوٹرجنرل شہادت اعوان نے بتایا کہ پولیس فائل میں ملزمان کاسابق ریکارڈ بھی منسلک کیا جاتا ہے۔
پراسیکیوٹرجنرل شہادت اعوان نے بتایا کہ عدالتی حکم کے مطابق متعلقہ عدالتیں پیرول پر رہا ہونے والے ملزمان کی گرفتاری کیلیے وارنٹ جاری کررہی ہیں،جیل انتظامیہ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ارباب غلام رحیم کے دور میں مجموعی طور پر پیرول پر رہا ہونے والے ملزمان کی تعداد 35نہیں70ہے جبکہ ان کے خلاف درج مقدمات کی70نہیں177ہے، انھوں نے بینچ کے روبروموقف اختیارکیاکہ پیرول اور پروبیشن علیحدہ علیحدہ اصطلاحات ہیں تاہم اکثرانھیں ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ،جس سے غلط فہمی ہوتی ہے ۔
انھوںنے اعتراف کیا کہ ایسے قیدیوں کو رہا کرنا غلط تھا جن کے مقدمات کے فیصلے تاحال نہیں ہوسکے ، پراسیکیوٹر جنرل نے بینچ کو بتایاکہ موجودہ حکومت نے193قیدیوں کورہا کیا تھا ، ان میں سے168 نے اپنی قید کی مدت مکمل کرلی جبکہ 25ملزمان کی قید باقی ہے ،تاہم انھیں قواعد کے مطابق ایک تہائی قید رہا کرنے کے بعد پروبیشن پر رہا کیاگیا، لیکن انھوں نے جو فہرست پیش کی ان میں مقدمہ قتل میں ملوث ملزمان شامل تھے جن کے بارے میں بینچ نے قرار دیاکہ قتل کے ملزم کو کسی قانون کے تحت پیرول ، پروبیشن پر رہا کرنے کی گنجائش نہیں ، بینچ نے ان ملزمان کی رہائی کے احکامات واپس لینے کی ہدایت کی اور پیرول پر رہا ملزمان کاقیام پاکستان سے ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت28نومبرتک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں کثیراللسانی انتخابی حلقہ بندیاں تشکیل دینے کاحکم دیاہے ۔
جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے تاحال سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر28 نومبر کوسیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ذاتی طور پرمتعلقہ ریکارڈکے ہمراہ پیش ہونے کاحکم دیا ہے ،فاضل بینچ نے ملزمان کی گرفتاری سے متعلق رینجرزکی رپورٹ مستردکرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل رینجرز کوبھی طلب کیا ہے ،حکومت سندھ کی جانب سے نئی اسلحہ پالیسی عدالت میں پیش کردی گئی ، فاضل بینچ نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ ریاست کی زمینیں کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ بانٹ دی جائیں، اراضی کے80فیصد اندراج غلط ہیں ، سرکاری اراضی جعلی مالکان کو سونپ دی گئی ہے۔
عدالت نے پیرول پر چھوڑے گئے25ملزمان کی تفصیلی فہرست پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے، موجودہ حکومت نے بھی مقدمہ قتل میں ملوث ملزمان کو رہا کیا جس کی قانون میں گنجائش نہیں ، پیر کو سپریم کورٹ کے5 رکنی لارجر بینچ نے بدامنی کیس میں عدالت عظمی کی ہدایات پرعملدرآمدکا جائزہ لیا ،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر عطاالرحمن نے بینچ کے روبرو موقف اختیارکیاکہ نئی مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیوں میں رد وبدل نہیں ہوسکتا،یہ ایکٹ کی دفعہ151(5)(2)سے بھی متصادم ہے ،انھوں نے بینچ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق وطن پارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا تھا،لیکن یہ بات سامنے آئی کہ یہ قابل عمل نہیں ہے ،اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے فیصلے بھی نئی حلقہ بندیوں کیخلاف آچکے ہیں ۔
جسٹس انورظہیر جمالی نے الیکشن کمیشن کے رویے کو معانداہ قراردیتے ہوئے کہاکہ آپ قوانین کی غلط تشریح کررہے ہیں ، آپ انتخابی نشستوں کی کمی بیشی کی بات کررہے ہیں جس کا انحصارمردم شماری پر ہوتا ہے تاہم عدالت عظمی نے آپ کوپہلے سے موجودنشستوں کے حلقوں میں پولرائزیشن کے خاتمے کے لیے ہدایت کی تھی کہ حلقہ بندیاں اس طرح تشکیل دی جائیں کہ یہ کسی ایک گروپ کی جیب میں چلی جائیں بلکہ یہاں مختلف طبقات کی آبادی ہونا چاہیے تاکہ آزادانہ انتخابات ہوسکیں ، انھوںنے الیکشن کمیشن کے نمائندے کے پیش کردہ مواد کے بارے میںکہا کہ یہ مواد پہلے بھی سپریم کورٹ کے روبرو پیش کیا جاچکا ہے اس کے باوجود الیکشن کمیشن کو ہمارے فیصلے میں ابہام نظرآرہا تھا تو نظرثانی کی اپیل یا ریفرنس دائر کرنا چاہیے تھا ، الیکشن کمیشن سپریم کورٹ سے بالاتر ادارہ نہیں کہ اپنے طور پر کوئی بھی فیصلہ کرلے۔
یہاں علاقے بانٹ لیے گئے ہیں، قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ایسی ہونی چاہیں جہاں صرف ایک زبان بولنے والے نہیں مخلتف قومیتیں آباد ہوں ،ملی جلی آبادی پر مشتمل حلقوں سے ہی حقیقی نمائندے منتخب ہوسکتے ہیں ، عدالت نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر سیکریٹری الیکشن کمیشن خود پیش ہوکر وضاحت کریں بصورت دیگر توہین عدالت کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے، ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتاح ملک اور سینئرممبربورڈ آف ریونیو شہزاد شمعون نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری اراضی کے سروے کیلیے کام کاآغاز کردیا گیا ہے اور عدالتی حکم کے مطابق 3ماہ میں سروے مکمل کرلیا جائے گا،سرکاری اراضی کا ریکارڈ ازسرنو مرتب کرنے کاکام بھی شروع کردیا گیا ہے،جعلی دستاویزات تیار کرنے والے بعض مختیارکاروں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ جن افسران کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ان کی تفصیلات پیش کی جائیں، جسٹس امیرہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کی مہربانیوں کے باعث یہ قبضے ہورہے ہیںاور تجاوزات کے خلاف سیل بھی تپے دارکی سربراہی میں قائم کیا گیاہے،جسٹس انورظہیرجمالی نے آبزروکیا کہ جعلی اندراج کیذریعے زمینوں پر قبضے کرائے جاتے ہیںاور اصل مالکان کو نقصان پہنچتا ہے،جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ حالات ٹھیک نہ ہوئے تو معاملہ نیب کو بھیج دیا جائے گا،رینجرز کی جانب سے میجر اشفاق نے ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ اور پولیس کے ساتھ مشترکہ کارروائی کا ریکارڈ پیش کیا جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے مفصل اور جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، فاضل بینچ نے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل رینجرز کو بھی پیش ہونے کی ہدایت کی ۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ یہ رپورٹ جعلی ہے ، رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کے نام اور دیگر تفصیلات بھی بتائی جائیں،یہ بھی بتایا جائے کہ ملزم کو کس رینجرز افسر نے کس وقت گرفتارکیا اور اسے کب اورکس پولیس افسر کے حوالے کیا گیا ،بعض ملزمان کی گرفتاری پر پہلے رینجرزاور بعد میں پولیس پریس کانفرنس کردیتی ہے، اس طرح ملزن کو کبھی سزا نہیں ہوسکتی،رینجرزبعض ملزمان کو دو دو ماہ اپنی حراست میں رکھتی ہے جس سے شواہد ضائع ہوجاتے ہیں، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ کمپیوٹرائزڈ اسلحہ لائسنس کے اجرا کیلیے ترمیمی قانون کا مسودہ تیار کرلیا گیاہے، جس کے اہم نکات یہ ہیں کہ25سال سے کم عمر شہری کواسلحہ لائسنس جاری نہیں کیا جائیگا، لائسنس یافتہ شخص کے کسی جرم میں ملوث ہونے کی صورت میں لائسنس منسوخ کردیا جائیگا، عدالت نے نئے قوانین میں ممنوعہ قرار دئیے گئے بعض اسلحے سے متعلق اعتراض کیا۔
جسٹس سرمدجلال عثمانی نے آبزرو کیا کہ تھری ناٹ تھری(303) اب بازار میں آسانی سے دستیاب ہے اور یہ اسلحہ اب مسلح افواج استعمال نہیں کرتیں جبکہ تمام خودکار ہتھیاروں کو بھی ممنوعہ قرارنہیں دیا جاسکتاکیوں کہ ٹی ٹی جیسی معمولی پستول بھی اب خود کار ہے لہٰذا صرف مسلح افواج کے زیر استعمال اسلحہ کو ہی ممنوعہ قراردیا جائے، جسٹس انورظہیرجمالی نے ہدایت کی کہ اس حوالے سے قانون سازی کیلیے ماہرین اور سابق فوجیوں سے بھی مدد لی جائے،جسٹس امیرہانی مسلم نے ہدایت کی کہ اسلحہ لائسنس کے اجرا کا ایسا نظام ترتیب دیا جائے کہ علاقہ پولیس کی رپورٹ اور اطمینان کے بغیر اسلحہ جاری نہ ہواور پولیس کے پاس بھی مرکزی نظام ہو جس سے کسی اسلحہ لائسنس کو چیک کیا جاسکے،عدالت نے ہدایت کی صوبے بھر میں پولیس کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے تاکہ ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے تو اس کا سابقہ ریکارڈ بھی منسلک ہو،آئی جی سندھ فیاض لغاری نے استفسار پربتایا کہ3سے6ماہ میں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرلیا جائے گا،عدالت نے ہدایت کی کہ ریکارڈ3 ماہ میں مکمل کرلیا جائے، عدالت نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ اس ضمن میں محکمہ پولیس کی مدد کی جائے کیوں کہ امن قائم ہوگا تو دیگر مسائل بھی حل ہوجائیں گے، پراسیکیوٹرجنرل شہادت اعوان نے بتایا کہ پولیس فائل میں ملزمان کاسابق ریکارڈ بھی منسلک کیا جاتا ہے۔
پراسیکیوٹرجنرل شہادت اعوان نے بتایا کہ عدالتی حکم کے مطابق متعلقہ عدالتیں پیرول پر رہا ہونے والے ملزمان کی گرفتاری کیلیے وارنٹ جاری کررہی ہیں،جیل انتظامیہ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ارباب غلام رحیم کے دور میں مجموعی طور پر پیرول پر رہا ہونے والے ملزمان کی تعداد 35نہیں70ہے جبکہ ان کے خلاف درج مقدمات کی70نہیں177ہے، انھوں نے بینچ کے روبروموقف اختیارکیاکہ پیرول اور پروبیشن علیحدہ علیحدہ اصطلاحات ہیں تاہم اکثرانھیں ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ،جس سے غلط فہمی ہوتی ہے ۔
انھوںنے اعتراف کیا کہ ایسے قیدیوں کو رہا کرنا غلط تھا جن کے مقدمات کے فیصلے تاحال نہیں ہوسکے ، پراسیکیوٹر جنرل نے بینچ کو بتایاکہ موجودہ حکومت نے193قیدیوں کورہا کیا تھا ، ان میں سے168 نے اپنی قید کی مدت مکمل کرلی جبکہ 25ملزمان کی قید باقی ہے ،تاہم انھیں قواعد کے مطابق ایک تہائی قید رہا کرنے کے بعد پروبیشن پر رہا کیاگیا، لیکن انھوں نے جو فہرست پیش کی ان میں مقدمہ قتل میں ملوث ملزمان شامل تھے جن کے بارے میں بینچ نے قرار دیاکہ قتل کے ملزم کو کسی قانون کے تحت پیرول ، پروبیشن پر رہا کرنے کی گنجائش نہیں ، بینچ نے ان ملزمان کی رہائی کے احکامات واپس لینے کی ہدایت کی اور پیرول پر رہا ملزمان کاقیام پاکستان سے ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت28نومبرتک ملتوی کردی۔