ایک گیم چینجنگ وزٹ
پاکستان نے جب امریکی سپانسر شدہ ’بغداد معاہدہ‘ یعنی سیٹو SEATO میں شمولیت اختیار کی
پاکستان نے جب امریکی سپانسر شدہ 'بغداد معاہدہ' یعنی سیٹو SEATO میں شمولیت اختیار کی (جس کو بعد میں CENTO 'سینٹو' کا نام دیا گیا) تو اس وقت اس کا بنیادی مقصد روس کی جنوبی ایشیا کی جانب پیش قدمی میں رکاوٹ ڈالنا تھا، یقیناً اس عمل کے پیچھے مغربی ایجنڈا بھی کارفرما تھا۔ جب بھارت نے امریکا کا اتحادی بننے سے انکار کیا تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس کا جھکاؤ روسی کیمپ کی جانب ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کو نہ صرف امریکی مفادات کے خاطر اپنے مفادات قربان کرنے پڑے بلکہ اس پر امریکی غلامی کی چھاپ بھی لگ گئی۔
جب روس کا زوال ہوا اور سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ گئی تو امریکا نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کو اپنی لابی کا حصہ بنانے کے لیے زور آزمائی شروع کر دی۔ اس کا بنیادی مقصد جنوبی ایشیائی خطے میں سیاسی' اقتصادی اور جغرافیائی استحکام حاصل کرنا تھا۔ لیکن جنوبی ایشیاء میں ایسا کرنا اتنا آسان نہیں۔ اس کی بڑی وجہ بھارت اور پاکستان کا آپس میں تناؤ ہے۔ بھارت کی طرف جھکاؤ ہونے کے باوجود امریکا پاکستان اور اس کی اہمیت کو نظرانداز کرنے کی غلطی مول نہیں لے سکتا۔ لیکن اوباما کے دور حکومت میں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا سے یہ غلطی سرزد ہوگئی ہے اور حال ہی میں کیے جانے والے کئی امریکی اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں کہ امریکا نے بھارت کو نوازا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت اور امریکا کے باہمی تتعلقات کی سلامتی کو شدت پسند ہندوؤں کی جانب سے بھی خطرہ ہے۔
زرداری کے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں واضح دراڑ آئی اور ایک دوسرے پر اعتماد میں کمی واقع ہوئی۔ اس کا نقصان پاک آرمی کی ساکھ کو بھی ہوا۔ زرداری نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت کو پورا کرنے کے لیے جمہوریت کو تقویت بخشنے اور امریکی مفادات کے فروغ دینے کا علم بلند کیا۔ اس دور کے امریکا کے لیے پاکستانی سفیر' حسین حقانی نے امریکا کے ان وسوسوں کو مزید ہوا دی کہ پاکستان امریکی مفادات کا تحفظ نہیں کر رہا، انھوں نے اپنے اور زرداری کے ذاتی مفادات کو پاکستان کے قومی مفادات پر ترجیح دی۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو مشاقی اور ذہانت حسین حقانی نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے استعال کی' اگر وہ پاکستان کے حق میں استعمال کرتے تو ملک کو بہت فائدہ ہوتا۔
جان مکین کوئی عام شخص نہیں ہیں۔ ان کے باپ اور دادا امریکی نیوی میں ایڈمرل تھے۔ وہ خود بھی ویت نام میں 1967ء میں جنگی قیدی رہ چکے ہیں۔ ان کو شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ 1987ء میں وہ سینیٹ کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تین سال قبل ان کو 'سینیٹ آرمڈ فورسز کمپنی' کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس لیے جب جان مکین نے امریکی کانگریس کے وفد کے ساتھ شمالی وزیرستان کا حال ہی میں دورہ کیا تو ان کو اپنے فوجی تجربے کی بنا فوری اندازہ ہو گیا کہ امریکا کا پاکستان سے 'ڈومور' کا تقاضا احمقانہ ہے۔ پاکستان آرمی نے حقاقی نیٹ ورک سے منسلک دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اس کا اندازہ کانگریسی وفد کو شمالی وزیرستان کے دورہ کرنے سے بخوبی ہو گیا۔
وہاں موجود پاک آرمی کے فیلڈ کمانڈرز نے امریکی وفد کو آپریشن کے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ یہاں یہ امر سمجھنا ضروری ہے کہ جب تک افغانستان میں مکمل امن قائم نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان سے اپنے قبائلی اور افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں 'ڈومور' کا تقاضا کرنا دانشمندی نہیں۔ کانگریس کے وفد کا یہ دورہ بلاشبہ بے انتہا اہمیت کاحامل تھا۔ جان مکین اور ان کے ساتھیوں نے پاک آرمی کی خدمات کو سراہا اور جان مکین جیسے شخص سے ان خدمات کا اعتراف یقیناً ایک بڑی کامیابی ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مکین نے کہا کہ افغانستان کے مسائل اور ان کے حل کی ذمے داری پاکستان یا اشرف غنی کی نہیں بلکہ صدر اوباما کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کو ہر شعبے میں باہمی تعلقات میں مزید بہتری لانے کے لیے جستجو کرنی ہو گی۔ جب سے اوباما حکومت آئی ہے تب سے امریکا پاکستان کو افغانستان کے حالات کے تناظر میں پرکھتا ہے۔ بھارت کی خوشنودی ہی کے لیے 'ایف پاک AF Pak' کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے مسائل ایک سے ہیں جو کہ حقیقت کے برعکس ہے۔
خطے میں دہشت گردی میں کمی نہ واقع ہونے کے باعث امریکی کانگریس نے اوباما انتظامیہ کو ایف 16طیارے' اسلام آباد کو رعایتی نرخوں پر فروخت کرنے سے روک دیا جب کہ اسلام آباد کو ان کی شدید ضرورت بھی تھی۔ مکین کے دورے کا ایک مثبت نتیجہ یہ بھی برآمد ہو سکتا ہے کہ اب امریکا اردن کو پاکستان کے استعمال شدہ ایف16 طیارے کہیں کم نرخوں میں اور اس سے کہیں زیادہ تعداد میں فروخت کرنے کی اجازت دے دے گا۔لیکن دوسری طرف اوباما انتظامیہ کی جانب سے امریکا کی 'نیوکلیئر سپلائرز گروپ' میں بھارت کی شمولیت بھرپور حمایت پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے۔
خطے میں امریکا کی بھارت نواز دوغلی پالیسی سے مزید بے چینی اور انتشار بڑھے گا۔ امریکا کو خطے میں توازن رکھنے کے لیے پاکستان کے نیو کلیئرا سٹیٹس کو بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ہم حکومت پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لیکن اچھے اقدامات پر اس کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔ مکین کے دورہ کے دوران بے مثال سول ملٹری ہم آہنگی دیکھنے میں نظر آئی۔ دفتر خارجہ اور سرتاج عزیز کی محنت بھی قابل ستائش ہے جس کی وجہ سے مکین کے دورہ کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
کسی بھی ریاست کی خارجہ پالیسی اس کے جغرافیائی منظرنامہ' قومی مفادات' وسائل اور نظریات کے مطابق بنائی اور ڈھالی جاتی ہے۔ جب 2001ء میں پاکستان نے امریکا کی جنگ میں اتحادی کے طور پر شمولیت اختیار کی تو اس کی اپنے اوپر عائد کچھ پابندیوں میں نرمی کا وعدہ کیا گیا لیکن جب امریکا کا پاکستان سے مطلب پورا ہو گیا تو ان وعدوں کو یکسر فراموش کر دیا گیا۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانی ہو گی کہ کہیں دوسرے ممالک کی خدمت میں قومی مفادات کی قربانی دوبارہ نہ دینی پڑے۔
جب روس کا زوال ہوا اور سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ گئی تو امریکا نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کو اپنی لابی کا حصہ بنانے کے لیے زور آزمائی شروع کر دی۔ اس کا بنیادی مقصد جنوبی ایشیائی خطے میں سیاسی' اقتصادی اور جغرافیائی استحکام حاصل کرنا تھا۔ لیکن جنوبی ایشیاء میں ایسا کرنا اتنا آسان نہیں۔ اس کی بڑی وجہ بھارت اور پاکستان کا آپس میں تناؤ ہے۔ بھارت کی طرف جھکاؤ ہونے کے باوجود امریکا پاکستان اور اس کی اہمیت کو نظرانداز کرنے کی غلطی مول نہیں لے سکتا۔ لیکن اوباما کے دور حکومت میں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا سے یہ غلطی سرزد ہوگئی ہے اور حال ہی میں کیے جانے والے کئی امریکی اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں کہ امریکا نے بھارت کو نوازا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت اور امریکا کے باہمی تتعلقات کی سلامتی کو شدت پسند ہندوؤں کی جانب سے بھی خطرہ ہے۔
زرداری کے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں واضح دراڑ آئی اور ایک دوسرے پر اعتماد میں کمی واقع ہوئی۔ اس کا نقصان پاک آرمی کی ساکھ کو بھی ہوا۔ زرداری نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت کو پورا کرنے کے لیے جمہوریت کو تقویت بخشنے اور امریکی مفادات کے فروغ دینے کا علم بلند کیا۔ اس دور کے امریکا کے لیے پاکستانی سفیر' حسین حقانی نے امریکا کے ان وسوسوں کو مزید ہوا دی کہ پاکستان امریکی مفادات کا تحفظ نہیں کر رہا، انھوں نے اپنے اور زرداری کے ذاتی مفادات کو پاکستان کے قومی مفادات پر ترجیح دی۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو مشاقی اور ذہانت حسین حقانی نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے استعال کی' اگر وہ پاکستان کے حق میں استعمال کرتے تو ملک کو بہت فائدہ ہوتا۔
جان مکین کوئی عام شخص نہیں ہیں۔ ان کے باپ اور دادا امریکی نیوی میں ایڈمرل تھے۔ وہ خود بھی ویت نام میں 1967ء میں جنگی قیدی رہ چکے ہیں۔ ان کو شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ 1987ء میں وہ سینیٹ کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تین سال قبل ان کو 'سینیٹ آرمڈ فورسز کمپنی' کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس لیے جب جان مکین نے امریکی کانگریس کے وفد کے ساتھ شمالی وزیرستان کا حال ہی میں دورہ کیا تو ان کو اپنے فوجی تجربے کی بنا فوری اندازہ ہو گیا کہ امریکا کا پاکستان سے 'ڈومور' کا تقاضا احمقانہ ہے۔ پاکستان آرمی نے حقاقی نیٹ ورک سے منسلک دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اس کا اندازہ کانگریسی وفد کو شمالی وزیرستان کے دورہ کرنے سے بخوبی ہو گیا۔
وہاں موجود پاک آرمی کے فیلڈ کمانڈرز نے امریکی وفد کو آپریشن کے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ یہاں یہ امر سمجھنا ضروری ہے کہ جب تک افغانستان میں مکمل امن قائم نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان سے اپنے قبائلی اور افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں 'ڈومور' کا تقاضا کرنا دانشمندی نہیں۔ کانگریس کے وفد کا یہ دورہ بلاشبہ بے انتہا اہمیت کاحامل تھا۔ جان مکین اور ان کے ساتھیوں نے پاک آرمی کی خدمات کو سراہا اور جان مکین جیسے شخص سے ان خدمات کا اعتراف یقیناً ایک بڑی کامیابی ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مکین نے کہا کہ افغانستان کے مسائل اور ان کے حل کی ذمے داری پاکستان یا اشرف غنی کی نہیں بلکہ صدر اوباما کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کو ہر شعبے میں باہمی تعلقات میں مزید بہتری لانے کے لیے جستجو کرنی ہو گی۔ جب سے اوباما حکومت آئی ہے تب سے امریکا پاکستان کو افغانستان کے حالات کے تناظر میں پرکھتا ہے۔ بھارت کی خوشنودی ہی کے لیے 'ایف پاک AF Pak' کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے مسائل ایک سے ہیں جو کہ حقیقت کے برعکس ہے۔
خطے میں دہشت گردی میں کمی نہ واقع ہونے کے باعث امریکی کانگریس نے اوباما انتظامیہ کو ایف 16طیارے' اسلام آباد کو رعایتی نرخوں پر فروخت کرنے سے روک دیا جب کہ اسلام آباد کو ان کی شدید ضرورت بھی تھی۔ مکین کے دورے کا ایک مثبت نتیجہ یہ بھی برآمد ہو سکتا ہے کہ اب امریکا اردن کو پاکستان کے استعمال شدہ ایف16 طیارے کہیں کم نرخوں میں اور اس سے کہیں زیادہ تعداد میں فروخت کرنے کی اجازت دے دے گا۔لیکن دوسری طرف اوباما انتظامیہ کی جانب سے امریکا کی 'نیوکلیئر سپلائرز گروپ' میں بھارت کی شمولیت بھرپور حمایت پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے۔
خطے میں امریکا کی بھارت نواز دوغلی پالیسی سے مزید بے چینی اور انتشار بڑھے گا۔ امریکا کو خطے میں توازن رکھنے کے لیے پاکستان کے نیو کلیئرا سٹیٹس کو بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ہم حکومت پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لیکن اچھے اقدامات پر اس کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔ مکین کے دورہ کے دوران بے مثال سول ملٹری ہم آہنگی دیکھنے میں نظر آئی۔ دفتر خارجہ اور سرتاج عزیز کی محنت بھی قابل ستائش ہے جس کی وجہ سے مکین کے دورہ کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
کسی بھی ریاست کی خارجہ پالیسی اس کے جغرافیائی منظرنامہ' قومی مفادات' وسائل اور نظریات کے مطابق بنائی اور ڈھالی جاتی ہے۔ جب 2001ء میں پاکستان نے امریکا کی جنگ میں اتحادی کے طور پر شمولیت اختیار کی تو اس کی اپنے اوپر عائد کچھ پابندیوں میں نرمی کا وعدہ کیا گیا لیکن جب امریکا کا پاکستان سے مطلب پورا ہو گیا تو ان وعدوں کو یکسر فراموش کر دیا گیا۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانی ہو گی کہ کہیں دوسرے ممالک کی خدمت میں قومی مفادات کی قربانی دوبارہ نہ دینی پڑے۔