معاشی ترقی …طویل المدت پالیسی کی ضرورت
ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کھلے دل سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔
پاکستان کی معاشی و اقتصادی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ عالمی اور اندرونی قرضوں کا بوجھ بھی ہے' افراط زر اور مہنگائی نے بھی معاشی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے۔
اس وجہ سے عوام کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو معاشی اصلاحات متعارف کرائیں' اس کے اثرات اب بتدریج سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ جو 2007 کے اواخر سے نیچے آنا شروع ہوئی' وہ 2008 میں انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئی تھی۔ پھر اس میں آہستہ آہستہ بہتری آنا شروع ہوئی اور اب اسٹاک ایکسچینج اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ بلند سطح پر موجود ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرمایہ کاروں کو حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی معاشی اصلاحات پر اعتماد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کھلے دل سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس سے کئی ہزار خاندانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اسٹاک بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک خسارے کا شکار سرکاری اداروں کو چلانے کے لیے 509.6 ارب روپے کے قرضے جاری کیے گئے جو جی ڈی پی کے 2.3 فیصد کے برابر ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں سرکاری اداروں پر واجب قرضوں میں 118.9 ارب کی کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر سرکاری اداروں پر واجب قرضوں کے اسٹاک کی مالیت 628.5 ارب روپے تھی جس میں 22.4 فیصد نمو ریکارڈ کی گئی تھی تاہم اس سال پہلی سہ ماہی میں قرضوں میں نمو کی شرح منفی 18.9 فیصد رہی ہے' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری اداروں کے ذمے قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے جو ایک صحت مند علامت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے سرکاری ادارے مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں۔ ان کی وجوہات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ برسوں کی کوتاہی' غفلت' بدعنوانی اور اقربا پروری نے سرکاری اداروں کا بھرکس نکال دیا۔ ریلوے کی حالت سب کے سامنے ہے۔
اسی طرح پاکستان اسٹیل بھی خسارے میں ہے اور بھی کئی ادارے ہیں اگر نام لیں تو فہرست لمبی ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو منافع بخش بنانا ایک دن کا کام نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں اگر یہ کہا گیا ہے کہ سرکاری اداروں پر واجب الادا قرضوں کے اسٹاک کی مالیت میں کمی آئی ہے تو یہ ایک صحت مند علامت ہے۔ اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں ان قرضوں کا حجم مزید کم ہو گا اور پھر وہ دن بھی آ جائے گا جب مقروض سرکاری اداروں پر کوئی قرضہ نہیں ہو گا۔
معاشی ترقی کے لیے طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے معاشی ترجیحات کا تعین سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس پوٹینشل کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس حقیقت کا پالیسی سازوں کو بھی بخوبی پتہ ہے۔ پاکستان کے پاس بہترین نہری نظام بھی ہے اور یہاں بارشیں بھی خاطر خواہ ہوتی ہیں جس سے بارانی علاقوں میں بھی فصلیں تیار ہوتی ہیں۔ یہاں پھلوں کے لیے بھی ساز گار موسم ہے اور دودھ کے لیے بھی۔ ضرورت صرف ترجیحات کے تعین کی ہے۔ پاکستان اگر اپنے زرعی پوٹینشل کو استعمال کرے تو وہ اناج کی برآمد سے کروڑوں ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پنجاب کو دودھ کا گھر کہا جاتا ہے۔ یہاں کی نیلی بار کی بھینسیں اور ساہیوال نسل کی گائے دودھ کے اعتبار سے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے باوجود پاکستان خشک دودھ درآمد کرتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ پھل اور سبزیاں بھی چین' ایران اور بھارت سے آ رہی ہیں۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی زرعی پالیسی میں کہیں نہ کہیں خامیاں موجود ہیں۔ پاکستان کے کسان کی حالت یہ ہے کہ وہ روزی روٹی کے لیے شہروں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہے کیونکہ چار پانچ ایکڑ زمین کی کاشت سے اس کی گزر اوقات نہیں ہوتی۔ حکومت نے جو بھی زرعی پالیسی تشکیل دی اس کا فائدہ یا تو صنعت کار کو ہوا یا برآمد کنندگان کو۔ بچا کچا فائدہ بڑا زمیندار اٹھا لیتا جب کہ پانچ سے دس ایکڑ تک زرعی زمین کا مالک کسان غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بہر حال اگلے روز کی ہی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں تیل کی درآمد کا بل 5 ارب 26 کروڑ 65 لاکھ روپے 93 ہزار ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کی اس مدت سے 5.04 فیصد زیادہ ہے۔
یوں دیکھا جائے تو حکومت کو تیل کی مد میں زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے' حکومت کو اس حوالے سے اپنی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرنا چاہیے۔ سرکاری ادارے جو تیل خرچ کر رہے ہیں ان کا تخمینہ کیا جائے اور جہاں جہاں اس میں کمی آ سکتی ہے اسے کم کیا جائے۔ دنیا میں جن قوموں نے ترقی کی ہے انھوں نے حکومتی سطح پر اپنے وسائل کو سامنے رکھ کر سرکاری ملازموں اور وزراء پر خرچ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو معاشی مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں جو پالیسی اختیار کی گئی اس کا خمیازہ موجودہ حکومت کو بھگتنا پڑا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی ماضی کا ہی ورثہ ہے لیکن موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کرے کیونکہ توانائی کے بغیر صنعتی ترقی ہو سکتی ہے نہ ہی زرعی ترقی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔
موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد بڑا ڈیم تعمیر کرے جس سے بجلی کی ضرورت بھی پوری ہو اور زراعت کے لیے پانی بھی حاصل ہو سکے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ حالیہ دنوں میں عوامی جمہوریہ چین پاکستانی چاول کی بڑی منڈی بن کر ابھرا ہے۔ اگر پاکستان اپنے چاول کی کوالٹی میں مزید بہتری لائے تو چین ہمارے لیے زرمبادلہ کا بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے' ملک میں حال ہی میں ہونے والی ڈی ایٹ کانفرنس بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہو گی اور معیشت کو خاصا فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان نے ڈی ایٹ کانفرنس کرا کے مثبت جانب قدم اٹھایا ہے۔
ایران' ترکی' بنگلہ دیش' ملائشیا' انڈونیشیا اور نائیجیریا کی مارکیٹوں اور ان کے وسائل سے استفادہ کر کے پاکستان اپنی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ دنیا میں ایسے ملکوں کی مثال موجود ہے جنہوں نے چند برسوں میں غربت سے نکل کر خوشحالی کی منزل حاصل کی۔ ان میں جنوبی کوریا اور سنگا پور سرفہرست ہیں۔ ملائیشیا بھی ایسے ہی ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان بھی اگر چاہے اور کوشش کرے تو موجودہ بدحالی سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے مگر اس کے لیے ضرورت درست منصوبہ بندی' ترقی کی لگن اور ایمانداری شرط ہے۔
اس وجہ سے عوام کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو معاشی اصلاحات متعارف کرائیں' اس کے اثرات اب بتدریج سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ جو 2007 کے اواخر سے نیچے آنا شروع ہوئی' وہ 2008 میں انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئی تھی۔ پھر اس میں آہستہ آہستہ بہتری آنا شروع ہوئی اور اب اسٹاک ایکسچینج اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ بلند سطح پر موجود ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرمایہ کاروں کو حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی معاشی اصلاحات پر اعتماد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کھلے دل سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس سے کئی ہزار خاندانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اسٹاک بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک خسارے کا شکار سرکاری اداروں کو چلانے کے لیے 509.6 ارب روپے کے قرضے جاری کیے گئے جو جی ڈی پی کے 2.3 فیصد کے برابر ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں سرکاری اداروں پر واجب قرضوں میں 118.9 ارب کی کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر سرکاری اداروں پر واجب قرضوں کے اسٹاک کی مالیت 628.5 ارب روپے تھی جس میں 22.4 فیصد نمو ریکارڈ کی گئی تھی تاہم اس سال پہلی سہ ماہی میں قرضوں میں نمو کی شرح منفی 18.9 فیصد رہی ہے' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری اداروں کے ذمے قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے جو ایک صحت مند علامت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے سرکاری ادارے مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں۔ ان کی وجوہات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ برسوں کی کوتاہی' غفلت' بدعنوانی اور اقربا پروری نے سرکاری اداروں کا بھرکس نکال دیا۔ ریلوے کی حالت سب کے سامنے ہے۔
اسی طرح پاکستان اسٹیل بھی خسارے میں ہے اور بھی کئی ادارے ہیں اگر نام لیں تو فہرست لمبی ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو منافع بخش بنانا ایک دن کا کام نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں اگر یہ کہا گیا ہے کہ سرکاری اداروں پر واجب الادا قرضوں کے اسٹاک کی مالیت میں کمی آئی ہے تو یہ ایک صحت مند علامت ہے۔ اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں ان قرضوں کا حجم مزید کم ہو گا اور پھر وہ دن بھی آ جائے گا جب مقروض سرکاری اداروں پر کوئی قرضہ نہیں ہو گا۔
معاشی ترقی کے لیے طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے معاشی ترجیحات کا تعین سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس پوٹینشل کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس حقیقت کا پالیسی سازوں کو بھی بخوبی پتہ ہے۔ پاکستان کے پاس بہترین نہری نظام بھی ہے اور یہاں بارشیں بھی خاطر خواہ ہوتی ہیں جس سے بارانی علاقوں میں بھی فصلیں تیار ہوتی ہیں۔ یہاں پھلوں کے لیے بھی ساز گار موسم ہے اور دودھ کے لیے بھی۔ ضرورت صرف ترجیحات کے تعین کی ہے۔ پاکستان اگر اپنے زرعی پوٹینشل کو استعمال کرے تو وہ اناج کی برآمد سے کروڑوں ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پنجاب کو دودھ کا گھر کہا جاتا ہے۔ یہاں کی نیلی بار کی بھینسیں اور ساہیوال نسل کی گائے دودھ کے اعتبار سے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے باوجود پاکستان خشک دودھ درآمد کرتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ پھل اور سبزیاں بھی چین' ایران اور بھارت سے آ رہی ہیں۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی زرعی پالیسی میں کہیں نہ کہیں خامیاں موجود ہیں۔ پاکستان کے کسان کی حالت یہ ہے کہ وہ روزی روٹی کے لیے شہروں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہے کیونکہ چار پانچ ایکڑ زمین کی کاشت سے اس کی گزر اوقات نہیں ہوتی۔ حکومت نے جو بھی زرعی پالیسی تشکیل دی اس کا فائدہ یا تو صنعت کار کو ہوا یا برآمد کنندگان کو۔ بچا کچا فائدہ بڑا زمیندار اٹھا لیتا جب کہ پانچ سے دس ایکڑ تک زرعی زمین کا مالک کسان غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بہر حال اگلے روز کی ہی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں تیل کی درآمد کا بل 5 ارب 26 کروڑ 65 لاکھ روپے 93 ہزار ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کی اس مدت سے 5.04 فیصد زیادہ ہے۔
یوں دیکھا جائے تو حکومت کو تیل کی مد میں زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے' حکومت کو اس حوالے سے اپنی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرنا چاہیے۔ سرکاری ادارے جو تیل خرچ کر رہے ہیں ان کا تخمینہ کیا جائے اور جہاں جہاں اس میں کمی آ سکتی ہے اسے کم کیا جائے۔ دنیا میں جن قوموں نے ترقی کی ہے انھوں نے حکومتی سطح پر اپنے وسائل کو سامنے رکھ کر سرکاری ملازموں اور وزراء پر خرچ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو معاشی مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں جو پالیسی اختیار کی گئی اس کا خمیازہ موجودہ حکومت کو بھگتنا پڑا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی ماضی کا ہی ورثہ ہے لیکن موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کرے کیونکہ توانائی کے بغیر صنعتی ترقی ہو سکتی ہے نہ ہی زرعی ترقی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔
موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد بڑا ڈیم تعمیر کرے جس سے بجلی کی ضرورت بھی پوری ہو اور زراعت کے لیے پانی بھی حاصل ہو سکے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ حالیہ دنوں میں عوامی جمہوریہ چین پاکستانی چاول کی بڑی منڈی بن کر ابھرا ہے۔ اگر پاکستان اپنے چاول کی کوالٹی میں مزید بہتری لائے تو چین ہمارے لیے زرمبادلہ کا بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے' ملک میں حال ہی میں ہونے والی ڈی ایٹ کانفرنس بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہو گی اور معیشت کو خاصا فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان نے ڈی ایٹ کانفرنس کرا کے مثبت جانب قدم اٹھایا ہے۔
ایران' ترکی' بنگلہ دیش' ملائشیا' انڈونیشیا اور نائیجیریا کی مارکیٹوں اور ان کے وسائل سے استفادہ کر کے پاکستان اپنی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ دنیا میں ایسے ملکوں کی مثال موجود ہے جنہوں نے چند برسوں میں غربت سے نکل کر خوشحالی کی منزل حاصل کی۔ ان میں جنوبی کوریا اور سنگا پور سرفہرست ہیں۔ ملائیشیا بھی ایسے ہی ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان بھی اگر چاہے اور کوشش کرے تو موجودہ بدحالی سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے مگر اس کے لیے ضرورت درست منصوبہ بندی' ترقی کی لگن اور ایمانداری شرط ہے۔