برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی

برطانوی عوام کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

برطانوی عوام کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ریفرنڈم 23 جون 2016ء کو ہوا۔ اس سے پہلے اس کے بارے میں طویل بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ برطانیہ یورپی یونین میں 1973ء میں شامل ہوا۔ شروع سے ہی اس کے مخالفین برطانیہ کی یونین میں شمولیت کے بارے میں مخالفت کرنے لگے۔ بہت سے وہ برطانوی تھے جو یونین میں شامل ہونا اپنی شناخت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ برطانیہ نے ایک زمانے میں دنیا پر حکومت کی۔ ان کی اپنی تہذیبی اور تاریخی روایات ہیں۔ وہ برطانوی جو یونین میں شامل ہونے کے خلاف تھے وہ چھوٹی یورپین اقوام کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی پہچان گنوانا نہیں چاہتے تھے۔

یورپی یونین 28 یورپی اقوام پر مشتمل تھی۔ برطانیہ کے نکلنے کے باوجود یہ اتحاد اپنی جگہ قائم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کے اس اتحاد کے نکلنے سے سب سے زیادہ فائدہ جرمنی کو ہو گا۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت شمار ہوتا ہے۔ جرمنی میں اس اتحاد کا نام ''اوروپا گیمائنڈ شافٹ'' ہے۔ دنیا میں دو بڑی عالمی جنگیں دنیا کی تجارتی منڈیوں پر قبضے کی جنگیں تھیں۔

برطانیہ نے چونکہ دنیا کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا جہاں پر اس کی صنعتوں کی پیداوار کی کھپت با آسانی ہو سکتی تھی۔ سائنسی ترقی نے بڑے پیمانے پر تیز رفتار صنعتی ترقی کو ممکن بنا دیا تھا جب کہ جرمنی، فرانس، اٹلی اور اسپین کے پاس بہت کم مقبوضہ علاقہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنی پیداوار کی کھپت کریں تو کہاں کریں۔ بنیادی طور پر یہ مسئلہ ہی پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا باعث بنا۔ ان دونوں جنگوں میں مجموعی طور پر 8 کروڑ لوگ مارے گئے۔ زیادہ تر جانی نقصان جرمنی فرانس برطانیہ اور روس کا ہوا۔ اس جانی نقصان سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مالی نقصان کتنا ہوا ہو گا۔ اس کا تو شمار ہی ممکن نہیں۔ شہر کے شہر کھنڈر بن گئے۔ اس میں جاپان میں انسانی تاریخ کی ہولناک ایٹمی جنگ کی تباہی بھی شامل ہے۔

اس بے پناہ جانی اور مالی تباہی کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی قیادت نے فیصلہ کیا کہ مستقبل میں کسی عالمی جنگ سے بچنے کے لیے یورپین اتحاد کی شکل میں ایک بڑی منڈی کو وجود میں لایا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ یورپین اور مغربی اقوام ایک دوسرے سے لڑتے لڑتے سرمایہ دارانہ نظام کا ہی خاتمہ کر بیٹھیں۔ یاد رہے کہ یہ پہلی عالمی جنگ میں سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہی تھا جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سوشلزم پر مبنی کسان اور مزدور کی حکومت سوویت یونین کو جنم دیا۔

برطانیہ کے یورپین یونین سے نکلنے کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاؤنڈ کی قیمت گر کر 1985ء کی سطح پر آ گئی۔ برطانوی معیشت کو شدید بحران اور غیریقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ اس کا اثر امریکی عالمی اسٹاک مارکیٹس پر یہ پڑا کہ وہ شدید مندی کا شکار ہو گئیں۔ خود پاکستانی اسٹاک مارکیٹ بھی اس کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکی۔ ریفرنڈم سے قبل امریکی صدر باراک اوباما نے بھی خبردار کیا تھا کہ یونین سے علیحدگی کے نتیجے میں برطانوی معیشت پر طویل مدت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔


ریفرنڈم کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں نوجوانوں نے یورپین یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا جب بزرگ نسل نے اس کے خلاف۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی رہنماؤں کے انتباہ کے باوجود برطانیوں نے اس پر کان کیوں نہیں دھرے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ یورپین یونین میں توسیع ہوتی گئی اور اس میں یورپ کے وہ ملک بھی شامل ہو گئے جو کمتر معیشت کے حامل تھے۔ چنانچہ وہاں سے تیس لاکھ افراد نے بہتر اجرت کے حصول کے لیے برطانیہ کا رخ کر لیا۔ جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں میں بے روز گاری بڑھی تو دوسری طرف ان کا معیار زندگی بھی گرنے لگا۔ اتنی بڑی تعداد میں دوسرے یورپین ملکوں سے آنے والے افراد کی وجہ سے صحت اور روز گاری نظام کے فیل ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ ریفرنڈم کے بعد یورپین رہنما برطانیہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد یورپین یونین سے نکل جائے۔ اس سلسلے میں یورپین رہنما برطانیہ پر واضع کر رہے ہیں کہ اب وہ اس اتحاد میں واپس نہیں آ سکتا نہ اس پر مزید بات ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف ایک بڑی تعداد یہ کہہ رہی ہے کہ ریفرنڈم دوبارہ کرایا جائے۔ اس کے لیے ایک عرضداشت پر بیس پچیس لاکھ افراد نے دستخط کر دیے ہیں۔

جیسے ہی ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان ہوا برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ازخود بغیر کسی کے مطالبہ کیے اپنے استعفیٰ کا اعلان کر دیا۔ تصور کریں کہ اگر یہ صورت حال میں پاکستان میں ہوتی تو یہاں کیا ہوتا۔کوشش یہ ہوتی کہ چاہے جان چلی جائے۔ ملک میں احتجاج اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو جائے لیکن وزیراعظم کی گدی ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ برطانوی وزیراعظم کا استعفی اسے کہتے ہیں سچی جمہوریت۔ بات ساری مائنڈ سیٹ کی ہے۔

ہمارے عوام ہوں یا سیاستدان حکمران ہوں یا اسٹیبلشمنٹ اوپر سے لے کر نیچے' سب کی قدیم اور پسماندہ سوچ ہے۔ جانے کتنے زمانے لگیں گے ہمیں برطانیہ جیسی جمہوریت کے معیار تک پہنچنے کے لیے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ جمہوریت کے نام پر بادشاہت فرمائی جا رہی ہے۔ بھائی بیٹا بیٹی بھتیجا دیگر رشتہ دار بادشاہت کے مزے لوٹ رہے ہیں ملک ذاتی جاگیر بنا ہوا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سچی جمہوریت میں اقربا پروری کو سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ کوئی اس پر عمل درآمد تو درکنار ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر کوئی بدقسمت ایسا کرے تو سیاست سے ہمیشہ کے لیے فارغ اور جیل اس کا مقدر ہوتی ہے۔

برطانیہ کے یورپی یونین کے حوالے سے جولائی اور اگست کا آخر اہم وقت ہے۔
Load Next Story