رہبر
کبھی سوچا، اس ملک خدا داد میں ملک گیر سیاست کرنا کتنا مشکل یا یوں کہیے ناپید ہوگئی ہے۔
کبھی سوچا، اس ملک خدا داد میں ملک گیر سیاست کرنا کتنا مشکل یا یوں کہیے ناپید ہوگئی ہے۔ ہر کوئی اپنے علاقے کا لیڈر ہے جتنا اس کا علاقہ بڑا اتنا اس کا اقتدار میں حصہ بڑا۔ جب ناسا کے سائنسدانوں کا تحقیق کے لیے بھیجا سیارہ ''جونو'' جوپیٹر کے مدارکو عین عید کے زمانوں میں چھو رہا تھا، مجھے پاکستان کی کہکشاں میں پنجاب جوپیٹر لگا۔ سورج کے بعد جو 98 فیصد مقدار رکھتا ہے وزن میں باقی دو فیصد میں آتے ہیں سارے سیارے اور ان کے چاند اور ان سارے سیاروں میں جوپیٹر باقی سیاروں کے ملا کے وزن سے بھی دو گنا بڑا ہے۔ اب کہیے کہ وہ خود ایک سورج نہیں، بجھا ہوا سورج۔
70 کی دہائی تک یہ سب قدرے بہتر تھا۔ اصغر خان بھی کراچی سے جیتتے تھے دائیں بازو کی سیاست کے نام پر تو پاکستان کے نام پر۔ ذوالفقار علی بھٹو کو کوئی کتنا بھی سندھی کہے، تھے وہ پاکستان کے لیڈر۔ حد سے گزر جانے کی حد تک پاکستانی۔
ہاں مگر وہ کون سی پاکستانیت تھی جس سے ہم نے شیخ مجیب کو غداری کے اعزاز سے نوازا۔ ہم نے یہی کام شہید سہروردی کے ساتھ بھی کیا۔ جنرل ایوب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ بنگالی ابھی نظریہ پاکستان کے ڈھانچے میں ڈھلا نہیں اب بھی ان میں ہندو پنا ہے۔ یہی بات دبے دبے انداز میں سندھیوں کے بارے میں بھی کی گئی۔
ہمارے باچا خان ہوں، شیخ مجیب ہوں، یا بلوچ لیڈران ہوں یہ سب پھر آہستہ آہستہ اپنے علاقوں میں بیٹھ گئے، علاقوں کے لیڈر ہوگئے، وہ جی ایم سید جی نے ''پاکستان'' کی قرارداد سندھ اسمبلی میں ڈالی تھی وہ بھی علیحدگی پرست ہوگئے۔
اور پھر یوں بھی ہوا اقتدار کے قریب آنے کے لیے جو نظریہ پاکستان کی تشریح بنی وہ موقع پرستانہ تھی۔ ہم نے آمریتوں و جمہوریتوں دونوں کو نظریہ پاکستان کا حصہ بنادیا، نظریہ ضرورت بھی نظریہ پاکستان بن گیا اور پھر جنرل ضیا الحق نے پورے نظریہ پاکستان کو سعودی عرب کے مدار پر چھوڑ دیا۔ نہ پھر نظریہ پاکستان رہا نہ آئین کے بنیادی اصول رہے۔
مجھے یوں لگتا ہے یہ سارا شور شرابہ رہبر نہ ہونے کا ہے۔ ہمارا ملک ماسوائے سکیورٹی اسٹیٹ کے اور کچھ بھی نہ بن سکا۔ ہماری تاریخ جس سے ہم اب بھی جڑ نہ سکے، وہ اشوکا کی تہذیب، وہ شاہراہ ریشم کی لڑیاں، وہ بامیان کے بدھا، نہ رنجیت سنگھ کو اپنا سمجھا نہ بھگت سنگھ کو، نہ ہیموں کالانی کو، نہ ہوشو شیدی کو، اور نہ سوریا بادشاہ کو (موجودہ پیرپگارا کا دادا، جس کو بغاوت پر انگریزوں نے 1943 میں پھانسی پر لٹکایا تھا)۔
ہم جانتے ہوئے بھی اتنے اجنبی بن کے پھرتے ہیں کہ اب بلوچوں کا اپنا ایک بہانہ ہے یہ ماجرا سندھیوں کا بھی ہے پختونوں کا بھی ہے تو اور بہت سی چھوٹی موٹی قومی تحریکوں کا بھی ہے۔ پنجاب مگر کوئی قومی تحریک نہیں رکھتا، اس لیے اس کا سارا ثمر جوپیٹر کی مانند ہے اسے کوئی خوف نہیں ڈر نہیں، وفاق ہو یا افواج ہو ہر جگہ ہر سمت اسے اپنے مفاد پر کوئی آنچ آتی ہوئی نظر نہیں آتی۔
اور پھر اوپر سے مذہبی انتہا پرستی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ہم آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف بڑھتے ہوئے ریاست و مذہب کو الگ نہیں کرسکے۔ مذہب کے نام پر سیاست نے بہت سے لوگوں کو اقتدار کے قریب کردیا۔ ایران و سعودی عرب کے درمیان پراکسی جنگ نے یہاں پر بہت سے لوگوں کی چاندی چمکا دی۔
لیکن کوئی اگر غور سے دیکھیں تو یہ ملک کتنی بڑی خدا کی نعمت ہے۔ بیس کروڑ لوگوں پر مشتمل یہ ملک صرف انصاف کے پیمانوں پر آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں ہندوستان کی طرح غربت اس کی رگوں میں نہ تھی مگر اب 60فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے دیہات میں یہ غربت 80 فیصد پائی جاتی ہے۔ ہمارے لیڈر ویسے تو رہتے باہر تھے اب کی بار عید بھی باہر مناتے ہیں۔ جب ان کو لوگ ووٹ اس کے بعد بھی دیں گے تو بڑے شوق سے عید باہر منائیں۔
مگر معاملہ یہ دیکھنے کا ہے کہ لوگ ان کو پھر ووٹ کیوں دیتے ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ دوسری وجہ جہاں تک دیہی سندھ کا تعلق ہے وہاں اب بھی لوگ غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ اب بھی اسی غلامی میں رہنا چاہتے ہیں اس لیے کہ سندھ کی مڈل کلاس سیاست بیچاری ملکی دھارے میں آ نہیں سکی ایک بھی ان 70 سالوں میں قومی اسمبلی کو کیا صوبائی اسمبلی میں بھی بغیر جاگیرداری ووٹ یعنی شہری یا مڈل کلاس کے ووٹ پر پہنچ نہیں سکا۔
سی پیک کی وجہ سے اس ملک میں بہت سی راہیں کھلنے کو ہیں۔ افراط زر دن بہ دن کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے سود کی شرح اتنی کم ہونے کے باوجود بھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر نہ خود اسٹاک ایکسچینج انڈیکس اس سطح پر کبھی نہیں رہا۔ کنسٹرکشن کی صنعت شرح نمو کو اور آگے کی طرف لے جا رہی ہے۔
نہیں کر رہا کام اس ملک میں اگر ادارہ تو وہ عدالتیں ہیں، جس سست رفتاری سے یہ چل رہی ہیں یہاں اگر انصاف ملا بھی تو دیر سے ملے گا جب چڑیا کھیتی چگ جائیں گی۔ اتنی بڑی وکلا تحریک چلی مگر قانون کی حکمرانی بجائے بہتر ہونے کے اور بگڑ گئی۔
اس ملک کو اب ایک ایسے رہبر کی ضرورت ہے جو یونیورسل اقدار میں گڑھا ہوا ہو، جس کو انسانی حقوق کا فلسفہ سمجھ آتا ہو۔ جو جلدی سے غداری کے اعزاز سے اپنے مخالف کو نہ نوازے۔
یہ بحران بے رہبر صرف یہاں نہیں ہے پوری دنیا میں ہے۔ برطانیہ کو بورس جانسن جیسے لوگوں نے یورپین یونین سے جدا کرواکے کہاں کھڑا کردیا ۔ خود ٹرمپ کیا ہے جو امریکا کو نفرتوں کے بھنور میں اور گاڑھتا جا رہا ہے۔
یہ حب الوطنی نہیں کہ ہمیں کشمیر بازو شمشیر سے لینا ہے اور اس خطے میں جنگ کی ہوا کو گرم رکھنا ہے۔میں سمجھتا ہوں ہماری خارجہ پالیسی سے لے کر ہمارے نظریہ پاکستان کے خدوخال کو ہر ایک حقیقت کو دوبارہ سے دیکھنا ہوگا، کہ مسئلہ کہاں ہے۔ ہر ٹی وی چینل نے ایک مفتی تنخواہ پر رکھا ہوا ہے۔ کہ ان کے چینل کی ریٹنگ اچھی ہو۔ اور اگر دلیل و سائنسی بنیادوں پر بحث کرے تو اس پر تہمتیں لگا دی جاتی ہیں۔ ڈر کے مارے ایسے چینل معافیاں مانگنا شروع کردیتے ہیں۔
رہبر کوئی فرد نہیں ہوتا بلکہ فردوں پر مشتمل ادارے ہوتے ہیں۔ ایک بھی ادارہ اس ملک کا کوئی بتا دیں جو بہتر کام کر رہا ہے۔
کہنے دیجیے کہ جنرل راحیل کا یہ بیان پاکستان کی تاریخ کا ایک سنگ میل بیان تھا جب انھوں نے یہ کہا تھا کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف کسی بھی پراکسی جنگ کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم آزادانہ خارجہ پالیسی بنانے میں کامیاب جاتے ہیں یا نہیں۔ ہم داخلی خطرات اور دشمن کو پہچانتے ہیں یا نہیں۔
70 کی دہائی تک یہ سب قدرے بہتر تھا۔ اصغر خان بھی کراچی سے جیتتے تھے دائیں بازو کی سیاست کے نام پر تو پاکستان کے نام پر۔ ذوالفقار علی بھٹو کو کوئی کتنا بھی سندھی کہے، تھے وہ پاکستان کے لیڈر۔ حد سے گزر جانے کی حد تک پاکستانی۔
ہاں مگر وہ کون سی پاکستانیت تھی جس سے ہم نے شیخ مجیب کو غداری کے اعزاز سے نوازا۔ ہم نے یہی کام شہید سہروردی کے ساتھ بھی کیا۔ جنرل ایوب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ بنگالی ابھی نظریہ پاکستان کے ڈھانچے میں ڈھلا نہیں اب بھی ان میں ہندو پنا ہے۔ یہی بات دبے دبے انداز میں سندھیوں کے بارے میں بھی کی گئی۔
ہمارے باچا خان ہوں، شیخ مجیب ہوں، یا بلوچ لیڈران ہوں یہ سب پھر آہستہ آہستہ اپنے علاقوں میں بیٹھ گئے، علاقوں کے لیڈر ہوگئے، وہ جی ایم سید جی نے ''پاکستان'' کی قرارداد سندھ اسمبلی میں ڈالی تھی وہ بھی علیحدگی پرست ہوگئے۔
اور پھر یوں بھی ہوا اقتدار کے قریب آنے کے لیے جو نظریہ پاکستان کی تشریح بنی وہ موقع پرستانہ تھی۔ ہم نے آمریتوں و جمہوریتوں دونوں کو نظریہ پاکستان کا حصہ بنادیا، نظریہ ضرورت بھی نظریہ پاکستان بن گیا اور پھر جنرل ضیا الحق نے پورے نظریہ پاکستان کو سعودی عرب کے مدار پر چھوڑ دیا۔ نہ پھر نظریہ پاکستان رہا نہ آئین کے بنیادی اصول رہے۔
مجھے یوں لگتا ہے یہ سارا شور شرابہ رہبر نہ ہونے کا ہے۔ ہمارا ملک ماسوائے سکیورٹی اسٹیٹ کے اور کچھ بھی نہ بن سکا۔ ہماری تاریخ جس سے ہم اب بھی جڑ نہ سکے، وہ اشوکا کی تہذیب، وہ شاہراہ ریشم کی لڑیاں، وہ بامیان کے بدھا، نہ رنجیت سنگھ کو اپنا سمجھا نہ بھگت سنگھ کو، نہ ہیموں کالانی کو، نہ ہوشو شیدی کو، اور نہ سوریا بادشاہ کو (موجودہ پیرپگارا کا دادا، جس کو بغاوت پر انگریزوں نے 1943 میں پھانسی پر لٹکایا تھا)۔
ہم جانتے ہوئے بھی اتنے اجنبی بن کے پھرتے ہیں کہ اب بلوچوں کا اپنا ایک بہانہ ہے یہ ماجرا سندھیوں کا بھی ہے پختونوں کا بھی ہے تو اور بہت سی چھوٹی موٹی قومی تحریکوں کا بھی ہے۔ پنجاب مگر کوئی قومی تحریک نہیں رکھتا، اس لیے اس کا سارا ثمر جوپیٹر کی مانند ہے اسے کوئی خوف نہیں ڈر نہیں، وفاق ہو یا افواج ہو ہر جگہ ہر سمت اسے اپنے مفاد پر کوئی آنچ آتی ہوئی نظر نہیں آتی۔
اور پھر اوپر سے مذہبی انتہا پرستی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ہم آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف بڑھتے ہوئے ریاست و مذہب کو الگ نہیں کرسکے۔ مذہب کے نام پر سیاست نے بہت سے لوگوں کو اقتدار کے قریب کردیا۔ ایران و سعودی عرب کے درمیان پراکسی جنگ نے یہاں پر بہت سے لوگوں کی چاندی چمکا دی۔
لیکن کوئی اگر غور سے دیکھیں تو یہ ملک کتنی بڑی خدا کی نعمت ہے۔ بیس کروڑ لوگوں پر مشتمل یہ ملک صرف انصاف کے پیمانوں پر آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں ہندوستان کی طرح غربت اس کی رگوں میں نہ تھی مگر اب 60فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے دیہات میں یہ غربت 80 فیصد پائی جاتی ہے۔ ہمارے لیڈر ویسے تو رہتے باہر تھے اب کی بار عید بھی باہر مناتے ہیں۔ جب ان کو لوگ ووٹ اس کے بعد بھی دیں گے تو بڑے شوق سے عید باہر منائیں۔
مگر معاملہ یہ دیکھنے کا ہے کہ لوگ ان کو پھر ووٹ کیوں دیتے ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ دوسری وجہ جہاں تک دیہی سندھ کا تعلق ہے وہاں اب بھی لوگ غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ اب بھی اسی غلامی میں رہنا چاہتے ہیں اس لیے کہ سندھ کی مڈل کلاس سیاست بیچاری ملکی دھارے میں آ نہیں سکی ایک بھی ان 70 سالوں میں قومی اسمبلی کو کیا صوبائی اسمبلی میں بھی بغیر جاگیرداری ووٹ یعنی شہری یا مڈل کلاس کے ووٹ پر پہنچ نہیں سکا۔
سی پیک کی وجہ سے اس ملک میں بہت سی راہیں کھلنے کو ہیں۔ افراط زر دن بہ دن کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے سود کی شرح اتنی کم ہونے کے باوجود بھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر نہ خود اسٹاک ایکسچینج انڈیکس اس سطح پر کبھی نہیں رہا۔ کنسٹرکشن کی صنعت شرح نمو کو اور آگے کی طرف لے جا رہی ہے۔
نہیں کر رہا کام اس ملک میں اگر ادارہ تو وہ عدالتیں ہیں، جس سست رفتاری سے یہ چل رہی ہیں یہاں اگر انصاف ملا بھی تو دیر سے ملے گا جب چڑیا کھیتی چگ جائیں گی۔ اتنی بڑی وکلا تحریک چلی مگر قانون کی حکمرانی بجائے بہتر ہونے کے اور بگڑ گئی۔
اس ملک کو اب ایک ایسے رہبر کی ضرورت ہے جو یونیورسل اقدار میں گڑھا ہوا ہو، جس کو انسانی حقوق کا فلسفہ سمجھ آتا ہو۔ جو جلدی سے غداری کے اعزاز سے اپنے مخالف کو نہ نوازے۔
یہ بحران بے رہبر صرف یہاں نہیں ہے پوری دنیا میں ہے۔ برطانیہ کو بورس جانسن جیسے لوگوں نے یورپین یونین سے جدا کرواکے کہاں کھڑا کردیا ۔ خود ٹرمپ کیا ہے جو امریکا کو نفرتوں کے بھنور میں اور گاڑھتا جا رہا ہے۔
یہ حب الوطنی نہیں کہ ہمیں کشمیر بازو شمشیر سے لینا ہے اور اس خطے میں جنگ کی ہوا کو گرم رکھنا ہے۔میں سمجھتا ہوں ہماری خارجہ پالیسی سے لے کر ہمارے نظریہ پاکستان کے خدوخال کو ہر ایک حقیقت کو دوبارہ سے دیکھنا ہوگا، کہ مسئلہ کہاں ہے۔ ہر ٹی وی چینل نے ایک مفتی تنخواہ پر رکھا ہوا ہے۔ کہ ان کے چینل کی ریٹنگ اچھی ہو۔ اور اگر دلیل و سائنسی بنیادوں پر بحث کرے تو اس پر تہمتیں لگا دی جاتی ہیں۔ ڈر کے مارے ایسے چینل معافیاں مانگنا شروع کردیتے ہیں۔
رہبر کوئی فرد نہیں ہوتا بلکہ فردوں پر مشتمل ادارے ہوتے ہیں۔ ایک بھی ادارہ اس ملک کا کوئی بتا دیں جو بہتر کام کر رہا ہے۔
کہنے دیجیے کہ جنرل راحیل کا یہ بیان پاکستان کی تاریخ کا ایک سنگ میل بیان تھا جب انھوں نے یہ کہا تھا کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف کسی بھی پراکسی جنگ کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم آزادانہ خارجہ پالیسی بنانے میں کامیاب جاتے ہیں یا نہیں۔ ہم داخلی خطرات اور دشمن کو پہچانتے ہیں یا نہیں۔