’’لاہورکا تصورکرتے ہی دل میں ایک ہوک سے اٹھتی ہے‘‘
فسادات کے دوران انھیں اپنی قیمتی کتابوں کو چھوڑ کر لاہور سے نکلنا پڑا
کنھیا لال کپور نے لکھا ہے :
لاہور کا تصور کرتے ہی دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور بے اختیار زبان پر ناسخ کا یہ شعر آجاتا ہے۔
وہ نہیں بھولتا جہاں جائوں
ہائے میں کیا کروں کہاں جائوں
اس شہرکو تو کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی نے بھی رہ رہ کر یاد کیا ہے جو یہاں سے نکلے تو پھر ہندوستان کے بڑے شہروں میں ان کا ٹھور ٹھکانہ رہا، کنھیا لال کپور کا معاملہ ان دونوں سے ہٹ کر ہوا اور وہ موگا (بھارتی پنجاب ) جیسی خشک اور علمی فضا کے اعتبار سے بے آب وگیاہ زمین پر آباد ہو گئے ۔ ان سے جب کوئی موگا جیسے بن میں جا بسرام کرنے کی وجہ پوچھتا تو وہ یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتے :
'' جب تک ہندوستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا ۔ میرے لیے ہندوستان کے تمام شہراور قصبے برابر ہیں۔''
موگا کی ہم کیوں بدخوئیاں کریں، اس کام کے لیے کنھیا لال کپور ہی کافی ہیں :
'' لاہور اور موگا میں بعد المشرقین تھا ۔ کہاں لاہور کی رنگینیاں، مجلسیں اور ہنگامے اور کہاں موگا کا ایسا نیم ریگستانی قصبہ جہاں سرکنڈوں اورریت کے انبار کے علاوہ کوئی قابل دید چیز نہیں تھی ۔ بارہا حالات کی ستم ظریفی پر آنسو بہانے کو جی چاہا ۔ لیکن سنبھلتے سنبھلتے جب طبیعت سنبھل گئی تو نئے ماحول سے سمجھوتا کرلیا ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ گو لاہور کو چھوڑے سترہ سال ہو گئے اس کی حسین یادیں آج تک میرا تعاقب کر رہی ہیں ۔ ''
افسوس کی بات ہے کہ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیا لال کپور ، لاہور کی یاد میں تڑپتے،کسمساتے رہے مگر ان کا دوبارہ اس شہر میں پھیرا نہ لگا۔ تینوں کا حال ریاض خیرآبادی کے اس مصرع کے مصداق رہا :
وہ گلیاں یاد آتی ہیں جوانی جن میں کھوئی ہے
کنھیا لال کپور سے جب کوئی لاہورکا چکر نہ لگانے کی بابت پوچھتا تو وہ اقبال کا یہ شعر کہہ کربات ٹال جاتے ۔
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
مجتبیٰ حسین کے مضمون سے بھی اس محبت کا پتا چلتا ہے جو کنھیا لال کو اس شہر بے مثال سے تھی۔ ان کے بقول ''دروغ برگردن راوی لاہور سے محبت کا یہ عالم ہے کہ رات کو کبھی لاہور کی طرف پیر کر کے نہیں سوتے ۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ جب یہ لاہور میں تھے تو نہ جانے کس طرح سو جاتے تھے ، سنا ہے کہ موگا میں بھی لاہور کے ہی خواب دیکھتے ہیں ۔ دہلی کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ انارکلی کی ایک جھلک پر سیکڑوں کناٹ پلیس قربان کئے جاسکتے ہیں۔ ''
کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیا لال کپور اگر تادم مرگ لاہور کا کلمہ پڑھتے رہے تو اس کی ایک وجہ تو اس شہر کی فضا اور کھلا ڈلا ماحول تھا ،جسے انھوں نے دیکھا ، برتا اور ان کی ذہنی پرداخت اس میں ہوئی۔ دوسرے ادبی طور پر ان کی شہرت کی بنا اس شہرمیں پڑی، ادیب کی حیثیت سے وہ اس شہر میں قائم ہوئے۔ ان کی پہلی کتاب یہیں سے منصہ شہود پر آئی۔ یہاں کے لوگوں اور رسالوں نے ان کا حوصلہ بڑھایا ۔قدردانی کی۔ کنھیا لال کپور نے اپنی پہلی کتاب ''سنگ وخشت ''کے پیش لفظ میں اپنے قلم کار بننے کے ذمہ داران کے بارے میں صاف صاف بتا دیا ہے۔ :
''میں نے یہ مضامین کیوں لکھے ؟ اس کی دو وجوہات ہیں ۔ آج سے چار پانچ سال پہلے میرے احباب نے مجھے بنانا شروع کیا کہ میں اردو میں مزاحیہ اور طنزیہ مضامین لکھ سکتا ہوں۔ اردو ادب کی بدقسمتی سمجھئے کہ میں ان کی باتوں میں آگیا اور میں نے لکھنا شروع کیا۔ یہ مجھے ''بنانے والے'' اصحاب کون تھے ؟لیجیے میں انھیں بے نقاب کئے دیتا ہوں:کرشن چندر، مولانا صلاح الدین ، چودھری نذیر احمد ۔ آج جب کہ میں یہ مضامین شائع کر رہا ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ اول درجے کے دروغ گو تھے۔''
''بال وپر'' کے پیش لفظ میں لکھا :
راشن اور پراپیگنڈا کے دور میں ہاضمے اور دماغی توازن کے ٹھیک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہی تیز طرار طبیعت ، تو اس کے متعلق عرض ہے:
اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے!
واضح رہے کہ اس مصرعے میں آفتاب بمعنی ''لاہور'' استعمال ہوا ہے۔ لاہور سے ہجرت کرنے کے بعد جب موگا میں
مسجد ہو مدرسہ ہو یا خانقاہ ہو
کے مصداق سکونت اختیار کی تو شوخیٔ تحریر کی فاتحہ پڑھنے کے لیے استاد ذوق کا یہ شعر آڑے آیا:
تو ہی جب پہلو سے اپنے دلربا جاتا رہا
دل کا پھر کہنا تھا کیا ، جاتا رہا جاتا رہا
دوبارہ واضح رہے کہ اس شعر میں ''دلربا''سے مراد بت کم سن نہیں بلکہ لاہور ہے ۔
یہ چند سطور محض اس لیے لکھی جارہی ہیں کہ اگر ان مضامین کو پڑھ کر آپ کو ہنسی کے بجائے رونا آجائے تو آپ کھل کر رونے کے بعد مجھ پر نہیں بلکہ میرے ماحول پر ہنسیں۔''
کسی بھی بڑے آدمی کی زندگی کا جائزہ لیں، معلوم ہوگا کہ اسے جن چیزوں نے بڑا بنایا ، اس میں اس ماحول کوبہت دخل رہا ، جس میں وہ پروان چڑھتا ہے۔ کنھیا لال کپور کی ادب میں دلچسپی بڑھی تو ارد گرد علم پرور ماحول تھا۔ پطرس بخاری جیسا استاد اور کرشن چندر جیساتخلیق کار رہنما مل جائے تو بندہ خوبیٔ قسمت پر ناز کر سکتا ہے۔ دونوں نے ان میں چھپے جوہر کوآنک لیا تھا، اس لیے وہ اپنے اپنے اندازہ سے کنھیا لال کپورکی حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔گورنمنٹ کالج میں ایم اے انگریزی کے دوران نصابی تعلیم نے ذہنی افق کو تھوڑا وسیع ضرور کیا ہوگا لیکن اصل ذہنی وسعت تو پطرس بخاری جیسے استاد کی شاگردی نے بخشی، جن کی شخصیت ہی نہیں، طرز تحریر نے بھی انھیں پکڑا۔ ان کے بقول ''بخاری صاحب کی پرکشش شخصیت سے میں نے سب سے زیادہ اثر قبول کیا۔ موصوف نہ صرف انگریزی زبان کے مانے ہوئے مقرر اور استاد تھے بلکہ اردو زبان کے ایک سلجھے ہوئے مزاح نگار بھی ۔ بخاری صاحب سے میں نے ہر فرسودہ روایت اور ہر بے ہودہ شخص کا مضحکہ اڑانے کا فن سیکھا... بخاری کی تحریک پر ہی میں مزاح نگاری کی طرف مائل ہوا اور اگرچہ ان دنوں میری حیثیت نوگرفتار کی سی تھی ۔ انھوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔ایک اور جگہ بتایا ہے ''بخاری صاحب کے بعد کرشن چندر دوسرا ادیب تھا ، جس نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔ ''
کنھیا لال کپور کی لاہور سے جڑی یادوں کا قصہ طولانی ہے، جن کی طرف ہم دوبارہ مڑیں گے ، بیچ میں تھوڑا ان کی ذاتی زندگی کا احوال بیان کردیں۔
کنھیا لال کپور نے 27جون1910 کو چک 498گ ب تحصیل سمندری ضلع لائل پور(فیصل آباد)میں آنکھ کھولی۔ ذات کے کھتری۔ والد محکمہ مال میں پٹواری ۔ کپور کو مطالعہ کی طرف پرائمری اسکول کے استاد مولوی محمد عیسیٰ نے راغب کیا ، جو اردو فارسی میں دستگاہ رکھتے تھے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول کمالیہ سے 1928ء میں میٹرک کیا۔ 1932ء میں ڈی اے وی کالج لاہور سے بی اے کے بعد ایم اے انگریزی کے لیے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ معروف فلمی اداکار بلراج ساہنی ان کے ہم جماعت تھے ۔ ایم اے کے بعد وہ ڈی اے وی کالج میں 75 روپے ماہوار پر کمپوزیشن ٹیچر بن گئے ۔ ان دنوں وہ ہندو ہاسٹل میں رہتے تھے، وہیں کرشن چندر اپنے بھائی مہندر ناتھ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ کرشن چندر سے ان کی شناسائی یہیں ہوئی، جو رفتہ رفتہ قریبی دوستی میں ڈھل گئی۔ کرشن چندر سے ملنے سے قبل وہ ان کے طرز تحریر کے شیدائی بن گئے تھے اور اس کا باعث ان کا ''ہمایوں ''میں چھپنے والا مضمون '' لاہور سے بہرام گلہ تک '' بنا ۔ کرشن چندر کی تحریک پر ہی انھوں نے قلم کو جنبش دی اور ان کے افسانے '' یرقان'' کی ''خفقان'' کے عنوان سے پیروڈی لکھ کربتا دیا کہ اردو میں نئے طنز نگار کی نمود ہو گئی ہے۔ کرشن چندر یہ تحریر پڑھ کر خوش ہوئے اورانھیں مشق جاری رکھنے کی تلقین کی۔ ان کے ابتدائی دو مضامین میں ''اخباربینی'' ، چراغ حسن حسرت کے زیرادارت ہفت روزہ ''شیرازہ '' اور چینی شاعری '' ادب لطیف'' کے سالنامے (1938) میں شائع ہوا۔ تقسیم تک وہ ڈی اے وی کالج میں پڑھاتے رہے۔
کنھیا لال کپور کے پہلے دومجموعے ''سنگ وخشت '' (1942) اور ''شیشہ وتیشہ '' (1944)مکتبہ جدید لاہور نے شائع کئے ۔ لاہور کے ادبی حلقوں میں وہ خاصے معروف تھے ۔ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں شریک ہوتے، بعض دفعہ اس اہم ادبی انجمن کے اجلاس کی صدارت بھی کی۔ دسمبر1942ء میں حلقہ کے ایک اجلاس کی کارروائی سے اقتباس ملاحظہ کیجیے:
'' حلقہ ارباب ذوق کا گذشتہ اجلاس ساڑھے پانچ بجے شام بورڈ روم میں منعقد ہوا ۔ مولانا تاجور مجوزہ صدر تھے ۔ مگر ساڑھے پانچ بجے تک انتظار کرنے کے باوجود وہ تشریف نہ لائے لہٰذا راقم (مختار صدیقی) کی تجویز پر آفتاب احمد خاں صدر منتخب ہوئے ۔ کارروائی پڑھی گئی جو منظور ہوئی۔ سب سے پہلے کنھیا لال کپور نے اپنا مضمون انشائے لطیف ''شیشہ وتیشہ'' پڑھا ۔ غزل گو شعرا پر پیروڈی کے رنگ پر طنز تھی جس میں ان کی خوش وقتی اور برخود غلطی کے پیرائیے میں موجودہ سوشلسٹ شعرا کو بھی نہیں چھوڑا گیا تھا ۔ انور خاں اور برکت علی کو اعتراض تھا کہ اس میں واقعات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں اور صریح غلط بیانی اور توہین مطلوب ہے۔ کنھیا لال کپور نے عرض کیا کہ ایسا نہیں ہے اور وضاحت کی کہ انگریزی کی بحثی تمثیل Discussion play کے مطابق ہے جس میں تصویر کے دونوں رخ دکھائے گئے ہیں اور نتیجہ سامعین یا قارئین پر موقوف ہے۔ الطاف گوہر اور صاحب صدر نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ دونوں رخ دکھاتے وقت بھی لکھنے والے کی ذات اجاگر ہوتی ہے ، مضمون پر طرفداری مقصود نہیں ، لہٰذا یہی بے تعلقی لکھنے والے کی شخصیت کا اظہار ہے۔ مجموعی طور پر مضمون سراہا گیا۔
حلقے میں وہ اپنا لکھا بھی سناتے تھے اور دوسروں کی تحریروں پرکھل کراپنی رائے دیتے ۔ چار اکتوبر 1942ء کو وائی ایم سی اے کے بورڈ روم میںان کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کی روداد سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کریں:
''پروگرام کی دوسری چیز الطاف گوہر کا مضمون تھا ۔''شریف زادے سے حرام جادی تک '' تقریباً پینتیس منٹ کے ایک دلچسپ مقالے میں صاحب مضمون نے یہ گنوانے کی کوشش کی تھی کہ ''شریف زادہ ''کے مصنف مرزا رسوا سے لے کر ''حرام جادی '' کے خالق محمد حسن عسکری تک اردو میں کیا کیا نفسیاتی اور فنی تبدیلیاں ہوئی ہیں ...مضمون کے ختم ہونے پر کنھیا لال کپور نے کہا کہ صاحب مضمون نے جس قدر افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے وہ کم وبیش سب مغربی مصنفین خصوصاً فرائیڈ سے متاثر ہیں ۔ دوسرے یہ تمام لوگ عوام کی زندگی کے نمائندے نہیں ہیں ان میں تقریباً نوے فیصدی ایسے ہیں جو متوسط طبقے کے فرد ہیں ۔ یہ لوگ جدت پسند ضرور ہیں لیکن حقیقت سے کوسوں دور۔ اور پھر ان میں بھی بعض ایسے ہیں جن پر anglo indian طبقے کی نمائندگی کرنے کا گمان ہوتا ہے ۔ مثلاً کرشن چندر ، عصمت چغتائی اور منٹو۔آفتاب احمد کو کپور سے اختلاف تھا ۔''
کنھیا لال کپور نے اپنے مضامین ''اہل زبان ''اور '' نے چراغے نے گلے ''میں اہل زبان کوطنز کا نشانہ بنایا تواس کا خاصا برا منایا گیا ۔ شاہد احمد دہلوی نے ان کی ایسی تحریروں کو سخت ناپسند کیا ۔ اس زمانے میں نیاز مندان لاہور کے پلیٹ فارم سے چند مضامین اہل زبان کے بارے میں لکھے گئے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پطرس بخاری کے قلم سے نکلے یا پھر ان میں زیادہ ترقلم انھی کا لگا تھا ، اس لیے ممکن ہے، پطرس کے ایما پر ہی ان کے شاگرد عزیز نے مذکورہ مضمون لکھے ہوں ۔ ادبی دنیا میں پطرس اور کنھیا لال دونوں کی تحریروں نے خوب ہلچل مچائی۔ کنھیا لال اپنے جس مضمون کے باعث زیادہ مشکل میں پڑے وہ ''مطالبات ''تھا ، جس میں مطالبہ پاکستان کی مخالفت پر مسلم لیگی اخباروں نے ان کا ناطقہ بند کردیا اور ناچار انھیں معافی مانگ کر اور مضمون تلف کرنے کا وعدہ کر کے جان چھڑانی پڑی۔
ادبی حلقوں اور پڑھنے والوں میں کنھیا لال کپور کی پذیرائی۔ معقول نوکری۔ بے ریا دوستوں کی سنگت۔ لاہورکا کھلا ڈلا اور ادب پرور ماحول ۔ ان سب چیزوں نے اس شہر کے ساتھ ان کا جذباتی تعلق قائم کر دیا تھا ۔ اس شہر میں وہ اچھی طرح رچ بس گئے تھے، اس لیے جب انھیں فسادات کے باعث لاہور سے مجبوراً نکلنا پڑا تو وہ ردعمل میں تقسیم کے عمل سے متنفر ہو گئے ، قتل وغارت گری کی خبروں نے ان کو اور بھی اداس کر دیا ۔
لاہور چھوڑنے کے دکھڑے کا اظہار ان کے طنزیہ مضمون ''ہجرت کے فائدے '' میں بھی ہوتا ہے۔ فسادات پر کنھیا لال کپور نے ''گیئوہتھیا '' کے عنوان سے افسانہ لکھا ،جس کا محل وقوع لاہور کا ہے، جہاں دیکھتے ہی دیکھتے بھائی چارے کی فضا زہر ناک ہونے اورآپسی رویوں میں بدگمانی در آنے کو افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ :
...کلکتہ میں ہندو مسلم فساد ہوگیا تھا ۔ چھرے گھونپے جا رہے تھے ۔ مکانوں کو نذر آتش کیا جا رہا تھا ۔ عورتیں اغوا کی جارہی تھیں ۔ میں یہ خبریں سن کر دل ہی دل میں پیچ وتاب کھاتا ۔ یہ کیا ہوگیا ہے ہندوئوں اور مسلمانوں کو؟ شریفوں کی طرح کیوں نہیں رہ سکتے ۔ عورتوں پر حملے، عورتوں اور بچوں کا اغوا ۔ خیر وہ کلکتہ ہے۔ اپنے لاہور میں ایسی باتیں نہیں ہوسکتیں ۔ پنجابی زیادہ سمجھ دار واقع ہوئے ہیں ۔ وہ ان باتوں کی نوبت نہیں آنے دیں گے ۔ یہاں ہندو اور مسلمان شیرو شکر ہو کر رہتے ہیں ۔ کلکتہ پاگل ہوگیا ہے ۔ کاش وہ لاہور سے کچھ سیکھتا۔ ''افسانے میں آگے چل کر یہ سارے اندازے باطل ثابت ہوتے ہیں اور لاہور بھی فرقہ وارانہ فساد کی زد میں آجاتا ہے۔
'' ...منٹو پارک میں بالکل اندھیرا تھا ۔تھوڑی تھوڑی بوندا باندی ہورہی تھی ، ادھر ادھر کوئی نظر نہیں آتا تھا ۔ٹارچ کی روشنی میں سارا منٹو پارک چھان مارا لیکن یاسمین کا کہیں پتا نہ چلا۔ ہم راوی روڈ کی طرف گئے ۔ بڈھے نالے کے پل کے پاس یکلخت ٹارچ کی روشنی میں زمین پر پڑی کوئی چیز دکھائی دی۔ یہ یاسمین تھی ، خون میں نہائی ہوئی ۔ اس کے پھول سے جسم میں کسی بے درد نے چھرا گھونپ دیا تھا اور پھر نکالا نہیں تھا ...''
کنھیا لال کپور کے مرنے سے چند برس قبل ممتاز ادیب انتظار حسین کی ان سے ملاقات ہوئی، جس کی روداد انھوں نے اپنے سفر نامے ''زمیں اور فلک اور''میں کچھ یوں بیان کی ہے:
''ہاں اس شہر بمبئی میں کنھیا لال کپور سے مڈھ بھیڑ ہوئی۔ لمبے لگ لگ۔ بھولے بھالے ، ہنس مکھ، جس کسی نے بات کی جواب میں شعر پڑھ دیا۔ نثر بحالت مجبوری بولتے تھے ۔ باتیں شعروں میں کرتے تھے ۔ میں نے کہا: کپور صاحب آپ تو ہر بات شعر میں کرتے ہیں۔''
بولے: پرانے شاعر سب باتیں کہہ گئے ہیں۔ پھر ہمیں اپنی طرف سے کوئی بات کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
کپور صاحب: اپنے دوست مظفر علی سید آپ پر کام کررہے ہیں۔
ہاں ۔ سید صاحب کا خط آیا تھا ۔ میں نے انھیں لکھ بھیجا ہے کہ یہاں ایک سکھ مجھ پرکام کرنے کے درپے تھا مگر ایک سکھ کے ہاتھوں جھٹکا ہونے کے مقابلے میں مجھے ایک سید کی چھری سے ذبح ہونا منظور ہے ۔ ''
ویسے مظفر علی سید کی تنقید کے وہ بہت معترف تھے ۔''
کنھیا لال کپور پر کام کرنے کا ارادہ اور بھی لوگوں نے باندھا لیکن وہ محض ارادہ ہی رہا جبکہ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے استاد محمد ہارون عثمانی نے عملاً کپور سے محبت کا ثبوت دیا۔ کپور نامہ (کلیات نثر کنھیا لال کپور) کو مرتب کیا ، جس میں کپور کی مطبوعہ کتابوں کے ساتھ ان کی غیرمدون تحریریں، خطوط اورپنجابی میں ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ''تل پھل'' شامل ہیں۔ ہارون عثمانی اسی پر بس نہیں ہوئے، کنھیا لال کی تحریروں اور ان سے متعلق لکھے کی تلاش جاری رکھی ، جس کا نتیجہ ''کرشن کنھیا (کنھیا لال کپور: شخصیت وفن ۔ باقیات نوادرات ) کی صورت میں سامنے آیا ۔ زیرنظر مضمون کے لیے ہم کو ان دونوں کتابوں سے بہت مدد ملی۔
بیدی سے پہلی ملاقات
1939ء کی سرما کی ایک شام کو میں کرشن چندر کے مکان (واقع موہنی روڈ لاہور)پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک دو نوجوان کمرے میں داخل ہوئے ، دونوں نکر اور قمیص پہنے ہوئے تھے اور راوی پر بوٹنگ کرکے آرہے تھے ۔ کرشن چندر نے دونوں کابڑے خلوص سے استقبال کیا ۔ ان میں ایک گندمی رنگ اور درمیانے رنگ کا سکھ نوجوان تھا جو ضرورت سے زیادہ ستم زدہ نظر آتا تھا ۔ کرشن چندر نے میرا اس سے رسمی تعارف کراتے ہوئے کہا ''آپ مشہور افسانہ نویس راجندر سنگھ بیدی ہیں ۔ ''ایک لحظہ کے لیے مجھے محسوس ہوا کہ کرشن چندر میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ بھلا یہ معمولی سا یوں ہی سا ۔ بے چارہ سا شخص راجندر سنگھ بیدی کیسے ہوسکتا ہے ۔ میں نے اس کے خدوخال کا جائزہ لیا ایک عام سا چہرہ ، خوش نما چھوٹی سی ڈاڑھی اور عجیب سی آنکھیں ، ایسی آنکھیں جنھیں نہ اچھا کہا جاسکتا ہے نہ ہی برا،جن میں ذہانت کے بجائے مظلومیت اور بے چارگی کی جھلک ہے ، جیسے وہ آنکھیں بڑے مدھم اور دھیمے انداز میں کہہ رہی ہوں ''تم دیکھ رہے ہو۔ راجندر سنگھ بیدی انسان نہیں فرشتہ ہے لیکن افسوس اس دنیا میں فرشتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔دس پندرہ منٹ بیٹھنے کے بعد راجندر سنگھ بیدی اور اس کا ساتھی (جو دھرم پرکاش آنند تھا)رخصت ہوئے ۔ کرشن چندر نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ''کاش اتنا اچھا افسانہ نویس ڈاک خانے میں اپنا وقت برباد نہ کرتا۔''ڈاک خانے میں، یاالٰہی یہ کرشن چندر کیاکہہ رہا ہے ۔ بیدی ایسا افسانہ نویس اور ڈاک خانے میں ۔
''ڈاک خانے میں وہ کیا کرتا ہے؟میں نے پوچھا۔
معمولی ملازم ہے۔''کرشن چندر نے ایسی آواز میں جواب دیا ، جس پر ماتم کا گمان ہوتا تھا ۔
یہ میری راجندر سنگھ بیدی سے پہلی ملاقات تھی۔
فسادات کے دوران کپورکی ذہنی حالت
فکری تونسوی نے کنھیا لال کپور پراپنے خاکے میں لکھا ہے: '' جب لاہورمیں فسادات انتہائی عروج پر پہنچ چکے تھے اور وہ گھرمیں مقید رہتا تھا ، تو میں قریباً ہر روز اس سے ملا کرتا تھا ۔ وہ اپنی نشست گاہ کے اسی مخصوص صوفے پر دھوتی پہنے ہوئے ، سگریٹ پیتے ہوئے دکھائی دیتا اور اس کے چہرے پر ایک اطمینان دکھائی دیتا جیسے ہندوستان کی تاریخ میں کوئی واقعہ ہوہی نہیں رہا ۔ ہنس ہنس کر، قہقہے لگا لگا کر وہ باتیں کرتا رہتا ۔ محلے کے لوگ نہایت وحشت انگیز اور خوف ناک خبریں آکر سناتے لیکن اس کے چہرے پر شکن تک نہ آتی۔ جیسے وہ تاریخ کے اس عظیم ترین حادثے کو صرف ایک مذاق سمجھ رہا ہو۔ ممکن ہے ، اس لرزہ خیز وقت میں ، جبکہ فسادیوں سے ہر لمحہ خطرہ کا امکان ہوسکتا تھا ، وہ رات کے کسی لمحے میں بیوی کے دبائو پر چند ایک منٹ کے لیے سوچ لیتا ہو کہ ہاں !انھیں جان بچا کر بھاگ جانا چاہیے ۔
لیکن عام طور پر اس کی پیشانی متبسم رہتی۔ شاید کہنا چاہتا ہو کہ موت سے ڈرنا کس قدر بے معنی ہے ۔ انسانی بربریت سے گھبرانا جہالت ہے ۔ اگر وہ مر بھی جائے تو کون سے پہاڑ ٹوٹ پڑے گا ؟ آخر زندگی اس قدر کشش انگیزاور جاذب چیز ہے نہیں کہ اس کی خاطر اپنی اطمینان بخش مسکراہٹ کو بھی مار دیا جائے ۔ اس لیے کپور کے بیان کے مطابق اس نے اپنا سامان کئی مرتبہ باندھ باندھ کر صبح گلی میں لا رکھا اور شام کو پھر اندر لے گیا اور کھول دیا ۔ صبح پھر باندھ کر گلی میں لا رکھا اور شام کو پھر اندر لے جا کر کھول دیا ...اور بالآخر جب وہ گھر چھوڑ کر ایک ٹرک پر سوار ہوا تو اپنی قیمتی سے قیمتی کتابوں کے ٹرنک گھر ہی پر چھوڑ آیا کیونکہ اس کی بیوی کی نگاہیں کہہ رہی تھیں، گھریلو برتن ، بستر اورکپڑے ان کتابوں سے زیادہ کارآمد چیزیں ہیں ۔ چنانچہ اس نے بیوی کی نگاہوں کو اپنی اپنی خواہشات کا مرکز بنالیا اور کتابوں کے بجائے گھر کا سامان ہمراہ لے آیا۔''
لاہور کا تصور کرتے ہی دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور بے اختیار زبان پر ناسخ کا یہ شعر آجاتا ہے۔
وہ نہیں بھولتا جہاں جائوں
ہائے میں کیا کروں کہاں جائوں
اس شہرکو تو کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی نے بھی رہ رہ کر یاد کیا ہے جو یہاں سے نکلے تو پھر ہندوستان کے بڑے شہروں میں ان کا ٹھور ٹھکانہ رہا، کنھیا لال کپور کا معاملہ ان دونوں سے ہٹ کر ہوا اور وہ موگا (بھارتی پنجاب ) جیسی خشک اور علمی فضا کے اعتبار سے بے آب وگیاہ زمین پر آباد ہو گئے ۔ ان سے جب کوئی موگا جیسے بن میں جا بسرام کرنے کی وجہ پوچھتا تو وہ یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتے :
'' جب تک ہندوستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا ۔ میرے لیے ہندوستان کے تمام شہراور قصبے برابر ہیں۔''
موگا کی ہم کیوں بدخوئیاں کریں، اس کام کے لیے کنھیا لال کپور ہی کافی ہیں :
'' لاہور اور موگا میں بعد المشرقین تھا ۔ کہاں لاہور کی رنگینیاں، مجلسیں اور ہنگامے اور کہاں موگا کا ایسا نیم ریگستانی قصبہ جہاں سرکنڈوں اورریت کے انبار کے علاوہ کوئی قابل دید چیز نہیں تھی ۔ بارہا حالات کی ستم ظریفی پر آنسو بہانے کو جی چاہا ۔ لیکن سنبھلتے سنبھلتے جب طبیعت سنبھل گئی تو نئے ماحول سے سمجھوتا کرلیا ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ گو لاہور کو چھوڑے سترہ سال ہو گئے اس کی حسین یادیں آج تک میرا تعاقب کر رہی ہیں ۔ ''
افسوس کی بات ہے کہ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیا لال کپور ، لاہور کی یاد میں تڑپتے،کسمساتے رہے مگر ان کا دوبارہ اس شہر میں پھیرا نہ لگا۔ تینوں کا حال ریاض خیرآبادی کے اس مصرع کے مصداق رہا :
وہ گلیاں یاد آتی ہیں جوانی جن میں کھوئی ہے
کنھیا لال کپور سے جب کوئی لاہورکا چکر نہ لگانے کی بابت پوچھتا تو وہ اقبال کا یہ شعر کہہ کربات ٹال جاتے ۔
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
مجتبیٰ حسین کے مضمون سے بھی اس محبت کا پتا چلتا ہے جو کنھیا لال کو اس شہر بے مثال سے تھی۔ ان کے بقول ''دروغ برگردن راوی لاہور سے محبت کا یہ عالم ہے کہ رات کو کبھی لاہور کی طرف پیر کر کے نہیں سوتے ۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ جب یہ لاہور میں تھے تو نہ جانے کس طرح سو جاتے تھے ، سنا ہے کہ موگا میں بھی لاہور کے ہی خواب دیکھتے ہیں ۔ دہلی کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ انارکلی کی ایک جھلک پر سیکڑوں کناٹ پلیس قربان کئے جاسکتے ہیں۔ ''
کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیا لال کپور اگر تادم مرگ لاہور کا کلمہ پڑھتے رہے تو اس کی ایک وجہ تو اس شہر کی فضا اور کھلا ڈلا ماحول تھا ،جسے انھوں نے دیکھا ، برتا اور ان کی ذہنی پرداخت اس میں ہوئی۔ دوسرے ادبی طور پر ان کی شہرت کی بنا اس شہرمیں پڑی، ادیب کی حیثیت سے وہ اس شہر میں قائم ہوئے۔ ان کی پہلی کتاب یہیں سے منصہ شہود پر آئی۔ یہاں کے لوگوں اور رسالوں نے ان کا حوصلہ بڑھایا ۔قدردانی کی۔ کنھیا لال کپور نے اپنی پہلی کتاب ''سنگ وخشت ''کے پیش لفظ میں اپنے قلم کار بننے کے ذمہ داران کے بارے میں صاف صاف بتا دیا ہے۔ :
''میں نے یہ مضامین کیوں لکھے ؟ اس کی دو وجوہات ہیں ۔ آج سے چار پانچ سال پہلے میرے احباب نے مجھے بنانا شروع کیا کہ میں اردو میں مزاحیہ اور طنزیہ مضامین لکھ سکتا ہوں۔ اردو ادب کی بدقسمتی سمجھئے کہ میں ان کی باتوں میں آگیا اور میں نے لکھنا شروع کیا۔ یہ مجھے ''بنانے والے'' اصحاب کون تھے ؟لیجیے میں انھیں بے نقاب کئے دیتا ہوں:کرشن چندر، مولانا صلاح الدین ، چودھری نذیر احمد ۔ آج جب کہ میں یہ مضامین شائع کر رہا ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ اول درجے کے دروغ گو تھے۔''
''بال وپر'' کے پیش لفظ میں لکھا :
راشن اور پراپیگنڈا کے دور میں ہاضمے اور دماغی توازن کے ٹھیک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہی تیز طرار طبیعت ، تو اس کے متعلق عرض ہے:
اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے!
واضح رہے کہ اس مصرعے میں آفتاب بمعنی ''لاہور'' استعمال ہوا ہے۔ لاہور سے ہجرت کرنے کے بعد جب موگا میں
مسجد ہو مدرسہ ہو یا خانقاہ ہو
کے مصداق سکونت اختیار کی تو شوخیٔ تحریر کی فاتحہ پڑھنے کے لیے استاد ذوق کا یہ شعر آڑے آیا:
تو ہی جب پہلو سے اپنے دلربا جاتا رہا
دل کا پھر کہنا تھا کیا ، جاتا رہا جاتا رہا
دوبارہ واضح رہے کہ اس شعر میں ''دلربا''سے مراد بت کم سن نہیں بلکہ لاہور ہے ۔
یہ چند سطور محض اس لیے لکھی جارہی ہیں کہ اگر ان مضامین کو پڑھ کر آپ کو ہنسی کے بجائے رونا آجائے تو آپ کھل کر رونے کے بعد مجھ پر نہیں بلکہ میرے ماحول پر ہنسیں۔''
کسی بھی بڑے آدمی کی زندگی کا جائزہ لیں، معلوم ہوگا کہ اسے جن چیزوں نے بڑا بنایا ، اس میں اس ماحول کوبہت دخل رہا ، جس میں وہ پروان چڑھتا ہے۔ کنھیا لال کپور کی ادب میں دلچسپی بڑھی تو ارد گرد علم پرور ماحول تھا۔ پطرس بخاری جیسا استاد اور کرشن چندر جیساتخلیق کار رہنما مل جائے تو بندہ خوبیٔ قسمت پر ناز کر سکتا ہے۔ دونوں نے ان میں چھپے جوہر کوآنک لیا تھا، اس لیے وہ اپنے اپنے اندازہ سے کنھیا لال کپورکی حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔گورنمنٹ کالج میں ایم اے انگریزی کے دوران نصابی تعلیم نے ذہنی افق کو تھوڑا وسیع ضرور کیا ہوگا لیکن اصل ذہنی وسعت تو پطرس بخاری جیسے استاد کی شاگردی نے بخشی، جن کی شخصیت ہی نہیں، طرز تحریر نے بھی انھیں پکڑا۔ ان کے بقول ''بخاری صاحب کی پرکشش شخصیت سے میں نے سب سے زیادہ اثر قبول کیا۔ موصوف نہ صرف انگریزی زبان کے مانے ہوئے مقرر اور استاد تھے بلکہ اردو زبان کے ایک سلجھے ہوئے مزاح نگار بھی ۔ بخاری صاحب سے میں نے ہر فرسودہ روایت اور ہر بے ہودہ شخص کا مضحکہ اڑانے کا فن سیکھا... بخاری کی تحریک پر ہی میں مزاح نگاری کی طرف مائل ہوا اور اگرچہ ان دنوں میری حیثیت نوگرفتار کی سی تھی ۔ انھوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔ایک اور جگہ بتایا ہے ''بخاری صاحب کے بعد کرشن چندر دوسرا ادیب تھا ، جس نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔ ''
کنھیا لال کپور کی لاہور سے جڑی یادوں کا قصہ طولانی ہے، جن کی طرف ہم دوبارہ مڑیں گے ، بیچ میں تھوڑا ان کی ذاتی زندگی کا احوال بیان کردیں۔
کنھیا لال کپور نے 27جون1910 کو چک 498گ ب تحصیل سمندری ضلع لائل پور(فیصل آباد)میں آنکھ کھولی۔ ذات کے کھتری۔ والد محکمہ مال میں پٹواری ۔ کپور کو مطالعہ کی طرف پرائمری اسکول کے استاد مولوی محمد عیسیٰ نے راغب کیا ، جو اردو فارسی میں دستگاہ رکھتے تھے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول کمالیہ سے 1928ء میں میٹرک کیا۔ 1932ء میں ڈی اے وی کالج لاہور سے بی اے کے بعد ایم اے انگریزی کے لیے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ معروف فلمی اداکار بلراج ساہنی ان کے ہم جماعت تھے ۔ ایم اے کے بعد وہ ڈی اے وی کالج میں 75 روپے ماہوار پر کمپوزیشن ٹیچر بن گئے ۔ ان دنوں وہ ہندو ہاسٹل میں رہتے تھے، وہیں کرشن چندر اپنے بھائی مہندر ناتھ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ کرشن چندر سے ان کی شناسائی یہیں ہوئی، جو رفتہ رفتہ قریبی دوستی میں ڈھل گئی۔ کرشن چندر سے ملنے سے قبل وہ ان کے طرز تحریر کے شیدائی بن گئے تھے اور اس کا باعث ان کا ''ہمایوں ''میں چھپنے والا مضمون '' لاہور سے بہرام گلہ تک '' بنا ۔ کرشن چندر کی تحریک پر ہی انھوں نے قلم کو جنبش دی اور ان کے افسانے '' یرقان'' کی ''خفقان'' کے عنوان سے پیروڈی لکھ کربتا دیا کہ اردو میں نئے طنز نگار کی نمود ہو گئی ہے۔ کرشن چندر یہ تحریر پڑھ کر خوش ہوئے اورانھیں مشق جاری رکھنے کی تلقین کی۔ ان کے ابتدائی دو مضامین میں ''اخباربینی'' ، چراغ حسن حسرت کے زیرادارت ہفت روزہ ''شیرازہ '' اور چینی شاعری '' ادب لطیف'' کے سالنامے (1938) میں شائع ہوا۔ تقسیم تک وہ ڈی اے وی کالج میں پڑھاتے رہے۔
کنھیا لال کپور کے پہلے دومجموعے ''سنگ وخشت '' (1942) اور ''شیشہ وتیشہ '' (1944)مکتبہ جدید لاہور نے شائع کئے ۔ لاہور کے ادبی حلقوں میں وہ خاصے معروف تھے ۔ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں شریک ہوتے، بعض دفعہ اس اہم ادبی انجمن کے اجلاس کی صدارت بھی کی۔ دسمبر1942ء میں حلقہ کے ایک اجلاس کی کارروائی سے اقتباس ملاحظہ کیجیے:
'' حلقہ ارباب ذوق کا گذشتہ اجلاس ساڑھے پانچ بجے شام بورڈ روم میں منعقد ہوا ۔ مولانا تاجور مجوزہ صدر تھے ۔ مگر ساڑھے پانچ بجے تک انتظار کرنے کے باوجود وہ تشریف نہ لائے لہٰذا راقم (مختار صدیقی) کی تجویز پر آفتاب احمد خاں صدر منتخب ہوئے ۔ کارروائی پڑھی گئی جو منظور ہوئی۔ سب سے پہلے کنھیا لال کپور نے اپنا مضمون انشائے لطیف ''شیشہ وتیشہ'' پڑھا ۔ غزل گو شعرا پر پیروڈی کے رنگ پر طنز تھی جس میں ان کی خوش وقتی اور برخود غلطی کے پیرائیے میں موجودہ سوشلسٹ شعرا کو بھی نہیں چھوڑا گیا تھا ۔ انور خاں اور برکت علی کو اعتراض تھا کہ اس میں واقعات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں اور صریح غلط بیانی اور توہین مطلوب ہے۔ کنھیا لال کپور نے عرض کیا کہ ایسا نہیں ہے اور وضاحت کی کہ انگریزی کی بحثی تمثیل Discussion play کے مطابق ہے جس میں تصویر کے دونوں رخ دکھائے گئے ہیں اور نتیجہ سامعین یا قارئین پر موقوف ہے۔ الطاف گوہر اور صاحب صدر نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ دونوں رخ دکھاتے وقت بھی لکھنے والے کی ذات اجاگر ہوتی ہے ، مضمون پر طرفداری مقصود نہیں ، لہٰذا یہی بے تعلقی لکھنے والے کی شخصیت کا اظہار ہے۔ مجموعی طور پر مضمون سراہا گیا۔
حلقے میں وہ اپنا لکھا بھی سناتے تھے اور دوسروں کی تحریروں پرکھل کراپنی رائے دیتے ۔ چار اکتوبر 1942ء کو وائی ایم سی اے کے بورڈ روم میںان کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کی روداد سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کریں:
''پروگرام کی دوسری چیز الطاف گوہر کا مضمون تھا ۔''شریف زادے سے حرام جادی تک '' تقریباً پینتیس منٹ کے ایک دلچسپ مقالے میں صاحب مضمون نے یہ گنوانے کی کوشش کی تھی کہ ''شریف زادہ ''کے مصنف مرزا رسوا سے لے کر ''حرام جادی '' کے خالق محمد حسن عسکری تک اردو میں کیا کیا نفسیاتی اور فنی تبدیلیاں ہوئی ہیں ...مضمون کے ختم ہونے پر کنھیا لال کپور نے کہا کہ صاحب مضمون نے جس قدر افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے وہ کم وبیش سب مغربی مصنفین خصوصاً فرائیڈ سے متاثر ہیں ۔ دوسرے یہ تمام لوگ عوام کی زندگی کے نمائندے نہیں ہیں ان میں تقریباً نوے فیصدی ایسے ہیں جو متوسط طبقے کے فرد ہیں ۔ یہ لوگ جدت پسند ضرور ہیں لیکن حقیقت سے کوسوں دور۔ اور پھر ان میں بھی بعض ایسے ہیں جن پر anglo indian طبقے کی نمائندگی کرنے کا گمان ہوتا ہے ۔ مثلاً کرشن چندر ، عصمت چغتائی اور منٹو۔آفتاب احمد کو کپور سے اختلاف تھا ۔''
کنھیا لال کپور نے اپنے مضامین ''اہل زبان ''اور '' نے چراغے نے گلے ''میں اہل زبان کوطنز کا نشانہ بنایا تواس کا خاصا برا منایا گیا ۔ شاہد احمد دہلوی نے ان کی ایسی تحریروں کو سخت ناپسند کیا ۔ اس زمانے میں نیاز مندان لاہور کے پلیٹ فارم سے چند مضامین اہل زبان کے بارے میں لکھے گئے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پطرس بخاری کے قلم سے نکلے یا پھر ان میں زیادہ ترقلم انھی کا لگا تھا ، اس لیے ممکن ہے، پطرس کے ایما پر ہی ان کے شاگرد عزیز نے مذکورہ مضمون لکھے ہوں ۔ ادبی دنیا میں پطرس اور کنھیا لال دونوں کی تحریروں نے خوب ہلچل مچائی۔ کنھیا لال اپنے جس مضمون کے باعث زیادہ مشکل میں پڑے وہ ''مطالبات ''تھا ، جس میں مطالبہ پاکستان کی مخالفت پر مسلم لیگی اخباروں نے ان کا ناطقہ بند کردیا اور ناچار انھیں معافی مانگ کر اور مضمون تلف کرنے کا وعدہ کر کے جان چھڑانی پڑی۔
ادبی حلقوں اور پڑھنے والوں میں کنھیا لال کپور کی پذیرائی۔ معقول نوکری۔ بے ریا دوستوں کی سنگت۔ لاہورکا کھلا ڈلا اور ادب پرور ماحول ۔ ان سب چیزوں نے اس شہر کے ساتھ ان کا جذباتی تعلق قائم کر دیا تھا ۔ اس شہر میں وہ اچھی طرح رچ بس گئے تھے، اس لیے جب انھیں فسادات کے باعث لاہور سے مجبوراً نکلنا پڑا تو وہ ردعمل میں تقسیم کے عمل سے متنفر ہو گئے ، قتل وغارت گری کی خبروں نے ان کو اور بھی اداس کر دیا ۔
لاہور چھوڑنے کے دکھڑے کا اظہار ان کے طنزیہ مضمون ''ہجرت کے فائدے '' میں بھی ہوتا ہے۔ فسادات پر کنھیا لال کپور نے ''گیئوہتھیا '' کے عنوان سے افسانہ لکھا ،جس کا محل وقوع لاہور کا ہے، جہاں دیکھتے ہی دیکھتے بھائی چارے کی فضا زہر ناک ہونے اورآپسی رویوں میں بدگمانی در آنے کو افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ :
...کلکتہ میں ہندو مسلم فساد ہوگیا تھا ۔ چھرے گھونپے جا رہے تھے ۔ مکانوں کو نذر آتش کیا جا رہا تھا ۔ عورتیں اغوا کی جارہی تھیں ۔ میں یہ خبریں سن کر دل ہی دل میں پیچ وتاب کھاتا ۔ یہ کیا ہوگیا ہے ہندوئوں اور مسلمانوں کو؟ شریفوں کی طرح کیوں نہیں رہ سکتے ۔ عورتوں پر حملے، عورتوں اور بچوں کا اغوا ۔ خیر وہ کلکتہ ہے۔ اپنے لاہور میں ایسی باتیں نہیں ہوسکتیں ۔ پنجابی زیادہ سمجھ دار واقع ہوئے ہیں ۔ وہ ان باتوں کی نوبت نہیں آنے دیں گے ۔ یہاں ہندو اور مسلمان شیرو شکر ہو کر رہتے ہیں ۔ کلکتہ پاگل ہوگیا ہے ۔ کاش وہ لاہور سے کچھ سیکھتا۔ ''افسانے میں آگے چل کر یہ سارے اندازے باطل ثابت ہوتے ہیں اور لاہور بھی فرقہ وارانہ فساد کی زد میں آجاتا ہے۔
'' ...منٹو پارک میں بالکل اندھیرا تھا ۔تھوڑی تھوڑی بوندا باندی ہورہی تھی ، ادھر ادھر کوئی نظر نہیں آتا تھا ۔ٹارچ کی روشنی میں سارا منٹو پارک چھان مارا لیکن یاسمین کا کہیں پتا نہ چلا۔ ہم راوی روڈ کی طرف گئے ۔ بڈھے نالے کے پل کے پاس یکلخت ٹارچ کی روشنی میں زمین پر پڑی کوئی چیز دکھائی دی۔ یہ یاسمین تھی ، خون میں نہائی ہوئی ۔ اس کے پھول سے جسم میں کسی بے درد نے چھرا گھونپ دیا تھا اور پھر نکالا نہیں تھا ...''
کنھیا لال کپور کے مرنے سے چند برس قبل ممتاز ادیب انتظار حسین کی ان سے ملاقات ہوئی، جس کی روداد انھوں نے اپنے سفر نامے ''زمیں اور فلک اور''میں کچھ یوں بیان کی ہے:
''ہاں اس شہر بمبئی میں کنھیا لال کپور سے مڈھ بھیڑ ہوئی۔ لمبے لگ لگ۔ بھولے بھالے ، ہنس مکھ، جس کسی نے بات کی جواب میں شعر پڑھ دیا۔ نثر بحالت مجبوری بولتے تھے ۔ باتیں شعروں میں کرتے تھے ۔ میں نے کہا: کپور صاحب آپ تو ہر بات شعر میں کرتے ہیں۔''
بولے: پرانے شاعر سب باتیں کہہ گئے ہیں۔ پھر ہمیں اپنی طرف سے کوئی بات کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
کپور صاحب: اپنے دوست مظفر علی سید آپ پر کام کررہے ہیں۔
ہاں ۔ سید صاحب کا خط آیا تھا ۔ میں نے انھیں لکھ بھیجا ہے کہ یہاں ایک سکھ مجھ پرکام کرنے کے درپے تھا مگر ایک سکھ کے ہاتھوں جھٹکا ہونے کے مقابلے میں مجھے ایک سید کی چھری سے ذبح ہونا منظور ہے ۔ ''
ویسے مظفر علی سید کی تنقید کے وہ بہت معترف تھے ۔''
کنھیا لال کپور پر کام کرنے کا ارادہ اور بھی لوگوں نے باندھا لیکن وہ محض ارادہ ہی رہا جبکہ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے استاد محمد ہارون عثمانی نے عملاً کپور سے محبت کا ثبوت دیا۔ کپور نامہ (کلیات نثر کنھیا لال کپور) کو مرتب کیا ، جس میں کپور کی مطبوعہ کتابوں کے ساتھ ان کی غیرمدون تحریریں، خطوط اورپنجابی میں ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ''تل پھل'' شامل ہیں۔ ہارون عثمانی اسی پر بس نہیں ہوئے، کنھیا لال کی تحریروں اور ان سے متعلق لکھے کی تلاش جاری رکھی ، جس کا نتیجہ ''کرشن کنھیا (کنھیا لال کپور: شخصیت وفن ۔ باقیات نوادرات ) کی صورت میں سامنے آیا ۔ زیرنظر مضمون کے لیے ہم کو ان دونوں کتابوں سے بہت مدد ملی۔
بیدی سے پہلی ملاقات
1939ء کی سرما کی ایک شام کو میں کرشن چندر کے مکان (واقع موہنی روڈ لاہور)پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک دو نوجوان کمرے میں داخل ہوئے ، دونوں نکر اور قمیص پہنے ہوئے تھے اور راوی پر بوٹنگ کرکے آرہے تھے ۔ کرشن چندر نے دونوں کابڑے خلوص سے استقبال کیا ۔ ان میں ایک گندمی رنگ اور درمیانے رنگ کا سکھ نوجوان تھا جو ضرورت سے زیادہ ستم زدہ نظر آتا تھا ۔ کرشن چندر نے میرا اس سے رسمی تعارف کراتے ہوئے کہا ''آپ مشہور افسانہ نویس راجندر سنگھ بیدی ہیں ۔ ''ایک لحظہ کے لیے مجھے محسوس ہوا کہ کرشن چندر میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ بھلا یہ معمولی سا یوں ہی سا ۔ بے چارہ سا شخص راجندر سنگھ بیدی کیسے ہوسکتا ہے ۔ میں نے اس کے خدوخال کا جائزہ لیا ایک عام سا چہرہ ، خوش نما چھوٹی سی ڈاڑھی اور عجیب سی آنکھیں ، ایسی آنکھیں جنھیں نہ اچھا کہا جاسکتا ہے نہ ہی برا،جن میں ذہانت کے بجائے مظلومیت اور بے چارگی کی جھلک ہے ، جیسے وہ آنکھیں بڑے مدھم اور دھیمے انداز میں کہہ رہی ہوں ''تم دیکھ رہے ہو۔ راجندر سنگھ بیدی انسان نہیں فرشتہ ہے لیکن افسوس اس دنیا میں فرشتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔دس پندرہ منٹ بیٹھنے کے بعد راجندر سنگھ بیدی اور اس کا ساتھی (جو دھرم پرکاش آنند تھا)رخصت ہوئے ۔ کرشن چندر نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ''کاش اتنا اچھا افسانہ نویس ڈاک خانے میں اپنا وقت برباد نہ کرتا۔''ڈاک خانے میں، یاالٰہی یہ کرشن چندر کیاکہہ رہا ہے ۔ بیدی ایسا افسانہ نویس اور ڈاک خانے میں ۔
''ڈاک خانے میں وہ کیا کرتا ہے؟میں نے پوچھا۔
معمولی ملازم ہے۔''کرشن چندر نے ایسی آواز میں جواب دیا ، جس پر ماتم کا گمان ہوتا تھا ۔
یہ میری راجندر سنگھ بیدی سے پہلی ملاقات تھی۔
فسادات کے دوران کپورکی ذہنی حالت
فکری تونسوی نے کنھیا لال کپور پراپنے خاکے میں لکھا ہے: '' جب لاہورمیں فسادات انتہائی عروج پر پہنچ چکے تھے اور وہ گھرمیں مقید رہتا تھا ، تو میں قریباً ہر روز اس سے ملا کرتا تھا ۔ وہ اپنی نشست گاہ کے اسی مخصوص صوفے پر دھوتی پہنے ہوئے ، سگریٹ پیتے ہوئے دکھائی دیتا اور اس کے چہرے پر ایک اطمینان دکھائی دیتا جیسے ہندوستان کی تاریخ میں کوئی واقعہ ہوہی نہیں رہا ۔ ہنس ہنس کر، قہقہے لگا لگا کر وہ باتیں کرتا رہتا ۔ محلے کے لوگ نہایت وحشت انگیز اور خوف ناک خبریں آکر سناتے لیکن اس کے چہرے پر شکن تک نہ آتی۔ جیسے وہ تاریخ کے اس عظیم ترین حادثے کو صرف ایک مذاق سمجھ رہا ہو۔ ممکن ہے ، اس لرزہ خیز وقت میں ، جبکہ فسادیوں سے ہر لمحہ خطرہ کا امکان ہوسکتا تھا ، وہ رات کے کسی لمحے میں بیوی کے دبائو پر چند ایک منٹ کے لیے سوچ لیتا ہو کہ ہاں !انھیں جان بچا کر بھاگ جانا چاہیے ۔
لیکن عام طور پر اس کی پیشانی متبسم رہتی۔ شاید کہنا چاہتا ہو کہ موت سے ڈرنا کس قدر بے معنی ہے ۔ انسانی بربریت سے گھبرانا جہالت ہے ۔ اگر وہ مر بھی جائے تو کون سے پہاڑ ٹوٹ پڑے گا ؟ آخر زندگی اس قدر کشش انگیزاور جاذب چیز ہے نہیں کہ اس کی خاطر اپنی اطمینان بخش مسکراہٹ کو بھی مار دیا جائے ۔ اس لیے کپور کے بیان کے مطابق اس نے اپنا سامان کئی مرتبہ باندھ باندھ کر صبح گلی میں لا رکھا اور شام کو پھر اندر لے گیا اور کھول دیا ۔ صبح پھر باندھ کر گلی میں لا رکھا اور شام کو پھر اندر لے جا کر کھول دیا ...اور بالآخر جب وہ گھر چھوڑ کر ایک ٹرک پر سوار ہوا تو اپنی قیمتی سے قیمتی کتابوں کے ٹرنک گھر ہی پر چھوڑ آیا کیونکہ اس کی بیوی کی نگاہیں کہہ رہی تھیں، گھریلو برتن ، بستر اورکپڑے ان کتابوں سے زیادہ کارآمد چیزیں ہیں ۔ چنانچہ اس نے بیوی کی نگاہوں کو اپنی اپنی خواہشات کا مرکز بنالیا اور کتابوں کے بجائے گھر کا سامان ہمراہ لے آیا۔''