ایک دور کی کہانی
وسرے کی مدد سے عمرہ تو ہو سکتا ہے حج نہیں۔ ہم اپنے پیسے سے حج کریں گے۔
سمیع اللہ قریشی نے سن رکھا تھا کہ حج بیت اللہ کے لیے اللہ کی طرف سے بلاوا آتا ہے۔ اس پر انھیں یقین تھا یا نہیں یہ تو نہیں معلوم، لیکن اس حقیقت کا اظہار اس وقت ہوا جب وہ لبنان میں پاکستان کے سفیر تھے۔
دسمبر 1979 میں حج سے ایک ہفتہ پہلے ان کی نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ والدہ اور والد بغیر پیشگی اطلاع بیروت پہنچ گئے اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ حج پر چلیں۔ سمیع اللہ قریشی نے عرض کیا کہ آپ کے ساتھ والد صاحب ہیں۔ ان کے ساتھ آپ جا سکتی ہیں۔ میرے لیے اتنی جلدی گورنمنٹ سے چھٹی لینا مشکل ہو گی۔ تمام انتظامات کرنا ہونگے، ہوائی جہاز میں سیٹ کی بکنگ، منیٰ میں قیام کا انتظام وغیرہ، پھر حج کے لیے رقم درکار ہے۔ والدہ نے سمیع اللہ قریشی کی ایک نہ مانی۔ اب یہ والدہ کا حکم تھا۔ انتظام تو کرنا ہی تھا۔
سب سے پہلے انھوں نے جدہ میں پاکستان ایمبیسی کے فرسٹ سیکریٹری انعام الحق کو فون کیا۔ یہ وہی انعام الحق تھے جو بعدازاں وزیر مملکت برائے امور خارجہ ہوئے۔ وہ کوئی مدد نہ کر سکے، پھر ان کے پریس قونصلر صلاح الدین خورشید اُن کی مدد کے لیے آئے۔
وہ ان کو سعودی ملٹری اتاشی، جنرل علی الشاعر کے پاس لے گئے اور ان سے مدد کے طالب ہوئے۔ جنرل علی پاکستان میں سعودی ملٹری اتاشی رہ چکے تھے۔ جنرل علی الشاعر نے ہر جگہ اپنے تمام دوستوں کو ان کی رہائش کا انتظام کرنے کے لیے فون کیا تا کہ وہ کسی حج گروپ میں شامل ہو جائیں، مگر بے سود۔ کہیں سے مثبت جواب نہ ملا۔ اس پر جنرل علی نے سمیع اللہ قریشی سے کہا کہ اب ایک ہی صورت رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ سرکاری مہمان بن جائیں۔ اس طرح تمام سہولتیں حاصل ہو جائیں گی۔
اپنی سفارت کاری کے دنوں کی یادداشتوں کی مشتمل کتاب ''ایک دور کی کہانی'' میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میں نے جنرل الشاعر سے کہا کہ قرآن شریف میں آیت ہے کہ ''اگر تم میں استطاعت نہ ہو تو حج تم پر فرض نہیں۔'' آیت کے مطابق دوسرے کی مدد سے عمرہ تو ہو سکتا ہے حج نہیں۔ ہم اپنے پیسے سے حج کریں گے، مگر سرکاری مہمان نہیں ہوں گے۔
اس پر علی شاعر نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ ان کو زیارت کا ویزا دلوا دیتے ہیں اور اپنے دوست تبوک کے گیریژن کمانڈر اور مدینہ کے گورنر کو مطلع کر دیتے ہیں کہ ان کے لیے رہنے کی جگہ کا بندوبست کریں۔
سمیع اللہ قریشی نے اپنی والدہ سے جا کر عرض کیا کہ کوئی انتظام ممکن نہیں، نہ ہوائی جہاز میں جگہ نہ ٹھہرنے کا انتظام، نہ حاجیوں کی فہرست میں نام۔ والدہ نے کہا بس اللہ کا نام لے کر چلو۔ ہر انتظام اللہ کی طرف سے ہو جائے گا۔
سمیع اللہ قریشی نے اللہ کا نام لیا، اپنے والدین اور بیوی کو اپنی ذاتی نئی ڈاج ڈارٹ کار میں بٹھایا اور شام کے راستے حج کے لیے روانہ ہو گئے۔ سعودی عرب کی سرحد پر پہنچے تو شام ہو چکی تھی، اندھیرا ہو گیا۔ سرحدی سعودی پولیس نے ان کی کار کی نمبر پلیٹ دیکھی اور پوچھا: ''سفیر پاکستان؟ ذرا انتظار کرو''۔ پھر ایک گارڈ آیا۔ وہ ان کو سرحد پر حاجیوں کے منتظم کے پاس لے گیا جو شاہی خاندان کے ایک فرد تھے۔ انھیں جنرل علی الشاعر کا تار مل چکا تھا۔ انھوں نے ان کو کچھ دیر وہاں ٹھہر کر آرام کرنے کی دعوت دی، لیکن ان کے والد کو تو تبوک پہنچنے کی جلدی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنا ایک آدمی ان کے ساتھ کر دیا جو انھیں لے کر تبوک کے گریژن کمانڈر کے مہمان خانے پہنچا آیا۔ یہ ایک چھوٹا سا آرام دہ بنگلہ تھا۔
دوسری صبح یہ لوگ مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔ جب مدینہ کے قریب پہنچے تو کافی اندھیرا ہو گیا تھا۔ اچانک ایک موٹر سائیکل سوار سپاہی نے ان کی کار کو تاڑا اور نمبر پلیٹ پر نظر پڑتے ہی ان کے پاس پہنچا۔ گاڑیوں کی لائن لگی ہوئی تھی، اس نے سمیع قریشی سے کہا کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے آئیں۔ پھر وہ گھومتا گھماتا ہوا روضہ شریف کے بالکل سامنے ''فندق تیر'' پر رُکا اور کہا کہ یہاں ان کے ٹھہرنے کا انتظام ہے۔ ہوٹل میں پہنچے تو گورنر مدینہ کا فون آ گیا، جنھیں جنرل علی الشاعر کا تار مل گیا تھا اور جنہوں نے سمیع اللہ قریشی سے کہا کہ اب وہ ان کے مہمان ہیں۔ سمیع اللہ قریشی یہاں بھی اس کے لیے تیار نہ تھے، انھوں نے گورنر مدینہ کی طرف سے ان تمام انتظامات کا شکریہ ادا کیا، مگر صاف کہہ دیا کہ ہوٹل میں قیام کا خرچ وہ خود برداشت کریں گے۔
سمیع اللہ قریشی کہتے ہیں: ''اس کیفیت کا کیا ذکر کیا جا سکتا ہے جو مجھے مدینہ شریف کی زیارت، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضۂ مبارک کو دیکھ کر ہوئی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ ہمیں یہ سعادت بھی نصیب ہو گی۔ روضۂ مبارک پر ایک سعودی سپاہی درّہ لیے بیٹھا تھا کہ کوئی روضہ کی جالی کو پیار کرے تو اس کے درّہ مارے، لیکن فرطِ شوق کہاں رُکتا تھا۔ میں نے بوسے دیے، وہ رِقت طاری ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ والدہ اور والد ایسی دنیا میں پہنچ چکے تھے جو میرے خیال سے بہت بالا تھی۔''
مسجد نبوی میں چالیس نمازیں پوری کر کے سمیع اللہ قریشی مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ جدہ پہنچے تو فکر ہوئی کہ کہاں ٹھہریں؟ پٹرول ڈلوانا تھا، پٹرول اسٹیشن پر رُکے۔ وہاں ان کی اہلیہ کو خیال آیا کہ لے سعودی سفیر فواد الخطیب جن سے سمیع اللہ قریشی کی دوستی تھی، اب جدہ میں ہیں۔ سمیع اللہ نے یونہی پٹرول والے سے پوچھا لیا کہ فواد الخطیب کا گھر کہاں ہے؟ اس نے کہا وہ رہا سامنے، یہ پوری بلڈنگ ان ہی کی ہے۔ یہ ان کے یہاں پہنچے، انھوں نے پہلے تو ادھر اُدھر ہوٹلوں میں جگہ کے لیے معلومات کی اور جب کہیں جگہ کا انتظام نہ ہو سکا تو اپنے ہاں ٹھہرا لیا حالانکہ ان کی بیٹی فاطمہ کی جو پاکستان میں پیدا ہوئی تھی بارات آئی ہوئی تھی۔ فواد کے والد پاکستان میں سعودی عرب کے پہلے سفیر تھے۔
سمیع اللہ قریشی لکھتے ہیں: ''مکہ معظمہ پر میرے والد اتنے خوش ہوئے کہ وہ خانہ کعبہ کی طرف لپکے جیسے بھاگ کر ادھر جا رہے ہوں حالانکہ جوانی سے ان کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور بڑھاپے میں ان کی کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جسے لوہے کی سلاخوں سے جوڑا گیا تھا۔ ہماری والدہ ہم میں واحد تھیں جو مقامِ ابراہیمؑ پر باآسانی اور اطمینان سے نماز پڑھ سکیں۔''
دسمبر 1979 میں حج سے ایک ہفتہ پہلے ان کی نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ والدہ اور والد بغیر پیشگی اطلاع بیروت پہنچ گئے اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ حج پر چلیں۔ سمیع اللہ قریشی نے عرض کیا کہ آپ کے ساتھ والد صاحب ہیں۔ ان کے ساتھ آپ جا سکتی ہیں۔ میرے لیے اتنی جلدی گورنمنٹ سے چھٹی لینا مشکل ہو گی۔ تمام انتظامات کرنا ہونگے، ہوائی جہاز میں سیٹ کی بکنگ، منیٰ میں قیام کا انتظام وغیرہ، پھر حج کے لیے رقم درکار ہے۔ والدہ نے سمیع اللہ قریشی کی ایک نہ مانی۔ اب یہ والدہ کا حکم تھا۔ انتظام تو کرنا ہی تھا۔
سب سے پہلے انھوں نے جدہ میں پاکستان ایمبیسی کے فرسٹ سیکریٹری انعام الحق کو فون کیا۔ یہ وہی انعام الحق تھے جو بعدازاں وزیر مملکت برائے امور خارجہ ہوئے۔ وہ کوئی مدد نہ کر سکے، پھر ان کے پریس قونصلر صلاح الدین خورشید اُن کی مدد کے لیے آئے۔
وہ ان کو سعودی ملٹری اتاشی، جنرل علی الشاعر کے پاس لے گئے اور ان سے مدد کے طالب ہوئے۔ جنرل علی پاکستان میں سعودی ملٹری اتاشی رہ چکے تھے۔ جنرل علی الشاعر نے ہر جگہ اپنے تمام دوستوں کو ان کی رہائش کا انتظام کرنے کے لیے فون کیا تا کہ وہ کسی حج گروپ میں شامل ہو جائیں، مگر بے سود۔ کہیں سے مثبت جواب نہ ملا۔ اس پر جنرل علی نے سمیع اللہ قریشی سے کہا کہ اب ایک ہی صورت رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ سرکاری مہمان بن جائیں۔ اس طرح تمام سہولتیں حاصل ہو جائیں گی۔
اپنی سفارت کاری کے دنوں کی یادداشتوں کی مشتمل کتاب ''ایک دور کی کہانی'' میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میں نے جنرل الشاعر سے کہا کہ قرآن شریف میں آیت ہے کہ ''اگر تم میں استطاعت نہ ہو تو حج تم پر فرض نہیں۔'' آیت کے مطابق دوسرے کی مدد سے عمرہ تو ہو سکتا ہے حج نہیں۔ ہم اپنے پیسے سے حج کریں گے، مگر سرکاری مہمان نہیں ہوں گے۔
اس پر علی شاعر نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ ان کو زیارت کا ویزا دلوا دیتے ہیں اور اپنے دوست تبوک کے گیریژن کمانڈر اور مدینہ کے گورنر کو مطلع کر دیتے ہیں کہ ان کے لیے رہنے کی جگہ کا بندوبست کریں۔
سمیع اللہ قریشی نے اپنی والدہ سے جا کر عرض کیا کہ کوئی انتظام ممکن نہیں، نہ ہوائی جہاز میں جگہ نہ ٹھہرنے کا انتظام، نہ حاجیوں کی فہرست میں نام۔ والدہ نے کہا بس اللہ کا نام لے کر چلو۔ ہر انتظام اللہ کی طرف سے ہو جائے گا۔
سمیع اللہ قریشی نے اللہ کا نام لیا، اپنے والدین اور بیوی کو اپنی ذاتی نئی ڈاج ڈارٹ کار میں بٹھایا اور شام کے راستے حج کے لیے روانہ ہو گئے۔ سعودی عرب کی سرحد پر پہنچے تو شام ہو چکی تھی، اندھیرا ہو گیا۔ سرحدی سعودی پولیس نے ان کی کار کی نمبر پلیٹ دیکھی اور پوچھا: ''سفیر پاکستان؟ ذرا انتظار کرو''۔ پھر ایک گارڈ آیا۔ وہ ان کو سرحد پر حاجیوں کے منتظم کے پاس لے گیا جو شاہی خاندان کے ایک فرد تھے۔ انھیں جنرل علی الشاعر کا تار مل چکا تھا۔ انھوں نے ان کو کچھ دیر وہاں ٹھہر کر آرام کرنے کی دعوت دی، لیکن ان کے والد کو تو تبوک پہنچنے کی جلدی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنا ایک آدمی ان کے ساتھ کر دیا جو انھیں لے کر تبوک کے گریژن کمانڈر کے مہمان خانے پہنچا آیا۔ یہ ایک چھوٹا سا آرام دہ بنگلہ تھا۔
دوسری صبح یہ لوگ مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔ جب مدینہ کے قریب پہنچے تو کافی اندھیرا ہو گیا تھا۔ اچانک ایک موٹر سائیکل سوار سپاہی نے ان کی کار کو تاڑا اور نمبر پلیٹ پر نظر پڑتے ہی ان کے پاس پہنچا۔ گاڑیوں کی لائن لگی ہوئی تھی، اس نے سمیع قریشی سے کہا کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے آئیں۔ پھر وہ گھومتا گھماتا ہوا روضہ شریف کے بالکل سامنے ''فندق تیر'' پر رُکا اور کہا کہ یہاں ان کے ٹھہرنے کا انتظام ہے۔ ہوٹل میں پہنچے تو گورنر مدینہ کا فون آ گیا، جنھیں جنرل علی الشاعر کا تار مل گیا تھا اور جنہوں نے سمیع اللہ قریشی سے کہا کہ اب وہ ان کے مہمان ہیں۔ سمیع اللہ قریشی یہاں بھی اس کے لیے تیار نہ تھے، انھوں نے گورنر مدینہ کی طرف سے ان تمام انتظامات کا شکریہ ادا کیا، مگر صاف کہہ دیا کہ ہوٹل میں قیام کا خرچ وہ خود برداشت کریں گے۔
سمیع اللہ قریشی کہتے ہیں: ''اس کیفیت کا کیا ذکر کیا جا سکتا ہے جو مجھے مدینہ شریف کی زیارت، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضۂ مبارک کو دیکھ کر ہوئی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ ہمیں یہ سعادت بھی نصیب ہو گی۔ روضۂ مبارک پر ایک سعودی سپاہی درّہ لیے بیٹھا تھا کہ کوئی روضہ کی جالی کو پیار کرے تو اس کے درّہ مارے، لیکن فرطِ شوق کہاں رُکتا تھا۔ میں نے بوسے دیے، وہ رِقت طاری ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ والدہ اور والد ایسی دنیا میں پہنچ چکے تھے جو میرے خیال سے بہت بالا تھی۔''
مسجد نبوی میں چالیس نمازیں پوری کر کے سمیع اللہ قریشی مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ جدہ پہنچے تو فکر ہوئی کہ کہاں ٹھہریں؟ پٹرول ڈلوانا تھا، پٹرول اسٹیشن پر رُکے۔ وہاں ان کی اہلیہ کو خیال آیا کہ لے سعودی سفیر فواد الخطیب جن سے سمیع اللہ قریشی کی دوستی تھی، اب جدہ میں ہیں۔ سمیع اللہ نے یونہی پٹرول والے سے پوچھا لیا کہ فواد الخطیب کا گھر کہاں ہے؟ اس نے کہا وہ رہا سامنے، یہ پوری بلڈنگ ان ہی کی ہے۔ یہ ان کے یہاں پہنچے، انھوں نے پہلے تو ادھر اُدھر ہوٹلوں میں جگہ کے لیے معلومات کی اور جب کہیں جگہ کا انتظام نہ ہو سکا تو اپنے ہاں ٹھہرا لیا حالانکہ ان کی بیٹی فاطمہ کی جو پاکستان میں پیدا ہوئی تھی بارات آئی ہوئی تھی۔ فواد کے والد پاکستان میں سعودی عرب کے پہلے سفیر تھے۔
سمیع اللہ قریشی لکھتے ہیں: ''مکہ معظمہ پر میرے والد اتنے خوش ہوئے کہ وہ خانہ کعبہ کی طرف لپکے جیسے بھاگ کر ادھر جا رہے ہوں حالانکہ جوانی سے ان کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور بڑھاپے میں ان کی کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جسے لوہے کی سلاخوں سے جوڑا گیا تھا۔ ہماری والدہ ہم میں واحد تھیں جو مقامِ ابراہیمؑ پر باآسانی اور اطمینان سے نماز پڑھ سکیں۔''