مورتیوں کا گریہ
جن معاشروں میں انسانوں بلکہ بڑے انسانوں کی قیمت کچھ نہیں، وہاں...
ہمارے تمام چینلز پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد نیوز بریک کے ٹکر ٹی وی اسکرینوں پر آتے رہتے ہیں۔ اب ان کی بھرمار کا عالم یہ ہے کہ کسی نیوز بریک پر کسی کو کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ ایسے ہی ایک نیوز بریک میں جب نیوز ریڈرز نے کراچی کی ایک مضافاتی بستی کے حوالے سے یہ خبر سنائی کہ پولیس نے ایک ایسا کنٹینر پکڑا ہے جس میں مورتیاں بھری ہوئی تھیں اور انھیں باہر اسمگل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی تو ہمارے کان کھڑے ہوگئے۔
اسکرین پر ان مورتیوں کو دِکھایا جارہا ہے جو کنٹینر سے بازیاب ہوئی تھیں، ان میں کچھ مورتیاں بیٹھی ہوئی تھیں، کچھ لیٹی ہوئی تھیں، کچھ ٹوٹی ہوئی تھیں۔ یہ سب اب پولیس کی تحویل میں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان مورتیوں کا تعلق گندھارا تہذیب سے ہے۔ خبروں کے مطابق ان مورتیوں کی قیمت 60 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ پولیس والوں نے بھی کچھ مورتیاں چرالیں، ان کی اس حالتِ زار کو دیکھ کر ہمیں بہت ہنسی آئی۔ ہماری اس ہنسی میں ایک سے زیادہ عنصر شامل تھے۔
ایک عنصر جس میں تھوڑا سا حسد کا پہلو بھی تھا، یہ تھا کہ جن معاشروں میں انسانوں بلکہ بڑے انسانوں کی قیمت کچھ نہیں، ان معاشروں میں پتھر پر تراشی ہوئی ان بے جان مورتیوں کی قیمت کیوں کروڑوں میں ہے؟ دوسرا اہم عنصر جس میں بھی حسد کا ایک پہلو تھا، وہ یہ کہ یہ بے جان اور انسانوں کے ہاتھوں تراشی ہوئی مورتیاں خدا بن کر انسانوں کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کرتی ہیں۔
اس طرح یہ مورتیاں نہ صرف شرک کے جرم کا ارتکاب کرتی ہیں بلکہ خالق کائنات کی توہین کی مرتکب ہوتی ہیں۔ میں نے جب ان مورتیوں کی طرف طنز بھری ہنسی کے ساتھ دیکھا تو حیرت سے میں خود پتھر ہو کر رہ گیا، جب میں نے ان مورتیوں کو روتے اور ان کی آنکھوں کو آنسو بہاتے دیکھا۔
تم ہم پر ہنس رہے ہو، ہم پر انسانوں کے خدا بننے کا الزام لگا رہے ہو، میں مورتیوں کو روتے اور بولتے دیکھ کر محوِ حیرت تھا کہ ایک مورتی نے کہا سب سے پہلے تم کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ گھروں، مندروں میں سجائی جانے والی اور قدیم پتھروں کو تراش کر بنائی جانے والی مورتیوں میں کوئی معنوی فرق نہیں۔ یعنی ہم سب کی پرستش کی جاتی ہے۔ ہماری تاریخ بہت پرانی ہے، ہزاروں برسوں پر پھیلی ہوئی ہے لیکن تم نادان کاش ہم پر ہنسنے سے پہلے تم ہماری تاریخ، ہمارے خدا ہونے اور ہماری پوجا کے المیے سے واقف ہوتے، کاش تم ہمارے احساسات، ہماری مجبوریوں کو سمجھ سکتے۔ آئو ہم تمہیں اپنی تعریف سے بریف کرتے ہیں۔ ایک مورتی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
سنو انسان جب غاروں اور درختوں پر رہتا تھا، درختوں کے پتّے، جنگلی پھل اس کی غذا تھی، اپنی تاریخ کے اس ابتدائی دور ہی سے وہ ہمارے پیچھے بھاگتا رہا ہے۔ کبھی اس نے ہوا کو خدا کہا، کبھی پانی کو، کبھی طوفان کو، کبھی سیلاب کو، کبھی اس نے چاند کو خدا کہا، کبھی وہ سورج کے آگے سر جھکاتا رہا، کبھی اس نے رات کو خدا کہا، کبھی دن کی روشنی کے آگے سجدہ ریز رہا۔
خوف اور امید یہ دو ایسے بنیادی عنصر تھے جو اسے ہوا، آگ، پانی، سیلابوں، طوفانوں، اندھیروں، اجالوں کی پرستش کراتے رہے۔ ہزاروں برسوں تک انسان ان ہی خدائوں کو پوجتا رہا، پھر وہ جب غاروں، درختوں سے باہر آیا۔ مل جل کر رہنے لگا، اس نے بستیاں بسانی شروع کیں، غاروں درختوں کے دور سے وہ باہر تو آیا لیکن خوف اور امید اس کے ساتھ ساتھ رہے اور ان ہی دو عناصر نے اسے مورتیوں کی تخلیق کی طرف دھکیلا۔
سنو ہم اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں کہ انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے تراش کر ہمیں خدا بنایا اور خود ہی ہمارے سامنے سجدہ ریز رہا۔ ہم اس مذاق کو سمجھتے ہیں اور ہمیں اس بات کا بھی شدّت سے احساس ہے کہ ہم انسان کی کوئی امید پوری نہیں کرسکتے، انسان کے کوئی کام نہیں آسکتے، لیکن دو مجبوریاں ہمیں خدا بنے رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ پہلی مجبوری یہ ہے کہ ہم خدائی کے اس اعزاز سے دستبردار ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ ہم مٹی اور پتھر کے بنے بے زبان خدا ہیں۔
ہماری دوسری مجبوری یہ ہے کہ ہم انسان کو اپنی پرستش اور پوجا سے اس لیے نہیں روک سکتے کہ انسان نے ہمیں اپنی آخری امید بنالیا ہے۔ اگر اس سے اس کی یہ آخری امید چھین لی جائے تو وہ ناامیدی کے ایسے اندھیروں میں ڈوب جائے گا، جہاں اس کے جینے کا کوئی جواز، کوئی مقصد باقی نہیں رہے گا۔
میں حیرت سے مورتیوں کی باتیں سن رہا تھا۔ ایک لیٹی ہوئی مورتی نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خدائے برتر نے اپنی شناخت کے لیے انسانوں کو مذاہب کے کئی وسیلے عطا کیے، لیکن انسان نے اس کی عظمت کے آگے سرجھکانے کے بجائے اور خود اپنے درمیان محبت اور احترام کی قندیلیں روشن کرنے کے بجائے خدا کو کئی نام دے کر ان ناموں کے حوالے سے ایک دوسرے سے نفرت کرنے، ایک دوسرے کو قتل کرنے کی راہ اپنالی۔ ہم انسانوں کے ہاتھوں تراشی ہوئی مورتیاں انسانوں کی حیوانیت کو دیکھ دیکھ کر شرمسار ہیں اور اپنے رب سے رو رو کر یہ التجائیں کرتی ہیں کہ اے خدا انسانوں کو حیوانوں سے انسان بنا۔
میں حیرت سے پتھروں سے تراشی ہوئی ان مورتیوں کی باتیں سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک ٹوٹی ہوئی مورتی نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا۔ تم ہم پر ہنس رہے ہو اور ہمیں تمہاری ہنسی پر رونا آرہا ہے۔ ہم تمہاری تراشی ہوئی مورتیاں ہزاروں برسوں سے زندہ ہیں اور تم اور تمھاری کئی نسلیں ہمارے سامنے پیوندِ خاک ہوگئیں۔ تم اشرف المخلوقات ہو، تم سوچ سمجھ سکتے ہو، اپنی سوچ، اپنے احساس کے اظہار کے لیے تمہارے منہ میں زبان ہے۔ تمہاری تاریخ ہماری تاریخ سے زیادہ پرانی ہے لیکن تم آج تک نہ زندگی کے مقصد کو سمجھ سکے نہ محبتوں کے ساتھ زندہ رہنے کی حقیقت کو سمجھ سکے۔
سنو جیسے کہ میں نے تمہیں بتایا خوف اور امید ہی وہ دو عناصر ہیں جو تمہیں ہماری تخلیق پر مجبور کرتے ہیں اور یہ دو چیزیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔ تمہیں ہماری پرستش پر اعتراض ہے، ہمیں یہ دکھ ہے کہ تم نے ہمیں اور ہماری ناگزیریت کو سمجھنے کے بجائے ہمیں تقسیم کرکے رکھ دیا۔ دنیا کے چپّے چپّے پر تم نے لاکھوں مسجد، لاکھوں مندر، لاکھوں گرجا تعمیر کیے لیکن اپنے ذہنوں کی تعمیر نہ کرسکے۔ تم اِتنی سی بات نہ سمجھ سکے کہ زندگی کے اس مختصر اور غیر یقینی سفر کو کس طرح پورا کرنا چاہیے؟
جب کوئی سیلاب آتا ہے، کوئی طوفان آتا ہے، کوئی زلزلہ آتا ہے، کوئی خوف ناک وبائی بیماری آتی ہے تو وہ نہ ہندو دیکھتی ہے، نہ مسلمان، نہ سکھ، نہ عیسائی وہ سب کو بلاامتیاز تباہ کردیتی ہے۔ تم ان بلائوں سے گھبرا کر مساجد، مندروں، گرجائوں کی طرف بھاگتے ہو اور جب یہ تباہیاں گزر جاتی ہیں تو تم مساجد، مندروں، گرجائوں کو جلانے لگتے ہو۔ تم نے ہمیں ہمارے ہزاروں سال کے گھروں سے بے گھر کردیا۔ تم نے یہ خیال بھی نہیں کیا کہ ہمیں تراشنے والوں نے کتنی مہارت، کتنی صناعی، کتنے پیار، کتنی امیدوں سے ہمیں تراشا۔
تم ہمیں اسمگل کررہے ہو، تم ہمیں بیچ رہے ہو، تم ہمیں تھانوں میں ذلیل و رسوا کررہے ہو۔ تم بھول رہے ہو کہ کل تم مرجائوگے لیکن ہم زندہ رہیں گے، ہم خدا نہیں ہیں، تم نے ہمیں خدا بھگوان بنایا ہے، ہم تمہاری ہزاروں سالہ تہذیب، ہزاروں سالہ ثقافت کا اثاثہ اور ورثہ ہیں۔ ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ تم ہماری پوجا کرو، کیونکہ ہم پتھر ہیں، خدا نہیں۔ لیکن ہم بہرحال اتنا جانتے ہیں کہ کوئی مہذب قوم اپنے ورثے کو اس طرح ذلیل ورسوا نہیں کرتی، ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا محبت ہے، محبت خدا ہے۔
اسکرین پر ان مورتیوں کو دِکھایا جارہا ہے جو کنٹینر سے بازیاب ہوئی تھیں، ان میں کچھ مورتیاں بیٹھی ہوئی تھیں، کچھ لیٹی ہوئی تھیں، کچھ ٹوٹی ہوئی تھیں۔ یہ سب اب پولیس کی تحویل میں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان مورتیوں کا تعلق گندھارا تہذیب سے ہے۔ خبروں کے مطابق ان مورتیوں کی قیمت 60 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ پولیس والوں نے بھی کچھ مورتیاں چرالیں، ان کی اس حالتِ زار کو دیکھ کر ہمیں بہت ہنسی آئی۔ ہماری اس ہنسی میں ایک سے زیادہ عنصر شامل تھے۔
ایک عنصر جس میں تھوڑا سا حسد کا پہلو بھی تھا، یہ تھا کہ جن معاشروں میں انسانوں بلکہ بڑے انسانوں کی قیمت کچھ نہیں، ان معاشروں میں پتھر پر تراشی ہوئی ان بے جان مورتیوں کی قیمت کیوں کروڑوں میں ہے؟ دوسرا اہم عنصر جس میں بھی حسد کا ایک پہلو تھا، وہ یہ کہ یہ بے جان اور انسانوں کے ہاتھوں تراشی ہوئی مورتیاں خدا بن کر انسانوں کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کرتی ہیں۔
اس طرح یہ مورتیاں نہ صرف شرک کے جرم کا ارتکاب کرتی ہیں بلکہ خالق کائنات کی توہین کی مرتکب ہوتی ہیں۔ میں نے جب ان مورتیوں کی طرف طنز بھری ہنسی کے ساتھ دیکھا تو حیرت سے میں خود پتھر ہو کر رہ گیا، جب میں نے ان مورتیوں کو روتے اور ان کی آنکھوں کو آنسو بہاتے دیکھا۔
تم ہم پر ہنس رہے ہو، ہم پر انسانوں کے خدا بننے کا الزام لگا رہے ہو، میں مورتیوں کو روتے اور بولتے دیکھ کر محوِ حیرت تھا کہ ایک مورتی نے کہا سب سے پہلے تم کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ گھروں، مندروں میں سجائی جانے والی اور قدیم پتھروں کو تراش کر بنائی جانے والی مورتیوں میں کوئی معنوی فرق نہیں۔ یعنی ہم سب کی پرستش کی جاتی ہے۔ ہماری تاریخ بہت پرانی ہے، ہزاروں برسوں پر پھیلی ہوئی ہے لیکن تم نادان کاش ہم پر ہنسنے سے پہلے تم ہماری تاریخ، ہمارے خدا ہونے اور ہماری پوجا کے المیے سے واقف ہوتے، کاش تم ہمارے احساسات، ہماری مجبوریوں کو سمجھ سکتے۔ آئو ہم تمہیں اپنی تعریف سے بریف کرتے ہیں۔ ایک مورتی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
سنو انسان جب غاروں اور درختوں پر رہتا تھا، درختوں کے پتّے، جنگلی پھل اس کی غذا تھی، اپنی تاریخ کے اس ابتدائی دور ہی سے وہ ہمارے پیچھے بھاگتا رہا ہے۔ کبھی اس نے ہوا کو خدا کہا، کبھی پانی کو، کبھی طوفان کو، کبھی سیلاب کو، کبھی اس نے چاند کو خدا کہا، کبھی وہ سورج کے آگے سر جھکاتا رہا، کبھی اس نے رات کو خدا کہا، کبھی دن کی روشنی کے آگے سجدہ ریز رہا۔
خوف اور امید یہ دو ایسے بنیادی عنصر تھے جو اسے ہوا، آگ، پانی، سیلابوں، طوفانوں، اندھیروں، اجالوں کی پرستش کراتے رہے۔ ہزاروں برسوں تک انسان ان ہی خدائوں کو پوجتا رہا، پھر وہ جب غاروں، درختوں سے باہر آیا۔ مل جل کر رہنے لگا، اس نے بستیاں بسانی شروع کیں، غاروں درختوں کے دور سے وہ باہر تو آیا لیکن خوف اور امید اس کے ساتھ ساتھ رہے اور ان ہی دو عناصر نے اسے مورتیوں کی تخلیق کی طرف دھکیلا۔
سنو ہم اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں کہ انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے تراش کر ہمیں خدا بنایا اور خود ہی ہمارے سامنے سجدہ ریز رہا۔ ہم اس مذاق کو سمجھتے ہیں اور ہمیں اس بات کا بھی شدّت سے احساس ہے کہ ہم انسان کی کوئی امید پوری نہیں کرسکتے، انسان کے کوئی کام نہیں آسکتے، لیکن دو مجبوریاں ہمیں خدا بنے رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ پہلی مجبوری یہ ہے کہ ہم خدائی کے اس اعزاز سے دستبردار ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ ہم مٹی اور پتھر کے بنے بے زبان خدا ہیں۔
ہماری دوسری مجبوری یہ ہے کہ ہم انسان کو اپنی پرستش اور پوجا سے اس لیے نہیں روک سکتے کہ انسان نے ہمیں اپنی آخری امید بنالیا ہے۔ اگر اس سے اس کی یہ آخری امید چھین لی جائے تو وہ ناامیدی کے ایسے اندھیروں میں ڈوب جائے گا، جہاں اس کے جینے کا کوئی جواز، کوئی مقصد باقی نہیں رہے گا۔
میں حیرت سے مورتیوں کی باتیں سن رہا تھا۔ ایک لیٹی ہوئی مورتی نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خدائے برتر نے اپنی شناخت کے لیے انسانوں کو مذاہب کے کئی وسیلے عطا کیے، لیکن انسان نے اس کی عظمت کے آگے سرجھکانے کے بجائے اور خود اپنے درمیان محبت اور احترام کی قندیلیں روشن کرنے کے بجائے خدا کو کئی نام دے کر ان ناموں کے حوالے سے ایک دوسرے سے نفرت کرنے، ایک دوسرے کو قتل کرنے کی راہ اپنالی۔ ہم انسانوں کے ہاتھوں تراشی ہوئی مورتیاں انسانوں کی حیوانیت کو دیکھ دیکھ کر شرمسار ہیں اور اپنے رب سے رو رو کر یہ التجائیں کرتی ہیں کہ اے خدا انسانوں کو حیوانوں سے انسان بنا۔
میں حیرت سے پتھروں سے تراشی ہوئی ان مورتیوں کی باتیں سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک ٹوٹی ہوئی مورتی نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا۔ تم ہم پر ہنس رہے ہو اور ہمیں تمہاری ہنسی پر رونا آرہا ہے۔ ہم تمہاری تراشی ہوئی مورتیاں ہزاروں برسوں سے زندہ ہیں اور تم اور تمھاری کئی نسلیں ہمارے سامنے پیوندِ خاک ہوگئیں۔ تم اشرف المخلوقات ہو، تم سوچ سمجھ سکتے ہو، اپنی سوچ، اپنے احساس کے اظہار کے لیے تمہارے منہ میں زبان ہے۔ تمہاری تاریخ ہماری تاریخ سے زیادہ پرانی ہے لیکن تم آج تک نہ زندگی کے مقصد کو سمجھ سکے نہ محبتوں کے ساتھ زندہ رہنے کی حقیقت کو سمجھ سکے۔
سنو جیسے کہ میں نے تمہیں بتایا خوف اور امید ہی وہ دو عناصر ہیں جو تمہیں ہماری تخلیق پر مجبور کرتے ہیں اور یہ دو چیزیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔ تمہیں ہماری پرستش پر اعتراض ہے، ہمیں یہ دکھ ہے کہ تم نے ہمیں اور ہماری ناگزیریت کو سمجھنے کے بجائے ہمیں تقسیم کرکے رکھ دیا۔ دنیا کے چپّے چپّے پر تم نے لاکھوں مسجد، لاکھوں مندر، لاکھوں گرجا تعمیر کیے لیکن اپنے ذہنوں کی تعمیر نہ کرسکے۔ تم اِتنی سی بات نہ سمجھ سکے کہ زندگی کے اس مختصر اور غیر یقینی سفر کو کس طرح پورا کرنا چاہیے؟
جب کوئی سیلاب آتا ہے، کوئی طوفان آتا ہے، کوئی زلزلہ آتا ہے، کوئی خوف ناک وبائی بیماری آتی ہے تو وہ نہ ہندو دیکھتی ہے، نہ مسلمان، نہ سکھ، نہ عیسائی وہ سب کو بلاامتیاز تباہ کردیتی ہے۔ تم ان بلائوں سے گھبرا کر مساجد، مندروں، گرجائوں کی طرف بھاگتے ہو اور جب یہ تباہیاں گزر جاتی ہیں تو تم مساجد، مندروں، گرجائوں کو جلانے لگتے ہو۔ تم نے ہمیں ہمارے ہزاروں سال کے گھروں سے بے گھر کردیا۔ تم نے یہ خیال بھی نہیں کیا کہ ہمیں تراشنے والوں نے کتنی مہارت، کتنی صناعی، کتنے پیار، کتنی امیدوں سے ہمیں تراشا۔
تم ہمیں اسمگل کررہے ہو، تم ہمیں بیچ رہے ہو، تم ہمیں تھانوں میں ذلیل و رسوا کررہے ہو۔ تم بھول رہے ہو کہ کل تم مرجائوگے لیکن ہم زندہ رہیں گے، ہم خدا نہیں ہیں، تم نے ہمیں خدا بھگوان بنایا ہے، ہم تمہاری ہزاروں سالہ تہذیب، ہزاروں سالہ ثقافت کا اثاثہ اور ورثہ ہیں۔ ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ تم ہماری پوجا کرو، کیونکہ ہم پتھر ہیں، خدا نہیں۔ لیکن ہم بہرحال اتنا جانتے ہیں کہ کوئی مہذب قوم اپنے ورثے کو اس طرح ذلیل ورسوا نہیں کرتی، ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا محبت ہے، محبت خدا ہے۔