درختوں کے تنوں میں واقع انوکھی جیل۔۔۔حقیقت یا افسانہ
اصل میں یہ درخت مڈغاسکر اور افریقی مین لینڈ کے شہرۂ آفاق درخت baobabs کا رشتے دار ہے۔
آسٹریلیا میں دورِقدیم سے ایک عجیب و درخت پایا جاتا ہے جسے لوگ Boab Prison Tree کہہ کر پکارتے ہیں۔ اصل میں یہ درخت مڈغاسکر اور افریقی مین لینڈ کے شہرۂ آفاق درخت baobabs کا رشتے دار ہے۔
یہ ایک کافی بڑے گھیروالا درخت ہوتا ہے جس کا تنا بیچ میں سے بہت زیادہ پھولا ہوا ہوتا ہے اور دیکھنے میں یہ ایک بوتل لگتا ہے اور اسی لیے اکثر مقامی افراد اسے بوٹل ٹری کہتے ہیں، لیکن بعض لوگ اسے پھولا ہوا پیٹ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ایک تو اس درخت یعنی Boab کی شکل و صورت اور بناوٹ بہت ہی عجیب ہے جسے دیکھ کر لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اور پھر اس درخت کی دوسری بات یہ ہے کہ یہ آسٹریلیا میں قدیم ترین ہے، یعنی اتنا قدیم درخت کوئی اور اس پورے براعظم میں موجود نہیں ہے۔ لیکن دیکھنے میں یہ درخت کوئی کارٹون لگتا ہے۔ان مذکورہ بالا دو وجوہ کی بنا پر baobabs درختوں نے ہمیشہ سے ہی آسٹریلیا آنے والے غیرملکی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے جنہیں دیکھنے کے لیے ہر سال کثیر تعداد میں ملکی اور غیرملکی سیاح یہاں آتے ہیں۔
مغربی آسٹریلیا کے علاقے وینڈھیم کے جنوب میں کنگ روڈ پر ایسا ہی ایک نادر baobab سر اٹھائے کھڑا ہے۔ اس درخت کا گھیر یا قطر لگ بھگ 15میٹر کا ہے اور اس کا تنا اندر سے بالکل خالی یعنی کھوکھلا ہے۔ طویل عرصے سے مقامی لوگ اس کھوکھلے تنے کو دیکھتے رہتے تھے، پھر ایک روز کسی منچلے کے دل میں نہ جانے کیا سمائی کہ اس نے اس کھوکھلے تنے کو کاٹ کر اس میں ایک دروازہ بنادیا جس کے بعد باہر کھڑے ہوکر اس درخت کو دیکھنے والوں کی رسائی تنے کے اندر تک ہوگئی جہاں درخت کے تنے کی چوڑائی کی وجہ سے یہ ایک کشادہ کمرہ دکھائی دیتا ہے۔اس حوالے سے مقامی طور پر جو کہانی مشہور ہے، وہ کچھ اس طرح سے ہے:
یہ انیسویں صدی کے90 کے عشرے کی بات ہے، ایک بار پولیس پیٹرول کا پورا قافلہ مقامی قیدیوں کو لے کر اس مقام سے گزر رہا تھا۔ یہ قیدی ڈربی لے جائے جارہے تھے، رات کافی تاریک تھی۔ ان قیدیوں پر ڈربی کی مقامی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا کہ نہ جانے کیا ہوا کہ تاریک رات میں وینڈھیم کے مقام پر پولیس کا قافلہ رک گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ رات کا وقت تھا اور گہری تاریکی میں ان قیدیوں پر نظر رکھنا بہت مشکل ہورہا تھا۔
اتنے میں پولیس ٹیم کے سربراہ کی نظر اس درخت کے پھولے ہوئے تنے پر پڑی تو وہ ایک دم مسکرادیا، اس کے ذہن میں شاید ان قیدیوں کی حفاظت کی کوئی ترکیب آگئی تھی اور واقعی ایسا ہی تھا، کیوں کہ کچھ دیر بعد اس پولیس چیف کے حکم پر درخت کے پھولے ہوئے تنے کو بڑی احتیاط سے کاٹ کر ایک چھوٹا اور پتلا سا دروازہ بنایا گیا اور اس دروازے سے متعدد قیدیوں کو اس تنے کے اندر پہنچادیا گیا۔ اب وہ بالکل محفوظ تھے۔
مگر ابھی ایک مسئلہ باقی تھا۔ وہ یہ کہ اس پھولے ہوئے تنے والے درخت کے اندر کافی قیدی پہنچادیے گئے تھے، مگر ابھی بہت سے قیدی باہر کھڑے تھے اور اپنی محفوظ قیام گاہ کے اندر داخل ہونے کے منتظر تھے۔ پولیس چیف نے کچھ سوچا اور پھر یہ کیا کہ باقی قیدیوں کو درخت کے پھولے ہوئے تنے کے ساتھ باہر ہی زنجیروں سے باندھ دیا۔
پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا۔ پولیس پیٹرول اکثر وہاں سے گزرتی تو رات ہونے پر اسی مقام پر قیدیوں کو گاڑیوں سے نکال کر ان درختوں کے تنوں میں قید کردیتی تھی۔ اس کے بعد لوگوں نے اس جگہ کو "Hillgrove Lockup" کہہ کر پکارنا شروع کردیا اور یہ قیدیوں کے لیے ایک عارضی یا شبینہ قید خانہ بن گیا۔ مگر جب بھی قیدیوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو اسی سابقہ ترکیب پر عمل کیا جاتا تھا یعنی انہیں درختوں کے باہر کھڑا کرکے فولادی زنجیروں سے باندھ دیا جاتا تھا۔ اس کھوکھلے تنے کے اندر9 مربع میل کی ایک کال کوٹھری تھی جس میں ایک ہی وقت میں لگ بھگ 30قیدیوں کے رکھنے کی گنجائش تھی۔
ڈربی میں ایک دوسرا baobab درخت بھی ہے جس کے بارے میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ درخت بھی مذکورہ بالا مقصد کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ اس کا کھوکھلا تنا اندر سے لگ بھگ 6میٹر بلند ہے اور اس میں ہوا کی آمدورفت کے لیے دو قدرتی سوراخ یا روشن دان بھی بنے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے قیدیوں کو درخت کے اندر کسی بھی قسم کی گھٹن کا احساس نہیں ہوتا۔
یہاں ایک بات اور بتادیں کہ بعض تاریخ دانوں نے ان تمام کہانیوں کو فرضی قرار دیا ہے، وہ انہیں من گھڑت اور لوک کہانیاں کہہ کر پکارتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ انہیں محض عوام الناس کی تفریح طبع کے لیے گھڑا گیا ہے اور یہ کہ ان کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قصے یا فرضی داستان کی کوئی ٹھوس یا مستند شہادت آج تک نہیں ملی کہ ان baobabs درختوں کو کبھی قیدیوں کی عارضی پناہ گاہ یا شبینہ جیل کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
بعض ماہرین اس ضمن میں یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ڈربی کے قریب ایک درخت قصبے کی عام آبادی سے بہت نزدیک ہے، یعنی یہ اس جگہ سے صرف 16کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اتنے کم فاصلے پر کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ وہاں درختوں کے کھوکھلے تنوں میں قیدیوں کو رات بھر کے لیے رکھا جائے۔ یہ تو زیادہ مشکل کام ہے، اس سے زیادہ آسان تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہمت اور کوشش کرکے قیدیوں کو قصبے کی جیل تک ہی پہنچادیا جائے۔
ان درختوں والے قید خانوں یعنی prison trees کے بارے میں خبریں 1910کے عشرے میں اخبارات کی زینت بننی شروع ہوئی تھیں۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ تمام اخبارات میں ایک ہی جیسی خبریں شائع ہوتی تھیں، سبھی کے الفاظ تک لگ بھگ ایک جیسے ہوتے تھے اور سب کی خبروں کا انداز بھی ایک ہی ہوتا تھا، مگر کچھ رپورٹر ان میں اپنے انداز سے کچھ تبدیلی کردیا کرتے تھے۔
مثال کے طور پر کچھ اخبارات کے نامہ نگاروں نے یہ دعویٰ کیا کہ وینڈھیم کےbaobab درخت میں ایک بہت بڑا بولٹ لگایا گیا ہے اور اسی سے زنجیریں باندھ کر قیدیوں کو ان میں جکڑا جاتا ہے۔ اس زمانے میں یہ رواج ہی نہیں تھا کہ پولیس درختوں کے تنوں سے قیدیوں کو زنجیروں کے ساتھ جکڑ دے یا لکڑی کے بڑے بڑے اور بھاری لٹھوں logs کے ساتھ زنجیروں سے باندھ دے۔ پھر یہ کہ اس بات کے بھی کوئی شواہد نہیں ملے کہ ان پھولے ہوئے تنوں والے درختوں کو اندر سے کشادہ کرکے لوگوں یا قیدیوں کو رکھنے کے لیے جگہ بنائی گئی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1900کے عشرے میں ڈربی اور وینڈھیم سے شائع ہونے والے مقامی اخبارات میں prison trees کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ملتا، نہ جانے یہ قصے کہانیاں کہاں سے آگئی ہیں جن پر لوگوں کی اکثریت یقین بھی کرنے لگی ہے۔
اس ضمن میں کرس ڈاسن نامی نامہ نگار نے اس شہری دیومالائی کہانی کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد یہ رپورٹ پیش کی تھی:''boab نامی درخت اپنے جثے اور پھیلے یا پھولے ہوئے تنے کی وجہ سے بالکل ظاہر اور نمایاں دکھائی دیتا ہے، یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے چھپایا جاسکے۔ اس حوالے سے ریاستی حکومت نے 1905میں مقامی قیدیوں کے لیے ایک رپورٹ تیار کرائی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ قیدیوں کو وینڈھیم، ڈربی یا دیگر قصبوں اور شہروں کو لے جاتے ہوئے راستے کے مسائل بہت زیادہ ہوگئے ہیں جن میں یہ چوڑے تنوں والے درخت بھی شامل ہیں۔''
جہاں تک ان درختوں baobabs کے حوالے سے شہرت کا تعلق ہے تو یہ چوں کہ ملکی اور غیرملکی سیاحوں میں بہت زیادہ مقبول ہیں، اس لیے ممکن ہے مقامی لوگوں نے یہ فرضی قصے تیار کیے ہوں، تاکہ اس علاقے میں سیاحوں کی کشش اور دلچسپی برقرار رہے۔ مقامی سیاحتی صنعت نے بھی اس فرضی کہانی کو غلط قرار دیا ہے، کیوں کہ یہ ان مقامات پر سیاحت کو فروغ دینا چاہتی ہے اور اپنے درختوں کے بارے میں اصل کشش باقی رکھنا چاہتی ہے۔ اصل میں مذکورہ من گھڑت اور فرضی قصوں کی وجہ سے مقامی baobabs کے درختوں میں سیاحوں نے کم دل چسپی لینی شروع کردی ہے جس سے سیاحت کی صنعت متاثر ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے مقامی حکومت نے لوگوں کو درختوں کے تنوں کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے وہاں حفاظتی جنگلے لگادیے ہیں، تاکہ نہ کوئی اندر جاسکے اور نہ درختوں کی چھال پر اپنے نام یا خاص نشان یا علامات کندہ کرسکے۔
اصل میں یہ حیرت انگیز اور ناقابل یقین خبر 1931میں شائع ہونے والے ایک اخباری مضمون کے تراشے سے لی گئی تھی جس کے مطابق بوٹل ٹری کو ہل گروو لاک اپ بھی کہا جاتا ہے اور اس درخت کی ایک عجیب و غریب تاریخ ہے۔ اس تاریخ کے مطابق جس دور میں سیاہ فام افراد کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان سے متعصبانہ سلوک کیا جاتا تھا، تو انہیں انہی درختوں کے کھوکھلے تنوں میں قید کردیا جاتا تھا۔ یہ بات 90کی دہائی کی ہے۔ پولیس ان بے قصور سیاہ فاموں کو رات رات بھر ان کھوکھلے تنوں میں قید رکھتی تھی۔
باقی بچ جانے والے قیدیوں کو درختوں کے باہر فولادی زنجیروں کی مدد سے تنوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا اور موقع ملتے ہی وہ وہاں سے بھاگ نکلتے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آسٹریلیا میں سیاہ فاموں کے ساتھ نسلی امتیاز برتا جاتا تھا اور ان پر وحشیانہ تشدد بھی کیا جاتا تھا۔ ایک قدیم اخبار میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک بار ایک سپاہی کچھ سیاہ فام قیدیوں کو وینڈھیم لے جارہا تھا جو سب زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ جب وہ baob درخت کے پاس پہنچے تو اس سپاہی نے ان تمام قیدیوں کو درخت کے تنے میں گھسادیا، مگر جگہ کم پڑگئی تو دو سیاہ فاموں کو باہر رکھنا پڑا اور انہیں سپاہی نے زنجیر کی مدد سے باہر باندھ دیا۔ باہر والا قیدی بہت شان دار صحت کا حامل تھا۔ اس کا جسم اور بازو فولاد کی طرح تھے۔ مگر جب صبح ہوئی تو وہ سیاہ فام اور طاقت ور قیدی غائب تھا اور جس زنجیر سے اسے باندھا گیا تھا، وہ بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ گویا سیاہ فام فولادی زنجیر سمیت وہاں سے فرار ہوگیا تھا۔
1938کے ایک اخباری مضمون سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس درخت کے گھیر کے باہر درخت کی چھال پر ''ہل گروو پولیس اسٹیشن'' کے الفاظ کندہ کیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ یہاں درخت کی نرم چھال پر سیکڑوں سیاحوں کے نام بھی کندہ ہیں جو چاہتے تھے کہ تاریخ میں ان کا نام زندہ رہے۔ اصل مسئلہ کیا ہے، یہ تو خود آسٹریلیا کی حکومت ہی بتاسکتی ہے، مگر یہ سچ ہے کہ درختوں کے تنوں میں واقع اس انوکھی جیل کا قصہ ہے بہت دل چسپ، ممکن ہے آنے والے وقت میں اس حوالے کوئی ٹھوس شہادت سامنے آجائے، مگر فی الحال اسی کہانی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
یہ ایک کافی بڑے گھیروالا درخت ہوتا ہے جس کا تنا بیچ میں سے بہت زیادہ پھولا ہوا ہوتا ہے اور دیکھنے میں یہ ایک بوتل لگتا ہے اور اسی لیے اکثر مقامی افراد اسے بوٹل ٹری کہتے ہیں، لیکن بعض لوگ اسے پھولا ہوا پیٹ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ایک تو اس درخت یعنی Boab کی شکل و صورت اور بناوٹ بہت ہی عجیب ہے جسے دیکھ کر لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اور پھر اس درخت کی دوسری بات یہ ہے کہ یہ آسٹریلیا میں قدیم ترین ہے، یعنی اتنا قدیم درخت کوئی اور اس پورے براعظم میں موجود نہیں ہے۔ لیکن دیکھنے میں یہ درخت کوئی کارٹون لگتا ہے۔ان مذکورہ بالا دو وجوہ کی بنا پر baobabs درختوں نے ہمیشہ سے ہی آسٹریلیا آنے والے غیرملکی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے جنہیں دیکھنے کے لیے ہر سال کثیر تعداد میں ملکی اور غیرملکی سیاح یہاں آتے ہیں۔
مغربی آسٹریلیا کے علاقے وینڈھیم کے جنوب میں کنگ روڈ پر ایسا ہی ایک نادر baobab سر اٹھائے کھڑا ہے۔ اس درخت کا گھیر یا قطر لگ بھگ 15میٹر کا ہے اور اس کا تنا اندر سے بالکل خالی یعنی کھوکھلا ہے۔ طویل عرصے سے مقامی لوگ اس کھوکھلے تنے کو دیکھتے رہتے تھے، پھر ایک روز کسی منچلے کے دل میں نہ جانے کیا سمائی کہ اس نے اس کھوکھلے تنے کو کاٹ کر اس میں ایک دروازہ بنادیا جس کے بعد باہر کھڑے ہوکر اس درخت کو دیکھنے والوں کی رسائی تنے کے اندر تک ہوگئی جہاں درخت کے تنے کی چوڑائی کی وجہ سے یہ ایک کشادہ کمرہ دکھائی دیتا ہے۔اس حوالے سے مقامی طور پر جو کہانی مشہور ہے، وہ کچھ اس طرح سے ہے:
یہ انیسویں صدی کے90 کے عشرے کی بات ہے، ایک بار پولیس پیٹرول کا پورا قافلہ مقامی قیدیوں کو لے کر اس مقام سے گزر رہا تھا۔ یہ قیدی ڈربی لے جائے جارہے تھے، رات کافی تاریک تھی۔ ان قیدیوں پر ڈربی کی مقامی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا کہ نہ جانے کیا ہوا کہ تاریک رات میں وینڈھیم کے مقام پر پولیس کا قافلہ رک گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ رات کا وقت تھا اور گہری تاریکی میں ان قیدیوں پر نظر رکھنا بہت مشکل ہورہا تھا۔
اتنے میں پولیس ٹیم کے سربراہ کی نظر اس درخت کے پھولے ہوئے تنے پر پڑی تو وہ ایک دم مسکرادیا، اس کے ذہن میں شاید ان قیدیوں کی حفاظت کی کوئی ترکیب آگئی تھی اور واقعی ایسا ہی تھا، کیوں کہ کچھ دیر بعد اس پولیس چیف کے حکم پر درخت کے پھولے ہوئے تنے کو بڑی احتیاط سے کاٹ کر ایک چھوٹا اور پتلا سا دروازہ بنایا گیا اور اس دروازے سے متعدد قیدیوں کو اس تنے کے اندر پہنچادیا گیا۔ اب وہ بالکل محفوظ تھے۔
مگر ابھی ایک مسئلہ باقی تھا۔ وہ یہ کہ اس پھولے ہوئے تنے والے درخت کے اندر کافی قیدی پہنچادیے گئے تھے، مگر ابھی بہت سے قیدی باہر کھڑے تھے اور اپنی محفوظ قیام گاہ کے اندر داخل ہونے کے منتظر تھے۔ پولیس چیف نے کچھ سوچا اور پھر یہ کیا کہ باقی قیدیوں کو درخت کے پھولے ہوئے تنے کے ساتھ باہر ہی زنجیروں سے باندھ دیا۔
پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا۔ پولیس پیٹرول اکثر وہاں سے گزرتی تو رات ہونے پر اسی مقام پر قیدیوں کو گاڑیوں سے نکال کر ان درختوں کے تنوں میں قید کردیتی تھی۔ اس کے بعد لوگوں نے اس جگہ کو "Hillgrove Lockup" کہہ کر پکارنا شروع کردیا اور یہ قیدیوں کے لیے ایک عارضی یا شبینہ قید خانہ بن گیا۔ مگر جب بھی قیدیوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو اسی سابقہ ترکیب پر عمل کیا جاتا تھا یعنی انہیں درختوں کے باہر کھڑا کرکے فولادی زنجیروں سے باندھ دیا جاتا تھا۔ اس کھوکھلے تنے کے اندر9 مربع میل کی ایک کال کوٹھری تھی جس میں ایک ہی وقت میں لگ بھگ 30قیدیوں کے رکھنے کی گنجائش تھی۔
ڈربی میں ایک دوسرا baobab درخت بھی ہے جس کے بارے میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ درخت بھی مذکورہ بالا مقصد کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ اس کا کھوکھلا تنا اندر سے لگ بھگ 6میٹر بلند ہے اور اس میں ہوا کی آمدورفت کے لیے دو قدرتی سوراخ یا روشن دان بھی بنے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے قیدیوں کو درخت کے اندر کسی بھی قسم کی گھٹن کا احساس نہیں ہوتا۔
یہاں ایک بات اور بتادیں کہ بعض تاریخ دانوں نے ان تمام کہانیوں کو فرضی قرار دیا ہے، وہ انہیں من گھڑت اور لوک کہانیاں کہہ کر پکارتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ انہیں محض عوام الناس کی تفریح طبع کے لیے گھڑا گیا ہے اور یہ کہ ان کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قصے یا فرضی داستان کی کوئی ٹھوس یا مستند شہادت آج تک نہیں ملی کہ ان baobabs درختوں کو کبھی قیدیوں کی عارضی پناہ گاہ یا شبینہ جیل کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
بعض ماہرین اس ضمن میں یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ڈربی کے قریب ایک درخت قصبے کی عام آبادی سے بہت نزدیک ہے، یعنی یہ اس جگہ سے صرف 16کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اتنے کم فاصلے پر کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ وہاں درختوں کے کھوکھلے تنوں میں قیدیوں کو رات بھر کے لیے رکھا جائے۔ یہ تو زیادہ مشکل کام ہے، اس سے زیادہ آسان تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہمت اور کوشش کرکے قیدیوں کو قصبے کی جیل تک ہی پہنچادیا جائے۔
ان درختوں والے قید خانوں یعنی prison trees کے بارے میں خبریں 1910کے عشرے میں اخبارات کی زینت بننی شروع ہوئی تھیں۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ تمام اخبارات میں ایک ہی جیسی خبریں شائع ہوتی تھیں، سبھی کے الفاظ تک لگ بھگ ایک جیسے ہوتے تھے اور سب کی خبروں کا انداز بھی ایک ہی ہوتا تھا، مگر کچھ رپورٹر ان میں اپنے انداز سے کچھ تبدیلی کردیا کرتے تھے۔
مثال کے طور پر کچھ اخبارات کے نامہ نگاروں نے یہ دعویٰ کیا کہ وینڈھیم کےbaobab درخت میں ایک بہت بڑا بولٹ لگایا گیا ہے اور اسی سے زنجیریں باندھ کر قیدیوں کو ان میں جکڑا جاتا ہے۔ اس زمانے میں یہ رواج ہی نہیں تھا کہ پولیس درختوں کے تنوں سے قیدیوں کو زنجیروں کے ساتھ جکڑ دے یا لکڑی کے بڑے بڑے اور بھاری لٹھوں logs کے ساتھ زنجیروں سے باندھ دے۔ پھر یہ کہ اس بات کے بھی کوئی شواہد نہیں ملے کہ ان پھولے ہوئے تنوں والے درختوں کو اندر سے کشادہ کرکے لوگوں یا قیدیوں کو رکھنے کے لیے جگہ بنائی گئی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1900کے عشرے میں ڈربی اور وینڈھیم سے شائع ہونے والے مقامی اخبارات میں prison trees کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ملتا، نہ جانے یہ قصے کہانیاں کہاں سے آگئی ہیں جن پر لوگوں کی اکثریت یقین بھی کرنے لگی ہے۔
اس ضمن میں کرس ڈاسن نامی نامہ نگار نے اس شہری دیومالائی کہانی کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد یہ رپورٹ پیش کی تھی:''boab نامی درخت اپنے جثے اور پھیلے یا پھولے ہوئے تنے کی وجہ سے بالکل ظاہر اور نمایاں دکھائی دیتا ہے، یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے چھپایا جاسکے۔ اس حوالے سے ریاستی حکومت نے 1905میں مقامی قیدیوں کے لیے ایک رپورٹ تیار کرائی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ قیدیوں کو وینڈھیم، ڈربی یا دیگر قصبوں اور شہروں کو لے جاتے ہوئے راستے کے مسائل بہت زیادہ ہوگئے ہیں جن میں یہ چوڑے تنوں والے درخت بھی شامل ہیں۔''
جہاں تک ان درختوں baobabs کے حوالے سے شہرت کا تعلق ہے تو یہ چوں کہ ملکی اور غیرملکی سیاحوں میں بہت زیادہ مقبول ہیں، اس لیے ممکن ہے مقامی لوگوں نے یہ فرضی قصے تیار کیے ہوں، تاکہ اس علاقے میں سیاحوں کی کشش اور دلچسپی برقرار رہے۔ مقامی سیاحتی صنعت نے بھی اس فرضی کہانی کو غلط قرار دیا ہے، کیوں کہ یہ ان مقامات پر سیاحت کو فروغ دینا چاہتی ہے اور اپنے درختوں کے بارے میں اصل کشش باقی رکھنا چاہتی ہے۔ اصل میں مذکورہ من گھڑت اور فرضی قصوں کی وجہ سے مقامی baobabs کے درختوں میں سیاحوں نے کم دل چسپی لینی شروع کردی ہے جس سے سیاحت کی صنعت متاثر ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے مقامی حکومت نے لوگوں کو درختوں کے تنوں کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے وہاں حفاظتی جنگلے لگادیے ہیں، تاکہ نہ کوئی اندر جاسکے اور نہ درختوں کی چھال پر اپنے نام یا خاص نشان یا علامات کندہ کرسکے۔
اصل میں یہ حیرت انگیز اور ناقابل یقین خبر 1931میں شائع ہونے والے ایک اخباری مضمون کے تراشے سے لی گئی تھی جس کے مطابق بوٹل ٹری کو ہل گروو لاک اپ بھی کہا جاتا ہے اور اس درخت کی ایک عجیب و غریب تاریخ ہے۔ اس تاریخ کے مطابق جس دور میں سیاہ فام افراد کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان سے متعصبانہ سلوک کیا جاتا تھا، تو انہیں انہی درختوں کے کھوکھلے تنوں میں قید کردیا جاتا تھا۔ یہ بات 90کی دہائی کی ہے۔ پولیس ان بے قصور سیاہ فاموں کو رات رات بھر ان کھوکھلے تنوں میں قید رکھتی تھی۔
باقی بچ جانے والے قیدیوں کو درختوں کے باہر فولادی زنجیروں کی مدد سے تنوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا اور موقع ملتے ہی وہ وہاں سے بھاگ نکلتے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آسٹریلیا میں سیاہ فاموں کے ساتھ نسلی امتیاز برتا جاتا تھا اور ان پر وحشیانہ تشدد بھی کیا جاتا تھا۔ ایک قدیم اخبار میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک بار ایک سپاہی کچھ سیاہ فام قیدیوں کو وینڈھیم لے جارہا تھا جو سب زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ جب وہ baob درخت کے پاس پہنچے تو اس سپاہی نے ان تمام قیدیوں کو درخت کے تنے میں گھسادیا، مگر جگہ کم پڑگئی تو دو سیاہ فاموں کو باہر رکھنا پڑا اور انہیں سپاہی نے زنجیر کی مدد سے باہر باندھ دیا۔ باہر والا قیدی بہت شان دار صحت کا حامل تھا۔ اس کا جسم اور بازو فولاد کی طرح تھے۔ مگر جب صبح ہوئی تو وہ سیاہ فام اور طاقت ور قیدی غائب تھا اور جس زنجیر سے اسے باندھا گیا تھا، وہ بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ گویا سیاہ فام فولادی زنجیر سمیت وہاں سے فرار ہوگیا تھا۔
1938کے ایک اخباری مضمون سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس درخت کے گھیر کے باہر درخت کی چھال پر ''ہل گروو پولیس اسٹیشن'' کے الفاظ کندہ کیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ یہاں درخت کی نرم چھال پر سیکڑوں سیاحوں کے نام بھی کندہ ہیں جو چاہتے تھے کہ تاریخ میں ان کا نام زندہ رہے۔ اصل مسئلہ کیا ہے، یہ تو خود آسٹریلیا کی حکومت ہی بتاسکتی ہے، مگر یہ سچ ہے کہ درختوں کے تنوں میں واقع اس انوکھی جیل کا قصہ ہے بہت دل چسپ، ممکن ہے آنے والے وقت میں اس حوالے کوئی ٹھوس شہادت سامنے آجائے، مگر فی الحال اسی کہانی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔