مخصوص اورلگے بندھے انداز کی فلمیں نہیں بنانا چاہتا آربالکی
جب میں نے فلم لائن میں آنے کا سوچا تب ہی سے ٹھان لیا تھا کہ اپنی پہلی فلم میں ان کے ساتھ ہی کروں گا، ہدایتکار
ابتدا ہی سے منفرد موضوعات پر فلم بنانے کے حوالے سے مشہور فلم میکر آر بالکی کا نام کسی تعاف کا محتاج نہیں۔ ان کا کام ناظرین کی توجہ کچھ اس طرح اپنی جانب مبذول کراتا ہے کہ وہ اس میں محو ہو جاتے ہیں۔آر بالکی نے اچھوتے موضوعات پر کام کیا ہے۔
آج جب انڈسٹری بری طرح کمرشیل ازم کی لپیٹ میں آچکی ہے اور فلم ساز پیسہ کمانے کے چکر میں خوب مسالے دار اور پھڑکتی ہوئی عام سی کہانی پر فلم بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں، ایسے میں آر بالکی جیسے چند سر پھرے ہی ایسے ہیں جو واقعی فلم کی افادیت اور اہمیت سے واقف ہیں۔ وہ اپنا ہنر اور قابلیت اس طرح کام میں لاتے ہیں کہ دیکھنے والا سراہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آر بالکی نے لگے بندھے انداز سے گھسی پٹی فلمیں بنانے کے بجائے ایسے موضوعات اور کہانیوں کا انتخاب کیا جن پر ان جیسے زیرک انسان کی نظریں ہی جا سکتی ہیں ۔ ایسا نہیں کہ ان کی بنائی ہوئی ہر فلم ہٹ ہوئی ہو، یقیناً کچھ ناکامی سے بھی دوچار ہوئیں، لیکن وہ خوش ہیں کہ انہوں نے ایسے دل چسپ موضوعات منتخب کیے جنہیں عام فلم میکر مسترد کر دیتا ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے اپنے کیریر اور فلم سازی کے حوالے سے پرُمغز گفتگو کی، جو پیش خدمت ہے:
٭2007میں جب آپ نے فلم ''چینی کم'' سے اپنی فلم میکنگ کا آغاز کیااور انڈسٹری میں انٹری دی تب آپ کے ذہن میں کوئی خاص پلان تھا؟
نہیں، میرا کوئی گیم پلان نہیں تھا، بس میں ایک مخصوص اور لگے بندھے انداز کی فلمیں نہیں بنانا چاہتا تھا۔ میں نے جب کچھ بنانے کا سوچا تو میرے ذہن میں اس ایک بات کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہوتی تھی، کیوںکہ میں فلم انڈسٹری کی روایتی بھیڑچال کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا۔
٭آپ ایڈورٹائزنگ کی دنیا کا بھی ایک بہت بڑا نام ہیں۔ اس کے باوجود فلم بنانے کی خواہش آپ کے اندر موجود تھی؟
میں نے ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں قدم ہی یہ سوچ کر رکھا تھا کہ اس کے تانے بانے فلم انڈسٹری سے کسی نہ کسی حوالے منسلک ہو جاتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے ایڈ کی دنیا میں کتنا نام کمایا ہے، میں بس یہ جانتا ہوں کہ اسی کے ذریعے انڈسٹری میں میری راہ ہم وار ہوئی۔ میں فلموں کا دیوانہ ہوں، یوں سمجھ لیں کہ مجھے ان کا نشہ ہے۔ چناں چہ، میرے لیے اس سے بڑھ کر کچھ نہ تھا کہ میں فلم میکنگ کروں۔
٭آپ کی فلموں کی کہانی یا ان کا موضوع ہمیشہ منفرد اور اچھوتا ہوتا ہے۔ کیا آپ شعوری طور پر اس قسم کے متنازع موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں؟
میں نے ہر قسم کاسنیما دیکھا ہے۔ میں نے روبوٹ بھی دیکھی ہے اور Eega بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ سنیما کی دو قسمیں ہیں، ایک جو زندگی سے حاصل ہوتا ہے اور دوسرا کمرشل یا اشتہارات کا سنیما۔ فلم ایک طاقت ور میڈیم ہے اس لیے میرے خیال میں اس کے ذریعے کوئی ایسا پیغام یا بات پھیلائی جائے جس سے لوگوں کا فائدہ ہو تو اس میں کوئی برائی تو نہیں۔ یا ایسے کردار یا کہانیوں کو پیش کیا جائے جنہیں ہم آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ انہیں بڑی اسکرین پر دکھایا جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔
٭کیا آپ کو یہ بات ہمیشہ پریشان کرتی ہے کہ آپ کی ان منفرد کہانیوں اور موضوعات کو لوگ آسانی سے قبول کر یں گے یا نہیں؟
ہم سب ہی اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ہر اسکرپٹ اپنی اکانومی اپنے ساتھ لاتا ہے، تو مثال کے طور پر ''پا'' (2009) کی اکانومی ''دبنگ'' (2010) کی اکانومی سے مختلف ہوگی۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کتنے لوگوں نے میری فلم کو قبول کیا، بلکہ بات یہ ہے کہ جتنے بھی لوگوں نے اسے قبول کیا کیا انہوں نے اس کی تخلیق یا میکنگ کی روح کو سمجھا، اس کی اصلیت کو جانا۔ ظاہر ہے، اس معاملے میں ہم کبھی خوش قسمت ہوتے ہیں اور کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
٭کیا آپ بچپن ہی سے اس لائن میں آنے کی خواہش رکھتے تھے؟
جی ہاں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے فادر مجھ سے بھی بڑے فلموں کے شیدائی تھے۔ میں پانچویں کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا جب وہ ہر روز مجھے سنیما لے جایا کرتے تھے۔ میرا یہ معمول آج بھی جاری ہے، میں روزانہ ایک فلم ضرور دیکھتا ہوں۔
٭آپ اپنی فلموں کے لیے آئیڈیاز کہاں سے لیتے ہیں؟
میرے خیال میں آئیڈیاز ہمارے تجربات کی ترجمانی کرتے ہیں، ہم سب ہی زندگی میں کسی نہ کسی چیز، شخص یا کسی کام سے متاثر ضرور ہوتے ہیں لیکن ان سب کے لیے ہمارا اپنا تجربہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ میں مستقل کوشش کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک لگا رہتا ہوں جب تک مجھے یقین نہ ہوجائے کہ مجھے کچھ منفرد موضوع مل چکا ہے یا کچھ ایسا جسے میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔ مجھے خالص پن سے پیار ہے، چیزوں کی اصلیت مجھے اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ایڈ یا فلم بنانا مزدوری جیسا ہی کام ہے اور میں اپنے آپ کو اس مزدوری کے لیے اسی وقت متحرک کرتا ہوں جب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کچھ نیا اور منفرد تخلیق کرنے جارہا ہوں۔
٭آپ کو کیا کام مشکل لگتا ہے، ایک ایڈ یا کمرشل فلم بنانا یا پھر فیچر فلم؟
دونوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک میں آپ صرف سنگل آئیڈیے پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اشتہار یا ایڈ کا کام دنوں میں مکمل ہو جاتا ہے جب کہ فلم اپنی تیاری میں دو سے تین سال لگا دیتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں ایڈ کا رزلٹ جلدی سامنے کی صورت میں لوگوں کا ردعمل فوری سامنے آجاتا ہے، جب کہ فلم کے رزلٹ کے لیے دو سے تین سال کا انتظار تخلیقی ذہن رکھنے والے فلم میکر کو کبھی کبھار نفسیاتی مسائل سے بھی دوچار کردیتا ہے۔ فلم بنانے کا عمل بھی آسان ہے لیکن اس کے ساتھ یہ طویل بھی ہے۔
٭کیا آپ ری میکنگ کے حامی ہیں؟
جی نہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ایک بار بن جانے والی فلم کی دوبارہ سے میکنگ کی جائے۔ اوریجنل کام تو پہلی بار ہی سامنے آتا ہے۔ بعد میں تو اس میں مزید مسالے شامل کردیے جاتے ہیں۔
٭کیا آ پ کسی سے متاثر ہیں؟
مجھے اچھی فلمیں متاثر کرتی ہیں جیسے کہ 1983میں بننے والی فلم ''صدمہ'' جس میں سری دیوی اور کمل ہاسن نے کمال کی اداکاری کی۔ میں اس فلم کے متاثرین میں سے ایک ہوں۔ اس کے علاوہ امیتابھ بچن کی ساری فلمیں بھی مجھے بے حد پسند ہیں، اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں بگ بی سے بھی متاثر ہوں۔
٭امیتابھ بچن کے ساتھ آپ نے کئی فلموں جیسے کہ ''چینی کم''، ''شمیتابھ'' اور ''پا'' میں کا م کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا کے پاس امیتابھ بچن ہیں۔ وہ بہت بڑے اسٹار ہیں۔ میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں۔ میرے خیال میں امیتابھ بچن سمیت تمام بڑے بڑے اسٹارز جن کی فلمیں کروڑوں کا بزنس کرتی ہوں ان سب کو ایک کمرے میں بٹھا دیا جائے اور اچانک ان میں سے بگ بی اٹھ کر چلے جائیں تو سب ہی اس بات کو شدت سے محسوس کریں گے۔
میں بھی امیتابھ جیسا بننا چاہتا ہوں۔ یہ آج ہر انڈین شہری کی خواہش ہے۔ مجھے ان کے ساتھ کام کر کے مزہ آتا ہے۔ جب میں نے فلم لائن میں آنے کا سوچا تب ہی سے ٹھان لیا تھا کہ اپنی پہلی فلم میں ان کے ساتھ ہی کروں گا۔ اس لیے جب میں ''چینی کم'' کا اسکرپٹ لے کر ان کے پاس پہنچا تب ان کی حوصلہ افزائی نے مجھے ان کا اور گرویدہ کردیا۔
٭آپ کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ''کی اینڈ کا'' فلاپ ہوگئی، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ َ
میں نے اس بار بھی ایک منفرد موضوع اپنایا تھا، لیکن شاید ہمارے معاشرے میں اس قسم کے موضوعات ابھی قابل قبول نہیں ہیں۔ شاید اسی لیے اس بار مجھے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
آج جب انڈسٹری بری طرح کمرشیل ازم کی لپیٹ میں آچکی ہے اور فلم ساز پیسہ کمانے کے چکر میں خوب مسالے دار اور پھڑکتی ہوئی عام سی کہانی پر فلم بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں، ایسے میں آر بالکی جیسے چند سر پھرے ہی ایسے ہیں جو واقعی فلم کی افادیت اور اہمیت سے واقف ہیں۔ وہ اپنا ہنر اور قابلیت اس طرح کام میں لاتے ہیں کہ دیکھنے والا سراہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آر بالکی نے لگے بندھے انداز سے گھسی پٹی فلمیں بنانے کے بجائے ایسے موضوعات اور کہانیوں کا انتخاب کیا جن پر ان جیسے زیرک انسان کی نظریں ہی جا سکتی ہیں ۔ ایسا نہیں کہ ان کی بنائی ہوئی ہر فلم ہٹ ہوئی ہو، یقیناً کچھ ناکامی سے بھی دوچار ہوئیں، لیکن وہ خوش ہیں کہ انہوں نے ایسے دل چسپ موضوعات منتخب کیے جنہیں عام فلم میکر مسترد کر دیتا ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے اپنے کیریر اور فلم سازی کے حوالے سے پرُمغز گفتگو کی، جو پیش خدمت ہے:
٭2007میں جب آپ نے فلم ''چینی کم'' سے اپنی فلم میکنگ کا آغاز کیااور انڈسٹری میں انٹری دی تب آپ کے ذہن میں کوئی خاص پلان تھا؟
نہیں، میرا کوئی گیم پلان نہیں تھا، بس میں ایک مخصوص اور لگے بندھے انداز کی فلمیں نہیں بنانا چاہتا تھا۔ میں نے جب کچھ بنانے کا سوچا تو میرے ذہن میں اس ایک بات کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہوتی تھی، کیوںکہ میں فلم انڈسٹری کی روایتی بھیڑچال کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا۔
٭آپ ایڈورٹائزنگ کی دنیا کا بھی ایک بہت بڑا نام ہیں۔ اس کے باوجود فلم بنانے کی خواہش آپ کے اندر موجود تھی؟
میں نے ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں قدم ہی یہ سوچ کر رکھا تھا کہ اس کے تانے بانے فلم انڈسٹری سے کسی نہ کسی حوالے منسلک ہو جاتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے ایڈ کی دنیا میں کتنا نام کمایا ہے، میں بس یہ جانتا ہوں کہ اسی کے ذریعے انڈسٹری میں میری راہ ہم وار ہوئی۔ میں فلموں کا دیوانہ ہوں، یوں سمجھ لیں کہ مجھے ان کا نشہ ہے۔ چناں چہ، میرے لیے اس سے بڑھ کر کچھ نہ تھا کہ میں فلم میکنگ کروں۔
٭آپ کی فلموں کی کہانی یا ان کا موضوع ہمیشہ منفرد اور اچھوتا ہوتا ہے۔ کیا آپ شعوری طور پر اس قسم کے متنازع موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں؟
میں نے ہر قسم کاسنیما دیکھا ہے۔ میں نے روبوٹ بھی دیکھی ہے اور Eega بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ سنیما کی دو قسمیں ہیں، ایک جو زندگی سے حاصل ہوتا ہے اور دوسرا کمرشل یا اشتہارات کا سنیما۔ فلم ایک طاقت ور میڈیم ہے اس لیے میرے خیال میں اس کے ذریعے کوئی ایسا پیغام یا بات پھیلائی جائے جس سے لوگوں کا فائدہ ہو تو اس میں کوئی برائی تو نہیں۔ یا ایسے کردار یا کہانیوں کو پیش کیا جائے جنہیں ہم آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ انہیں بڑی اسکرین پر دکھایا جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔
٭کیا آپ کو یہ بات ہمیشہ پریشان کرتی ہے کہ آپ کی ان منفرد کہانیوں اور موضوعات کو لوگ آسانی سے قبول کر یں گے یا نہیں؟
ہم سب ہی اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ہر اسکرپٹ اپنی اکانومی اپنے ساتھ لاتا ہے، تو مثال کے طور پر ''پا'' (2009) کی اکانومی ''دبنگ'' (2010) کی اکانومی سے مختلف ہوگی۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کتنے لوگوں نے میری فلم کو قبول کیا، بلکہ بات یہ ہے کہ جتنے بھی لوگوں نے اسے قبول کیا کیا انہوں نے اس کی تخلیق یا میکنگ کی روح کو سمجھا، اس کی اصلیت کو جانا۔ ظاہر ہے، اس معاملے میں ہم کبھی خوش قسمت ہوتے ہیں اور کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
٭کیا آپ بچپن ہی سے اس لائن میں آنے کی خواہش رکھتے تھے؟
جی ہاں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے فادر مجھ سے بھی بڑے فلموں کے شیدائی تھے۔ میں پانچویں کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا جب وہ ہر روز مجھے سنیما لے جایا کرتے تھے۔ میرا یہ معمول آج بھی جاری ہے، میں روزانہ ایک فلم ضرور دیکھتا ہوں۔
٭آپ اپنی فلموں کے لیے آئیڈیاز کہاں سے لیتے ہیں؟
میرے خیال میں آئیڈیاز ہمارے تجربات کی ترجمانی کرتے ہیں، ہم سب ہی زندگی میں کسی نہ کسی چیز، شخص یا کسی کام سے متاثر ضرور ہوتے ہیں لیکن ان سب کے لیے ہمارا اپنا تجربہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ میں مستقل کوشش کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک لگا رہتا ہوں جب تک مجھے یقین نہ ہوجائے کہ مجھے کچھ منفرد موضوع مل چکا ہے یا کچھ ایسا جسے میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔ مجھے خالص پن سے پیار ہے، چیزوں کی اصلیت مجھے اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ایڈ یا فلم بنانا مزدوری جیسا ہی کام ہے اور میں اپنے آپ کو اس مزدوری کے لیے اسی وقت متحرک کرتا ہوں جب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کچھ نیا اور منفرد تخلیق کرنے جارہا ہوں۔
٭آپ کو کیا کام مشکل لگتا ہے، ایک ایڈ یا کمرشل فلم بنانا یا پھر فیچر فلم؟
دونوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک میں آپ صرف سنگل آئیڈیے پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اشتہار یا ایڈ کا کام دنوں میں مکمل ہو جاتا ہے جب کہ فلم اپنی تیاری میں دو سے تین سال لگا دیتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں ایڈ کا رزلٹ جلدی سامنے کی صورت میں لوگوں کا ردعمل فوری سامنے آجاتا ہے، جب کہ فلم کے رزلٹ کے لیے دو سے تین سال کا انتظار تخلیقی ذہن رکھنے والے فلم میکر کو کبھی کبھار نفسیاتی مسائل سے بھی دوچار کردیتا ہے۔ فلم بنانے کا عمل بھی آسان ہے لیکن اس کے ساتھ یہ طویل بھی ہے۔
٭کیا آپ ری میکنگ کے حامی ہیں؟
جی نہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ایک بار بن جانے والی فلم کی دوبارہ سے میکنگ کی جائے۔ اوریجنل کام تو پہلی بار ہی سامنے آتا ہے۔ بعد میں تو اس میں مزید مسالے شامل کردیے جاتے ہیں۔
٭کیا آ پ کسی سے متاثر ہیں؟
مجھے اچھی فلمیں متاثر کرتی ہیں جیسے کہ 1983میں بننے والی فلم ''صدمہ'' جس میں سری دیوی اور کمل ہاسن نے کمال کی اداکاری کی۔ میں اس فلم کے متاثرین میں سے ایک ہوں۔ اس کے علاوہ امیتابھ بچن کی ساری فلمیں بھی مجھے بے حد پسند ہیں، اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں بگ بی سے بھی متاثر ہوں۔
٭امیتابھ بچن کے ساتھ آپ نے کئی فلموں جیسے کہ ''چینی کم''، ''شمیتابھ'' اور ''پا'' میں کا م کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا کے پاس امیتابھ بچن ہیں۔ وہ بہت بڑے اسٹار ہیں۔ میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں۔ میرے خیال میں امیتابھ بچن سمیت تمام بڑے بڑے اسٹارز جن کی فلمیں کروڑوں کا بزنس کرتی ہوں ان سب کو ایک کمرے میں بٹھا دیا جائے اور اچانک ان میں سے بگ بی اٹھ کر چلے جائیں تو سب ہی اس بات کو شدت سے محسوس کریں گے۔
میں بھی امیتابھ جیسا بننا چاہتا ہوں۔ یہ آج ہر انڈین شہری کی خواہش ہے۔ مجھے ان کے ساتھ کام کر کے مزہ آتا ہے۔ جب میں نے فلم لائن میں آنے کا سوچا تب ہی سے ٹھان لیا تھا کہ اپنی پہلی فلم میں ان کے ساتھ ہی کروں گا۔ اس لیے جب میں ''چینی کم'' کا اسکرپٹ لے کر ان کے پاس پہنچا تب ان کی حوصلہ افزائی نے مجھے ان کا اور گرویدہ کردیا۔
٭آپ کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ''کی اینڈ کا'' فلاپ ہوگئی، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ َ
میں نے اس بار بھی ایک منفرد موضوع اپنایا تھا، لیکن شاید ہمارے معاشرے میں اس قسم کے موضوعات ابھی قابل قبول نہیں ہیں۔ شاید اسی لیے اس بار مجھے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔