رحمتیں بنیں زحمتیں
یہ خطہ جو برصغیر کہلاتا ہے، یہاں صدیوں سے موسموں کا ایک لگا بندھا نظام چلا آرہا ہے
SIALKOT:
گزشتہ منگل کو تین برس بعد بڑی دعاؤں اور تمناؤں کے نتیجے میں کہیں جاکر کراچی میں تیز ہواؤں کے ساتھ کوئی آدھ گھنٹے ابرکرم برسا۔ پیاسی زمین سیراب ہوئی۔ مرجھائے ہوئے چہروں پر مسرت کی لہریں دوڑیں۔ مگر یہ خوشی، یہ مسرت حسب روایت عارضی ثابت ہوئی۔ کیونکہ بارش کے ساتھ ہی شہری انتظام کی تمام تر بدنمائی کھل کر سامنے آ گئی۔ چند ہی لمحوں میں چھوٹی بڑی سڑکیں تالابوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔
گٹر جو پہلے سے ابل رہے تھے، ان میں مزید طغیانی آگئی۔ شہر میں جابجا بکھرا ہوا کچرا بارش کے پانی کے ساتھ سڑکوں اور گلیوں میں پھیل گیا۔ چھوٹی موٹی سڑکوں کو تو جانے دیجیے، شہر کی اہم ترین شاہراہ فیصل کے دونوں ٹریک ایک بڑے تالاب کا منظر پیش کررہے تھے، جس سے گاڑیاں کشتیوں کی مانند تیر کر گزر رہی تھیں۔ اس پر طرہ یہ کہ بجلی کے غائب ہوجانے سے پورا شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔
ہم ایکسپریس میڈیا کی جانب سے دیے گئے افطار ڈنر میں شریک تھے۔ واپسی کا سفر جس میں ایک گھنٹہ لگتا ہے، خدا خدا کر کے سوا دو گھنٹوں میں مکمل ہوا۔ کیونکہ پورا شہر وینس بنا ہوا تھا۔ گھر پہنچے تو بجلی ندارد۔ اطلاع ملی کہ تیز ہوا سے ہائی ٹینشن کے تار گرجانے کے باعث بجلی کی بحالی میں تاخیر کے خدشات ہیں۔ یوں 25 منٹ کی بارش کے مزے لوٹنے کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑا کہ 48 گھنٹے تک بجلی سے محروم رہے۔ ہم تو خیر کھلے علاقے کے ہوادار گھر میں رہتے ہیں، مگر جو لوگ فلیٹوں میں رہتے ہیں شدید گرمی اور حبس میں بغیر بجلی انھوں نے کیسے گزارا کیا، یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔
یہ احوال اس شہر کا ہے، جو ملک کا سب سے بڑا شہر اور کاروباری مرکز ہے۔ جو قومی خزانے میں 66 فیصد ریونیو دیتا ہے اور ملک بھر کے محنت کشوں کو پالتا ہے۔ مگر مسلسل حکمرانوں کی بے اعتناعی کا شکار چلا آ رہا ہے، جس کی داستان بہت طویل ہے۔ جتنا ریونیو یہ خزانے کو دیتا ہے، اس کا عشر عشیر بھی اس پر نہیں لگتا۔ جس شہر میں رہتا ہوں، اس کا مقدمہ لڑنا تو اولین ذمے داری ہوتی ہے، مگر میرے پیش نظر پورا ملک ہے، جس کا ہر شہر، قصبہ اور دیہات بنیادی شہری سہولیات سے جس انداز میں محروم رکھا گیا ہے، وہ ایک طویل داستان الم ہے۔
کئی بار لکھا، پھر عرض ہے کہ پاکستان کو دو بحرانوں کا سامنا ہے۔ ایک ریاست کے منطقی جواز کا بحران، جس نے غلط حکمت عملیوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ دوسرا گورننس کا بحران جس کی وجہ سے ملک کا ہر شہری اچھے خاصے وسائل ہونے کے باوجود ان گنت مسائل میں الجھا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہوکر نفسیاتی مریض بنتا چلا جا رہا ہے۔
یہ خطہ جو برصغیر کہلاتا ہے، یہاں صدیوں سے موسموں کا ایک لگا بندھا نظام چلا آرہا ہے۔ نومبر سے فروری تک سردی۔ فروری سے اوائل اپریل تک بہار، پھر جون کے نصف تک شدید گرمی۔ اس کے بعد مون سون کی بارشیں، جن کا سلسلہ ستمبر کے اوائل تک جاری رہتا ہے۔ انگریز جو ایک بالکل مختلف خطے اور موسمیاتی نظام سے آیا تھا، ڈھائی سو برس کے قیام کے دوران اس نے اس خطے کے چپہ چپہ کے قدرتی اور انسانی معاملات کے بارے میں مکمل آگہی حاصل کر لی۔
جس کی ایک مثال تھر ہے۔ جس کے بارے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اگر 15 اگست تک بارش نہ ہو، تو اس علاقے کو قحط زدہ قرار دے دیا جائے۔ بمبئی پریذیڈنسی کے گورنر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق کلکٹر (ڈپٹی کمشنر) کو ہدایات تھیں کہ ایسی صورتحال میں وہ فوری طور پر علاقے میں غذائی اجناس اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اس نوٹیفکیشن پر 1947ء تک تسلسل کے ساتھ عمل ہوا۔ مگر بعد میں آنے والے مقامی حکمرانوں نے اس نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کی زحمت گوارا نہیں کی۔ چنانچہ 68 برسوں سے یہ علاقہ ہر سال جس عذاب سے دوچار ہوتا ہے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
کیا کبھی کسی نے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی کہ 1888ء میں قائم ہونے والا پنجاب کا نہری نظام، جس کی بدولت اوکاڑہ سے خانیوال تک کا علاقہ سیراب ہوکر سرسبز و شاداب ہوا۔ سندھ کی بنجر اور بے آب وگیاہ زمینوں کو آباد کرنے کے لیے 1923ء میں سکھر کے مقام پر جس بیراج کی تعمیر کا آغاز ہوا، اس سے نکلنے والی سات نہریں 1932ء میں اس کی تکمیل کے بعد سے سندھ کے طول و عرض کو سیراب کررہی ہیں، انگریزکی بصیرت اور کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔
وہ انگریز جو اس خطے پر نوآبادیاتی حکمران تھا اور دیگر یورپی اقوام یعنی پرتگالیوں، ولندیزیوں اور فرانسیسیوں کی طرح اپنی نوآبادیات کو پسماندہ رکھ کر ان کے وسائل کا بے دریغ تصرف کر سکتا تھا۔ مگر اس نے ہر شعبہ حیات کے لیے قوانین، عدالتی نظام اور ادارے قائم کرکے دیے، پورے ہندوستان کو ریل اور سڑکوں کے ذریعے ملادیا۔ جدید تعلیم اور صحت کی سہولیات کا بندوبست اس کے سوا تھا۔ مگر ہماری حکمران اشرافیہ نے اپنی نااہلی، کوتاہ بینی اور موقع پرستی کے سبب اس ورثے کو بھی تباہ کر دیا۔
وجہ یہ ہے کہ انگریز نے ہر معاملے کو باریک بینی سے سمجھنے کی کوشش کی۔ اپنے خطے کے قدرتی معاملات اور موسمیاتی نظام کو اگر کوئی نہ سمجھ سکا تو وہ مقامی حکمران اشرافیہ ہے، جو جدی پشتی اس علاقے کی باسی ہونے کی دعویدار تو ہے، مگر معصومیت کا یہ عالم ہے کہ اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ نالوں کی صفائی کن مہینوں میں ضروری ہے، بارش کا پانی ضایع ہونے سے بچانے کے لیے کون سے پیشگی اقدامات ضروری ہیں، گرمیوں میں بجلی کا شارٹ فال کتنا ہو جاتا ہے اور کیوں ہو جاتا ہے۔ ہر سال آبادی میں جو اضافہ ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں آنے والے برسوں میں کن کن سہولیات میں کتنے فیصد اضافے کی ضرورت ہوتی ہے۔
چنانچہ ہر سال مون سون آتا ہے، کبھی کم کبھی زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ ہر سال لاکھوں کیوسک پانی بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے، شہر تالاب بنتے ہیں، ہفتوں پانی سڑکر مختلف بیماریاں پھیلاتا ہے۔ ہر سال ہاہاکار ہوتی ہے، مگر نتیجہ صفر۔ حکمرانوں کو اپنے کاروبار بڑھانے، بیرون ملک کاروباری سرگرمیاں وسیع کرنے اور اپنے خاندان اور احباب کو نواز نے سے فرصت ملے تو کسی اور طرف دیکھیں۔ یہی کچھ معاملہ قدرتی آفات کا ہے، ہر سال کوئی نہ کوئی قدرتی آفت سر اٹھائے کھڑی ہوتی ہے۔ کبھی سیلاب، کبھی زلزلہ یا کوئی اور آفت آکر منہ چڑاتی ہے۔
حکمرانوں کو اندازہ ہے کہ جب کوئی آفت آئے گی تو اچھی خاصی بیرونی امداد گھر بیٹھے مل جائے گی۔ اس لیے ذہن کو تھکانے کی کیا ضرورت ہے۔ جب بھیک پر گزارا ہورہا ہو، تو محنت کرنے کی ضرورت؟ لہٰذا جب امداد مل ہی جاتی ہے، تو پھر کسی قدرتی آفت سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
اس سلسلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ 1680ء میں مدراس پریسیڈنسی میں پہلی بار محدود مقامی حکومتی نظام متعارف کرایا تاکہ مقامی لوگ شہری امور کے حل کی کوششوں کا حصہ بن سکیں۔ اس نظام میں نصف اراکین مقامی ہوتے تھے، جو مخصوص طریقہ انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے تھے، جب کہ نصف اراکین کمپنی بہادر کے نامزد کردہ ہوا کرتے تھے۔
1757ء میں بنگال کی فتح کے بعد یہ نظام بنگال میں بھی رائج کیا گیا، جب کہ 1857ء میں ابھرنے والی بغاوت کو کچلنے کے بعد جب ہندوستان مکمل طور پر تاج برطانیہ کے زیر اثر آ گیا تو 1880ء میں مقامی حکومتی نظام پورے ہندوستان میں رائج کر دیا گیا۔ مگر انگریز کے جانے کے بعد منقسم ہونے والے ہندوستان کے اس حصے میں تو مقامی حکومتوں کے نظام کو نہ صرف رائج رکھا گیا، بلکہ تبدیل ہوتے تقاضوں کے مطابق اس کو بہتر بنانے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ 1992ء میں آئین میں 73 ویں اور 74 ویں ترامیم کے ذریعے تین درجہ مقامی حکومتی نظام متعارف کرایا گیا، جو دیہی علاقوں کے لیے ''پنچائیت راج'' اور شہری علاقوں کے لیے ''نگر پالیکا'' کہلاتا ہے۔
پاکستان کو بھی بھارت کی طرح بلدیاتی انتظامی ڈھانچہ ورثے میں ملا تھا۔ مگر فیوڈل مائنڈ سیٹ رکھنے والی قیادت جو ابتدائی نو برس تک ملک کو آئین نہیں دے سکی، اس سے اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی کس طرح توقع کی جاسکتی تھی۔ جو جہوریت کے نام پر جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بیخ کنی پر آمادہ ہو، اس سے عوامی مفادات میں فیصلوں کی کس طرح تمنا کی جاسکتی ہے۔
مجھے وطن عزیز کی اس سیاسی قیادت پر حیرت ہوتی ہے جو، جو بو کر گندم کے اگنے کی خواہش رکھتی تھی۔ یعنی ملک میں Parity اور ون یونٹ جیسے جمہوریت کش انتظامی ڈھانچوں کے ذریعے جمہوریت لانے کی خواہشمند ہو۔ یہی مزاج آج بھی غالب ہے۔ صوبائی خود مختاری کی تو بات کی جاتی ہے، مگر جب اقتدار واختیار مزید نچلی سطح پر منتقلی کرنے کی بات آتی ہے، تو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ مختلف تاویلات دے کر اس نظام سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیونکہ اس طرح جو ایک مخصوص سیاسی اشرافیہ پیدا ہوگئی ہے، اس کی بالادستی ختم ہونے کے خدشات نظر آنے لگتے ہیں۔ بالادست اسٹیبلشمنٹ اور منصوبہ سازوں کا ذکر ہی کیا، وہ تو 18 ویں آئینی ترمیم تک کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ متوشش شہری، اہل دانش اور ذرایع ابلاغ یہ فیصلہ کریں کہ ہر وہ سیاسی جماعت جو اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک حقیقی منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے، کسی بھی طور جمہوری سیاسی جماعت نہیں ہے۔ اچھی حکمرانی (Good Governance) پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ شراکتی جمہوریت ہی اس ملک کے عوام کے فوری مسائل کا واحد حل ہے۔ بصورت دیگر ہر سال اﷲ کی رحمت اس کے بندوں کے لیے حکمرانی کی کوتاہ بینی اور نااہلی کے سبب زحمت بنتی رہے گی۔
گزشتہ منگل کو تین برس بعد بڑی دعاؤں اور تمناؤں کے نتیجے میں کہیں جاکر کراچی میں تیز ہواؤں کے ساتھ کوئی آدھ گھنٹے ابرکرم برسا۔ پیاسی زمین سیراب ہوئی۔ مرجھائے ہوئے چہروں پر مسرت کی لہریں دوڑیں۔ مگر یہ خوشی، یہ مسرت حسب روایت عارضی ثابت ہوئی۔ کیونکہ بارش کے ساتھ ہی شہری انتظام کی تمام تر بدنمائی کھل کر سامنے آ گئی۔ چند ہی لمحوں میں چھوٹی بڑی سڑکیں تالابوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔
گٹر جو پہلے سے ابل رہے تھے، ان میں مزید طغیانی آگئی۔ شہر میں جابجا بکھرا ہوا کچرا بارش کے پانی کے ساتھ سڑکوں اور گلیوں میں پھیل گیا۔ چھوٹی موٹی سڑکوں کو تو جانے دیجیے، شہر کی اہم ترین شاہراہ فیصل کے دونوں ٹریک ایک بڑے تالاب کا منظر پیش کررہے تھے، جس سے گاڑیاں کشتیوں کی مانند تیر کر گزر رہی تھیں۔ اس پر طرہ یہ کہ بجلی کے غائب ہوجانے سے پورا شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔
ہم ایکسپریس میڈیا کی جانب سے دیے گئے افطار ڈنر میں شریک تھے۔ واپسی کا سفر جس میں ایک گھنٹہ لگتا ہے، خدا خدا کر کے سوا دو گھنٹوں میں مکمل ہوا۔ کیونکہ پورا شہر وینس بنا ہوا تھا۔ گھر پہنچے تو بجلی ندارد۔ اطلاع ملی کہ تیز ہوا سے ہائی ٹینشن کے تار گرجانے کے باعث بجلی کی بحالی میں تاخیر کے خدشات ہیں۔ یوں 25 منٹ کی بارش کے مزے لوٹنے کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑا کہ 48 گھنٹے تک بجلی سے محروم رہے۔ ہم تو خیر کھلے علاقے کے ہوادار گھر میں رہتے ہیں، مگر جو لوگ فلیٹوں میں رہتے ہیں شدید گرمی اور حبس میں بغیر بجلی انھوں نے کیسے گزارا کیا، یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔
یہ احوال اس شہر کا ہے، جو ملک کا سب سے بڑا شہر اور کاروباری مرکز ہے۔ جو قومی خزانے میں 66 فیصد ریونیو دیتا ہے اور ملک بھر کے محنت کشوں کو پالتا ہے۔ مگر مسلسل حکمرانوں کی بے اعتناعی کا شکار چلا آ رہا ہے، جس کی داستان بہت طویل ہے۔ جتنا ریونیو یہ خزانے کو دیتا ہے، اس کا عشر عشیر بھی اس پر نہیں لگتا۔ جس شہر میں رہتا ہوں، اس کا مقدمہ لڑنا تو اولین ذمے داری ہوتی ہے، مگر میرے پیش نظر پورا ملک ہے، جس کا ہر شہر، قصبہ اور دیہات بنیادی شہری سہولیات سے جس انداز میں محروم رکھا گیا ہے، وہ ایک طویل داستان الم ہے۔
کئی بار لکھا، پھر عرض ہے کہ پاکستان کو دو بحرانوں کا سامنا ہے۔ ایک ریاست کے منطقی جواز کا بحران، جس نے غلط حکمت عملیوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ دوسرا گورننس کا بحران جس کی وجہ سے ملک کا ہر شہری اچھے خاصے وسائل ہونے کے باوجود ان گنت مسائل میں الجھا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہوکر نفسیاتی مریض بنتا چلا جا رہا ہے۔
یہ خطہ جو برصغیر کہلاتا ہے، یہاں صدیوں سے موسموں کا ایک لگا بندھا نظام چلا آرہا ہے۔ نومبر سے فروری تک سردی۔ فروری سے اوائل اپریل تک بہار، پھر جون کے نصف تک شدید گرمی۔ اس کے بعد مون سون کی بارشیں، جن کا سلسلہ ستمبر کے اوائل تک جاری رہتا ہے۔ انگریز جو ایک بالکل مختلف خطے اور موسمیاتی نظام سے آیا تھا، ڈھائی سو برس کے قیام کے دوران اس نے اس خطے کے چپہ چپہ کے قدرتی اور انسانی معاملات کے بارے میں مکمل آگہی حاصل کر لی۔
جس کی ایک مثال تھر ہے۔ جس کے بارے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اگر 15 اگست تک بارش نہ ہو، تو اس علاقے کو قحط زدہ قرار دے دیا جائے۔ بمبئی پریذیڈنسی کے گورنر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق کلکٹر (ڈپٹی کمشنر) کو ہدایات تھیں کہ ایسی صورتحال میں وہ فوری طور پر علاقے میں غذائی اجناس اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اس نوٹیفکیشن پر 1947ء تک تسلسل کے ساتھ عمل ہوا۔ مگر بعد میں آنے والے مقامی حکمرانوں نے اس نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کی زحمت گوارا نہیں کی۔ چنانچہ 68 برسوں سے یہ علاقہ ہر سال جس عذاب سے دوچار ہوتا ہے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
کیا کبھی کسی نے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی کہ 1888ء میں قائم ہونے والا پنجاب کا نہری نظام، جس کی بدولت اوکاڑہ سے خانیوال تک کا علاقہ سیراب ہوکر سرسبز و شاداب ہوا۔ سندھ کی بنجر اور بے آب وگیاہ زمینوں کو آباد کرنے کے لیے 1923ء میں سکھر کے مقام پر جس بیراج کی تعمیر کا آغاز ہوا، اس سے نکلنے والی سات نہریں 1932ء میں اس کی تکمیل کے بعد سے سندھ کے طول و عرض کو سیراب کررہی ہیں، انگریزکی بصیرت اور کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔
وہ انگریز جو اس خطے پر نوآبادیاتی حکمران تھا اور دیگر یورپی اقوام یعنی پرتگالیوں، ولندیزیوں اور فرانسیسیوں کی طرح اپنی نوآبادیات کو پسماندہ رکھ کر ان کے وسائل کا بے دریغ تصرف کر سکتا تھا۔ مگر اس نے ہر شعبہ حیات کے لیے قوانین، عدالتی نظام اور ادارے قائم کرکے دیے، پورے ہندوستان کو ریل اور سڑکوں کے ذریعے ملادیا۔ جدید تعلیم اور صحت کی سہولیات کا بندوبست اس کے سوا تھا۔ مگر ہماری حکمران اشرافیہ نے اپنی نااہلی، کوتاہ بینی اور موقع پرستی کے سبب اس ورثے کو بھی تباہ کر دیا۔
وجہ یہ ہے کہ انگریز نے ہر معاملے کو باریک بینی سے سمجھنے کی کوشش کی۔ اپنے خطے کے قدرتی معاملات اور موسمیاتی نظام کو اگر کوئی نہ سمجھ سکا تو وہ مقامی حکمران اشرافیہ ہے، جو جدی پشتی اس علاقے کی باسی ہونے کی دعویدار تو ہے، مگر معصومیت کا یہ عالم ہے کہ اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ نالوں کی صفائی کن مہینوں میں ضروری ہے، بارش کا پانی ضایع ہونے سے بچانے کے لیے کون سے پیشگی اقدامات ضروری ہیں، گرمیوں میں بجلی کا شارٹ فال کتنا ہو جاتا ہے اور کیوں ہو جاتا ہے۔ ہر سال آبادی میں جو اضافہ ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں آنے والے برسوں میں کن کن سہولیات میں کتنے فیصد اضافے کی ضرورت ہوتی ہے۔
چنانچہ ہر سال مون سون آتا ہے، کبھی کم کبھی زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ ہر سال لاکھوں کیوسک پانی بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے، شہر تالاب بنتے ہیں، ہفتوں پانی سڑکر مختلف بیماریاں پھیلاتا ہے۔ ہر سال ہاہاکار ہوتی ہے، مگر نتیجہ صفر۔ حکمرانوں کو اپنے کاروبار بڑھانے، بیرون ملک کاروباری سرگرمیاں وسیع کرنے اور اپنے خاندان اور احباب کو نواز نے سے فرصت ملے تو کسی اور طرف دیکھیں۔ یہی کچھ معاملہ قدرتی آفات کا ہے، ہر سال کوئی نہ کوئی قدرتی آفت سر اٹھائے کھڑی ہوتی ہے۔ کبھی سیلاب، کبھی زلزلہ یا کوئی اور آفت آکر منہ چڑاتی ہے۔
حکمرانوں کو اندازہ ہے کہ جب کوئی آفت آئے گی تو اچھی خاصی بیرونی امداد گھر بیٹھے مل جائے گی۔ اس لیے ذہن کو تھکانے کی کیا ضرورت ہے۔ جب بھیک پر گزارا ہورہا ہو، تو محنت کرنے کی ضرورت؟ لہٰذا جب امداد مل ہی جاتی ہے، تو پھر کسی قدرتی آفت سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
اس سلسلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ 1680ء میں مدراس پریسیڈنسی میں پہلی بار محدود مقامی حکومتی نظام متعارف کرایا تاکہ مقامی لوگ شہری امور کے حل کی کوششوں کا حصہ بن سکیں۔ اس نظام میں نصف اراکین مقامی ہوتے تھے، جو مخصوص طریقہ انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے تھے، جب کہ نصف اراکین کمپنی بہادر کے نامزد کردہ ہوا کرتے تھے۔
1757ء میں بنگال کی فتح کے بعد یہ نظام بنگال میں بھی رائج کیا گیا، جب کہ 1857ء میں ابھرنے والی بغاوت کو کچلنے کے بعد جب ہندوستان مکمل طور پر تاج برطانیہ کے زیر اثر آ گیا تو 1880ء میں مقامی حکومتی نظام پورے ہندوستان میں رائج کر دیا گیا۔ مگر انگریز کے جانے کے بعد منقسم ہونے والے ہندوستان کے اس حصے میں تو مقامی حکومتوں کے نظام کو نہ صرف رائج رکھا گیا، بلکہ تبدیل ہوتے تقاضوں کے مطابق اس کو بہتر بنانے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ 1992ء میں آئین میں 73 ویں اور 74 ویں ترامیم کے ذریعے تین درجہ مقامی حکومتی نظام متعارف کرایا گیا، جو دیہی علاقوں کے لیے ''پنچائیت راج'' اور شہری علاقوں کے لیے ''نگر پالیکا'' کہلاتا ہے۔
پاکستان کو بھی بھارت کی طرح بلدیاتی انتظامی ڈھانچہ ورثے میں ملا تھا۔ مگر فیوڈل مائنڈ سیٹ رکھنے والی قیادت جو ابتدائی نو برس تک ملک کو آئین نہیں دے سکی، اس سے اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی کس طرح توقع کی جاسکتی تھی۔ جو جہوریت کے نام پر جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بیخ کنی پر آمادہ ہو، اس سے عوامی مفادات میں فیصلوں کی کس طرح تمنا کی جاسکتی ہے۔
مجھے وطن عزیز کی اس سیاسی قیادت پر حیرت ہوتی ہے جو، جو بو کر گندم کے اگنے کی خواہش رکھتی تھی۔ یعنی ملک میں Parity اور ون یونٹ جیسے جمہوریت کش انتظامی ڈھانچوں کے ذریعے جمہوریت لانے کی خواہشمند ہو۔ یہی مزاج آج بھی غالب ہے۔ صوبائی خود مختاری کی تو بات کی جاتی ہے، مگر جب اقتدار واختیار مزید نچلی سطح پر منتقلی کرنے کی بات آتی ہے، تو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ مختلف تاویلات دے کر اس نظام سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیونکہ اس طرح جو ایک مخصوص سیاسی اشرافیہ پیدا ہوگئی ہے، اس کی بالادستی ختم ہونے کے خدشات نظر آنے لگتے ہیں۔ بالادست اسٹیبلشمنٹ اور منصوبہ سازوں کا ذکر ہی کیا، وہ تو 18 ویں آئینی ترمیم تک کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ متوشش شہری، اہل دانش اور ذرایع ابلاغ یہ فیصلہ کریں کہ ہر وہ سیاسی جماعت جو اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک حقیقی منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے، کسی بھی طور جمہوری سیاسی جماعت نہیں ہے۔ اچھی حکمرانی (Good Governance) پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ شراکتی جمہوریت ہی اس ملک کے عوام کے فوری مسائل کا واحد حل ہے۔ بصورت دیگر ہر سال اﷲ کی رحمت اس کے بندوں کے لیے حکمرانی کی کوتاہ بینی اور نااہلی کے سبب زحمت بنتی رہے گی۔