قبائلی علاقہ جات میں اصلاحات وقت کا تقاضا
واقعات کچھ بھی ہوںفاٹا ہمیشہ نہ صرف ملک بلکہ ساری دنیا کا مر کز نگاہ رہا ہے
واقعات کچھ بھی ہوںفاٹا ہمیشہ نہ صرف ملک بلکہ ساری دنیا کا مر کز نگاہ رہا ہے،اور اب بھی ہے۔ قومی سطح پر تو یہ حقیقت مسلمہ ہے ہی، لیکن عالمی سطح پر بھی اس حقیقت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔یہ خطہ اس وقت بھی بہت سی طاقتوں کی توجہ کا مرکز تھا جب مواصلات کا جدید نظام تو دور کی بات، شاہراؤں کا نظام بھی مفقود تھا اور آج جب کہ برق رفتاری سے تبدیلیاں رونما ہیں، تب بھی ساری دنیا کی نظریں کسی نہ کسی بہانے اس پر لگی رہتی ہیں۔
اس حوالے سے قانونی و انتظامی اصلاحات کے پہلو کو بھی مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔بیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے وہ تمام علاقے جو آج خیبر پختون خوا کا حصہ ہیں، کم و بیش اسی نو ع کے قوانین کے تابع تھے جو فاٹا میں ایک عرصے سے رائج ہیں۔سیاسی و سماجی ترقی تبدیلی کا زینہ ثابت ہوئی اور رفتہ رفتہ لوگ قومی دھارے میں شامل ہوتے گئے۔آزادی کے بعد حالات نے تیزی سے پلٹا کھایا اور خیبر پختونخوا اور فاٹا میں شامل علاقوں کے مابین حکومتی عمل داری، قوانین اور ریاست اور عوام کے درمیان تعلقات الگ الگ نہج پر پروان چڑھنے لگے۔ساٹھ کی دھا ئی کے اواخر میں ایک بڑی تبدیلی پاٹا یعنی صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کی صورت میں رونما ہو ئی جب چھوٹی چھو ٹی ریاستوں کو مدغم کر کے، صوبے کے زیر انتظام قبا ئلی علاقہ جات کا نا م دیا گیا۔
قانونی و انتظامی اصلاحات کے حوالے سے رواں کوششوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طویل عرصے تک آزمائشوں اور مشکلات سے گذرنے کے بعد وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کے عوام کے لیے بھی بہتر مستقبل کی راہ نکالی جا رہی ہے اور اس حوالے سے یہ خبریں آئی ہیں کہ پہلے مرحلے میں عدالتوں کو قبائلی علاقوں تک رسائی ملے گی اور پھر بتدریج اسے انتظامی صوبے کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ ماضی میں بھی اس مقصد کے لیے مختلف امکانات کا جا ئزہ لیا جا تا رہا؛ لائحہ عمل بھی وضع ہوتے رہے اور کسی حد تک عملی اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قبائلی عوام کی نمایندگی یقینا ایک بڑا قدم ثابت ہوئی تھی۔ قبائلی عوام نے اس تبدیلی کو تسلیم بھی کیا، افادیت بھی حاصل کی اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جا ری جنگ کی کیفیت کے تناظر میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری ایک بڑا قدم ثابت ہو ئی۔ نقل مکانی کرنے والے قبائل کی اپنے متعلقہ علاقوں کو واپسی کا عمل اس سال کے اختتام تک مکمل کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔تعمیر نو کا سلسلہ بھی جاری ہے۔لیکن سب سے اہم بات وزیر اعظم محمد نواز شریف کی جانب سے قائم کر دہ فاٹا اصلاحات کمیٹی کی طرف سے اپنی تجاویز کو حتمی شکل دینے کی اطلاعات ہیں۔ ان اصلاحات کو اگر اخباری اطلاعات کے مطابق حتمی شکل مل جا تی ہے اور ان پر عمل درآمد بھی ہو جا تا ہے تو یہ واقعتاً ایک اہم ترین پیشرفت ہو گی۔ اس سے قبائلی علاقے میں ایک صدی سے زائد عرصے سے رائج قانون کی نوعیت جسے عرف عام میں کالا قانون بھی کہا جا تا رہاہے ،بڑی حد تک بدل جا ئے گی۔ ہر شہری کی جان و مال کی ذمے داری متعلقہ علاقے کے لوگوں کے مشترکہ کردار کی بجائے، ریاست کے کاندھوں پر آن پڑے گی۔
بہ الفاظ دیگر مشترکہ ذمے داری کا قانون ختم ہو جا ئے گا، اگر اخباری اطلاعات درست ہیں تو فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کا لب لباب یہ بھی ہے کہ با لآخر قبائلی علاقہ جات صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ بن جا ئیں گے۔ یوں گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے قبائلی علاقہ جات میں رائج فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ایکٹ کی وہ تمام دفعات جو انسانی حقوق کے منافی تصور کی جا تی رہی ہیں، ختم ہو جا ئیں گی اور ان کی جگہ مسلمہ سیاسی و جمہوری حقوق کے ضامن قوانین جگہ لے لیں گے۔ یہ سب کچھ ممکن بنانے کے لیے مختلف مراحل اور مدارج کا بھی تعین کیا جا رہا ہے۔
ظاہر ہے انتظامی امور کو مستحکم کرنے، امن و امان،شہریوں کے حقوق اور جان و مال کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے بھی ان کے تقاضو ں سے ہم آہنگ انتظامات بھی یقینی بنانا ہو ں گے۔ جہاں تک سیاسی و جمہوری حقوق کا تعلق ہے ،گو کہ قبائلی علاقہ جا ت سے قو می اسمبلی اور سینیٹ کے لیے اراکین کا انتخاب کم و بیش اسی انداز سے ہو تا ہے جیسے ملک کے دیگر حصو ں میں ہو تا ہے،لیکن متعلقہ ایوانوں کے اندر قبائلی علاقہ جات کے حوالے سے ان کا کردار علامتی نوعیت کا ہو تا ہے۔ وہ ووٹ کا حق بھی استعمال کر تے ہیںاور وفاقی کابینہ میں بھی شامل ہو جا تے ہیںلیکن خود قبائلی علاقہ جا ت کے حوالے سے قانون سازی میں حصہ لینا ان کی صوابدید نہیں ہو تی۔ مزید برآں قبائلی عوام کو نہ تو صوبائی اسمبلی جیسے کسی ادارے میں نمایندگی حاصل ہے اور نہ ہی وہاں پر بلدیاتی اداروں کا وجود مو جود ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق کمیٹی نے فاٹا میں بندو بست اراضی، سماجی ترقی،حکومتی اور ریاستی اداروں کی استعداد کار میں اضافے،ملک کی بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت اور پاکستان اور افغانستان کے مابین راہداری نظام کو ٹھو س خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھی تجاویز مرتب کی ہیں۔ یقیناً وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم اس اعلی اختیاراتی کمیٹی نے جو انتہا ئی ذمے دار اور زیرک شخصیات پر مشتمل ہے کافی محنت اور جانفشانی سے اپنی سفارشات کو حتمی شکل دی ہو گی، اور یہ اس کی ذمے داریوں کا یقیناً تقا ضا بھی تھا۔ قانونی و انسانی حقوق کے امور نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی متعلقہ اداروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنتے رہے اور حکومت وقت کو اکثر آزمائش کا سامنا بھی کرنا پڑتا رہا ہے۔
ان تمام تر امور کی انجام دہی کے لیے مالی و مادی وسائل کے ساتھ ساتھ وقت بھی درکار ہو گا۔ یہ تاریخی حقیقت بھی یقیناً کمیٹی کے زیر غور آئی ہو گی کہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کو محض نام و تعارف بدلنے کے لیے بھی ستر برس کا عرصہ بیتا ہے اور اب بھی اس قانون کا یہ ناقابل قبول نام ، بدستور تجاویز کی شکل میں زیر بحث ہی نہیں زیر عمل بھی ہے۔چہ جائیکہ اسے بیک جنبش قلم ہی بدلا جا سکتا تھا۔ اس ضمن میں یقیناً مشکلات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اب جب کہ حکومت قبائلی علاقہ جات کے عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے جا رہی ہے تو، اصلاحات کا عمل دوررس سوچ و فکر کے ساتھ درست بنیادوں پر استوار ہو نا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر پھر سے ماضی کی پیچیدگیوں کے اعادے کا سامنا کرنا پڑے۔
ماحول کو سمجھنے، جانچنے ، پرکھنے اور وقت کی نزاکتوں کا ادراک کرنے کے حوالے سے خود قبائلی عوام کے ذہنوں میں قبولیت کے احساس کا جو معیار آج ہے،نہ ماضی میں کبھی تھا اور نہ مستقبل قریب میںاس کا امکان ہو سکتا ہے۔ لہذا ہر لحاظ سے ایسی بنیادیں قائم کی جا نی چاہئیں جن پر کھڑی کی جا نیوالی عمارت کو مستقبل میں صرف اور صرف مستحکم ہی کرنا مقصود ہو نہ کہ نئی قائم کی جا نیوالی بنیادوں کو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پھر سے اکھاڑنے کی ضرورت محسوس ہو۔منزل کی جانب سمت اور راستے کا تعین کرنا ہی درحقیقت مشکل آزمائش ہو تی ہے اور اگر ایسا ہو جا ئے تو سفر کی سہولیات اور لوازمات کو بہتر اور فعال بنانے کی کوششیں وقت کے ساتھ ساتھ جاری رہتی ہیں۔
اس حوالے سے قانونی و انتظامی اصلاحات کے پہلو کو بھی مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔بیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے وہ تمام علاقے جو آج خیبر پختون خوا کا حصہ ہیں، کم و بیش اسی نو ع کے قوانین کے تابع تھے جو فاٹا میں ایک عرصے سے رائج ہیں۔سیاسی و سماجی ترقی تبدیلی کا زینہ ثابت ہوئی اور رفتہ رفتہ لوگ قومی دھارے میں شامل ہوتے گئے۔آزادی کے بعد حالات نے تیزی سے پلٹا کھایا اور خیبر پختونخوا اور فاٹا میں شامل علاقوں کے مابین حکومتی عمل داری، قوانین اور ریاست اور عوام کے درمیان تعلقات الگ الگ نہج پر پروان چڑھنے لگے۔ساٹھ کی دھا ئی کے اواخر میں ایک بڑی تبدیلی پاٹا یعنی صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کی صورت میں رونما ہو ئی جب چھوٹی چھو ٹی ریاستوں کو مدغم کر کے، صوبے کے زیر انتظام قبا ئلی علاقہ جات کا نا م دیا گیا۔
قانونی و انتظامی اصلاحات کے حوالے سے رواں کوششوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طویل عرصے تک آزمائشوں اور مشکلات سے گذرنے کے بعد وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کے عوام کے لیے بھی بہتر مستقبل کی راہ نکالی جا رہی ہے اور اس حوالے سے یہ خبریں آئی ہیں کہ پہلے مرحلے میں عدالتوں کو قبائلی علاقوں تک رسائی ملے گی اور پھر بتدریج اسے انتظامی صوبے کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ ماضی میں بھی اس مقصد کے لیے مختلف امکانات کا جا ئزہ لیا جا تا رہا؛ لائحہ عمل بھی وضع ہوتے رہے اور کسی حد تک عملی اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قبائلی عوام کی نمایندگی یقینا ایک بڑا قدم ثابت ہوئی تھی۔ قبائلی عوام نے اس تبدیلی کو تسلیم بھی کیا، افادیت بھی حاصل کی اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جا ری جنگ کی کیفیت کے تناظر میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری ایک بڑا قدم ثابت ہو ئی۔ نقل مکانی کرنے والے قبائل کی اپنے متعلقہ علاقوں کو واپسی کا عمل اس سال کے اختتام تک مکمل کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔تعمیر نو کا سلسلہ بھی جاری ہے۔لیکن سب سے اہم بات وزیر اعظم محمد نواز شریف کی جانب سے قائم کر دہ فاٹا اصلاحات کمیٹی کی طرف سے اپنی تجاویز کو حتمی شکل دینے کی اطلاعات ہیں۔ ان اصلاحات کو اگر اخباری اطلاعات کے مطابق حتمی شکل مل جا تی ہے اور ان پر عمل درآمد بھی ہو جا تا ہے تو یہ واقعتاً ایک اہم ترین پیشرفت ہو گی۔ اس سے قبائلی علاقے میں ایک صدی سے زائد عرصے سے رائج قانون کی نوعیت جسے عرف عام میں کالا قانون بھی کہا جا تا رہاہے ،بڑی حد تک بدل جا ئے گی۔ ہر شہری کی جان و مال کی ذمے داری متعلقہ علاقے کے لوگوں کے مشترکہ کردار کی بجائے، ریاست کے کاندھوں پر آن پڑے گی۔
بہ الفاظ دیگر مشترکہ ذمے داری کا قانون ختم ہو جا ئے گا، اگر اخباری اطلاعات درست ہیں تو فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کا لب لباب یہ بھی ہے کہ با لآخر قبائلی علاقہ جات صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ بن جا ئیں گے۔ یوں گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے قبائلی علاقہ جات میں رائج فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ایکٹ کی وہ تمام دفعات جو انسانی حقوق کے منافی تصور کی جا تی رہی ہیں، ختم ہو جا ئیں گی اور ان کی جگہ مسلمہ سیاسی و جمہوری حقوق کے ضامن قوانین جگہ لے لیں گے۔ یہ سب کچھ ممکن بنانے کے لیے مختلف مراحل اور مدارج کا بھی تعین کیا جا رہا ہے۔
ظاہر ہے انتظامی امور کو مستحکم کرنے، امن و امان،شہریوں کے حقوق اور جان و مال کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے بھی ان کے تقاضو ں سے ہم آہنگ انتظامات بھی یقینی بنانا ہو ں گے۔ جہاں تک سیاسی و جمہوری حقوق کا تعلق ہے ،گو کہ قبائلی علاقہ جا ت سے قو می اسمبلی اور سینیٹ کے لیے اراکین کا انتخاب کم و بیش اسی انداز سے ہو تا ہے جیسے ملک کے دیگر حصو ں میں ہو تا ہے،لیکن متعلقہ ایوانوں کے اندر قبائلی علاقہ جات کے حوالے سے ان کا کردار علامتی نوعیت کا ہو تا ہے۔ وہ ووٹ کا حق بھی استعمال کر تے ہیںاور وفاقی کابینہ میں بھی شامل ہو جا تے ہیںلیکن خود قبائلی علاقہ جا ت کے حوالے سے قانون سازی میں حصہ لینا ان کی صوابدید نہیں ہو تی۔ مزید برآں قبائلی عوام کو نہ تو صوبائی اسمبلی جیسے کسی ادارے میں نمایندگی حاصل ہے اور نہ ہی وہاں پر بلدیاتی اداروں کا وجود مو جود ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق کمیٹی نے فاٹا میں بندو بست اراضی، سماجی ترقی،حکومتی اور ریاستی اداروں کی استعداد کار میں اضافے،ملک کی بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت اور پاکستان اور افغانستان کے مابین راہداری نظام کو ٹھو س خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھی تجاویز مرتب کی ہیں۔ یقیناً وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم اس اعلی اختیاراتی کمیٹی نے جو انتہا ئی ذمے دار اور زیرک شخصیات پر مشتمل ہے کافی محنت اور جانفشانی سے اپنی سفارشات کو حتمی شکل دی ہو گی، اور یہ اس کی ذمے داریوں کا یقیناً تقا ضا بھی تھا۔ قانونی و انسانی حقوق کے امور نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی متعلقہ اداروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنتے رہے اور حکومت وقت کو اکثر آزمائش کا سامنا بھی کرنا پڑتا رہا ہے۔
ان تمام تر امور کی انجام دہی کے لیے مالی و مادی وسائل کے ساتھ ساتھ وقت بھی درکار ہو گا۔ یہ تاریخی حقیقت بھی یقیناً کمیٹی کے زیر غور آئی ہو گی کہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کو محض نام و تعارف بدلنے کے لیے بھی ستر برس کا عرصہ بیتا ہے اور اب بھی اس قانون کا یہ ناقابل قبول نام ، بدستور تجاویز کی شکل میں زیر بحث ہی نہیں زیر عمل بھی ہے۔چہ جائیکہ اسے بیک جنبش قلم ہی بدلا جا سکتا تھا۔ اس ضمن میں یقیناً مشکلات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اب جب کہ حکومت قبائلی علاقہ جات کے عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے جا رہی ہے تو، اصلاحات کا عمل دوررس سوچ و فکر کے ساتھ درست بنیادوں پر استوار ہو نا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر پھر سے ماضی کی پیچیدگیوں کے اعادے کا سامنا کرنا پڑے۔
ماحول کو سمجھنے، جانچنے ، پرکھنے اور وقت کی نزاکتوں کا ادراک کرنے کے حوالے سے خود قبائلی عوام کے ذہنوں میں قبولیت کے احساس کا جو معیار آج ہے،نہ ماضی میں کبھی تھا اور نہ مستقبل قریب میںاس کا امکان ہو سکتا ہے۔ لہذا ہر لحاظ سے ایسی بنیادیں قائم کی جا نی چاہئیں جن پر کھڑی کی جا نیوالی عمارت کو مستقبل میں صرف اور صرف مستحکم ہی کرنا مقصود ہو نہ کہ نئی قائم کی جا نیوالی بنیادوں کو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پھر سے اکھاڑنے کی ضرورت محسوس ہو۔منزل کی جانب سمت اور راستے کا تعین کرنا ہی درحقیقت مشکل آزمائش ہو تی ہے اور اگر ایسا ہو جا ئے تو سفر کی سہولیات اور لوازمات کو بہتر اور فعال بنانے کی کوششیں وقت کے ساتھ ساتھ جاری رہتی ہیں۔