جانے والا رمضان
1437ھجری کے ماہ رمضان کے آخری دن ہیں۔ ایک یا دو روزے باقی ہیں اور خوش نصیب ہیں
1437ھجری کے ماہ رمضان کے آخری دن ہیں۔ ایک یا دو روزے باقی ہیں اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس مبارک مہینے کی نعمتوں سے سرشار ہوتے ہیں۔ ان میں سے میں بھی ہوں جس نے ایک روزہ بھی نہیں رکھا لیکن یہ پورا مہینہ روزہ داروں کے آس پاس گزارا ہے اور یہ روزہ دار میرے وہ بچے تھے جو روزے فرض نہ ہونے کے باوجود پورا مہینہ روزے سے رہے اور میرے بار بار پوچھنے پر بھی یہی جواب دیا کہ ان کا روزہ بڑے آرام کے ساتھ گزر رہا ہے۔
ان بچوں میں اسکول کے طالب علم بھی تھے اور ذرا ان سے بڑی عمر کے بھی۔ بس یہ اللہ تعالیٰ کا کرم تھا کہ ان بچوں کو روزے کی سعادت سے سرفرازکیا اور ان بچوں کو روزے کا ہر آرام دینے والے روزہ دار بڑوں کو بھی خوشی کا موقع عطا کیا جب وہ اپنے بچوں کو روزے کی حالت میں دیکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کے سر جھک جاتے تھے۔ میرا اسکول جانے والا پوتا اور پوتیاں جب افطاری کے بعد سنبھلتیں تو میرے پاس جمع ہو جاتیں اور گاؤں کی باتیں کرتیں۔ان کا یہ پہلا رمضان تھا جو گاؤں سے دور شہر میں گزر رہا تھا۔ میں اپنے ان روزہ دار اور عبادت گزار بچوں کو دیکھ کر سرشار رہتا۔ یہ میری مفت کی سرشاری تھی جو قدرت نے عطا کر دی تھی۔
ایسی سرشاری سے ہمارے گاؤں کے کتنے ہی روزہ دار گزر رہے ہوں گے جو سادہ سی سحری کھانے کے بعد روزے شروع کر دیتے اور صبر و شکر کے ساتھ اس کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں روزہ ایک معمول ہے جس سے ہر شخص گزرتا ہے اور گاؤں میں کوئی عاقل و بالغ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ روزہ قضا کر لے گا اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ عہد کہ روزہ اس کے لیے رکھا ہی جائے گا۔ ''روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا'' اللہ کا یہ فرمان ہر روزہ دار کے ذہن میں سکون بن کر موجود رہتا ہے اور پورا رمضان وہ اس ارشاد باری کی برکت اور حوصلے سے گزار لیتا ہے۔
میرے گاؤں میں رمضان کے مہینے میں روزے سے ہونا زیادہ آسان ہے جب کہ روزہ نہ رکھنا ایک بڑی آزمائش بن جاتی ہے اور اس آزمائش سے گزرنا آسان نہیں ہوتا۔ خود کسی کے گھر والے ہی کسی بے روزہ کا ساتھ نہیں دیتے اور بچے تک اصرار کرتے ہیں کہ ان کے بڑے روزے رکھیں اور ان کے لیے دعا کریں۔ رمضان کے مہینے میں کئی واقعات یاد آتے ہیں، ایمان افروز واقعات جو انسان کے دل کو ایمان سے بھر دیتے ہیں۔
ایک غریب بوڑھا کہیں سے کچھ لے کر خواجہ مسعود چشتیؒ کے ہاں حاضر ہوا اور یہ نذرانہ ان کی خدمت میں پیش کیا، خواجہ صاحب نے یہ نذرانہ اور غریب مسکین بوڑھے کو دیکھ کر کہا کہ بابا یہ سب آپ کی خدمت میں میری طرف سے تحفہ سمجھیں اور اسے قبول کر لیں یہ سن کر بوڑھے نے سوچا کہ میری عمر اور بے چارگی کو دیکھ کر خواجہ صاحب معذرت کر رہے ہیں اور میرا نذرانہ ان کو قبول نہیں۔ بوڑھا عقیدت مند یہ سن کر رونے لگااور بے حد افسردہ ہو گیا۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر خواجہ صاحب نے نہ صرف اس کا تحفہ لے لیا بلکہ اس میں سے کچھ کھا بھی لیا۔ یہ دیکھ کر خواجہ صاحب کے مریدوں نے عرض کیا کہ آپ کو روزے سے تھے لیکن اس فقیر کے تحفے کے لیے روزہ توڑ لیا۔ اس پر خواجہ صاحب نے فرمایا اور یہ بات کوئی ولی اللہ اور دلوں کا حال جاننے والا ہی کہہ سکتا ہے کہ روزے کا تو کفارہ ہے جو میں ادا کر لوں گا لیکن کسی کے ٹوٹے ہوئے دل کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ جسے میں ادا نہیں کر سکوں گا۔
روزہ درحقیقت ہماری زندگی کا ایک ایسا حصہ ہے جس کے بغیر ہم اپنی عاقبت کی نجات اور رمضان کی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ روزہ مسلمانوں کی زندگی کا ایک حصہ ہے جس کو اداکرکے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوتے ہیں اور اللہ کے ہاں یہی حاضری ہی ایک مسلمان کی زندگی ہے اور بات وہی خواجہ صاحب والی ہے کہ روزے کا تو ایک کفارہ مقرر ہے لیکن اس کی وجہ سے کسی دوسرے گناہ کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔
خوش نصیب ہے وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کے یہ روزے رکھ لیے اور اپنا نام کہیں درج کرا لیا۔ کاش کہ ہم سب اس فہرست میں شامل ہوتے بہرکیف اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے اور اس کی مغفرت پر ہم زندہ ہیں۔ رمضان جا رہا ہے اور ہم بھی اس کے ساتھ اگر روزے سے رہے تو مغفرت کی امید رکھیں گے ویسے بھی اللہ تعالیٰ ہر گنہ گار کا مالک ہے اور معاف کرنے والا ہے۔ ہم دعا یہ کریں کہ آنے والے رمضان میں اس اجر سے محروم نہ رہیں اور یہ رمضان بھی ہماری زندگی کو ساز گار اور کامیاب کرنے میں ہمارے ساتھ رہے۔
ان بچوں میں اسکول کے طالب علم بھی تھے اور ذرا ان سے بڑی عمر کے بھی۔ بس یہ اللہ تعالیٰ کا کرم تھا کہ ان بچوں کو روزے کی سعادت سے سرفرازکیا اور ان بچوں کو روزے کا ہر آرام دینے والے روزہ دار بڑوں کو بھی خوشی کا موقع عطا کیا جب وہ اپنے بچوں کو روزے کی حالت میں دیکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کے سر جھک جاتے تھے۔ میرا اسکول جانے والا پوتا اور پوتیاں جب افطاری کے بعد سنبھلتیں تو میرے پاس جمع ہو جاتیں اور گاؤں کی باتیں کرتیں۔ان کا یہ پہلا رمضان تھا جو گاؤں سے دور شہر میں گزر رہا تھا۔ میں اپنے ان روزہ دار اور عبادت گزار بچوں کو دیکھ کر سرشار رہتا۔ یہ میری مفت کی سرشاری تھی جو قدرت نے عطا کر دی تھی۔
ایسی سرشاری سے ہمارے گاؤں کے کتنے ہی روزہ دار گزر رہے ہوں گے جو سادہ سی سحری کھانے کے بعد روزے شروع کر دیتے اور صبر و شکر کے ساتھ اس کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں روزہ ایک معمول ہے جس سے ہر شخص گزرتا ہے اور گاؤں میں کوئی عاقل و بالغ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ روزہ قضا کر لے گا اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ عہد کہ روزہ اس کے لیے رکھا ہی جائے گا۔ ''روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا'' اللہ کا یہ فرمان ہر روزہ دار کے ذہن میں سکون بن کر موجود رہتا ہے اور پورا رمضان وہ اس ارشاد باری کی برکت اور حوصلے سے گزار لیتا ہے۔
میرے گاؤں میں رمضان کے مہینے میں روزے سے ہونا زیادہ آسان ہے جب کہ روزہ نہ رکھنا ایک بڑی آزمائش بن جاتی ہے اور اس آزمائش سے گزرنا آسان نہیں ہوتا۔ خود کسی کے گھر والے ہی کسی بے روزہ کا ساتھ نہیں دیتے اور بچے تک اصرار کرتے ہیں کہ ان کے بڑے روزے رکھیں اور ان کے لیے دعا کریں۔ رمضان کے مہینے میں کئی واقعات یاد آتے ہیں، ایمان افروز واقعات جو انسان کے دل کو ایمان سے بھر دیتے ہیں۔
ایک غریب بوڑھا کہیں سے کچھ لے کر خواجہ مسعود چشتیؒ کے ہاں حاضر ہوا اور یہ نذرانہ ان کی خدمت میں پیش کیا، خواجہ صاحب نے یہ نذرانہ اور غریب مسکین بوڑھے کو دیکھ کر کہا کہ بابا یہ سب آپ کی خدمت میں میری طرف سے تحفہ سمجھیں اور اسے قبول کر لیں یہ سن کر بوڑھے نے سوچا کہ میری عمر اور بے چارگی کو دیکھ کر خواجہ صاحب معذرت کر رہے ہیں اور میرا نذرانہ ان کو قبول نہیں۔ بوڑھا عقیدت مند یہ سن کر رونے لگااور بے حد افسردہ ہو گیا۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر خواجہ صاحب نے نہ صرف اس کا تحفہ لے لیا بلکہ اس میں سے کچھ کھا بھی لیا۔ یہ دیکھ کر خواجہ صاحب کے مریدوں نے عرض کیا کہ آپ کو روزے سے تھے لیکن اس فقیر کے تحفے کے لیے روزہ توڑ لیا۔ اس پر خواجہ صاحب نے فرمایا اور یہ بات کوئی ولی اللہ اور دلوں کا حال جاننے والا ہی کہہ سکتا ہے کہ روزے کا تو کفارہ ہے جو میں ادا کر لوں گا لیکن کسی کے ٹوٹے ہوئے دل کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ جسے میں ادا نہیں کر سکوں گا۔
روزہ درحقیقت ہماری زندگی کا ایک ایسا حصہ ہے جس کے بغیر ہم اپنی عاقبت کی نجات اور رمضان کی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ روزہ مسلمانوں کی زندگی کا ایک حصہ ہے جس کو اداکرکے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوتے ہیں اور اللہ کے ہاں یہی حاضری ہی ایک مسلمان کی زندگی ہے اور بات وہی خواجہ صاحب والی ہے کہ روزے کا تو ایک کفارہ مقرر ہے لیکن اس کی وجہ سے کسی دوسرے گناہ کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔
خوش نصیب ہے وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کے یہ روزے رکھ لیے اور اپنا نام کہیں درج کرا لیا۔ کاش کہ ہم سب اس فہرست میں شامل ہوتے بہرکیف اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے اور اس کی مغفرت پر ہم زندہ ہیں۔ رمضان جا رہا ہے اور ہم بھی اس کے ساتھ اگر روزے سے رہے تو مغفرت کی امید رکھیں گے ویسے بھی اللہ تعالیٰ ہر گنہ گار کا مالک ہے اور معاف کرنے والا ہے۔ ہم دعا یہ کریں کہ آنے والے رمضان میں اس اجر سے محروم نہ رہیں اور یہ رمضان بھی ہماری زندگی کو ساز گار اور کامیاب کرنے میں ہمارے ساتھ رہے۔