اسلامی نظریاتی کونسل کیوں تحلیل کی جائے
اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر اظہار تشویش کیا گیا ہے
ISLAMABAD:
سینیٹ کی انسانی حقوق حقوق کی فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر اظہار تشویش کیا گیا ہے، کمیٹی کا کہنا ہے کہ کونسل کی خواتین سے متعلق سفارشات ماورائے عقل ہیں اور خواتین پر تشدد کے حالیہ واقعات کی ذمے داری اسلامی نظریاتی کونسل پر عائد ہوتی ہے، اس کے ارکان جدید زمانے کی قانون سازی سے ناواقف ہیں، کونسل کی مدت پوری ہو چکی ہے، بہتر ہے اسے ختم کر دیا جائے، اب اس کے برقرار رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کونسل کی آئینی حیثیت کے بارے میں وزارت قانون کو خط لکھنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔
سینیٹ کی متذکرہ کمیٹی نے یکایک جس انداز میں ایک مسلمہ آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کی بات کی ہے اس پر آئین و قانون اور نظریہ پاکستان کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد حیران و پریشان ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل آئینی طور پر مشاورتی ادارہ ہے۔ مختلف امور، معاملات و مسائل پر اس کی جانب سے صرف تجاویز اور مشورے دیے جاتے ہیں، جو پارلیمنٹ کو منظوری کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز اور مشوروں میں مندرج کوئی لفظ بھی قانون کا درجہ نہیں رکھتا ہے۔
آئین پاکستان میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے اور اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ تمام قوانین کو اسلامی روح اور قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا اور اسلامی روح سے متصادم کوئی قانون نافذ رہے گا اور نہ بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا کام محض مشاورت و رہنمائی کرنا ہے، حتمی کام پارلیمنٹ اور حکومت کا ہے۔ کونسل کے ممبران کا تقرر بھی حکومت کرتی ہے، البتہ آئین میں کونسل کے ممبران کے تقرر سے متعلق معیار ضرور مقرر ہے مثلاً ممبران اسلامی اصول و فلسفہ، قرآن و سنت، معیشت، سیاست اور قانون کا صحیح ادراک رکھتے ہوں، 2 ممبران سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج ہوں یا اس کی اہلیت رکھتے ہوں، 4 ممبران ایسے ہوں جنھوں نے کم ازکم 15 سال اسلامک ریسرچ کی ہو۔
اس لحاظ سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان عمومی طور پر ارکان پارلیمنٹ سے زیادہ اہلیت کے حامل ہوتے ہیں، جن کی اہلیت کا کوئی تعلیمی معیار ہی مقرر نہیں ہے۔ کونسل کا کام بعض مخصوص امور پر مشورے دینا ہے باقی قانون سازی میں پارلیمنٹ خودمختار و آزاد ہے۔ کونسل کی جانب سے پیش کی جانے والی ہزاروں سفارشات پر عملدرآمد کرنے کے بجائے انھیں ردی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پھر چند ایک تجاویز کو متنازعہ قرار دے کر ادارے کو ختم کر دینے کی خواہش قرین از انصاف نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے مذموم عزائم کی نشاندہی کرنا ہے جس کو کوئی آئین پسند اور قوم بھی قبول نہیں کرے گی۔
جہاں تک ہمارے ملک میں ظلم و جبر اور خاص طور پر خواتین کے خلاف ظلم و تشدد کا تعلق ہے اس کا ذمے دار ہمارا جاگیردارانہ نظام ہے اور کیونکہ ہمارے ایوانوں میں جاگیردار اور وڈیرے خود بیٹھے ہیں اس لیے وہ اس نظام کے خلاف آئین سازی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ظلم و جبر کی روایت اور روح فرسا مظالم کی شرح مزید بڑھ رہی ہے۔ خواتین سے ہمدردی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ہدف تنقید بنا کر ختم کرنے کی باتیں کرنے والے مظلوم خواتین کے ہمدرد و مسیحا یہ بتا سکتے کہ انھوں نے خواتین کے خلاف روا مظالم کے خلاف کون سی قانون سازی کی ہے؟ کاروکاری، ونی، سوارہ اور قرآن سے شادی جیسی لاتعداد قبیح رسومات کے خاتمے کے لیے کیا کیا؟
قوم اور خاص طور پر خواتین کے ساتھ ظلم و جبر اور ان کا استحصال کرنے اور اس نظام کو دوام بخشنے والے بھی یہ لوگ ہیں جو غریبوں و مظلوموں کی دوستی کا دم بھی بھرتے ہیں اپنے آپ کو خواتین کا مسیحا و نجات دہندہ دوست و مربی ظاہر کرتے ہیں اور زبانی کلامی دعوؤں اور نعروں سے ان کی ہمدردیاں سمیٹنے کے بعد ان کا نسل و طبقاتی استحصال کرتے ہیں۔ ایک سینیٹر جرگے میں تصفیہ اس طرح کرتا ہے کہ صلح نامہ کے تحت کمسن بچیاں مخالف قبیلے کے حوالے کردیتا، جب خبر پھیلتی ہے تو اس واقع پر سپریم کورٹ ایکشن لیتی ہے۔
سینیٹر کو عدالت میں طلب کرکے اس سے جواب طلب کیا جاتا ہے کہ اس نے جرگہ کے فیصلے میں بچیاں مخالف قبیلے کے حوالے کیوں کیں تو وہ مسیحا و ہمدرد عدالت عظمیٰ کو بتاتا ہے کہ میں نے تو کار خیر کیا ہے کہ بچیاں مخالف قبیلے کو دلوا کر خون ریزی کا امکان ختم کرادیا۔ جواباً عدالت برہم ہوئی اور کہا کہ آپ اس دیوار کے پیچھے (یعنی سینیٹ میں) قانون سازی کرتے ہیں اور خود ہی قانون کو پامال کرتے ہیں۔
چند سال پیشتر بلوچستان میں کئی خواتین کو زندہ دفنانے کا واقعہ پیش آیا تھا اس روح فرسا اور انسانیت سوز واقعے پر ہر سطح پر افسوس اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا لیکن ایوان بالا میں ڈپٹی چیئرمین اس واقعے کا دفاع کر رہا تھا کہ یہ ہماری روایت کا حصہ ہے۔ سینیٹ کی انسانی حقوق کی فنکشنل کمیٹی جو خواتین سے متعلق سفارشات کو خواتین پر تشدد کی وجہ قرار دے کر اسلامی نظریاتی کونسل کے وجود کو ہی ختم کردینے کے حق میں ہے وہ متذکرہ بالا صورتحال میں اپنے وجود کا کیا جواز پیش کرے گی؟ کیا سینیٹ کو بھی ختم کردیا جائے؟ دو دو اور تین تین عیدیں کرانے والی رویت ہلال کمیٹی کو بھی ختم کردیا جائے؟ اسی فارمولے کے تحت پاکستان کے قریباً تمام ادارے ہی ختم کرنے پڑ جائیں گے۔
اسلامی نظریاتی کونسل ایک ایسا آئینی ادارہ اور ضرورت ہے جو ہر آئین کا حصہ رہی ہے۔ آئین میں اس کی مدت کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے اسلامی نظریاتی کونسل ایک بہتر مشاورتی ادارہ ہے کونسل کے کسی رکن یا کسی سفارش میں پائی جانے والی کوتاہی کو بنیاد بناکر اس کے وجود کو ہی ختم کردینے کی بات کسی طور قرین از انصاف نہیں ہے حکومت اور پارلیمنٹ کو تو اس سے استفادہ اور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ کونسل کی جانب سے پیش کی گئی لاتعداد ایسی سفارشات حکومتی بے اعتنائی و عدم دلچسپی کا شکار ہیں جن پر اگر عمل درآمد کرلیا جائے تو قوم کو بڑے پیمانے پر حق و انصاف میسر آجائے جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔
سینیٹ کی انسانی حقوق حقوق کی فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر اظہار تشویش کیا گیا ہے، کمیٹی کا کہنا ہے کہ کونسل کی خواتین سے متعلق سفارشات ماورائے عقل ہیں اور خواتین پر تشدد کے حالیہ واقعات کی ذمے داری اسلامی نظریاتی کونسل پر عائد ہوتی ہے، اس کے ارکان جدید زمانے کی قانون سازی سے ناواقف ہیں، کونسل کی مدت پوری ہو چکی ہے، بہتر ہے اسے ختم کر دیا جائے، اب اس کے برقرار رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کونسل کی آئینی حیثیت کے بارے میں وزارت قانون کو خط لکھنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔
سینیٹ کی متذکرہ کمیٹی نے یکایک جس انداز میں ایک مسلمہ آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کی بات کی ہے اس پر آئین و قانون اور نظریہ پاکستان کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد حیران و پریشان ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل آئینی طور پر مشاورتی ادارہ ہے۔ مختلف امور، معاملات و مسائل پر اس کی جانب سے صرف تجاویز اور مشورے دیے جاتے ہیں، جو پارلیمنٹ کو منظوری کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز اور مشوروں میں مندرج کوئی لفظ بھی قانون کا درجہ نہیں رکھتا ہے۔
آئین پاکستان میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے اور اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ تمام قوانین کو اسلامی روح اور قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا اور اسلامی روح سے متصادم کوئی قانون نافذ رہے گا اور نہ بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا کام محض مشاورت و رہنمائی کرنا ہے، حتمی کام پارلیمنٹ اور حکومت کا ہے۔ کونسل کے ممبران کا تقرر بھی حکومت کرتی ہے، البتہ آئین میں کونسل کے ممبران کے تقرر سے متعلق معیار ضرور مقرر ہے مثلاً ممبران اسلامی اصول و فلسفہ، قرآن و سنت، معیشت، سیاست اور قانون کا صحیح ادراک رکھتے ہوں، 2 ممبران سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج ہوں یا اس کی اہلیت رکھتے ہوں، 4 ممبران ایسے ہوں جنھوں نے کم ازکم 15 سال اسلامک ریسرچ کی ہو۔
اس لحاظ سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان عمومی طور پر ارکان پارلیمنٹ سے زیادہ اہلیت کے حامل ہوتے ہیں، جن کی اہلیت کا کوئی تعلیمی معیار ہی مقرر نہیں ہے۔ کونسل کا کام بعض مخصوص امور پر مشورے دینا ہے باقی قانون سازی میں پارلیمنٹ خودمختار و آزاد ہے۔ کونسل کی جانب سے پیش کی جانے والی ہزاروں سفارشات پر عملدرآمد کرنے کے بجائے انھیں ردی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پھر چند ایک تجاویز کو متنازعہ قرار دے کر ادارے کو ختم کر دینے کی خواہش قرین از انصاف نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے مذموم عزائم کی نشاندہی کرنا ہے جس کو کوئی آئین پسند اور قوم بھی قبول نہیں کرے گی۔
جہاں تک ہمارے ملک میں ظلم و جبر اور خاص طور پر خواتین کے خلاف ظلم و تشدد کا تعلق ہے اس کا ذمے دار ہمارا جاگیردارانہ نظام ہے اور کیونکہ ہمارے ایوانوں میں جاگیردار اور وڈیرے خود بیٹھے ہیں اس لیے وہ اس نظام کے خلاف آئین سازی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ظلم و جبر کی روایت اور روح فرسا مظالم کی شرح مزید بڑھ رہی ہے۔ خواتین سے ہمدردی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ہدف تنقید بنا کر ختم کرنے کی باتیں کرنے والے مظلوم خواتین کے ہمدرد و مسیحا یہ بتا سکتے کہ انھوں نے خواتین کے خلاف روا مظالم کے خلاف کون سی قانون سازی کی ہے؟ کاروکاری، ونی، سوارہ اور قرآن سے شادی جیسی لاتعداد قبیح رسومات کے خاتمے کے لیے کیا کیا؟
قوم اور خاص طور پر خواتین کے ساتھ ظلم و جبر اور ان کا استحصال کرنے اور اس نظام کو دوام بخشنے والے بھی یہ لوگ ہیں جو غریبوں و مظلوموں کی دوستی کا دم بھی بھرتے ہیں اپنے آپ کو خواتین کا مسیحا و نجات دہندہ دوست و مربی ظاہر کرتے ہیں اور زبانی کلامی دعوؤں اور نعروں سے ان کی ہمدردیاں سمیٹنے کے بعد ان کا نسل و طبقاتی استحصال کرتے ہیں۔ ایک سینیٹر جرگے میں تصفیہ اس طرح کرتا ہے کہ صلح نامہ کے تحت کمسن بچیاں مخالف قبیلے کے حوالے کردیتا، جب خبر پھیلتی ہے تو اس واقع پر سپریم کورٹ ایکشن لیتی ہے۔
سینیٹر کو عدالت میں طلب کرکے اس سے جواب طلب کیا جاتا ہے کہ اس نے جرگہ کے فیصلے میں بچیاں مخالف قبیلے کے حوالے کیوں کیں تو وہ مسیحا و ہمدرد عدالت عظمیٰ کو بتاتا ہے کہ میں نے تو کار خیر کیا ہے کہ بچیاں مخالف قبیلے کو دلوا کر خون ریزی کا امکان ختم کرادیا۔ جواباً عدالت برہم ہوئی اور کہا کہ آپ اس دیوار کے پیچھے (یعنی سینیٹ میں) قانون سازی کرتے ہیں اور خود ہی قانون کو پامال کرتے ہیں۔
چند سال پیشتر بلوچستان میں کئی خواتین کو زندہ دفنانے کا واقعہ پیش آیا تھا اس روح فرسا اور انسانیت سوز واقعے پر ہر سطح پر افسوس اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا لیکن ایوان بالا میں ڈپٹی چیئرمین اس واقعے کا دفاع کر رہا تھا کہ یہ ہماری روایت کا حصہ ہے۔ سینیٹ کی انسانی حقوق کی فنکشنل کمیٹی جو خواتین سے متعلق سفارشات کو خواتین پر تشدد کی وجہ قرار دے کر اسلامی نظریاتی کونسل کے وجود کو ہی ختم کردینے کے حق میں ہے وہ متذکرہ بالا صورتحال میں اپنے وجود کا کیا جواز پیش کرے گی؟ کیا سینیٹ کو بھی ختم کردیا جائے؟ دو دو اور تین تین عیدیں کرانے والی رویت ہلال کمیٹی کو بھی ختم کردیا جائے؟ اسی فارمولے کے تحت پاکستان کے قریباً تمام ادارے ہی ختم کرنے پڑ جائیں گے۔
اسلامی نظریاتی کونسل ایک ایسا آئینی ادارہ اور ضرورت ہے جو ہر آئین کا حصہ رہی ہے۔ آئین میں اس کی مدت کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے اسلامی نظریاتی کونسل ایک بہتر مشاورتی ادارہ ہے کونسل کے کسی رکن یا کسی سفارش میں پائی جانے والی کوتاہی کو بنیاد بناکر اس کے وجود کو ہی ختم کردینے کی بات کسی طور قرین از انصاف نہیں ہے حکومت اور پارلیمنٹ کو تو اس سے استفادہ اور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ کونسل کی جانب سے پیش کی گئی لاتعداد ایسی سفارشات حکومتی بے اعتنائی و عدم دلچسپی کا شکار ہیں جن پر اگر عمل درآمد کرلیا جائے تو قوم کو بڑے پیمانے پر حق و انصاف میسر آجائے جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔