عید ایک ہی دن
شریعت کے مسائل صرف علماء ہی بہتر جانتے ہیں اور قرآن و سنت کے مطابق علماء ہی ان کا فیصلہ کر سکتے ہیں
کل عید ہے اور میرے گھریلو ہمنشین مجھ سے گپ شپ لڑانے کے موڈ میں ہیں لیکن بچہ لوگوں کا موڈ کچھ اور ہے وہ گپ شپ کے موڈ میں ہر گز نہیں وہ گھر سے باہر جانا چاہتے ہیں بازار میں لیکن گھر میں اگر بڑے گپ شپ لڑاتے رہے تو ان کی ایڈوانس عیدی کون دے گا۔
اس بار وہ عیدی کے لیے عید کے دن کا انتظار کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ انھوں نے پہلی بار ایڈوانس عیدی کا مطالبہ کیا ہے اور یہ مطالبہ انھیں گھریلو ملازمین نے دیا ہے جو کسی نہ کسی طرح اپنی تنخواہ ایڈوانس میں وصول کرنے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ اکثر نے تو یہ ایڈوانس عیدی گھروں کو بھجوا بھی دی ہے بذریعہ ٹیلی فون۔ منی آرڈر وغیرہ کے مقابلے میں یہ ایک نیا طریقہ دریافت ہوا ہے۔
کسی ٹیلی فون والے کے پاس جائیں اسے گھر کا نمبر دیں یا کسی پڑوسی کا۔ وہ بذریعہ ٹیلی فون سارا معاملہ طے کر لے گا اور یوں کسی تنخواہ دار کی رقم اس کے گھر پہنچ جائے گی چند ہی منٹوں میں۔ مجھ پر یہ انکشاف گزشتہ ماہ ہوا جب ایک ملازم نے کہا کہ مجھے تھوڑی سی چھٹی دے دیں وہ تھوڑی دیر بعد واپس آ گیا اور مجھے بتایا کہ اس کی والدہ کو رقم بھجوا دی ہے۔ میں نے تعجب سے پوچھا تو اس نے ترسیل زر کی اس نئی ایجاد اور نئے طریق کار پر سے پردہ اٹھایا۔ وہ منی آرڈر وغیرہ سب موقوف۔ بازار میں بعض ٹیلی فون والے یہ کام کرتے ہیں اور چند منٹوں میں گھر والوں کا جواب بھی سنوا دیتے ہیں۔
زمانہ کیا بدلا ہے دنیا ہی اور سے اور ہو گئی ہے۔ کالم لکھیں اور اگر گھر میں فیکس مشین نہیں ہے تو پڑوس میں کسی دکان پر جا کر کالم اپنے دفتر بھجوا دیں اور اس کی ڈیوٹی سے فارغ ہو جائیں اور ہاں اس بار تو عید ہے اور میں یہ سب عید سے ایک دن پہلے لکھ رہا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ کل عید ہے اور اس یقین کی ایک وجہ بھی ہے اور آپ اس وجہ کو تسلیم کریں گے۔
آپ نے یہ خوش خبری پڑھ لی ہو گی کہ شاید حضرت پوپلزئی ملک سے باہر ہیں اور عید بھی کہیں باہر ہی کریں گے یعنی پاکستانی آزاد ہیں کہ اپنی مرضی سے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے چاند کے مطابق عید منائیں اور اس میں کسی عالم دین از قسم پوپلزئی قبلہ کی رائے تسلیم نہ کریں اور کسی کو اپنی عید میں مداخلت کا حق نہ دیں بلکہ اپنی مرضی سے عید کریں۔ ایسے موقعے ہماری زندگی میں زیادہ نہیں آتے جو اب آیا ہے اور اس کی وجہ حضرت پوپلزئی کا ایک بیرونی سفر ہے جو عید پر بھی جاری رہے گا۔
ہمارے علماء کرام کا اقتدار اذان نماز تک محدود ہو گیا ہے جب کہ وہ اس پر خوش نہیں ہیں وہ اپنے اقتدار کو ان تمام معاملات تک پھیلانا چاہتے ہیں جہانتک کہ اسلام جاتا ہے اور مسلمان اسلام کا اقتدار مانتے ہیں۔ علاوہ نماز روزے کے نکاح و طلاق کے معاملات بھی علماء اپنی تحویل میں لینا چاہتے ہیں اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں کیونکہ اس کے باوجود کہ اب عدلیہ بھی ان معاملات میں مداخلت کرنے لگی ہے لیکن علماء اس سے دستبردار نہیں ہوئے اور ان کی عدلیہ بھی فیصلے دیتی رہتی ہے دیہی زندگی میں علماء کی عدالت چلتی ہے اور کسی مفتی کا فتویٰ ہی حرف آخر سمجھا جاتا ہے بشرطیکہ کوئی مفتی اپنے مقام سے غافل نہ ہو۔
شروع دن سے یہ مانا جاتا ہے کہ نکاح و طلاق کے مسائل اسلام کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور علماء اور مفتی اس پر عملدرآمد کرتے ہیں چنانچہ ان شرعی معاملات میں علماء کی چلتی ہے کسی عدالت کی چلتی ہے تو اس کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ شریعت کے مسائل صرف علماء ہی بہتر جانتے ہیں اور قرآن و سنت کے مطابق علماء ہی ان کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ علماء کا یہ حق مدتوں سے تسلیم کیا جاتا ہے اور اس میں مداخلت کی ضرورت نہیں پڑتی۔
بات علماء کے شرعی اقتدار کی ہو رہی تھی۔ کبھی یہ اقتدار صرف علماء کے پاس تھا اور اب بھی دیہی زندگی میں اس نوعیت کے فیصلے صرف علماء ہی طے کرتے ہیں اور کسی عالم دین کی رائے سے اختلاف کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی شرعی سند ضرور ہوتی ہے جس کی طاقت سے کوئی عالم دین فیصلہ صادر کرتا ہے اور پھر اس کو درست سمجھ کر اس پر ڈٹ جاتا ہے۔ یہ شرعی طریق کار ایک مقبول عام عوامی فیصلہ ہوتا ہے اور کسی مقدمے کا فیصلہ کرنے کا یہ ایک سستا ترین طریق کار ہے جب کہ سرکاری سطح پر ایک مقدمہ عام لوگوں کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتا۔
گاؤں میں یہ ایک عام رواج ہے کہ کسی تنازع میں مدعی مولوی صاحب کے پاس پہنچ جاتے ہیں جہاں اس کا فیصلہ جلدی بھی ہوتا اور آسان بھی پھر یہ فیصلہ چونکہ شرعی نوعیت کا ہوتا ہے اس لیے اس کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک آسان طریق کار ہے جو صدیوں سے رائج ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں۔ اس بار بھی اللہ کے فضل سے ایسا ہی ہو گا اگر کوئی حادثہ نہ ہو گیا تو عید پوری قوم مل کر منائے گی اور یوں مدتوں بعد یہ ایک متحدہ مشترکہ اور واحد عید ہو گی۔
اس بار وہ عیدی کے لیے عید کے دن کا انتظار کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ انھوں نے پہلی بار ایڈوانس عیدی کا مطالبہ کیا ہے اور یہ مطالبہ انھیں گھریلو ملازمین نے دیا ہے جو کسی نہ کسی طرح اپنی تنخواہ ایڈوانس میں وصول کرنے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ اکثر نے تو یہ ایڈوانس عیدی گھروں کو بھجوا بھی دی ہے بذریعہ ٹیلی فون۔ منی آرڈر وغیرہ کے مقابلے میں یہ ایک نیا طریقہ دریافت ہوا ہے۔
کسی ٹیلی فون والے کے پاس جائیں اسے گھر کا نمبر دیں یا کسی پڑوسی کا۔ وہ بذریعہ ٹیلی فون سارا معاملہ طے کر لے گا اور یوں کسی تنخواہ دار کی رقم اس کے گھر پہنچ جائے گی چند ہی منٹوں میں۔ مجھ پر یہ انکشاف گزشتہ ماہ ہوا جب ایک ملازم نے کہا کہ مجھے تھوڑی سی چھٹی دے دیں وہ تھوڑی دیر بعد واپس آ گیا اور مجھے بتایا کہ اس کی والدہ کو رقم بھجوا دی ہے۔ میں نے تعجب سے پوچھا تو اس نے ترسیل زر کی اس نئی ایجاد اور نئے طریق کار پر سے پردہ اٹھایا۔ وہ منی آرڈر وغیرہ سب موقوف۔ بازار میں بعض ٹیلی فون والے یہ کام کرتے ہیں اور چند منٹوں میں گھر والوں کا جواب بھی سنوا دیتے ہیں۔
زمانہ کیا بدلا ہے دنیا ہی اور سے اور ہو گئی ہے۔ کالم لکھیں اور اگر گھر میں فیکس مشین نہیں ہے تو پڑوس میں کسی دکان پر جا کر کالم اپنے دفتر بھجوا دیں اور اس کی ڈیوٹی سے فارغ ہو جائیں اور ہاں اس بار تو عید ہے اور میں یہ سب عید سے ایک دن پہلے لکھ رہا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ کل عید ہے اور اس یقین کی ایک وجہ بھی ہے اور آپ اس وجہ کو تسلیم کریں گے۔
آپ نے یہ خوش خبری پڑھ لی ہو گی کہ شاید حضرت پوپلزئی ملک سے باہر ہیں اور عید بھی کہیں باہر ہی کریں گے یعنی پاکستانی آزاد ہیں کہ اپنی مرضی سے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے چاند کے مطابق عید منائیں اور اس میں کسی عالم دین از قسم پوپلزئی قبلہ کی رائے تسلیم نہ کریں اور کسی کو اپنی عید میں مداخلت کا حق نہ دیں بلکہ اپنی مرضی سے عید کریں۔ ایسے موقعے ہماری زندگی میں زیادہ نہیں آتے جو اب آیا ہے اور اس کی وجہ حضرت پوپلزئی کا ایک بیرونی سفر ہے جو عید پر بھی جاری رہے گا۔
ہمارے علماء کرام کا اقتدار اذان نماز تک محدود ہو گیا ہے جب کہ وہ اس پر خوش نہیں ہیں وہ اپنے اقتدار کو ان تمام معاملات تک پھیلانا چاہتے ہیں جہانتک کہ اسلام جاتا ہے اور مسلمان اسلام کا اقتدار مانتے ہیں۔ علاوہ نماز روزے کے نکاح و طلاق کے معاملات بھی علماء اپنی تحویل میں لینا چاہتے ہیں اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں کیونکہ اس کے باوجود کہ اب عدلیہ بھی ان معاملات میں مداخلت کرنے لگی ہے لیکن علماء اس سے دستبردار نہیں ہوئے اور ان کی عدلیہ بھی فیصلے دیتی رہتی ہے دیہی زندگی میں علماء کی عدالت چلتی ہے اور کسی مفتی کا فتویٰ ہی حرف آخر سمجھا جاتا ہے بشرطیکہ کوئی مفتی اپنے مقام سے غافل نہ ہو۔
شروع دن سے یہ مانا جاتا ہے کہ نکاح و طلاق کے مسائل اسلام کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور علماء اور مفتی اس پر عملدرآمد کرتے ہیں چنانچہ ان شرعی معاملات میں علماء کی چلتی ہے کسی عدالت کی چلتی ہے تو اس کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ شریعت کے مسائل صرف علماء ہی بہتر جانتے ہیں اور قرآن و سنت کے مطابق علماء ہی ان کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ علماء کا یہ حق مدتوں سے تسلیم کیا جاتا ہے اور اس میں مداخلت کی ضرورت نہیں پڑتی۔
بات علماء کے شرعی اقتدار کی ہو رہی تھی۔ کبھی یہ اقتدار صرف علماء کے پاس تھا اور اب بھی دیہی زندگی میں اس نوعیت کے فیصلے صرف علماء ہی طے کرتے ہیں اور کسی عالم دین کی رائے سے اختلاف کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی شرعی سند ضرور ہوتی ہے جس کی طاقت سے کوئی عالم دین فیصلہ صادر کرتا ہے اور پھر اس کو درست سمجھ کر اس پر ڈٹ جاتا ہے۔ یہ شرعی طریق کار ایک مقبول عام عوامی فیصلہ ہوتا ہے اور کسی مقدمے کا فیصلہ کرنے کا یہ ایک سستا ترین طریق کار ہے جب کہ سرکاری سطح پر ایک مقدمہ عام لوگوں کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتا۔
گاؤں میں یہ ایک عام رواج ہے کہ کسی تنازع میں مدعی مولوی صاحب کے پاس پہنچ جاتے ہیں جہاں اس کا فیصلہ جلدی بھی ہوتا اور آسان بھی پھر یہ فیصلہ چونکہ شرعی نوعیت کا ہوتا ہے اس لیے اس کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک آسان طریق کار ہے جو صدیوں سے رائج ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں۔ اس بار بھی اللہ کے فضل سے ایسا ہی ہو گا اگر کوئی حادثہ نہ ہو گیا تو عید پوری قوم مل کر منائے گی اور یوں مدتوں بعد یہ ایک متحدہ مشترکہ اور واحد عید ہو گی۔