اے این پی کا انتخابات کے لئے لائحہ عمل
پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت خیبرپختونخوا میں اے این پی کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کرنے اور چلنے کی خواہش مند ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے تھنک ٹینک کے شرکاء نے اپنی روایتی پالیسی اپناتے ہوئے صوبائی تنظیموں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے حالات اور صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ عام انتخابات کے لیے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں ۔
اس پرعمل کرتے ہوئے اے این پی کی صوبائی کابینہ نے اپنی پالیسی وضع کرلی ہے جس میں جمعیت علماء اسلام(ف)کو انتخابی اتحا د کے حوالے سے اول ترجیح قراردیاگیا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی جاری رابطوں کے نتائج کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کی ٹاپ قیادت کے درمیان جو رابطے جاری ہیں ان کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا حالانکہ مختلف ذرائع سے ایسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ٹاپ قیادت خیبرپختونخوا میں اے این پی کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کرنے اور چلنے کی خواہش مند ہے تاہم اس حوالے سے ابھی تک صورت حال واضح نہیں ہوئی اسی لیے اے این پی نے بھی ''تھوڑا''انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تاریخ میں ان پر انگلی نہ اٹھائی جائے اور یہ طعنہ اے این پی کو نہ سننے کو ملے کہ جس نے اے این پی کے صوبہ کے نام کی تبدیلی کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا ،اے این پی اس کا ساتھ چھوڑ گئی ۔
اے این پی اور جمعیت علماء اسلام(ف)کے درمیان دیرینہ مراسم موجود ہیں ،دونوں پارٹیاں اس صوبہ میں مل کر حکومت بھی کرچکی ہیں اور نظریاتی بنیادوں پر سیاست کرنے کے باعث دونوں پارٹیاں اور ان کے ورکر خود کو ایک دوسرے کے قریب بھی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اے این پی کی جانب سے آئندہ عام انتخابات کے لیے جے یو آئی (ف)کے ساتھ اتحاد کے قوی امکانات کو ظاہر کیا گیاہے ،اے ین پی نے اس خواہش کا اظہار پہلی مرتبہ نہیں کیا بلکہ اس سے قبل بھی ایسی کوششیں ہوچکی ہیں اور مختلف درجے کی قیادت کے درمیان رابطے بھی ہوتے رہے ہیں تاہم ان رابطوں پر جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا تھا کہ ''اگر ہم نے اے این پی ہی کے ساتھ اتحاد کرنا ہے تو پھر ہم انتخابی مہم کس کے خلاف چلائیں گے ؟کیونکہ صوبہ میں تو اے این پی ہی برسراقتدار ہے جس کی پالیسیوں کے ہم ناقد رہے ہیں ،ایسے میں اب ساتھی کیسے بن جائیں ''
مولانا فضل الرحمٰن کی یہ بات اپنی جگہ اب بھی موجود ہے اور ظاہر ہے کہ ان کی کہی ہوئی بات ہی جے یو آئی کے لیے پالیسی کا درجہ رکھتی ہے تاہم جس نے بات کہی اگر وہی اپنی بات سے بات نکالتے ہوئے صورت حال کو تبدیل کردیں تو پارٹی پالیسی بھی تبدیل ہوسکتی ہے اور شاید اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اے این پی کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اور ممکنہ طورپر اس خواہش کو باضابطہ رابطوں کی شکل بھی دی جائے گی کیونکہ اے این پی ایک تجربہ 2005 ء کے بلدیاتی انتخابات میں بھی کرچکی ہے جس میں اس نے جے یو آئی اور پیپلز پارٹی دونوں کے خلاف جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کیا تھا اور پشاور کی ضلعی نظامت ہار گئی تھی اس لیے اے این پی کوئی ویسا تجربہ نہیں دہرانا چاہتی ۔
جمعیت علماء اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نہایت سوچ سمجھ کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں ،بظاہر وہ جماعت اسلامی کو باہر کرتے ہوئے ایم ایم اے کی بحالی کربھی چکے ہیں تاہم اب بھی جماعت اسلامی کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ،گو کہ جماعت اسلامی ابھی تک شرائط عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ ابھی نہ تو عام انتخابات کا اعلان ہوا ہے اور نہ ہی سیاسی صف بندی ،اسی لیے جماعت اسلامی ''تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو''کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے ،ایک جانب تو وہ کسی نہ کسی سطح پر ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کے ساتھ بھی رابطوں میں ہے چاہے وہ شرائط پیش کرنے ہی کے حوالے سے کیوں نہ ہو اور دوسری جانب مولانا سمیع الحق کی قیادت میں نئے مذہبی اتحاد کے غیب سے ظہور میں آنے کا انتظار بھی کیاجارہاہے جبکہ جماعت اسلامی کی قیادت مسلم لیگ(ن)اور تحریک انصاف کے ساتھ بھی رابطوں میں ہے
تحریک انصاف کی صورت حال یہ ہے کہ اب تک پارٹی کے اندر الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال وہی ہے جس میں ایک دوسرے پر برتری لے جانے کی کوششیں جاری ہیں ،کچھ اس انتظار میں ہیں کہ پارٹی الیکشن ہوں گے اور وہ اہم عہدے لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کا فائدہ وہ آئندہ الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر لیتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو ایڈجسٹ کرلیں گے جبکہ کچھ اس انتظار میں ہیں کہ اگر پارٹی عہدے نہ ملے تو وہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر دیگر آشیانوں پر بسیرا کرلیں گے جس کے لیے کئی اہم رہنمائوں کے دیگر پارٹیوں کے ساتھ رابطے جاری ہیں اور تحریک انصاف کے صوبائی سطح کے انتخابات کا عمل مکمل ہونے پر ہی ان رہنمائوں کے حوالے سے صورت حال واضح ہوجائے گی کہ وہ کس کے ساتھ ہیں ؟
مسلم لیگ(ن)کے اندر جاری کشمکش کا نتیجہ اس صورت میں دیکھنے کو ملا ہے کہ شعبہ خواتین کی مرکزی جنرل سیکرٹری شازیہ اورنگزیب پارٹی عہدہ سے مستعفی ہوگئی ہیں ،ان کے استعفے کے ساتھ ہی یہ افواہیں بھی گرم ہوگئیں کہ وہ مسلم لیگ(ن)چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے جارہی ہیں تاہم وہ خود اس کی تردید کرتی ہیں ۔ شازیہ اورنگزیب کی جانب سے میاں نواز شریف کو پارٹی عہدہ سے بھجوائے گئے استعفیٰ کا تاحال کوئی جواب نہیں آیا اور میاں نواز شریف کی جانب سے اس بارے میں جو بھی جواب بھجوایا جائے گا وہ خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ(ن)کے نئے اور پرانوں کے مستقبل کا تعین کردے گا جس سے ہر ایک کی پوزیشن واضح ہوجائے گی ۔
اس پرعمل کرتے ہوئے اے این پی کی صوبائی کابینہ نے اپنی پالیسی وضع کرلی ہے جس میں جمعیت علماء اسلام(ف)کو انتخابی اتحا د کے حوالے سے اول ترجیح قراردیاگیا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی جاری رابطوں کے نتائج کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کی ٹاپ قیادت کے درمیان جو رابطے جاری ہیں ان کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا حالانکہ مختلف ذرائع سے ایسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ٹاپ قیادت خیبرپختونخوا میں اے این پی کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کرنے اور چلنے کی خواہش مند ہے تاہم اس حوالے سے ابھی تک صورت حال واضح نہیں ہوئی اسی لیے اے این پی نے بھی ''تھوڑا''انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تاریخ میں ان پر انگلی نہ اٹھائی جائے اور یہ طعنہ اے این پی کو نہ سننے کو ملے کہ جس نے اے این پی کے صوبہ کے نام کی تبدیلی کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا ،اے این پی اس کا ساتھ چھوڑ گئی ۔
اے این پی اور جمعیت علماء اسلام(ف)کے درمیان دیرینہ مراسم موجود ہیں ،دونوں پارٹیاں اس صوبہ میں مل کر حکومت بھی کرچکی ہیں اور نظریاتی بنیادوں پر سیاست کرنے کے باعث دونوں پارٹیاں اور ان کے ورکر خود کو ایک دوسرے کے قریب بھی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اے این پی کی جانب سے آئندہ عام انتخابات کے لیے جے یو آئی (ف)کے ساتھ اتحاد کے قوی امکانات کو ظاہر کیا گیاہے ،اے ین پی نے اس خواہش کا اظہار پہلی مرتبہ نہیں کیا بلکہ اس سے قبل بھی ایسی کوششیں ہوچکی ہیں اور مختلف درجے کی قیادت کے درمیان رابطے بھی ہوتے رہے ہیں تاہم ان رابطوں پر جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا تھا کہ ''اگر ہم نے اے این پی ہی کے ساتھ اتحاد کرنا ہے تو پھر ہم انتخابی مہم کس کے خلاف چلائیں گے ؟کیونکہ صوبہ میں تو اے این پی ہی برسراقتدار ہے جس کی پالیسیوں کے ہم ناقد رہے ہیں ،ایسے میں اب ساتھی کیسے بن جائیں ''
مولانا فضل الرحمٰن کی یہ بات اپنی جگہ اب بھی موجود ہے اور ظاہر ہے کہ ان کی کہی ہوئی بات ہی جے یو آئی کے لیے پالیسی کا درجہ رکھتی ہے تاہم جس نے بات کہی اگر وہی اپنی بات سے بات نکالتے ہوئے صورت حال کو تبدیل کردیں تو پارٹی پالیسی بھی تبدیل ہوسکتی ہے اور شاید اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اے این پی کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اور ممکنہ طورپر اس خواہش کو باضابطہ رابطوں کی شکل بھی دی جائے گی کیونکہ اے این پی ایک تجربہ 2005 ء کے بلدیاتی انتخابات میں بھی کرچکی ہے جس میں اس نے جے یو آئی اور پیپلز پارٹی دونوں کے خلاف جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کیا تھا اور پشاور کی ضلعی نظامت ہار گئی تھی اس لیے اے این پی کوئی ویسا تجربہ نہیں دہرانا چاہتی ۔
جمعیت علماء اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نہایت سوچ سمجھ کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں ،بظاہر وہ جماعت اسلامی کو باہر کرتے ہوئے ایم ایم اے کی بحالی کربھی چکے ہیں تاہم اب بھی جماعت اسلامی کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ،گو کہ جماعت اسلامی ابھی تک شرائط عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ ابھی نہ تو عام انتخابات کا اعلان ہوا ہے اور نہ ہی سیاسی صف بندی ،اسی لیے جماعت اسلامی ''تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو''کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے ،ایک جانب تو وہ کسی نہ کسی سطح پر ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کے ساتھ بھی رابطوں میں ہے چاہے وہ شرائط پیش کرنے ہی کے حوالے سے کیوں نہ ہو اور دوسری جانب مولانا سمیع الحق کی قیادت میں نئے مذہبی اتحاد کے غیب سے ظہور میں آنے کا انتظار بھی کیاجارہاہے جبکہ جماعت اسلامی کی قیادت مسلم لیگ(ن)اور تحریک انصاف کے ساتھ بھی رابطوں میں ہے
تحریک انصاف کی صورت حال یہ ہے کہ اب تک پارٹی کے اندر الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال وہی ہے جس میں ایک دوسرے پر برتری لے جانے کی کوششیں جاری ہیں ،کچھ اس انتظار میں ہیں کہ پارٹی الیکشن ہوں گے اور وہ اہم عہدے لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کا فائدہ وہ آئندہ الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر لیتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو ایڈجسٹ کرلیں گے جبکہ کچھ اس انتظار میں ہیں کہ اگر پارٹی عہدے نہ ملے تو وہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر دیگر آشیانوں پر بسیرا کرلیں گے جس کے لیے کئی اہم رہنمائوں کے دیگر پارٹیوں کے ساتھ رابطے جاری ہیں اور تحریک انصاف کے صوبائی سطح کے انتخابات کا عمل مکمل ہونے پر ہی ان رہنمائوں کے حوالے سے صورت حال واضح ہوجائے گی کہ وہ کس کے ساتھ ہیں ؟
مسلم لیگ(ن)کے اندر جاری کشمکش کا نتیجہ اس صورت میں دیکھنے کو ملا ہے کہ شعبہ خواتین کی مرکزی جنرل سیکرٹری شازیہ اورنگزیب پارٹی عہدہ سے مستعفی ہوگئی ہیں ،ان کے استعفے کے ساتھ ہی یہ افواہیں بھی گرم ہوگئیں کہ وہ مسلم لیگ(ن)چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے جارہی ہیں تاہم وہ خود اس کی تردید کرتی ہیں ۔ شازیہ اورنگزیب کی جانب سے میاں نواز شریف کو پارٹی عہدہ سے بھجوائے گئے استعفیٰ کا تاحال کوئی جواب نہیں آیا اور میاں نواز شریف کی جانب سے اس بارے میں جو بھی جواب بھجوایا جائے گا وہ خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ(ن)کے نئے اور پرانوں کے مستقبل کا تعین کردے گا جس سے ہر ایک کی پوزیشن واضح ہوجائے گی ۔