جُوکوکس ۔۔۔۔ مظلوموں کی آوازجو خاموش کر دی گئی
رکن پارلیمنٹ کا قتل برطانوی معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا شاخسانہ ہے
MULTAN:
شدت پسندی یا انتہا پسندی آج کسی ایک ملک یا خطہ کا مسئلہ نہیں رہی بلکہ اس نے کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے اور مذہب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ علم سیاسیات میں شدت پسندی کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ہر ایسا اقدام جس کا مقصد دوسروں کو جسمانی یا روحانی اذیت پہنچانا ہو۔ اور یہ سب کچھ آج اگر تیسری دنیا کے کسی غریب ملک میں ہو رہا ہے تو'' عظیم برطانیہ'' کا مہذب معاشرہ بھی اس سے محفوظ نہیں، جس کی ایک بڑی مثال حال ہی میں اس وقت سامنے آئی جب گزشتہ ماہ ایک رکن برطانوی پارلیمنٹ ''ہیلن جونے جو کوکس'' کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔
لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والی ایم پی کو شمالی برطانیہ کے شہر لیڈز کے قریب اپنے انتخابی حلقے بیٹلی اینڈ سپن میں اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ برسٹال نامی ایک گاؤں کی لائبریری میں اپنے حلقہ کے لوگوں سے ملاقات کرکے واپس لوٹ رہی تھیں۔ اطلاعات کے مطابق قاتل نے پہلے جُو کوکس کو گولی کا نشانہ بنایا اور پھر انہیں بْری طرح زد و کوب کیا۔ ویسٹ یارکشائر پولیس نے جائے وقوعہ سے 52 سالہ حملہ آور تھامس مائر کو گرفتار کر لیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور کا تعلق بائیں بازو کے ایک اتنہا پسند گروہ سے ہے اور اس نے مذکورہ رکن پارلیمنٹ پر حملہ کرتے وقت، کئی بار ''سب سے پہلے برطانیہ'' Britain First کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ Britain First ایک نسل پرست گروہ ہے، جسے نیشنل برٹش پارٹی کے سابق رکن پاول گولڈنگ نے2011ء میں قائم کیا تھا۔ یہ گروہ برطانیہ میں تارکین وطن کی آمد اور خاص طور پر ملک میں اسلام کی ترویج کا سخت مخالف ہے، جبکہ جُوکوکس کے بارے میں وہاں کے لوگوں کا ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ شامی مہاجرین کی حامی اور اسلام کے خلاف بے جا پروپیگنڈا کے خلاف تھیں۔ وہ دارالعوام کے ان ارکان میں سے تھیں جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شامی پناہ گزینوں کو برطانیہ میں بسانے کی حمایت کر رہی تھیں۔
جُوکوکس برطانوی پارلیمنٹ کے شام دوستی گروپ کی سربراہ اور شام میں فوجی مداخلت کی سخت مخالف تھیں، جس کا اظہار انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی آخری تقریر کے دوران بھی کیا، جس میں نہ صرف برطانیہ بلکہ امریکی حکومت کو بھی انہوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حقوق کے لئے اسرائیل کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں ان دنوں بریگزٹ (Brexit) یعنی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے معاملہ پر ریفرنڈم کی مہم بھی چل رہی تھی اور جُوکوکس برطانیہ کے یورپی یونین کا رکن رہنے کے حق میں تھیں۔ بریگزٹ کے معاملہ پر پورا برطانیہ منتشر ہے، ایک گروہ یورپی یونین کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو دوسرا شدت پسند اس پر تیار نہیں۔
لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ جُوکوکس کے قتل پر پورے برطانیہ میں زبردست ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ نہ صرف عام شہری بلکہ منتخب ارکان پارلیمنٹ بھی جُو کی موت پر سخت گرویدہ نظر آئے۔ ایوان نے مقتول رکن پارلیمنٹ کے سوگ میں سرکاری عمارتوں پر پرچم سرنگوں رکھا اور ان کی یاد میں لوگوں نے مختلف مقامات پر پھول رکھے اور شمعیں روشن کیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون جو ان دنوں برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں چل رہی مہم کے سلسلے میں جبرالٹر جاکر ایک ریلی نکالنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے تھے، نے ایک ٹوئٹ کیا کہ ''برطانوی ممبر پارلیمان جُوکوکس پر ہونے والے بہیمانہ حملے کے بعد تمام تر مہم بند کر دی گئی ہے۔ میں آج رات ریلی نکالنے کے لیے جبرالٹر نہیں جاؤں گا''۔
لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن نے اس واقعے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''جُوکوکس کے قتل سے ان کی پارٹی کو سخت دھچکا لگا ہے، انہیں اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران قتل کیا گیا ہے، ان کے قتل کی خبر بہت درناک ہے، وہ عظیم رکن پارلیمنٹ تھیں اور انہوں نے بہادری سے انتخابی مہم چلائی۔ جو کچھ ہوا ہے، وہ صرف نفرت کے احساس سے بھی بہت آگے کی بات ہے'' ۔ برطانیہ کے دوسرے سیاسی رہنماؤں اور اہم شخصیات نے بھی جُوکوکس کے قتل کو انتہائی وحشت ناک اور قابل افسوس قرار دیا ہے۔ جُوکوکس کے شوہر برینڈن کوکس نے اپنے بیان میں کہا کہ ''ان کی اہلیہ کو اسی نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کے خلاف وہ عرصے سے جدوجہد کر ر ہی تھیں''۔
جُوکوکس کے قتل کے بعد لندن کے نواحی علاقے ٹْوٹِنگ میں پارلیمنٹ کی ایک نشست کے لیے ضمنی الیکشن میں لیبر پارٹی کی کامیابی بھی دھندلا کر رہ گئی۔ اس ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے والی خاتون سیاستدان روزینہ خان نے ووٹوں کی گنتی کے ایک مرکز کے باہر تقریر کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ ''جُوکوکس کے افسوسناک قتل نے اْنہیں بری طرح متاثر کیا ہے اور وہ اپنی انتخابی کامیابی کے باوجود اپنے ووٹرز سے خطاب کرنے کے قابل نہیں رہیں۔ جُوکوکس کے قتل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت جتنی قیمتی ہے، اتنی ہی کمزور بھی ہے''۔
جُوکوکس کا قتل برطانیہ جیسے مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں شدت پسندی کے رجحان میں اضافے کا واضح ثبوت اور پالیسی سازوں کے لئے ایک سبق ہے، کیوں کہ پرائے گھر میں لگی آگ سے زیادہ دیر تک خود کو بھی محفوظ نہیں رکھا جا سکتا، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر ایسے اقدامات کئے جائیں کہ ہر جگہ پر امن اور انصاف کا یکساں بول بالا ہو۔ اور جن ممالک میں اس وقت بد امنی اور قتل و غارت کا راج ہے، وہاں پر بھی نیک نیتی سے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے صرف سیاست نہ چمکائی جائے، ورنہ شدت پسندی کے یہ جراثیم مہذب معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں یونہی لیتے رہیں گے۔
جوکوکس کے قتل کی وجہ برطانیہ میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی ہے
سابق رکن برطانوی پارلیمنٹ چودھری سرور
1997ء میں لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے رکن برطانوی پارلیمنٹ منتخب ہونے والے پہلے مسلمان چودھری محمد سرور نے جُوکوکس کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ وہ ایک محنتی، مخلص اور محروم طبقات کے حقوق کے لئے جنگ لڑنے والی بہادر خاتون تھیں۔ وہ ایک انسان دوست خاتون تھیں، جو کبھی بھی جذباتی فیصلے نہیں کرتی تھی، اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی، کیوں کہ وہ تو سب سے محبت سے پیش آنے والی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ پورے ملک میں مقبول تھیں۔
میں اپنی سابق کولیگ کے قتل پر بہت زیادہ دکھی ہوں، میری نیک خواہشات ان کے لئے ہیں۔ جُوکوکس کا قتل نہ صرف پارٹی بلکہ ان کے حلقہ انتخاب اور پورے ملک کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔ سابق رہنما لیبر پارٹی نے جُوکوکس کے قتل کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ابھی وہاں انکوائری چل رہی ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے قتل کے تمام محرکات کا جائزہ لے رہے ہیں، جس کے بعد کوئی حتمی بات کی جا سکتی ہے، تاہم میرے خیال میں دیگر وجوہات کے ساتھ اس قتل میں برطانیہ میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی بھی ایک وجہ ہے۔
دیکھیں! برطانیہ میں بھی آج پہلے والے حالات نہیں رہے، یورپی یونین کے معاملہ پر لوگ بکھر چکے ہیں، یورپی یونین سے علیحدگی کے خواہش مند طبقے کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے ملکی معیشت بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے، پاؤنڈ کی قدر کم ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ جبکہ دوسرا طبقہ ایسا نہیں سمجھتا تو ایسے حالات میں معاشرہ جب تفریق کا شکار ہو تو شدت پسندی جیسے عناصر پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔
برطانیہ میں مسلم امہ یا کسی مظلوم طبقہ کی حمایت بھی کیا جرم بنتی جا رہی ہے؟ کے سوال پر چودھری سرور نے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ جو بھی وہاں برابری یا مظلوم طبقات کے حقوق کی بات کرتا ہے وہاں کچھ فورسز خصوصاً مسلمانوں کی بات کریں تو اینٹی مسلم فورسز سرگرم ہو جاتی ہیں اور جُوکوکس برطانیہ کے مظلوم اور محروم طبقات کو حقوق دلانے کی جو جنگ لڑ رہی تھیں، اس وجہ سے کچھ فورسز ان کے خلاف سرگرم ہو چکی تھیں۔
دوران اقتدار قتل ہونے والے برطانوی ارکان پارلیمنٹ
دنیا میں جمہوریت کی ماں کہلوانے والے ملک برطانیہ میں دوران اقتدار کسی رکن پارلیمنٹ کا قتل کوئی نیا واقعہ نہیں۔ برطانوی پارلیمان کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہاں وقت کے وزیر اعظم کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ 11مئی 1812ء کو برطانیہ کے وزیر اعظم کی مسند پر براجمان سپینسر پرسیول کو دارالعوام کی لابی میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اکتوبر 1809ء میں برطانیہ کی سیاسی پارٹی ٹوری کے پلیٹ فارم سے منتخب ہو کر وزیر اعظم کا عہدہ سنھبالنے والے سپینسر کا قتل بعدازاں ذاتی رنجش قرار دیا گیا۔
6 مئی 1882ء کو آئرلینڈ کے چیف سیکرٹری لارڈ فریڈک کو آئرلینڈ کی علیحدگی پسند تنظیم آئرش ری پبلیکن کے ارکان نے آئرلینڈ کے صدر مقام ڈبلن میں قتل کیا۔ لارڈ فریڈک لبرل پارٹی کے پلیٹ فارم سے شمال مغربی یارک شائر کے انتخابی حلقہ سے کامیاب ہوئے تھے۔ اسی طرح 14نومبر 1981ء کو السٹر یونینسٹ پارٹی کے رابرٹ بریڈفورٹ کو بیل فاسٹ،12اکتوبر 1984ء کو کنزرویٹو پارٹی کے سر انتھونی بیری کو برائٹن، کنزرویٹو پارٹی کے ہی آئین گو 30جولائی 1990ء کو مشرقی سسیکس اور اب 16جون 2016ء کو لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب رکن پارلیمان 41 سالہ جُوکوکس کو بریسٹال میں نظریاتی اختلافات پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
ہیلن جُوکوکس کا سفر زیست!
برطانوی خاتون سیاست دان ہیلن جُونے جُوکوکس 22 جون 1974ء کو شمالی برطانیہ (بیٹلی اینڈ سپن) میں پیدا ہوئیں۔ ٹوتھ پیسٹ فیکٹری میں کام کرنے والے شخص کی بیٹی نے ریاست کے ایک گرائمر سکول سے تعلیم کے حصول کا آغاز کیا، جس دوران وہ ٹوتھ پیسٹ کی پیکنگ کا کام بھی کرتی تھیں۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کے ایک کالج (پیمبروک) سے سوشل اینڈ پولیٹیکل سائنسز کی تعلیم حاصل کی۔ وہ اپنے خاندان میں پہلی خاتون تھیں، جو یونیورسٹی تک پہنچی، بعدازاں انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس میں بھی داخلہ لیا۔
گریجوایشن کے بعد جُو نے رکن برطانوی پارلیمنٹ جون ویلے اور رکن یورپین پارلیمنٹ گلینز نوک کے ساتھ بطور مشیر کام کیا۔2001ء میں وہ ایک خیراتی ادارے اوکسفام کے ساتھ منسلک ہو گئیں۔ یہاں پر کام کے دوران جُو کوکس کی ملاقات برینڈن سے ہوئی اور ان دونوں نے شادی کر لی، جُو کے دو بچے ہیں، جن کی عمریں 3 اور 5 سال ہے۔ انسانیت کے لئے ان کی خدمات اور شخصی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 2015ء کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی نے انہیں بیٹلی اینڈ سپن سے اپنا امیدوار نامزد کر دیا، جس میں وہ کامیاب ہوئیں۔ رکن پارلیمنٹ منتخب ہو کر انہوں نے شام اور فلسطین کے مظلوم لوگوں کے لئے آواز بلند کی، جو شدت پسند گروہوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اور بالآخر محروم لوگوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی سزا انہیں موت کی صورت میں ملی۔ 16جون 2016ء کو صرف 41سال کی عمر میں انہیں ایک شدت پسند نے قتل کر دیا۔
شدت پسندی یا انتہا پسندی آج کسی ایک ملک یا خطہ کا مسئلہ نہیں رہی بلکہ اس نے کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے اور مذہب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ علم سیاسیات میں شدت پسندی کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ہر ایسا اقدام جس کا مقصد دوسروں کو جسمانی یا روحانی اذیت پہنچانا ہو۔ اور یہ سب کچھ آج اگر تیسری دنیا کے کسی غریب ملک میں ہو رہا ہے تو'' عظیم برطانیہ'' کا مہذب معاشرہ بھی اس سے محفوظ نہیں، جس کی ایک بڑی مثال حال ہی میں اس وقت سامنے آئی جب گزشتہ ماہ ایک رکن برطانوی پارلیمنٹ ''ہیلن جونے جو کوکس'' کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔
لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والی ایم پی کو شمالی برطانیہ کے شہر لیڈز کے قریب اپنے انتخابی حلقے بیٹلی اینڈ سپن میں اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ برسٹال نامی ایک گاؤں کی لائبریری میں اپنے حلقہ کے لوگوں سے ملاقات کرکے واپس لوٹ رہی تھیں۔ اطلاعات کے مطابق قاتل نے پہلے جُو کوکس کو گولی کا نشانہ بنایا اور پھر انہیں بْری طرح زد و کوب کیا۔ ویسٹ یارکشائر پولیس نے جائے وقوعہ سے 52 سالہ حملہ آور تھامس مائر کو گرفتار کر لیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور کا تعلق بائیں بازو کے ایک اتنہا پسند گروہ سے ہے اور اس نے مذکورہ رکن پارلیمنٹ پر حملہ کرتے وقت، کئی بار ''سب سے پہلے برطانیہ'' Britain First کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ Britain First ایک نسل پرست گروہ ہے، جسے نیشنل برٹش پارٹی کے سابق رکن پاول گولڈنگ نے2011ء میں قائم کیا تھا۔ یہ گروہ برطانیہ میں تارکین وطن کی آمد اور خاص طور پر ملک میں اسلام کی ترویج کا سخت مخالف ہے، جبکہ جُوکوکس کے بارے میں وہاں کے لوگوں کا ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ شامی مہاجرین کی حامی اور اسلام کے خلاف بے جا پروپیگنڈا کے خلاف تھیں۔ وہ دارالعوام کے ان ارکان میں سے تھیں جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شامی پناہ گزینوں کو برطانیہ میں بسانے کی حمایت کر رہی تھیں۔
جُوکوکس برطانوی پارلیمنٹ کے شام دوستی گروپ کی سربراہ اور شام میں فوجی مداخلت کی سخت مخالف تھیں، جس کا اظہار انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی آخری تقریر کے دوران بھی کیا، جس میں نہ صرف برطانیہ بلکہ امریکی حکومت کو بھی انہوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حقوق کے لئے اسرائیل کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں ان دنوں بریگزٹ (Brexit) یعنی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے معاملہ پر ریفرنڈم کی مہم بھی چل رہی تھی اور جُوکوکس برطانیہ کے یورپی یونین کا رکن رہنے کے حق میں تھیں۔ بریگزٹ کے معاملہ پر پورا برطانیہ منتشر ہے، ایک گروہ یورپی یونین کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو دوسرا شدت پسند اس پر تیار نہیں۔
لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ جُوکوکس کے قتل پر پورے برطانیہ میں زبردست ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ نہ صرف عام شہری بلکہ منتخب ارکان پارلیمنٹ بھی جُو کی موت پر سخت گرویدہ نظر آئے۔ ایوان نے مقتول رکن پارلیمنٹ کے سوگ میں سرکاری عمارتوں پر پرچم سرنگوں رکھا اور ان کی یاد میں لوگوں نے مختلف مقامات پر پھول رکھے اور شمعیں روشن کیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون جو ان دنوں برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں چل رہی مہم کے سلسلے میں جبرالٹر جاکر ایک ریلی نکالنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے تھے، نے ایک ٹوئٹ کیا کہ ''برطانوی ممبر پارلیمان جُوکوکس پر ہونے والے بہیمانہ حملے کے بعد تمام تر مہم بند کر دی گئی ہے۔ میں آج رات ریلی نکالنے کے لیے جبرالٹر نہیں جاؤں گا''۔
لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن نے اس واقعے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''جُوکوکس کے قتل سے ان کی پارٹی کو سخت دھچکا لگا ہے، انہیں اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران قتل کیا گیا ہے، ان کے قتل کی خبر بہت درناک ہے، وہ عظیم رکن پارلیمنٹ تھیں اور انہوں نے بہادری سے انتخابی مہم چلائی۔ جو کچھ ہوا ہے، وہ صرف نفرت کے احساس سے بھی بہت آگے کی بات ہے'' ۔ برطانیہ کے دوسرے سیاسی رہنماؤں اور اہم شخصیات نے بھی جُوکوکس کے قتل کو انتہائی وحشت ناک اور قابل افسوس قرار دیا ہے۔ جُوکوکس کے شوہر برینڈن کوکس نے اپنے بیان میں کہا کہ ''ان کی اہلیہ کو اسی نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کے خلاف وہ عرصے سے جدوجہد کر ر ہی تھیں''۔
جُوکوکس کے قتل کے بعد لندن کے نواحی علاقے ٹْوٹِنگ میں پارلیمنٹ کی ایک نشست کے لیے ضمنی الیکشن میں لیبر پارٹی کی کامیابی بھی دھندلا کر رہ گئی۔ اس ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے والی خاتون سیاستدان روزینہ خان نے ووٹوں کی گنتی کے ایک مرکز کے باہر تقریر کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ ''جُوکوکس کے افسوسناک قتل نے اْنہیں بری طرح متاثر کیا ہے اور وہ اپنی انتخابی کامیابی کے باوجود اپنے ووٹرز سے خطاب کرنے کے قابل نہیں رہیں۔ جُوکوکس کے قتل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت جتنی قیمتی ہے، اتنی ہی کمزور بھی ہے''۔
جُوکوکس کا قتل برطانیہ جیسے مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں شدت پسندی کے رجحان میں اضافے کا واضح ثبوت اور پالیسی سازوں کے لئے ایک سبق ہے، کیوں کہ پرائے گھر میں لگی آگ سے زیادہ دیر تک خود کو بھی محفوظ نہیں رکھا جا سکتا، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر ایسے اقدامات کئے جائیں کہ ہر جگہ پر امن اور انصاف کا یکساں بول بالا ہو۔ اور جن ممالک میں اس وقت بد امنی اور قتل و غارت کا راج ہے، وہاں پر بھی نیک نیتی سے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے صرف سیاست نہ چمکائی جائے، ورنہ شدت پسندی کے یہ جراثیم مہذب معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں یونہی لیتے رہیں گے۔
جوکوکس کے قتل کی وجہ برطانیہ میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی ہے
سابق رکن برطانوی پارلیمنٹ چودھری سرور
1997ء میں لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے رکن برطانوی پارلیمنٹ منتخب ہونے والے پہلے مسلمان چودھری محمد سرور نے جُوکوکس کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ وہ ایک محنتی، مخلص اور محروم طبقات کے حقوق کے لئے جنگ لڑنے والی بہادر خاتون تھیں۔ وہ ایک انسان دوست خاتون تھیں، جو کبھی بھی جذباتی فیصلے نہیں کرتی تھی، اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی، کیوں کہ وہ تو سب سے محبت سے پیش آنے والی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ پورے ملک میں مقبول تھیں۔
میں اپنی سابق کولیگ کے قتل پر بہت زیادہ دکھی ہوں، میری نیک خواہشات ان کے لئے ہیں۔ جُوکوکس کا قتل نہ صرف پارٹی بلکہ ان کے حلقہ انتخاب اور پورے ملک کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔ سابق رہنما لیبر پارٹی نے جُوکوکس کے قتل کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ابھی وہاں انکوائری چل رہی ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے قتل کے تمام محرکات کا جائزہ لے رہے ہیں، جس کے بعد کوئی حتمی بات کی جا سکتی ہے، تاہم میرے خیال میں دیگر وجوہات کے ساتھ اس قتل میں برطانیہ میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی بھی ایک وجہ ہے۔
دیکھیں! برطانیہ میں بھی آج پہلے والے حالات نہیں رہے، یورپی یونین کے معاملہ پر لوگ بکھر چکے ہیں، یورپی یونین سے علیحدگی کے خواہش مند طبقے کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے ملکی معیشت بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے، پاؤنڈ کی قدر کم ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ جبکہ دوسرا طبقہ ایسا نہیں سمجھتا تو ایسے حالات میں معاشرہ جب تفریق کا شکار ہو تو شدت پسندی جیسے عناصر پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔
برطانیہ میں مسلم امہ یا کسی مظلوم طبقہ کی حمایت بھی کیا جرم بنتی جا رہی ہے؟ کے سوال پر چودھری سرور نے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ جو بھی وہاں برابری یا مظلوم طبقات کے حقوق کی بات کرتا ہے وہاں کچھ فورسز خصوصاً مسلمانوں کی بات کریں تو اینٹی مسلم فورسز سرگرم ہو جاتی ہیں اور جُوکوکس برطانیہ کے مظلوم اور محروم طبقات کو حقوق دلانے کی جو جنگ لڑ رہی تھیں، اس وجہ سے کچھ فورسز ان کے خلاف سرگرم ہو چکی تھیں۔
دوران اقتدار قتل ہونے والے برطانوی ارکان پارلیمنٹ
دنیا میں جمہوریت کی ماں کہلوانے والے ملک برطانیہ میں دوران اقتدار کسی رکن پارلیمنٹ کا قتل کوئی نیا واقعہ نہیں۔ برطانوی پارلیمان کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہاں وقت کے وزیر اعظم کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ 11مئی 1812ء کو برطانیہ کے وزیر اعظم کی مسند پر براجمان سپینسر پرسیول کو دارالعوام کی لابی میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اکتوبر 1809ء میں برطانیہ کی سیاسی پارٹی ٹوری کے پلیٹ فارم سے منتخب ہو کر وزیر اعظم کا عہدہ سنھبالنے والے سپینسر کا قتل بعدازاں ذاتی رنجش قرار دیا گیا۔
6 مئی 1882ء کو آئرلینڈ کے چیف سیکرٹری لارڈ فریڈک کو آئرلینڈ کی علیحدگی پسند تنظیم آئرش ری پبلیکن کے ارکان نے آئرلینڈ کے صدر مقام ڈبلن میں قتل کیا۔ لارڈ فریڈک لبرل پارٹی کے پلیٹ فارم سے شمال مغربی یارک شائر کے انتخابی حلقہ سے کامیاب ہوئے تھے۔ اسی طرح 14نومبر 1981ء کو السٹر یونینسٹ پارٹی کے رابرٹ بریڈفورٹ کو بیل فاسٹ،12اکتوبر 1984ء کو کنزرویٹو پارٹی کے سر انتھونی بیری کو برائٹن، کنزرویٹو پارٹی کے ہی آئین گو 30جولائی 1990ء کو مشرقی سسیکس اور اب 16جون 2016ء کو لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب رکن پارلیمان 41 سالہ جُوکوکس کو بریسٹال میں نظریاتی اختلافات پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
ہیلن جُوکوکس کا سفر زیست!
برطانوی خاتون سیاست دان ہیلن جُونے جُوکوکس 22 جون 1974ء کو شمالی برطانیہ (بیٹلی اینڈ سپن) میں پیدا ہوئیں۔ ٹوتھ پیسٹ فیکٹری میں کام کرنے والے شخص کی بیٹی نے ریاست کے ایک گرائمر سکول سے تعلیم کے حصول کا آغاز کیا، جس دوران وہ ٹوتھ پیسٹ کی پیکنگ کا کام بھی کرتی تھیں۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کے ایک کالج (پیمبروک) سے سوشل اینڈ پولیٹیکل سائنسز کی تعلیم حاصل کی۔ وہ اپنے خاندان میں پہلی خاتون تھیں، جو یونیورسٹی تک پہنچی، بعدازاں انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس میں بھی داخلہ لیا۔
گریجوایشن کے بعد جُو نے رکن برطانوی پارلیمنٹ جون ویلے اور رکن یورپین پارلیمنٹ گلینز نوک کے ساتھ بطور مشیر کام کیا۔2001ء میں وہ ایک خیراتی ادارے اوکسفام کے ساتھ منسلک ہو گئیں۔ یہاں پر کام کے دوران جُو کوکس کی ملاقات برینڈن سے ہوئی اور ان دونوں نے شادی کر لی، جُو کے دو بچے ہیں، جن کی عمریں 3 اور 5 سال ہے۔ انسانیت کے لئے ان کی خدمات اور شخصی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 2015ء کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی نے انہیں بیٹلی اینڈ سپن سے اپنا امیدوار نامزد کر دیا، جس میں وہ کامیاب ہوئیں۔ رکن پارلیمنٹ منتخب ہو کر انہوں نے شام اور فلسطین کے مظلوم لوگوں کے لئے آواز بلند کی، جو شدت پسند گروہوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اور بالآخر محروم لوگوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی سزا انہیں موت کی صورت میں ملی۔ 16جون 2016ء کو صرف 41سال کی عمر میں انہیں ایک شدت پسند نے قتل کر دیا۔