ڈاکٹروں کی ہڑتال سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا

ڈاکٹروں اور حکومت نے اپنی اناء کا مسئلہ بنالیا ہے اور بحرانی صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کا ہورہا ہے۔

بلوچستان کے سرکاری اسپتال ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث سنسان پڑے ہیں ۔فوٹو : این این آئی

بلوچستان میں جہاں صحت کی سہولتوں کا پہلے ہی فقدان ہے۔

ڈاکٹروں نے سرکاری ہسپتالوں میں تقریباً ڈیڑھ ماہ سے ہڑتال کر رکھی ہے حتیٰ کہ ایمرجنسی مرکز بھی بند ہیں۔ یہ ہڑتال پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور دوسرے ڈاکٹرز کی جانب سے ممتاز ماہر امراض چشم ڈاکٹر سعید احمد کے اغواء کے خلاف کی گئی ہے جنہیں تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل نامعلوم افراد نے اغواء کرلیا تھا اور رہائی کے عوض تین کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال تو پہلے ہی خراب ہے لیکن اغواء برائے تاوان کی وارداتوں نے کاروباری طبقے حتیٰ کہ وکلاء اور ڈاکٹروں کو بھی عدم تحفظ کا شکار بنادیا ہے۔

اس سے قبل ماہر نفسیات ڈاکٹر غلام رسول اور ڈاکٹر دین محمد کو اغواء کیا گیا تھا جبکہ کوئٹہ میں پی ایم اے کے صدر ڈاکٹر مزار خان ، مستونگ میں ڈاکٹر عبدالحمید اور خضدار میں ڈاکٹر دائود عزیز کو قتل کیا گیا۔ اس موقع پر بھی ڈاکٹروں نے شدید احتجاج کیا تھا اور حکومت سے تحفظ مانگا تھا سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال بھی کی تھی اور بڑی کوششوں کے بعد ڈاکٹرز بازیاب ہوئے تھے جس کے بعد حکومت کی جانب سے انہیں تحفظ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تو ڈاکٹروں نے احتجاج ختم کردیا لیکن اس کے بعد پھر ڈاکٹر سعید کو اغواء کرلیا گیا لیکن اس مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور ڈاکٹرز کے درمیان مذاکرات کے بجائے محاذ آرائی کا سلسلہ چل نکلا ہے جس میں احتجاج کے دوران79ڈاکٹرز کو ایک رات جیل کی بھی ہوا کھانی پڑی۔


اسی پر معاملہ ختم نہیں ہوا گذشتہ ہفتے ہی ہڑتالی ڈاکٹرز کے نہ صرف پرائیویٹ کلینکس کو سیل کردیا گیا بلکہ اس کے چند روز بعد صوبائی سیکرٹری صحت عصمت اﷲ کاکڑ نے پریس کانفرنس میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے73 ڈاکٹروں کو معطل کرکے ان کی ماہ نومبر کی تنخواہیں بھی روکنے کا اعلان کردیا۔ سیکرٹری صحت کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ ڈاکٹروں نے غیر قانونی ، غیر انسانی اور غیر اخلاقی طور پر ہڑتال کی ہوئی ہے اور اس پر انہیں نوٹسز بھی جاری کئے گئے تھے کہ ہڑتال ختم کردیں لیکن انہوں نے ہڑتال ختم نہیں کی ۔

اُنہوں نے کہا کہ راولپنڈی سے آرمی کے30 ڈاکٹروں کو بلالیا گیا ہے اسی طرح ڈاکٹرز بھی اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ وہ تو حکومت سے بھی ایک ہاتھ آگے نکل گئے۔اُنہوں نے تو یوم عاشور پر بھی سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی مراکز نہیں کھولے تو یوم عاشور کے بعد کوئٹہ کی انتظامیہ نے سول ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کے تالے توڑ کر ایمرجنسی کھلوادی ،اس موقع پر ڈپٹی کمشنر کوئٹہ محمد ہاشم غلزئی نے بتایا کہ شعبہ ایمرجنسی میں ہڑتال انسانی ہمدردی کی بناء پر ختم کرائی گئی ہے دوسرے شعبوں میں بھی ہڑتال ختم کرائیں گے اور اگر کسی نے شعبہ ایمرجنسی کے ڈاکٹروں کو دھمکانے کی کوشش کی تو دفعہ144 کے تحت ایسے ڈاکٹروں کو گرفتار کرلیا جائے گا۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور حکومت نے اسے اپنی اناء کا مسئلہ بنالیا ہے اور اس بحرانی صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کا ہورہا ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے سی ایم ایچ کوئٹہ میں عوام کو علاج و معالجے کی سہولت مہیا کی گئی ہے اور سی ایم ایچ میں پاک آرمی کے ڈاکٹرز عوام کا علاج کررہے ہیں لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ30 لاکھ کی آبادی والے شہر کے باسیوں کے علاج معالجہ کیلئے ایک ہی ہسپتال ہو ۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر حکومت اور ڈاکٹرز دونوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک عوامی مسئلہ ہے دوسری طرف حکومت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف عوام کو صحت کی سہولتیں مہیا کرے بلکہ عوام اور ڈاکٹر دونوں کو تحفظ فراہم کرے۔

ملک کے دیگر حصوں کی طرح کوئٹہ اور اندرون صوبہ بھی یوم عاشور پرامن طور پر گزر گیا جس پر شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے کوئٹہ میں محرم الحرام کا پہلا عشرہ نہ صرف حکومت، انتظامیہ کیلئے ایک پریشان کن مرحلہ تھا بلکہ شہری بھی ایک خوف کی کیفیت میں مبتلا تھے کیونکہ انتظامی حکام کے مطابق یہ اطلاعات تھیں کہ اس مرتبہ محرم الحرام بالخصوص یوم عاشور پر کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے جیسا کہ اس سے قبل بھی یوم عاشور پر ہوا تھا۔ ان دھمکیوں کے بعد تو ہر کوئی عدم تحفظ محسوس کررہا تھا لیکن حکومت کی جانب سے سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کے باعث کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
Load Next Story