نیو کلیئر سپلائر گروپ میں بھارت کی شکست
بھارتی وزیراعظم سفارتی محاذ میں نہایت سرگرم ہونےکے باوجود چینی و پاکستانی پالیسی سازوں سے ہار گئے
بزرگوں سے روایت ہے،جو اپنے آپ کو حد درجہ ذہین' ہوشیار اور اوور سمارٹ خیال کرے' وہ عموماً جلد یا بدیر ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں کچھ یہی حال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہوا۔ امریکی سپر پاور کی حمایت پا کر ان کا دل بلیّوں اچھلنے لگا تھا۔ یقین واثق ہو چلا کہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت بس چند لمحوں کی بات ہے۔مگر گروپ میں بھارت کی شمولیت کا معاملہ اٹھا' تو امریکا اور اس کے چند حواریوں کو چھوڑ کرکسی نے بھارتیوں کے حق میں ہاتھ نہ اٹھایا۔ حتیٰ کہ اس نازک موقع پر بظاہر دوست نظر آنے والے بھی د غا دے گئے۔
اس شکست فاش نے نریندر مودی اور ان کی ٹیم کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ وہ تو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے پر لڈوؤں کے تھال بانٹنے کو تیار بیٹھے تھے۔ مگر انہی کے پڑوسیوں' چین اور پاکستان نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ یہ تو بری اگزسٹ (Brexit)' ری ایگزسٹ(Rexit) اور نی ایگزسٹ (Nexit) جیسے اسکینڈلوں نے خصوصاً بھارت میں نمایاں ہو کر مودی ٹیم کو ذلت وخواری سے بچا لیا ورنہ بھارتی عوام میں اس کی بہت بھد اڑتی۔ تاہم باشعور بھارتی دانش وروں نے نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں بدترین ناکامی پر مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی اینڈ کو نے ناکام سفارت کاری کے ذریعے بھارت کو دنیا بھر میں رسوا کر دیا۔
تاریخ کی شہادت
نیو کلیئر سپلائز گروپ میں ایٹمی ایندھن و آلات بنانے والے اور ٹکنالوجی کے حامل ممالک شامل ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اس تنظیم کی بنیاد 1974ء میں پہلے بھارتی ایٹمی تجربے (مسکراتا بدھا) کے بعد رکھی گئی۔ ہوا یہ کہ بھارت نے یہ دہائی دے کر امریکا ' کینیڈا' فرانس' روس' وغیرہ سے جوہری ٹیکنالوجی ' میٹریل' آلات حاصل کیے کہ وہ بجلی پیدا کرنے والے ایٹمی ری ایکٹر بنانا چاہتا ہے۔
مگر اس نے ایٹمی ری ایکٹروں کی آڑ میں ایٹم بم تیار کر لیے۔ یوں بھارت نے دنیا والوں کو چکمہ دیا اور ایٹمی قوت بننے میں کامیاب رہا، بھارتی حکومت سے کھلادھوکا کھا کر ایٹمی ٹکنالوجی کے حامل ممالک کو اس تلخ سچائی کا احساس ہوا کہ کوئی بھی ملک پُرامن ایٹمی پروگرام کی آڑ لے کر ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ چناںچہ انہوں نے نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی بنیاد رکھ دی تاکہ کسی ''بدمعاش ملک'' کو کوئی بھی ایٹمی ٹکنالوجی ومیٹریل فروخت نہ کر سکے۔حیرت انگیز امر یہ کہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور' امریکا اپنے مفادات کی خاطر اسی ملک کو نیوکلئیرسپلائرز گروپ میں شامل کرنے کی کوششیں کرنے لگا جس کے مذموم کرتوتوں کی وجہ سے یہ تنظیم وجود میں آئی تھی۔
بھارت اور امریکا کی شراکت داری
اکیسویں صدی میں امریکیوں کو احساس ہوا کہ بھارت کروڑوں افراد پر مشتمل ایک بڑی منڈی ہے جہاں بڑی تعداد میں امریکی مال کھپ سکتا ہے۔ اسی طرح بھارتیوں نے بھی جانا کہ امریکا بھارتی مال کی بڑی منڈی بننے کا اہل ہے۔سو دونوں ممالک تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔ ( اب امریکا بھارت کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن چکا) اس دوران القا ہوا کہ ان کی شراکت ابھرتی سپر پاور' چین کے خلاف مضبوط بند باندھ سکتی ہے۔ اس امر نے دونوں ممالک کو مزیدقریب کر دیا۔ رفتہ رفتہ مفاد پرست امریکی حکمران طبقہ چین کے خلاف ابھارنے کی خاطر بھارت کو مختلف طریقوں سے نوازنے لگا۔
بھارت کی بڑی تمنا تھی کہ وہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہو جائے۔ یوں اسے اپنے ایٹمی ری ایکٹروں کے لیے ترقی یافتہ ممالک سے ایندھن اور آلات دستیاب ہو جاتے۔ ابھی تو بھارت ملکی ذرائع سے کسی نہ کسی طرح کام چلا رہا تھا۔ امریکا نے بھارت کو یقین دلایا کہ وہ اسے گروپ کا رکن بنوا دے گا۔لیکن مسئلہ یہ آن پڑا کہ بھارت نے ایٹمی اسلحے کی روک تھام کے سلسلے میں وضع ہونے والے کسی بین الاقوامی معاہدے بشمول این پی ٹی اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کر رکھے۔ جبکہ سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کم از کم این پی ٹی کو قبول کرنا لازم تھا۔ اس لیے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
تاہم بھارتی حکمران طبقے کی خوشنودی کے واسطے امریکا بہادر نے ہر جائز و ناجائز راستہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ 2006ء میں امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) نے ایک خصوصی قانون منظور کیا۔ اس قانون کے ذریعے این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے باوجود امریکی حکومت کو یہ اجازت مل گئی کہ وہ جوہری میٹریل ' آلات اور ٹیکنالوجی بھارت کو فروخت کر سکے۔اب امریکا کوشش کرنے لگا کہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ کے 48 ارکان بھی اس خصوصی امریکی قانون کو منظور کر لیں۔ اس منظوری کے ذریعے امریکا اور بھارت یہ چاہتے تھے کہ گروپ کے جو ارکان بھارتیوں کو ایٹمی میٹریل و آلات وغیرہ فروخت کرنا چاہیں' انہیں یہ قدم اٹھانے کی اجازت مل جائے۔
گروپ میں امریکا کو خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم 48 میں سے 20 ممالک نے بھارت سے کاروبار کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ چین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے صدر بش نے بذات خود چینی صدر کو فون کیا۔ اس گفتگو کے بعد چین بھی خصوصی امریکی قانون منظور کرنے پر رضا مندی ہوگیا۔ یوں بھارت این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے باوجود کئی ممالک سے ایٹمی ایندھن' آلات و ٹیکنالوجی خریدنے کے قابل ہو گیا۔ یہ کامیابی اسے صرف اکلوتی سپرپاور امریکا کی نظر عنایت سے ملی۔ اس امر نے د ونوں ممالک کو مزید قریب کر دیا۔
امریکہ بھارت تعلقات کا نیا باب
2014ء میں قوم پرست لیڈر' نریندر مودی بھارتی وزیراعظم بن گئے ۔ امریکی حکومت نے سانحہ گجرات کے اس کرتا دھرتا کو امریکا آنے سے روک رکھا تھا۔ مگر جب مودی نے اپنے عمل و کلام سے امریکی سپر پاور کا پرستارہونے کے اشارے دیئے ' تو امریکا نے اس پر عائد تمام پابندیاں ہٹا لیں۔ یوں ہزار ہا مسلمانوں کے قاتل کا گھناونا ماضی فراموش کر دیا گیا۔
نریندر مودی نے بھی امریکا پرست ہونے کا بھرپور ثبوت دیا۔انھوں نے بھارت کی طویل عرصے سے چلی آ رہی غیر جانب دارانہ پالیسی کو خیرباد کہا ، امریکی سرزمین کے پے در پے دورے کیے اور بھارت کو کھلم کھلا امریکی کلب میں شامل کر دیا۔ پہلے بھارت اپنی غیر جانب داری ثابت کرنے کی خاطر اورامریکا اور چین سے یکساں سلوک کرتا تھا۔ مودی دور میں بھارتی حکومت کا جھکاؤ واضح طور پر امریکا کی جانب ہو گیا۔
گو شروع میں مودی کی کوشش تھی کہ وہ اپنے جھولے میں امریکا اور چین' دونوں کو سوار کرا لیں' لیکن بدلتے حالات میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ماضی میں چینی حکمرانوں نے ملکی معاشی ترقی برقرار رکھنے کی خاطر امریکا سمیت ہر ملک سے تصادم نہ رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ لیکن اب چین معاشی و عسکری لحاظ سے دنیا کی بڑی قوت بن چکا۔ اسے اکیسویں صدی کی سپر پاور کہا جا رہا ہے۔اس نئی صورت حال میں چین مغرور' مفادات کے اسیر اور خود سر امریکی حکمران طبقے کے احکامات تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ چناںچہ معاشی تعلقات رکھنے کے باوجود پس پردہ دونوں ممالک کی خفیہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس جنگ میں وہ ایک دوسرے کے علاوہ دشمن کے دوست ممالک کو بھی ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اس نئی جنگ میں بھارت امریکہ کا ساتھی بن چکا ہے۔
گروپ میں شمولیت کی کوشش
وزیراعظم مودی نے برسر اقتدار آتے ہی ستمبر 2014ء میں '' میک ان انڈیا'' منصوبے کا آغاز کیا۔ اس پروجیکٹ کے ذریعے وہ بھارت کو قومی و غیر ملکی کمپنیوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ اسی منصوبے کی ایک کڑی یہ ہے کہ اندرون ملک ایٹمی ری ایکٹر بنا کر بیرون ممالک فروخت کیے جائیں ۔مگر یہ منافع بخش کاروبار نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے بعد ہی کرنا ممکن تھا۔
پچھلے سال ماہ اگست میں مودی حکومت کو معلوم ہوا کہ جون 2016ء میں سیول (جنوبی کوریا)میں گروپ کا اہم اجلاس ہو گا۔ اور یہ کہ اس اجلاس میں بھارت کی درخواست رکنیت منظور ہو سکتی ہے۔ یہ جان کر مودی اینڈ کو نے بھرپور سفارت کاری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ رکن ممالک کی حمایت حاصل ہو سکے۔ اس بھارتی ٹیم میں وزیراعظم کے علاوہ وزیر خارجہ سشما سوراج، مشیر سلامتی امور' اجیت دوال اور سیکرٹری خارجہ' ایس جے شنکر شامل تھے۔ یہ چوکڑی اکتوبر 2015ء سے گروپ کے رکن ممالک کے دورے کرنے لگی تاکہ بھارتی رکنیت کی راہ ہموار ہو سکے۔
اوائل مئی2016ء تک گروپ کے اہم ارکان مثلاً امریکا' روس' جرمنی' جاپان' برطانیہ' فرانس' کینیڈا ' جنوبی افریقہ اور جنوبی کوریا نے بھارت کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اب بھارتی حکومت کو اپنی جیت یقینی نظر آنے لگی۔ لیکن 19مئی کو چین نے دہماکا کر ڈالا۔چینی حکومت نے اعلان کیا کہ صرف این پی ٹی پر دستخط کرنے والے ملک ہی کو گروپ کا رکن بننا چاہیے۔ چین نے یہ اعلان بھی کیا کہ اگر بھارت گروپ کارکن بنا تو پاکستان کو بھی اس کی رکنیت دینی چاہیے۔چین سے گفت وشنید کے بعد 19مئی ہی کو حکومت پاکستان نے بھی گروپ کو درخواست رکنیت دے دی۔ مزیدبرآں رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پاکستان سرگرم ہو گیا۔
چین کی مخالفت نے بھارتی حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ سا پیدا کر دیا۔ چینی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم مودی میدان میں اتر آئے۔ انہوں نے ا مریکا' سوئٹزر لینڈ اور میکسیکو کا دورہ کیا تاکہ بھارتی رکنیت کو یقینی بنا یا جا سکے۔وسط جون میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے ایک شہ چال چلی جب سیکرٹری خارجہ،جے شنکر خفیہ دورے پر چین پہنچ گئے۔وہ چینی حکومت کے تحفظات دورکرنا چاہتے تھے۔ اسی دورے کے بعد بھارتی وزیر خارجہ نے یہ حیران کن اعلان کیا''پاکستان بھی گروپ کا رکن بن سکتا ہے۔ بھارت اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ ''ادھر تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہوا،تو مودی نے خصوصی طور پر چینی صدر،زی جن پنگ سے ملاقات کی۔وہ گروپ کی رکنیت پانے کی خاطر چینی صدر کی خوشامد کرتے رہے۔
لیکن مودی ٹیم کی ساری بھاگ دوڑ بیکار گئی۔23 جون کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا اجلاس سیول میں شروع ہوا۔ اس میں بھارتی درخواست رکنیت بھی زیر غور آئی۔ نو ممالک ... چین' برازیل' جنوبی افریقہ' سوئٹزر لینڈ' ترکی' ناروے' نیوزی لینڈ' آسٹریا اور آئرلینڈ نے درخواست کی مخالفت کی۔ چناںچہ بھارتی درخواست خارج کر دی گئی۔یاد رہے،گروپ میں سبھی فیصلے تمام ارکان اتفاق رائے سے کرتے ہیں۔ مخالفت کا مرکزی نکتہ یہ مطالبہ تھا کہ این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک اس گروپ کا رکن نہیں بن سکتے۔
مودی سرکار نے رکنیت پانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا' مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ مخالفین میں سوئٹزرلینڈ ' برازیل اور جنوبی افریقا کو کھڑا دیکھ کر بھارتی بھونچکا رہ گئے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ ممالک اس کے حامی ہیں۔ یوں سفارتی محاذ پر ناکام ہو کر بھارت کو اندرون و بیرون ملک خاصی رسوائی برداشت کرنا پڑی۔
اب بھارت میں ''عقاب'' یا جنگ پسند طبقہ مودی حکومت پر زور دے رہا ہے کہ چین کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنائی جائے کیونکہ وہ کھل کر بھارت کی مخالفت کرنے لگا ہے۔ جبکہ امن پسند گروہ کا موقف ہے کہ بھارت کو چین کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنے چاہیں۔ دونوں بڑی طاقتوں کے تصادم سے خطّے میں بے یقینی و بدامنی کی بھیانک لہر جنم لے سکتی ہے۔
نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے معاملے میں چین کی حمایت پا کر پاکستان میں عوام و خواص نے ازحد مسّرت محسوس کی۔ بین الاقوامی معاملات اور مسائل کی بات ہو،تو چین نے ہر نازک موقع پر پاکستان کا ساتھ دے کر اسے کٹھن حالات سے نکالا ہے۔ جبکہ امریکا ہر مشکل مرحلے میں پاکستان کا ساتھ چھوڑنے کی گھٹیا روایت رکھتا ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں کا عمل دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ خطے میں جنم لیتی نئی گریٹ گیم یاخفیہ جنگ میں پاکستان کو کس سپر پاور کا ساتھی بننا چاہیے۔
اس شکست فاش نے نریندر مودی اور ان کی ٹیم کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ وہ تو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے پر لڈوؤں کے تھال بانٹنے کو تیار بیٹھے تھے۔ مگر انہی کے پڑوسیوں' چین اور پاکستان نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ یہ تو بری اگزسٹ (Brexit)' ری ایگزسٹ(Rexit) اور نی ایگزسٹ (Nexit) جیسے اسکینڈلوں نے خصوصاً بھارت میں نمایاں ہو کر مودی ٹیم کو ذلت وخواری سے بچا لیا ورنہ بھارتی عوام میں اس کی بہت بھد اڑتی۔ تاہم باشعور بھارتی دانش وروں نے نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں بدترین ناکامی پر مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی اینڈ کو نے ناکام سفارت کاری کے ذریعے بھارت کو دنیا بھر میں رسوا کر دیا۔
تاریخ کی شہادت
نیو کلیئر سپلائز گروپ میں ایٹمی ایندھن و آلات بنانے والے اور ٹکنالوجی کے حامل ممالک شامل ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اس تنظیم کی بنیاد 1974ء میں پہلے بھارتی ایٹمی تجربے (مسکراتا بدھا) کے بعد رکھی گئی۔ ہوا یہ کہ بھارت نے یہ دہائی دے کر امریکا ' کینیڈا' فرانس' روس' وغیرہ سے جوہری ٹیکنالوجی ' میٹریل' آلات حاصل کیے کہ وہ بجلی پیدا کرنے والے ایٹمی ری ایکٹر بنانا چاہتا ہے۔
مگر اس نے ایٹمی ری ایکٹروں کی آڑ میں ایٹم بم تیار کر لیے۔ یوں بھارت نے دنیا والوں کو چکمہ دیا اور ایٹمی قوت بننے میں کامیاب رہا، بھارتی حکومت سے کھلادھوکا کھا کر ایٹمی ٹکنالوجی کے حامل ممالک کو اس تلخ سچائی کا احساس ہوا کہ کوئی بھی ملک پُرامن ایٹمی پروگرام کی آڑ لے کر ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ چناںچہ انہوں نے نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی بنیاد رکھ دی تاکہ کسی ''بدمعاش ملک'' کو کوئی بھی ایٹمی ٹکنالوجی ومیٹریل فروخت نہ کر سکے۔حیرت انگیز امر یہ کہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور' امریکا اپنے مفادات کی خاطر اسی ملک کو نیوکلئیرسپلائرز گروپ میں شامل کرنے کی کوششیں کرنے لگا جس کے مذموم کرتوتوں کی وجہ سے یہ تنظیم وجود میں آئی تھی۔
بھارت اور امریکا کی شراکت داری
اکیسویں صدی میں امریکیوں کو احساس ہوا کہ بھارت کروڑوں افراد پر مشتمل ایک بڑی منڈی ہے جہاں بڑی تعداد میں امریکی مال کھپ سکتا ہے۔ اسی طرح بھارتیوں نے بھی جانا کہ امریکا بھارتی مال کی بڑی منڈی بننے کا اہل ہے۔سو دونوں ممالک تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔ ( اب امریکا بھارت کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن چکا) اس دوران القا ہوا کہ ان کی شراکت ابھرتی سپر پاور' چین کے خلاف مضبوط بند باندھ سکتی ہے۔ اس امر نے دونوں ممالک کو مزیدقریب کر دیا۔ رفتہ رفتہ مفاد پرست امریکی حکمران طبقہ چین کے خلاف ابھارنے کی خاطر بھارت کو مختلف طریقوں سے نوازنے لگا۔
بھارت کی بڑی تمنا تھی کہ وہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہو جائے۔ یوں اسے اپنے ایٹمی ری ایکٹروں کے لیے ترقی یافتہ ممالک سے ایندھن اور آلات دستیاب ہو جاتے۔ ابھی تو بھارت ملکی ذرائع سے کسی نہ کسی طرح کام چلا رہا تھا۔ امریکا نے بھارت کو یقین دلایا کہ وہ اسے گروپ کا رکن بنوا دے گا۔لیکن مسئلہ یہ آن پڑا کہ بھارت نے ایٹمی اسلحے کی روک تھام کے سلسلے میں وضع ہونے والے کسی بین الاقوامی معاہدے بشمول این پی ٹی اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کر رکھے۔ جبکہ سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کم از کم این پی ٹی کو قبول کرنا لازم تھا۔ اس لیے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
تاہم بھارتی حکمران طبقے کی خوشنودی کے واسطے امریکا بہادر نے ہر جائز و ناجائز راستہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ 2006ء میں امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) نے ایک خصوصی قانون منظور کیا۔ اس قانون کے ذریعے این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے باوجود امریکی حکومت کو یہ اجازت مل گئی کہ وہ جوہری میٹریل ' آلات اور ٹیکنالوجی بھارت کو فروخت کر سکے۔اب امریکا کوشش کرنے لگا کہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ کے 48 ارکان بھی اس خصوصی امریکی قانون کو منظور کر لیں۔ اس منظوری کے ذریعے امریکا اور بھارت یہ چاہتے تھے کہ گروپ کے جو ارکان بھارتیوں کو ایٹمی میٹریل و آلات وغیرہ فروخت کرنا چاہیں' انہیں یہ قدم اٹھانے کی اجازت مل جائے۔
گروپ میں امریکا کو خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم 48 میں سے 20 ممالک نے بھارت سے کاروبار کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ چین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے صدر بش نے بذات خود چینی صدر کو فون کیا۔ اس گفتگو کے بعد چین بھی خصوصی امریکی قانون منظور کرنے پر رضا مندی ہوگیا۔ یوں بھارت این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے باوجود کئی ممالک سے ایٹمی ایندھن' آلات و ٹیکنالوجی خریدنے کے قابل ہو گیا۔ یہ کامیابی اسے صرف اکلوتی سپرپاور امریکا کی نظر عنایت سے ملی۔ اس امر نے د ونوں ممالک کو مزید قریب کر دیا۔
امریکہ بھارت تعلقات کا نیا باب
2014ء میں قوم پرست لیڈر' نریندر مودی بھارتی وزیراعظم بن گئے ۔ امریکی حکومت نے سانحہ گجرات کے اس کرتا دھرتا کو امریکا آنے سے روک رکھا تھا۔ مگر جب مودی نے اپنے عمل و کلام سے امریکی سپر پاور کا پرستارہونے کے اشارے دیئے ' تو امریکا نے اس پر عائد تمام پابندیاں ہٹا لیں۔ یوں ہزار ہا مسلمانوں کے قاتل کا گھناونا ماضی فراموش کر دیا گیا۔
نریندر مودی نے بھی امریکا پرست ہونے کا بھرپور ثبوت دیا۔انھوں نے بھارت کی طویل عرصے سے چلی آ رہی غیر جانب دارانہ پالیسی کو خیرباد کہا ، امریکی سرزمین کے پے در پے دورے کیے اور بھارت کو کھلم کھلا امریکی کلب میں شامل کر دیا۔ پہلے بھارت اپنی غیر جانب داری ثابت کرنے کی خاطر اورامریکا اور چین سے یکساں سلوک کرتا تھا۔ مودی دور میں بھارتی حکومت کا جھکاؤ واضح طور پر امریکا کی جانب ہو گیا۔
گو شروع میں مودی کی کوشش تھی کہ وہ اپنے جھولے میں امریکا اور چین' دونوں کو سوار کرا لیں' لیکن بدلتے حالات میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ماضی میں چینی حکمرانوں نے ملکی معاشی ترقی برقرار رکھنے کی خاطر امریکا سمیت ہر ملک سے تصادم نہ رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ لیکن اب چین معاشی و عسکری لحاظ سے دنیا کی بڑی قوت بن چکا۔ اسے اکیسویں صدی کی سپر پاور کہا جا رہا ہے۔اس نئی صورت حال میں چین مغرور' مفادات کے اسیر اور خود سر امریکی حکمران طبقے کے احکامات تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ چناںچہ معاشی تعلقات رکھنے کے باوجود پس پردہ دونوں ممالک کی خفیہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس جنگ میں وہ ایک دوسرے کے علاوہ دشمن کے دوست ممالک کو بھی ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اس نئی جنگ میں بھارت امریکہ کا ساتھی بن چکا ہے۔
گروپ میں شمولیت کی کوشش
وزیراعظم مودی نے برسر اقتدار آتے ہی ستمبر 2014ء میں '' میک ان انڈیا'' منصوبے کا آغاز کیا۔ اس پروجیکٹ کے ذریعے وہ بھارت کو قومی و غیر ملکی کمپنیوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ اسی منصوبے کی ایک کڑی یہ ہے کہ اندرون ملک ایٹمی ری ایکٹر بنا کر بیرون ممالک فروخت کیے جائیں ۔مگر یہ منافع بخش کاروبار نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے بعد ہی کرنا ممکن تھا۔
پچھلے سال ماہ اگست میں مودی حکومت کو معلوم ہوا کہ جون 2016ء میں سیول (جنوبی کوریا)میں گروپ کا اہم اجلاس ہو گا۔ اور یہ کہ اس اجلاس میں بھارت کی درخواست رکنیت منظور ہو سکتی ہے۔ یہ جان کر مودی اینڈ کو نے بھرپور سفارت کاری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ رکن ممالک کی حمایت حاصل ہو سکے۔ اس بھارتی ٹیم میں وزیراعظم کے علاوہ وزیر خارجہ سشما سوراج، مشیر سلامتی امور' اجیت دوال اور سیکرٹری خارجہ' ایس جے شنکر شامل تھے۔ یہ چوکڑی اکتوبر 2015ء سے گروپ کے رکن ممالک کے دورے کرنے لگی تاکہ بھارتی رکنیت کی راہ ہموار ہو سکے۔
اوائل مئی2016ء تک گروپ کے اہم ارکان مثلاً امریکا' روس' جرمنی' جاپان' برطانیہ' فرانس' کینیڈا ' جنوبی افریقہ اور جنوبی کوریا نے بھارت کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اب بھارتی حکومت کو اپنی جیت یقینی نظر آنے لگی۔ لیکن 19مئی کو چین نے دہماکا کر ڈالا۔چینی حکومت نے اعلان کیا کہ صرف این پی ٹی پر دستخط کرنے والے ملک ہی کو گروپ کا رکن بننا چاہیے۔ چین نے یہ اعلان بھی کیا کہ اگر بھارت گروپ کارکن بنا تو پاکستان کو بھی اس کی رکنیت دینی چاہیے۔چین سے گفت وشنید کے بعد 19مئی ہی کو حکومت پاکستان نے بھی گروپ کو درخواست رکنیت دے دی۔ مزیدبرآں رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پاکستان سرگرم ہو گیا۔
چین کی مخالفت نے بھارتی حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ سا پیدا کر دیا۔ چینی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم مودی میدان میں اتر آئے۔ انہوں نے ا مریکا' سوئٹزر لینڈ اور میکسیکو کا دورہ کیا تاکہ بھارتی رکنیت کو یقینی بنا یا جا سکے۔وسط جون میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے ایک شہ چال چلی جب سیکرٹری خارجہ،جے شنکر خفیہ دورے پر چین پہنچ گئے۔وہ چینی حکومت کے تحفظات دورکرنا چاہتے تھے۔ اسی دورے کے بعد بھارتی وزیر خارجہ نے یہ حیران کن اعلان کیا''پاکستان بھی گروپ کا رکن بن سکتا ہے۔ بھارت اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ ''ادھر تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہوا،تو مودی نے خصوصی طور پر چینی صدر،زی جن پنگ سے ملاقات کی۔وہ گروپ کی رکنیت پانے کی خاطر چینی صدر کی خوشامد کرتے رہے۔
لیکن مودی ٹیم کی ساری بھاگ دوڑ بیکار گئی۔23 جون کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا اجلاس سیول میں شروع ہوا۔ اس میں بھارتی درخواست رکنیت بھی زیر غور آئی۔ نو ممالک ... چین' برازیل' جنوبی افریقہ' سوئٹزر لینڈ' ترکی' ناروے' نیوزی لینڈ' آسٹریا اور آئرلینڈ نے درخواست کی مخالفت کی۔ چناںچہ بھارتی درخواست خارج کر دی گئی۔یاد رہے،گروپ میں سبھی فیصلے تمام ارکان اتفاق رائے سے کرتے ہیں۔ مخالفت کا مرکزی نکتہ یہ مطالبہ تھا کہ این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک اس گروپ کا رکن نہیں بن سکتے۔
مودی سرکار نے رکنیت پانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا' مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ مخالفین میں سوئٹزرلینڈ ' برازیل اور جنوبی افریقا کو کھڑا دیکھ کر بھارتی بھونچکا رہ گئے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ ممالک اس کے حامی ہیں۔ یوں سفارتی محاذ پر ناکام ہو کر بھارت کو اندرون و بیرون ملک خاصی رسوائی برداشت کرنا پڑی۔
اب بھارت میں ''عقاب'' یا جنگ پسند طبقہ مودی حکومت پر زور دے رہا ہے کہ چین کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنائی جائے کیونکہ وہ کھل کر بھارت کی مخالفت کرنے لگا ہے۔ جبکہ امن پسند گروہ کا موقف ہے کہ بھارت کو چین کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنے چاہیں۔ دونوں بڑی طاقتوں کے تصادم سے خطّے میں بے یقینی و بدامنی کی بھیانک لہر جنم لے سکتی ہے۔
نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے معاملے میں چین کی حمایت پا کر پاکستان میں عوام و خواص نے ازحد مسّرت محسوس کی۔ بین الاقوامی معاملات اور مسائل کی بات ہو،تو چین نے ہر نازک موقع پر پاکستان کا ساتھ دے کر اسے کٹھن حالات سے نکالا ہے۔ جبکہ امریکا ہر مشکل مرحلے میں پاکستان کا ساتھ چھوڑنے کی گھٹیا روایت رکھتا ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں کا عمل دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ خطے میں جنم لیتی نئی گریٹ گیم یاخفیہ جنگ میں پاکستان کو کس سپر پاور کا ساتھی بننا چاہیے۔