جواب دو

اس غزل کو گلوکارہ ناہید نیازی نے گایا تھا اور اس کی طرز موسیقار خلیل احمد نے بنائی تھی

1961-62 میں ایک فلم بننا شروع ہوئی تھی۔ اس فلم کا نام تھا ''جواب دو'' اور جب اس فلم میں حبیب جالب کی غزل شامل کی گئی۔

جاگنے والو جاگو، مگر خاموش رہو
کل کیا ہوا، کس کو خبر، خاموش رہو

اس غزل کو گلوکارہ ناہید نیازی نے گایا تھا اور اس کی طرز موسیقار خلیل احمد نے بنائی تھی۔ اس غزل کو فلم میں شامل کرنے کے بعد فلم کے ہدایت کار غالباً جمیل اختر اور کہانی نویس یقیناً ریاض شاہد نے فلم کا نام بدل دیا۔ فلم کا نیا نام تھا ''خاموش رہو''۔ ان ہی دنوں اپنے زمانے کے مشہور فلمی اخبار نگار نے ایک تصویر شائع کی، جس میں ہدایت کار جمیل اختر، کہانی نویس ریاض شاہد کو دکھایا گیا تھا، جنھوں نے اپنے ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھی ہوئی تھی اور تصویر کے نیچے لکھا تھا فلم ''جواب دو'' کا نام تبدیل کرکے ''خاموش رہو'' رکھ دیا گیا۔ ''خاموش رہو'' بڑی کامیاب فلم رہی۔ اس فلم میں اداکار محمد علی نے بڑا جاندار اور یادگار کردار ادا کیا تھا۔

ویسے ''جواب دو'' بھی بڑا اچھا نام ہے۔ بڑا معنی خیز۔ میرے خیال میں اس نام سے بھی فلم ضرور بننا چاہیے اور خصوصاً آج کے حالات میں یہ نعرہ ہو، اسی نعرے کو پھیلاکر فلم کی کہانی لکھی جائے۔

''ظالمو جواب دو' خون کا حساب دو''

پاکستان کی سیاست میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جب کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نے صحافی کے سوال پر ساتھ کھڑے اپنے صوبائی وزیر داخلہ کا بازو پکڑ کر اسے مائیک کے سامنے لاتے ہوئے کہا ''جواب دو سندھ حکومت، جواب دو''۔ اندرونی پارٹی میٹنگز میں تو پارٹی سربراہ وزرا کی کلاس لیتے ہی ہیں، مگر سرعام کلاس لینا بڑا واقعہ ہے۔

یہ پارٹی سربراہ بلاول بھٹو ہے، وہی بلاول بھٹو، بی بی بے نظیر شہید کا بیٹا اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کا نواسا۔ مجھے نہیں پتا کہ بلاول کو اپنے مقروض ہونے کا احساس ہے کہ نہیں! اگر ہے تو بڑا اچھا ہے اور اگر نہیں تو نا سہی۔ وہ جالب نے لکھا تھا ناں:

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

بلاول نے جواب مانگا ہے تو اچھا ہے اور اگر نہیں تو اب ہر رستہ، ہر گلی، ہر چوراہا یہ جواب مانگے گا۔


آخرکار وقت آن ہی پہنچا۔ یوں ہی ذرا سا دھیان موضوع سے بھٹکا ہے کہ ''آن ہی پہنچا'' صحیح ہے۔ کہیں اردو غلط تو نہیں ہوگئی؟ ''پر مجھے گفتگو عوام سے ہے'' جو میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ بات پہنچ رہی ہے۔

اجاڑے (تقسیم ہند، قیام پاکستان) کے بعد سے گھر گھر اجڑا ہی پڑا ہوا ہے۔ جو بھی حکومتیں آئیں، حکمراں آئے، ان سب نے اپنی مرضی کے مطابق کام کیے، اپنے کاروبار وسیع کیے، بینکوں میں پڑی عوام کی دولت بطور قرضہ وصول کی، کارخانے لگائے۔ جنرل ایوب کے زمانے میں کراچی میں بڑے کارخانے بنے، مزدوروں کو روزگار ملا، مگر وہ جو انگریز ''کالوں'' کو بحری جہاز چلانے کے لیے کوڑے مارتے تھے، اسی طرح مزدوروں کا خون چوسا گیا اور ان کے دن رات سخت کے سخت ہی رہے۔ ''ہیں سخت بہت بندۂ مزدور کے اوقات''۔ ملوں پہ ملیں بنتی رہیں، کارخانے بنتے رہے۔ فیصل آباد مانچسٹر بن گیا، رحیم یار خان میں بہت بڑی انڈسٹریل اسٹیٹ بنالی۔ پھر شوگر ملوں کا دور چلا۔ بینک لٹتے رہے، قرض چلتے رہے، ملیں بنتی رہیں، قرض معاف ہوتے رہے۔ اور ''ہیں سخت بہت بندۂ مزدور کے اوقات'' یوں ہی رہا۔

پاکستان کے حصے میں جو زمین آئی وہ زرعی تھی۔ ادھر مشرقی پاکستان میں گنا، چاول، پٹ سن، چائے، ادھر مغربی پاکستان میں کون سی فصل تھی جو کاشت نہیں ہوتی تھی۔ پھلوں سے لدے باغات ادھر بھی تھے اور ادھر بھی تھے اور قابض تھے انگریز کے پٹھو۔ ان کے غلام جاگیردار، سردار، وڈیرے، خان، جنھوں نے ادھر کے لیے کہا ''بنگالی کو بھوکا رکھو'' اور یہی فارمولا ادھر کے ہاری، کسانوں، مزدوروں کے لیے بھی روا رکھا گیا۔ مزدوروں کے حالات نہ بدلے۔ وہ اپنے کچے گھروندوں، جھونپڑوں میں ہی پڑے گلتے سڑتے رہے، مرتے رہے اور انگریزوں کی غلامی کے عوض زمینیں حاصل کرنے والے زمیندار محل پہ محل بناتے رہے۔ جالب کا شعر اور بھی دلوں کو بھڑکائے گا (میں جب کالم لکھتا ہوں تو بھڑک رہا ہوتا ہوں)

جو لوگ جھونپڑوں میں پڑے تھے پڑے رہے

کچھ اور اہل زر نے بنالیں عمارتیں

وقت گزرتا گیا، ظلم بڑھتا گیا، غریب کو روٹی کپڑا مکان کسی نے نہ دیا، بلکہ جو تھوڑا بہت غریب کے پلے تھا وہ بھی چھین لیا۔ 69 سال ہوگئے ملک بنے اور آج بھی ''وہی حالات ہیں فقیروں کے/ دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے/ سازشیں ہیں وہی خلاف عوام/ مشورے ہیں وہی مشیروں کے/ بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی/ وہی دن رات ہیں اسیروں کے/ ہر بلاول ہے دیس کا مقروض/ پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے۔

ابھی کل ہی ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا سندھ کے وڈیرے کی نقل کرتے ہوئے پنجاب کے جاگیردار نے غریب مزدور کے منہ میں اپنا جوتا دے دیا۔

پہلے تو ہم گاؤں دیہاتوں کا رونا روتے تھے۔ اب تو شہروں میں بھی شہری وڈیرے، جاگیردار پیدا ہوئے زمانہ ہوگیا ہے۔ جسے چاہا اس کے نام کی سپاری جاری کردی، یعنی قتل کے احکامات جاری کردیے۔ لاکھوں روپے بھتے کی پرچیاں جاری کردیں۔ اپنی اپنی اسٹیٹ، جاگیریں بنالیں، کوئی غیر اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ ان شہری جاگیرداروں کے بچے دن دہاڑے یا رات گئے ڈاکے ڈالتے ہیں، ان کی ہیبت ناک سیاہ گاڑیاں مسلح گارڈز سے لدی پھندی، دن رات شہروں کی سڑکوں پر گھومتی ہیں اور ''بے چارے پولیس والے'' انھیں دیکھ کر نظریں جھکا لیتے ہیں۔

آج نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ یہ لٹیرے حکمران، ڈاکو حکمران، خصوصاً گزشتہ تیس سالہ حکمران لوٹ مار کرکے روپیہ پیسہ باہر کے بینکوں میں لے گئے ہیں۔ ان ظالموں نے باہر جائیدادیں بنالی ہیں۔ انھیں چھینک آجائے تو علاج کروانے باہر چلے جاتے ہیں اور غریب بے چارہ سرکاری اسپتالوں میں بنا دوا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتا ہے۔

اب جواب دینے کا وقت آگیا ہے۔ تھر بھی جواب مانگ رہا ہے، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان سب جواب مانگ رہے ہیں۔ شہروں کے بے بس، نہتے شہری بھی، شہری جاگیرداروں سے جواب مانگ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہ بھی جواب مانگ رہے ہیں۔ یہ جو سڑکوں پر نکلنے کا کہہ رہے ہیں، کسی بھول میں نہ رہیں۔ اب کی بار سڑکیں جواب طلب کریں گی اور جواب سب کو دینا ہوگا۔ کیا ایوانوں والے، کیا ایوانوں سے باہر والے، سڑکیں اس بار کسی کو نہیں چھوڑیں گی۔ اب کی بار ایک ہی نعرے کی گونج سنائی دے گی۔

ظالمو! جواب دو... خون کا حساب دو!
Load Next Story