دوسری شادی کی اہمیت
عورت کو بیوگی اور تنہائی کے دکھوں سے چھٹکارہ کون دلائے گا؟ معاشرے کے ذمہ دار، دانشور، سماجی رہنما یا علماء حضرات؟
KARACHI:
چند روز قبل خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے والی ایک انجمن کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں بیوہ اور مطلقہ خواتین کی 'دوسری شادی' سے متعلق امور ِ مشاورت میں تعاون کے لئے کہا گیا۔ سر دست تو ہم نے اس سلسلے میں اہل اور موزوں ترین ایک سینئر خاتون سے ان کا رابطہ کروادیا اور اس 'بڑوں' والے 'بڑے' کام سے خود کو بظاہر الگ کرلیا مگر خاتون ہونے اور خواتین سے رابطے میں رہنے کے باعث یہ موضوع مختلف حوالوں سے میرے ذہن میں مستقل موجود رہنے لگا۔ متعلقہ واقعات و مشاہدات نگاہوں کے سامنے آکر اس موضوع کی اہمیت کو دوچند کرنے لگے۔
تقریباََ ایک برس قبل خواتین اہل قلم کی ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس ورکشاپ کے اختتام پر متعلقہ موضوع سے ہٹ کر ایک ایسے موضوع کا تذکرہ کردیا گیا جس نے مسلسل 3 گھنٹے سے پروگرام میں مصروف شرکاء کو جیسے ہلکی سی تازگی فراہم کردی اور وہ موضوع تھا ''مرد و خواتین کی دوسری شادی''۔ میزبان نے معاشرے کے بدلتے ہوئے حساس حالات کا تجزیہ رکھتے ہوئے سامعین سے اس بارے میں سوچنے اور کچھ کرنے کی درخواست کی۔ اس طرح ایک بڑے کام کے چھوٹے سے تذکرے نے سامعین کو اس حساس معاشرتی موضوع پر غور کرنے اور تحریر کے لئے ایک اہم عنوان کی جانب متوجہ کردیا۔ اُس وقت تو اس غیر متوقع موضوع سے متعلق ہمارے احساسات و خیالات بھی دیگر کی طرح کچھ عجیب سے ہی تھے کہ آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں ایک شادی کو ہی نبھانا مشکل ہے اور یہ دوسری شادی؟۔
اتفاقیہ عمل درآمد کی بات تو الگ ہے کہ کسی کے شوہر یا بیوی کے انتقال کے بعد اس کی جگہ دوسری یا دوسرا ہم سفر آجائے۔ پھر ہمارے لئے یہ گمان بھی مشکل تھا کہ اس مفاد پرستی کے دور میں کوئی خاتون اتنا بڑا دل کرے کہ اپنے شوہر کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہی 'دوسری' کا بنا دے۔ پھر چند دن ہی گزرے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے گمان کو یقین سے ہمکنار فرما دیا۔ ایک ایسی خاتون سے ہماری ملاقات کا اتفاق ہوا جن کی کچھ عرصہ قبل ہی دوسری شادی ہوئی تھی۔ خاتون نے بتایا کہ پہلے شوہر کے انتقال کے بعد نکاح ثانی کے لئے ان کے 9 رشتے آئے تھے (ان میں 8 عالم حضرات کے تھے)۔ بڑی حیران کن بات لگی کیوںکہ وہ خاتون نہ کم عمر تھیں اور نہ ہی بے اولاد۔ پھر مزید حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ جو رشتہ انہوں نے قبول کیا اور جہاں ان کی دوسری شادی ہوئی وہ ان کی عزیز سہیلی کے شوہر کا تھا جو کہ سہیلی صاحبہ خود ہی لائی تھیں۔ اس رشتے کی وجہ کوئی ظاہری یا دنیاوی مسئلہ نہ تھا۔ پھر خوب صورتی، عمر اور مال و اولاد کے معاملے میں دونوں خواتین یکساں تھیں۔
لیکن جو وجہ اس دوسری شادی کی سامنے آئی وہ آج کے گئے گزرے دور میں واقعی قابل تقلید ہے۔ وجہ یہ تھی کہ، ان سہیلی صاحبہ کا گھرانہ بھی بیوہ خاتون کے گھرانے کی مانند احکام الٰہی پر کاربند ہو کر معاشرے میں معروف ہو۔ آج کے مفاد پرستی کے دور میں اس بلند سوچ کا اہل ہونا اگرچہ بہت سے خواتین و حضرات کے لئے مشکل ہے مگر اس حالیہ مثال نے ثابت کردیا کہ یہ سوچ مشکل ضرور لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہے۔
دوسری طرف جب ہم اپنی درخشاں اسلامی تاریخ کی طرف آتے ہیں تو یہاں کہیں زیادہ روشن اور زندہ مثالیں عمل کے لئے سوچنے پر مجبور کرتی نظر آتی ہیں۔ حضرت اسماء بنت عُمیس ابتدائی دور کی صحابیہ ہیں۔ ہجرت حبشہ سے شرف یاب ہیں۔ حضرت جعفر طیار بن ابو طالب کی اہلیہ اور دو بیٹوں کی ماں ہیں۔ غزوۂ موتہ میں ان کے محبوب شوہر شہید ہوجاتے ہیں۔ صبغۃ اللہ میں رنگا اسلامی معاشرہ موجود ہے چنانچہ ان کو زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے تنہا نہیں چھوڑدیا گیا بلکہ صدیق اکبر، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہہ بڑھ کر اپنی زوجیت کے سائبان تلے لے آتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت عُمیس یہاں ایک اور بیٹے کی ماں بنتی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد ایک بار پھر بیوہ ہوجاتی ہیں۔ دو بار بیوہ ہوجانے کے بعد تیسرے نکاح کی امید ہمارے تنگ نظر معاشرے میں تو شاید معیوب ہو۔ لیکن وہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے براہ راست تربیت یافتہ معاشرے کے غمگسار لوگ ہیں۔ انہوں نے اس بیوہ کو مرد کے بغیر، زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑنا پسند نہ کیا بلکہ ایک مرتبہ پھر آگے بڑھنے والے ان کے سابقہ شوہر حضرت جعفر طیارؓ کے حقیقی بھائی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علیؓ نے اپنے بھتیجوں کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ کے فرزند کی پرورش و تربیت اور کفالت بھی بحسن و خوبی کی.
ایک اور روشن مثال حضرت عاتکہ کی ہے۔ ان کا پہلا نکاح حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ سے ہوا۔ ان کے محبوب شوہر نے ایک مرتبہ محبت میں آکر ان سے عہد کروالیا کہ اگر وہ ان کی زندگی میں وفات پاگئے تو حضرت عاتکہ دوسرا نکاح نہیں کریں گی۔ کچھ عرصے بعد حضرت عبداللہ کے شہید ہوجانے کے بعد یہ بیوہ ہوجاتی ہیں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے ہدایت یافتہ معاشرے میں کسی بیوہ کو مرد کے سہارے کے بغیر تنہا چھوڑ دینا نا پسندیدہ تھا۔ چنانچہ بڑوں کے سمجھانے پر حضرت عمرؓ نے آپ کو اپنے نکاح میں لیا۔ یہ آپ کے چچاذاد بھی تھے۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد ایک بار پھر بیوہ ہوجاتی ہیں۔ عدت گزرنے کے بعد عشرہ مبشرہ سے تعلق رکھنے والے صحابی حضرت زبیر بن عوامؓ ان کو اپنی زوجیت میں لے لیتے ہیں۔
یہ واقعات ہماری قابل فخر اسلامی تاریخ کی ان مثالوں میں سے ہیں کہ جن کی آج ہمارے معاشرے میں تقلید کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں پڑوسی معاشرے کی غیر مسلم تہذیب کے زیرِاثر مرد و خواتین کی دوسری شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہےِ۔ صرف یہی نہیں بلکہ دوسری شادی کو مولوی حضرات کی 'دلچسپی' قرار دے کر اس موضوع کو تنقید کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ معاشرے کے نبض شناس، ادیب حضرات بھی اس حساس موضوع پر طنز و مزاح کے شہ پارے تخلیق کرنے سے باز نہیں رہتے، اور یوں دوسری شادی کو ایک دکھ دینے والا ظالمانہ کام سمجھ لیا گیا ہے۔
لیکن اب ہمارے اردگرد کے زوال پزیر ماحول کی ہولناکیاں ہی مفروضات کے ان بتوں میں دراڑ کا سبب بن رہی ہیں۔ معاشرے کے رنگ سوشل میڈیا کے توسط سے پوری قوت کے ساتھ عیاں ہیں۔ ایک تو خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، پھر معاشرے کے مخصوص رجحانات کے باعث بڑی عمر کے غیر شادی شدہ مرد و خواتین کی تعداد بھی کم نہیں۔ ساتھ ساتھ آئے دن کی دہشت گردی و دیگر حادثات اور مسائل کے باعث جوان بیواؤں اور طلاق یافتہ خواتین کا اضافہ بھی ہے۔
آج کے معاشرے میں شادی شدہ حضرات مزید ضرورت کے لئے خفیہ آن لائن گرل فرینڈز تو رکھ لیتے ہیں مگر معاشرے کے نام نہاد خوف کے باعث عزت کے ساتھ دوسری شادی کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ دوسری طرف کنواروں کی مائیں، بہنیں، بیوہ یا مطلقہ سے شادی کے معاملے میں جذباتی رکاوٹ بن جاتی ہیں اور بیویاں بھی شوہروں کی 'دلچسپیاں' علم میں آجانے کے باوجود ان کی گرل فرینڈز تو برداشت کر لیتی ہیں مگر سوتن کی حیثیت سے ان کو اپنی محبت میں حصہ دار بنانے کو تیار نہیں۔
وقت آگیا ہے کہ معاشرے کے ذمہ دار، دانشور، سماجی رہنما اور علماء حضرات اس موضوع پر درست رہنمائی کے ذریعےعوام کو اعتماد میں لیں کہ اب پانی سر سے گزرا ہی چاہتا ہے۔ اس لئے اب بھی اس موضوع پر بات کرنے سے کترانا گویا شترمرغ کی مانند گردن ریت میں چھپانے کے مترادف ہوگا۔
وہ کمزور عورت کہ جس کے بارے میں جوابدہی سے ڈرنے کے لئے رحمت للعالمین نے آخری خطبے میں امت کو تنبیہہ ہے۔ اس عورت کو بیوگی اور تنہائی کے دکھوں سے چھٹکارہ کون دلائے گا؟ معاشرے کے ذمہ دار، دانشور، سماجی رہنما یا علماء حضرات؟۔
[poll id="1158"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
چند روز قبل خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے والی ایک انجمن کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں بیوہ اور مطلقہ خواتین کی 'دوسری شادی' سے متعلق امور ِ مشاورت میں تعاون کے لئے کہا گیا۔ سر دست تو ہم نے اس سلسلے میں اہل اور موزوں ترین ایک سینئر خاتون سے ان کا رابطہ کروادیا اور اس 'بڑوں' والے 'بڑے' کام سے خود کو بظاہر الگ کرلیا مگر خاتون ہونے اور خواتین سے رابطے میں رہنے کے باعث یہ موضوع مختلف حوالوں سے میرے ذہن میں مستقل موجود رہنے لگا۔ متعلقہ واقعات و مشاہدات نگاہوں کے سامنے آکر اس موضوع کی اہمیت کو دوچند کرنے لگے۔
تقریباََ ایک برس قبل خواتین اہل قلم کی ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس ورکشاپ کے اختتام پر متعلقہ موضوع سے ہٹ کر ایک ایسے موضوع کا تذکرہ کردیا گیا جس نے مسلسل 3 گھنٹے سے پروگرام میں مصروف شرکاء کو جیسے ہلکی سی تازگی فراہم کردی اور وہ موضوع تھا ''مرد و خواتین کی دوسری شادی''۔ میزبان نے معاشرے کے بدلتے ہوئے حساس حالات کا تجزیہ رکھتے ہوئے سامعین سے اس بارے میں سوچنے اور کچھ کرنے کی درخواست کی۔ اس طرح ایک بڑے کام کے چھوٹے سے تذکرے نے سامعین کو اس حساس معاشرتی موضوع پر غور کرنے اور تحریر کے لئے ایک اہم عنوان کی جانب متوجہ کردیا۔ اُس وقت تو اس غیر متوقع موضوع سے متعلق ہمارے احساسات و خیالات بھی دیگر کی طرح کچھ عجیب سے ہی تھے کہ آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں ایک شادی کو ہی نبھانا مشکل ہے اور یہ دوسری شادی؟۔
اتفاقیہ عمل درآمد کی بات تو الگ ہے کہ کسی کے شوہر یا بیوی کے انتقال کے بعد اس کی جگہ دوسری یا دوسرا ہم سفر آجائے۔ پھر ہمارے لئے یہ گمان بھی مشکل تھا کہ اس مفاد پرستی کے دور میں کوئی خاتون اتنا بڑا دل کرے کہ اپنے شوہر کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہی 'دوسری' کا بنا دے۔ پھر چند دن ہی گزرے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے گمان کو یقین سے ہمکنار فرما دیا۔ ایک ایسی خاتون سے ہماری ملاقات کا اتفاق ہوا جن کی کچھ عرصہ قبل ہی دوسری شادی ہوئی تھی۔ خاتون نے بتایا کہ پہلے شوہر کے انتقال کے بعد نکاح ثانی کے لئے ان کے 9 رشتے آئے تھے (ان میں 8 عالم حضرات کے تھے)۔ بڑی حیران کن بات لگی کیوںکہ وہ خاتون نہ کم عمر تھیں اور نہ ہی بے اولاد۔ پھر مزید حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ جو رشتہ انہوں نے قبول کیا اور جہاں ان کی دوسری شادی ہوئی وہ ان کی عزیز سہیلی کے شوہر کا تھا جو کہ سہیلی صاحبہ خود ہی لائی تھیں۔ اس رشتے کی وجہ کوئی ظاہری یا دنیاوی مسئلہ نہ تھا۔ پھر خوب صورتی، عمر اور مال و اولاد کے معاملے میں دونوں خواتین یکساں تھیں۔
لیکن جو وجہ اس دوسری شادی کی سامنے آئی وہ آج کے گئے گزرے دور میں واقعی قابل تقلید ہے۔ وجہ یہ تھی کہ، ان سہیلی صاحبہ کا گھرانہ بھی بیوہ خاتون کے گھرانے کی مانند احکام الٰہی پر کاربند ہو کر معاشرے میں معروف ہو۔ آج کے مفاد پرستی کے دور میں اس بلند سوچ کا اہل ہونا اگرچہ بہت سے خواتین و حضرات کے لئے مشکل ہے مگر اس حالیہ مثال نے ثابت کردیا کہ یہ سوچ مشکل ضرور لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہے۔
دوسری طرف جب ہم اپنی درخشاں اسلامی تاریخ کی طرف آتے ہیں تو یہاں کہیں زیادہ روشن اور زندہ مثالیں عمل کے لئے سوچنے پر مجبور کرتی نظر آتی ہیں۔ حضرت اسماء بنت عُمیس ابتدائی دور کی صحابیہ ہیں۔ ہجرت حبشہ سے شرف یاب ہیں۔ حضرت جعفر طیار بن ابو طالب کی اہلیہ اور دو بیٹوں کی ماں ہیں۔ غزوۂ موتہ میں ان کے محبوب شوہر شہید ہوجاتے ہیں۔ صبغۃ اللہ میں رنگا اسلامی معاشرہ موجود ہے چنانچہ ان کو زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے تنہا نہیں چھوڑدیا گیا بلکہ صدیق اکبر، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہہ بڑھ کر اپنی زوجیت کے سائبان تلے لے آتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت عُمیس یہاں ایک اور بیٹے کی ماں بنتی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد ایک بار پھر بیوہ ہوجاتی ہیں۔ دو بار بیوہ ہوجانے کے بعد تیسرے نکاح کی امید ہمارے تنگ نظر معاشرے میں تو شاید معیوب ہو۔ لیکن وہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے براہ راست تربیت یافتہ معاشرے کے غمگسار لوگ ہیں۔ انہوں نے اس بیوہ کو مرد کے بغیر، زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑنا پسند نہ کیا بلکہ ایک مرتبہ پھر آگے بڑھنے والے ان کے سابقہ شوہر حضرت جعفر طیارؓ کے حقیقی بھائی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علیؓ نے اپنے بھتیجوں کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ کے فرزند کی پرورش و تربیت اور کفالت بھی بحسن و خوبی کی.
ایک اور روشن مثال حضرت عاتکہ کی ہے۔ ان کا پہلا نکاح حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ سے ہوا۔ ان کے محبوب شوہر نے ایک مرتبہ محبت میں آکر ان سے عہد کروالیا کہ اگر وہ ان کی زندگی میں وفات پاگئے تو حضرت عاتکہ دوسرا نکاح نہیں کریں گی۔ کچھ عرصے بعد حضرت عبداللہ کے شہید ہوجانے کے بعد یہ بیوہ ہوجاتی ہیں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے ہدایت یافتہ معاشرے میں کسی بیوہ کو مرد کے سہارے کے بغیر تنہا چھوڑ دینا نا پسندیدہ تھا۔ چنانچہ بڑوں کے سمجھانے پر حضرت عمرؓ نے آپ کو اپنے نکاح میں لیا۔ یہ آپ کے چچاذاد بھی تھے۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد ایک بار پھر بیوہ ہوجاتی ہیں۔ عدت گزرنے کے بعد عشرہ مبشرہ سے تعلق رکھنے والے صحابی حضرت زبیر بن عوامؓ ان کو اپنی زوجیت میں لے لیتے ہیں۔
یہ واقعات ہماری قابل فخر اسلامی تاریخ کی ان مثالوں میں سے ہیں کہ جن کی آج ہمارے معاشرے میں تقلید کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں پڑوسی معاشرے کی غیر مسلم تہذیب کے زیرِاثر مرد و خواتین کی دوسری شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہےِ۔ صرف یہی نہیں بلکہ دوسری شادی کو مولوی حضرات کی 'دلچسپی' قرار دے کر اس موضوع کو تنقید کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ معاشرے کے نبض شناس، ادیب حضرات بھی اس حساس موضوع پر طنز و مزاح کے شہ پارے تخلیق کرنے سے باز نہیں رہتے، اور یوں دوسری شادی کو ایک دکھ دینے والا ظالمانہ کام سمجھ لیا گیا ہے۔
لیکن اب ہمارے اردگرد کے زوال پزیر ماحول کی ہولناکیاں ہی مفروضات کے ان بتوں میں دراڑ کا سبب بن رہی ہیں۔ معاشرے کے رنگ سوشل میڈیا کے توسط سے پوری قوت کے ساتھ عیاں ہیں۔ ایک تو خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، پھر معاشرے کے مخصوص رجحانات کے باعث بڑی عمر کے غیر شادی شدہ مرد و خواتین کی تعداد بھی کم نہیں۔ ساتھ ساتھ آئے دن کی دہشت گردی و دیگر حادثات اور مسائل کے باعث جوان بیواؤں اور طلاق یافتہ خواتین کا اضافہ بھی ہے۔
آج کے معاشرے میں شادی شدہ حضرات مزید ضرورت کے لئے خفیہ آن لائن گرل فرینڈز تو رکھ لیتے ہیں مگر معاشرے کے نام نہاد خوف کے باعث عزت کے ساتھ دوسری شادی کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ دوسری طرف کنواروں کی مائیں، بہنیں، بیوہ یا مطلقہ سے شادی کے معاملے میں جذباتی رکاوٹ بن جاتی ہیں اور بیویاں بھی شوہروں کی 'دلچسپیاں' علم میں آجانے کے باوجود ان کی گرل فرینڈز تو برداشت کر لیتی ہیں مگر سوتن کی حیثیت سے ان کو اپنی محبت میں حصہ دار بنانے کو تیار نہیں۔
وقت آگیا ہے کہ معاشرے کے ذمہ دار، دانشور، سماجی رہنما اور علماء حضرات اس موضوع پر درست رہنمائی کے ذریعےعوام کو اعتماد میں لیں کہ اب پانی سر سے گزرا ہی چاہتا ہے۔ اس لئے اب بھی اس موضوع پر بات کرنے سے کترانا گویا شترمرغ کی مانند گردن ریت میں چھپانے کے مترادف ہوگا۔
وہ کمزور عورت کہ جس کے بارے میں جوابدہی سے ڈرنے کے لئے رحمت للعالمین نے آخری خطبے میں امت کو تنبیہہ ہے۔ اس عورت کو بیوگی اور تنہائی کے دکھوں سے چھٹکارہ کون دلائے گا؟ معاشرے کے ذمہ دار، دانشور، سماجی رہنما یا علماء حضرات؟۔
[poll id="1158"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔