ثابت کرو
جن سیاستدانوں پر رقم لینے کا الزام ہے وہ سینہ چوڑا کر کے چیلنج کر رہے ہیں کہ ’’ ثابت کرو۔‘‘
چار پولیس کے سپاہی، پولیس لائن میں جوا کھیلتے ہوئے پکڑے گئے۔
چاروں کو ڈی ایس پی کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ صاحب نے پہلے سپاہی کی جانب جواب طلب نظروں سے دیکھا، سپاہی اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولا '' صاحب میں تو اِس کمرے میں اپنی بالٹی لینے گیا تھا کہ اچانک وہاں چھاپہ پڑ گیا۔ میں بے قصور ہوں۔'' ڈی ایس پی صاحب نے اُسے جانے کی اجازت دے دی۔ دوسرے نے کہا '' میرے کمرے کی لائٹ نہیں جل رہی تھی، میں تو وہاں ٹیسٹر لینے گیا تھا کہ بلا وجہ دھر لیا گیا۔''
صاحب نے دوسرے سپاہی کو بھی بے گُناہ تسلم کرتے ہوئے جانے کی اجازت مرحمت فرما دی ۔ تیسرے سپاہی کا موقف یہ تھا کہ ''میں تو اپنے کمرے میں آرام کر رہا تھا، اچانک شور شرابے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو میں حقیقتِ حال جاننے کے لیے اِس کمرے میں گیا اور بلا وجہ پکڑ لیا گیا، میں نے تو تاش کی گڈّی کو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔'' ڈی ایس پی صاحب نے اِسے بھی باعزت بری کر دیا۔ اب ڈی ایس پی صاحب چوتھے سپاہی کی جانب مُڑے اور اُسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے '' بچّو! تو، تو ہرگز نہیں بچ سکتا۔''
یہ سپاہی واقعی بڑی مشکل میں تھا، کیونکہ اِس کے پاس سے تاش کی گڈّی اور رقم دونوں برآمد ہوئی تھیں، رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باعث اِس کے چہرے پر شرمندگی اور خجالت صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ اُس نے ہاتھ جوڑ کر ڈی ایس پی صاحب کے سامنے اعترافِ جُرم کرتے ہوئے کہاں ''صاحب آپ دُرست فرماتے ہیں میں واقعی جوا کھیل رہا تھا اور رنگے ہاتھوں پکڑا بھی گیا ہوں، لیکن سر! کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ میں یہ جوا کھیل کس کے ساتھ رہا تھا؟'' ایسی ہی مضحکہ خیز صورتحال اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد سامنے آئی ہے کہ 90 کے انتخابات کے دوران سیاستدانوں میں رقم تقسیم کرنیوالوں کے تحریری حلفیہ بیانات کے مطابق سیاستدانوں کو رقم دینے والے تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رقم دی گئی تھی۔
لیکن جن سیاستدانوں پر رقم لینے کا الزام ہے وہ سینہ چوڑا کر کے چیلنج کر رہے ہیں کہ '' ثابت کرو۔'' اور یہ ثابت کرنا، عدلیہ کے فیصلے کے مطابق اب حکومت کا دردِ سر ہے۔ حکومت نے ارادہ ظاہر کیا کہ یہ تحقیقات ایف آئی اے کے ذریعے کروائی جائے۔ تو اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار صاحب نے فوری رد ِعمل دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے قائد میاں نواز شریف کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے کی جانے والی تحقیقات اُنھیں قبول نہیں جب کہ میاں صاحب کا موقف ہے کہ ''اُنھیں اِس پر کوئی اعتراض نہیں وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو دِل سے قبول کرتے ہیں۔ ایف آئی اے اپنی تحقیقات کرے اور الزام ثابت کرے۔''
بس پارٹی کی صف اول کی قیادت میں یہ چھوٹا سا اختلاف کیا سامنے آیا۔ یار لوگوں نے کالم کے کالم سیاہ کر دیے کہ ن لیگ کی قیادت اِس معاملے پر یکسو نہیں ہے۔ اور پارٹی کی ہائی کمان انتشار کا شکار ہے۔ یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ اگر کوئی پارٹی رہنما اپنی قیادت کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے تو یہی میڈیا اور یہی عوام فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ ہر سیاسی کارکن اور پارٹی کا ہر رہنما اپنے قائد کے ہر صحیح یا غلط موقف کا غیر ضروری دفاع کرنا اپنا فرض کیوں سمجھتا ہے ؟ اور ایسا کرنا کیا غیر فطری عمل نہیں؟ لیکن جب پارٹی کی قیادت میں اختلاف رائے نظر آئے، میڈیا کو اُس صورت میں بھی چین نہیں آتا اور پارٹی قیادت انتشار کا شکار نظر آنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اِس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت اور سیاست میں اِس سے قبل کبھی اِس قسم کے حالات سے دو چار ہی نہیں ہوئے ہیں۔
آسان لفظوں میں اِسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں اِسکی ''عادت'' ہی نہیں ہے۔ دراصل ابھی ہم جمہوری بلوغت کے مرحلوں سے گزر رہے ہیں اور رفتہ رفتہ ہی اِس کے عادی ہوں گے۔ یہ عادتیں انسان اور انسانی معاشروں میں بڑا اہم اور بنیادی رول ادا کرتی ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ دُنیا کے ہر انسان کو اپنی ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کیوں سب سے زیادہ لذیذ لگتا ہے؟ وہ اِس لیے کہ بچہ جب ٹھوس غذا کھانا شروع کرتا ہے تو اُس کی ماں اُس کو اپنے ہاتھ سے خوراک کھلاتی ہے، اُس خوراک میں جو سب سے زیادہ لذیذ عنصر ہوتا ہے اُس کا نام ہے ''مامتا۔'' اور محبت نامی جذبے کے جو لاتعداد پہلو ہیں وہ سارے کے سارے اِسی مامتا سے پھوٹتے ہیں۔
پھر یہی ماں جب اپنے بچے کو اپنے ہاتھ سے غذا تیار کر کے کھلاتی ہے تو بچے کی زبان اِس ذائقے کی اتنی عادی ہو جاتی ہے کہ اِس غذا کی لذت کو وہ تمام عمر بھُلا نہیں پاتا اور دُنیا کے کسی پکوان میں اُسے وہ لذت محسوس نہیں ہوتی جو اُسے اپنی ماں کے ہاتھ سے پکائے ہوئے کھانے میں نظر آتی ہے۔ بالکل ایسی ہی صورتحال کا سامنا قوموں کو اجتماعی طور پر بھی درپیش ہوتا ہے۔ معاشرے بھی رفتہ رفتہ، اجتماعی طور پر ارتقائی عمل سے گزر کر تبدیلیوں کے عادی بنتے ہیں۔ اور جب معاشروں میں اچھی عادات اور روایات پختہ ہوتی ہیں تو معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی اقدار فروغ پاتی ہیں۔
جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر اِن مہذّب معاشروں میں ایسے واقعات کسی حیرانی کا باعث نہیں بنتے، جنھیں ہم اپنے معاشرے میں بے وقوفی سمجھ کر اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں لاکھ خرابیاں اور بُرائیاں موجود ہوں۔ بیڈ گورنس، کرپشن، لاقانونیت اور تباہی کی جانب گامزن معیشت ایک بھیانک حقیقت ہی سہی اور یہ بھی تسلیم کہ عوام کے لیے زندگی ایک عذاب بن چکی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ حکومت بہرحال ایک جمہوری حکومت ہے۔ کسی حکمران، سیاستدان، یا اِس ملک کی اشرافیہ کی جمہوریت کے لیے جو بھی قربانیاں ہیں، اُن کی حیثیت ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
اگر کوئی قربان ہوا بھی ہے تو وہ جمہوریت کے لیے نہیں فقط اقتدار کے لیے قربان ہوا ہے۔ اور اقتدار کے لیے جان لینا یا دینا صدیوں پُرانا کھیل ہے لیکن اِس جمہوریت کے لیے پچھلے ساڑھے4 ''جمہوری'' برسوں میں اِس ملک کے عوام نے جو قربانیاں دیں ہیں، وہ کل اِس ملک کی تاریخ کا سب سے زیادہ تابناک باب کہلائے گا۔ پوری قوم کڑا وقت گزار کر جمہوری نظام برقرار رکھنے پر متفق ہو چکی ہے۔ نئے انتخابات فقط چند مہینوں کی بات ہیں اور اِن انتخابات کے نتائج وہ تبدیلیاں برپا کرینگے، اور شر کے پہلو سے انشاء اللہ خیر کی ایسی نہریں پھوٹیں گی کہ سب جل تھل ہو جائے گا۔ ہمارا معاشرہ بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو جنم دے گا اور پھر ہم بھی اِن اقدار کے عادی ہو جائیں گے۔
ابھی ہمارے حکمران نہ آزاد عدلیہ کے عادی ہیں اور نہ ہی آزاد میڈیا کو گھاس ڈالنے پر تیار نظر آتے ہیں۔ لیکن آنے والے حکمران ذہنی طور پر آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کر کے ہی اقتدار میں آئیں گے۔ جواء کھیلنے وال ، رشوت لینے والا اور اسمگلر اگر موقعے پر ہی گرفت میں نہ آئے تو پھر بعد میں اُسے قانون کی گرفت میں لانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اور 90 کے انتخابات میں یا اُس کے بعد بھی جن لوگوں نے پیسے لیے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِسے ثابت کرنا ممکن نہیں۔ ہاں ایک صورت ممکن ہے کہ رقم لینے والوں میں سے کسی کا بھی ضمیر جاگ اُٹھے تو کہانی ایک نیا موڑ لے سکتی ہے۔ لیکن '' ضمیر جاگنے'' والی قدروں کا ہمارا معاشرہ ابھی عادی نہیں ہوا ہے۔
یہاں میں آپ کو ہنسی کرونئیے کے بارے میں ایک کہانی سُناؤں تو آپکو میری بات بھی سمجھ آ جائے گی اور کالم میں ربط بھی نظر آجائے گا کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کا اخلاقیات اور اخلاقی اقدار سے آخر تعلق کیا ہے؟ ہنسی کرونئیے جنوبی افریقہ کی قومی ٹیم کا چند برس قبل تک کپتان تھا۔ موجودہ ٹیسٹ کپٹن اسمتھ سے پہلے وہی کپتان تھا۔ یہ زیادہ پُرانی بات نہیں بلکہ حال ہی کا قصہ ہے۔ کرونئیے ایک پیدائشی کپتان تھا۔ اُس میں قیادت کی خداداد صلاحتیں موجود تھیں جیسے ویسٹ انڈیز کا کلائیو لائیڈ، انگلینڈ کا مائیک بیئرلی اور پاکستان کا عمران خان جو بطور کھلاڑی اتنے کامیاب نہیں تھے جتنے کامیاب کپتان تھے۔ ہنسی کرونئیے پر الزام لگا کہ وہ سٹّے میں ملوث ہے۔
اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہوئیں، لیکن ثبوت نہیں ملا۔ کرونئیے الزام سے بری قرار دے دیا گیا۔ ایک دِن اچانک اُس نے دُنیا کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا۔ کرکٹ کیرئیر قربان کیا، قوم سے معافی مانگی اور کرکٹ چھوڑ کر گمنام ہو گیا۔ اُس میں اتنی اخلاقی جرات تھی کہ ضمیر جاگنے پر بغیر کسی دباؤ کے اُس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ اور کچھ ہی عرصے کے بعد جواں عمری میں ہی بد قسمتی سے ایک ہوائی حادثے میں اپنی جان گنوا کر آنجہانی ہو گیا لیکن تاریخ میں اپنا نام لکھا گیا۔ کیا ہمارے سیاستدانوں میں کوئی ہنسی کرونئیے موجود ہے؟ فی الحال تو کوئی نظر نہیں آتا۔ لیکن مستقبل قریب میں ضرور نظر آئے گا۔ کیونکہ معاشرتی تبدیلیاں سر پہ کھڑی ہیں۔
چاروں کو ڈی ایس پی کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ صاحب نے پہلے سپاہی کی جانب جواب طلب نظروں سے دیکھا، سپاہی اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولا '' صاحب میں تو اِس کمرے میں اپنی بالٹی لینے گیا تھا کہ اچانک وہاں چھاپہ پڑ گیا۔ میں بے قصور ہوں۔'' ڈی ایس پی صاحب نے اُسے جانے کی اجازت دے دی۔ دوسرے نے کہا '' میرے کمرے کی لائٹ نہیں جل رہی تھی، میں تو وہاں ٹیسٹر لینے گیا تھا کہ بلا وجہ دھر لیا گیا۔''
صاحب نے دوسرے سپاہی کو بھی بے گُناہ تسلم کرتے ہوئے جانے کی اجازت مرحمت فرما دی ۔ تیسرے سپاہی کا موقف یہ تھا کہ ''میں تو اپنے کمرے میں آرام کر رہا تھا، اچانک شور شرابے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو میں حقیقتِ حال جاننے کے لیے اِس کمرے میں گیا اور بلا وجہ پکڑ لیا گیا، میں نے تو تاش کی گڈّی کو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔'' ڈی ایس پی صاحب نے اِسے بھی باعزت بری کر دیا۔ اب ڈی ایس پی صاحب چوتھے سپاہی کی جانب مُڑے اور اُسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے '' بچّو! تو، تو ہرگز نہیں بچ سکتا۔''
یہ سپاہی واقعی بڑی مشکل میں تھا، کیونکہ اِس کے پاس سے تاش کی گڈّی اور رقم دونوں برآمد ہوئی تھیں، رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باعث اِس کے چہرے پر شرمندگی اور خجالت صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ اُس نے ہاتھ جوڑ کر ڈی ایس پی صاحب کے سامنے اعترافِ جُرم کرتے ہوئے کہاں ''صاحب آپ دُرست فرماتے ہیں میں واقعی جوا کھیل رہا تھا اور رنگے ہاتھوں پکڑا بھی گیا ہوں، لیکن سر! کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ میں یہ جوا کھیل کس کے ساتھ رہا تھا؟'' ایسی ہی مضحکہ خیز صورتحال اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد سامنے آئی ہے کہ 90 کے انتخابات کے دوران سیاستدانوں میں رقم تقسیم کرنیوالوں کے تحریری حلفیہ بیانات کے مطابق سیاستدانوں کو رقم دینے والے تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رقم دی گئی تھی۔
لیکن جن سیاستدانوں پر رقم لینے کا الزام ہے وہ سینہ چوڑا کر کے چیلنج کر رہے ہیں کہ '' ثابت کرو۔'' اور یہ ثابت کرنا، عدلیہ کے فیصلے کے مطابق اب حکومت کا دردِ سر ہے۔ حکومت نے ارادہ ظاہر کیا کہ یہ تحقیقات ایف آئی اے کے ذریعے کروائی جائے۔ تو اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار صاحب نے فوری رد ِعمل دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے قائد میاں نواز شریف کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے کی جانے والی تحقیقات اُنھیں قبول نہیں جب کہ میاں صاحب کا موقف ہے کہ ''اُنھیں اِس پر کوئی اعتراض نہیں وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو دِل سے قبول کرتے ہیں۔ ایف آئی اے اپنی تحقیقات کرے اور الزام ثابت کرے۔''
بس پارٹی کی صف اول کی قیادت میں یہ چھوٹا سا اختلاف کیا سامنے آیا۔ یار لوگوں نے کالم کے کالم سیاہ کر دیے کہ ن لیگ کی قیادت اِس معاملے پر یکسو نہیں ہے۔ اور پارٹی کی ہائی کمان انتشار کا شکار ہے۔ یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ اگر کوئی پارٹی رہنما اپنی قیادت کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے تو یہی میڈیا اور یہی عوام فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ ہر سیاسی کارکن اور پارٹی کا ہر رہنما اپنے قائد کے ہر صحیح یا غلط موقف کا غیر ضروری دفاع کرنا اپنا فرض کیوں سمجھتا ہے ؟ اور ایسا کرنا کیا غیر فطری عمل نہیں؟ لیکن جب پارٹی کی قیادت میں اختلاف رائے نظر آئے، میڈیا کو اُس صورت میں بھی چین نہیں آتا اور پارٹی قیادت انتشار کا شکار نظر آنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اِس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت اور سیاست میں اِس سے قبل کبھی اِس قسم کے حالات سے دو چار ہی نہیں ہوئے ہیں۔
آسان لفظوں میں اِسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں اِسکی ''عادت'' ہی نہیں ہے۔ دراصل ابھی ہم جمہوری بلوغت کے مرحلوں سے گزر رہے ہیں اور رفتہ رفتہ ہی اِس کے عادی ہوں گے۔ یہ عادتیں انسان اور انسانی معاشروں میں بڑا اہم اور بنیادی رول ادا کرتی ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ دُنیا کے ہر انسان کو اپنی ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کیوں سب سے زیادہ لذیذ لگتا ہے؟ وہ اِس لیے کہ بچہ جب ٹھوس غذا کھانا شروع کرتا ہے تو اُس کی ماں اُس کو اپنے ہاتھ سے خوراک کھلاتی ہے، اُس خوراک میں جو سب سے زیادہ لذیذ عنصر ہوتا ہے اُس کا نام ہے ''مامتا۔'' اور محبت نامی جذبے کے جو لاتعداد پہلو ہیں وہ سارے کے سارے اِسی مامتا سے پھوٹتے ہیں۔
پھر یہی ماں جب اپنے بچے کو اپنے ہاتھ سے غذا تیار کر کے کھلاتی ہے تو بچے کی زبان اِس ذائقے کی اتنی عادی ہو جاتی ہے کہ اِس غذا کی لذت کو وہ تمام عمر بھُلا نہیں پاتا اور دُنیا کے کسی پکوان میں اُسے وہ لذت محسوس نہیں ہوتی جو اُسے اپنی ماں کے ہاتھ سے پکائے ہوئے کھانے میں نظر آتی ہے۔ بالکل ایسی ہی صورتحال کا سامنا قوموں کو اجتماعی طور پر بھی درپیش ہوتا ہے۔ معاشرے بھی رفتہ رفتہ، اجتماعی طور پر ارتقائی عمل سے گزر کر تبدیلیوں کے عادی بنتے ہیں۔ اور جب معاشروں میں اچھی عادات اور روایات پختہ ہوتی ہیں تو معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی اقدار فروغ پاتی ہیں۔
جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر اِن مہذّب معاشروں میں ایسے واقعات کسی حیرانی کا باعث نہیں بنتے، جنھیں ہم اپنے معاشرے میں بے وقوفی سمجھ کر اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں لاکھ خرابیاں اور بُرائیاں موجود ہوں۔ بیڈ گورنس، کرپشن، لاقانونیت اور تباہی کی جانب گامزن معیشت ایک بھیانک حقیقت ہی سہی اور یہ بھی تسلیم کہ عوام کے لیے زندگی ایک عذاب بن چکی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ حکومت بہرحال ایک جمہوری حکومت ہے۔ کسی حکمران، سیاستدان، یا اِس ملک کی اشرافیہ کی جمہوریت کے لیے جو بھی قربانیاں ہیں، اُن کی حیثیت ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
اگر کوئی قربان ہوا بھی ہے تو وہ جمہوریت کے لیے نہیں فقط اقتدار کے لیے قربان ہوا ہے۔ اور اقتدار کے لیے جان لینا یا دینا صدیوں پُرانا کھیل ہے لیکن اِس جمہوریت کے لیے پچھلے ساڑھے4 ''جمہوری'' برسوں میں اِس ملک کے عوام نے جو قربانیاں دیں ہیں، وہ کل اِس ملک کی تاریخ کا سب سے زیادہ تابناک باب کہلائے گا۔ پوری قوم کڑا وقت گزار کر جمہوری نظام برقرار رکھنے پر متفق ہو چکی ہے۔ نئے انتخابات فقط چند مہینوں کی بات ہیں اور اِن انتخابات کے نتائج وہ تبدیلیاں برپا کرینگے، اور شر کے پہلو سے انشاء اللہ خیر کی ایسی نہریں پھوٹیں گی کہ سب جل تھل ہو جائے گا۔ ہمارا معاشرہ بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو جنم دے گا اور پھر ہم بھی اِن اقدار کے عادی ہو جائیں گے۔
ابھی ہمارے حکمران نہ آزاد عدلیہ کے عادی ہیں اور نہ ہی آزاد میڈیا کو گھاس ڈالنے پر تیار نظر آتے ہیں۔ لیکن آنے والے حکمران ذہنی طور پر آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کر کے ہی اقتدار میں آئیں گے۔ جواء کھیلنے وال ، رشوت لینے والا اور اسمگلر اگر موقعے پر ہی گرفت میں نہ آئے تو پھر بعد میں اُسے قانون کی گرفت میں لانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اور 90 کے انتخابات میں یا اُس کے بعد بھی جن لوگوں نے پیسے لیے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِسے ثابت کرنا ممکن نہیں۔ ہاں ایک صورت ممکن ہے کہ رقم لینے والوں میں سے کسی کا بھی ضمیر جاگ اُٹھے تو کہانی ایک نیا موڑ لے سکتی ہے۔ لیکن '' ضمیر جاگنے'' والی قدروں کا ہمارا معاشرہ ابھی عادی نہیں ہوا ہے۔
یہاں میں آپ کو ہنسی کرونئیے کے بارے میں ایک کہانی سُناؤں تو آپکو میری بات بھی سمجھ آ جائے گی اور کالم میں ربط بھی نظر آجائے گا کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کا اخلاقیات اور اخلاقی اقدار سے آخر تعلق کیا ہے؟ ہنسی کرونئیے جنوبی افریقہ کی قومی ٹیم کا چند برس قبل تک کپتان تھا۔ موجودہ ٹیسٹ کپٹن اسمتھ سے پہلے وہی کپتان تھا۔ یہ زیادہ پُرانی بات نہیں بلکہ حال ہی کا قصہ ہے۔ کرونئیے ایک پیدائشی کپتان تھا۔ اُس میں قیادت کی خداداد صلاحتیں موجود تھیں جیسے ویسٹ انڈیز کا کلائیو لائیڈ، انگلینڈ کا مائیک بیئرلی اور پاکستان کا عمران خان جو بطور کھلاڑی اتنے کامیاب نہیں تھے جتنے کامیاب کپتان تھے۔ ہنسی کرونئیے پر الزام لگا کہ وہ سٹّے میں ملوث ہے۔
اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہوئیں، لیکن ثبوت نہیں ملا۔ کرونئیے الزام سے بری قرار دے دیا گیا۔ ایک دِن اچانک اُس نے دُنیا کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا۔ کرکٹ کیرئیر قربان کیا، قوم سے معافی مانگی اور کرکٹ چھوڑ کر گمنام ہو گیا۔ اُس میں اتنی اخلاقی جرات تھی کہ ضمیر جاگنے پر بغیر کسی دباؤ کے اُس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ اور کچھ ہی عرصے کے بعد جواں عمری میں ہی بد قسمتی سے ایک ہوائی حادثے میں اپنی جان گنوا کر آنجہانی ہو گیا لیکن تاریخ میں اپنا نام لکھا گیا۔ کیا ہمارے سیاستدانوں میں کوئی ہنسی کرونئیے موجود ہے؟ فی الحال تو کوئی نظر نہیں آتا۔ لیکن مستقبل قریب میں ضرور نظر آئے گا۔ کیونکہ معاشرتی تبدیلیاں سر پہ کھڑی ہیں۔