کیتلی بمقابلہ چینک عرف ٹی پاٹ
ہمارے ایک بزرگ کچھ عجیب و غریب طبیعت کے مالک تھے
ہمارے ایک بزرگ کچھ عجیب و غریب طبیعت کے مالک تھے، رشتے میں ہمارے دادا کے بھائی تھے اپنے منفرد خیالات اور نظریات کی وجہ سے خاصے مشہور تھے، کیونکہ وہ ساری دنیا سے کچھ ہٹ کر بلکہ الٹ کام کرتے رہتے تھے اور اپنے ہر کام اور بات کے لیے وہ کچھ ایسا جواز ڈھونڈ لیتے تھے کہ انسان معترض ہونے کی بجائے قائل ہو جاتا، علاوہ دوسری باتوں اور عادتوں کے ان کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ جب کوئی مہمان آتا تھا اور اسے چائے پلانا ہوتی تو پر تکلف برتنوں کی بجائے اسی کالی بھجنگ کیتلی میں لے کر آتے تھے جسے آگ پر رکھ کر چائے بنائی جاتی تھی۔
عموماً تو لوگ چولہے پر کیتلی یا پتیلا وغیرہ رکھ کر چائے بناتے ہیں لیکن باہر نکالنے کے لیے خوب صورت چینک اور پیالیاں اور ٹرے وغیرہ استعمال کرتے تھے لیکن وہ سیدھے سیدھے اس کیتھلی کو اٹھا لاتے تھے پیالیاں البتہ ٹرے میں رکھ کر لاتے تھے اس بات پر اس کے بیٹے اور گھر والے نالاں رہتے تھے لیکن دبنگ آدمی تھے اس لیے روک بھی نہیں سکتے بلکہ بعد میں سب ان ہی کے ساتھ متفق ہو جاتے تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ سراسر ظلم اور بے انصافی ہے کہ ''پیندا'' تو اس بے چارے کا جلے اور نام کوئی اور کرے، سچے قیمتی اور نازک اندام برتن تو آرام سے الماری میں سجے رہتے ہیں اور جب خود کو جلا کر یہ بے چارا چائے تیار کر لیتا ہے تو وہ آ کر اپنا نام کر لیتے ہیں لیکن مجھے یہ گوارا نہیں کہ پیندا اس کا جلے اور نام دوسروں کا ہو۔
یہاں تک عام سی بات تھی لیکن اس بات کو اگر ہم تھوڑا پھیلا کر دیکھیں تو ہر طرف یہ ہی دکھائی دے گا کہ پیندا جس بے چارے کا جلتا ہے اس کا کوئی نام تک نہیں لیتا اور جب اس پر تختی لگتی ہے تو بدست جناب ۔۔۔۔ کی لگتی ہے، خلیل جبران نے لکھا ہے کہ ایک جگہ دریا پر ایک پل باندھا گیا تو بادشاہ کے نام کی تختی لگا دی گئی، حالانکہ بادشاہ نے اس پل کو دیکھا تک نہیں تھا اور ان مزدوروں اور گدھوں کا کہیں بھی نام نہیں تھا جو پل کے اصل معمار تھے بلکہ چند تو جان سے بھی گئے تھے۔
دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے عجائبات پائے جاتے ہیں چاہے وہ قدیم ہوں یا جدید، ان کے اصل معماروں کو کوئی یاد نہیں کرتا ہے چچلیے نام تو ان کے نہیں لکھے جا سکتے کیونکہ بدنصیب ہمیشہ اکثریت میں ہوتے ہیں یا اکثریت ہمیشہ بے نام ہوتی ہے ان کے اصل میں نام ہوتے بھی نہیں کیونکہ ہندسوں کے نام نہیں ہوتے زیادہ سے زیادہ اتنے مرے اتنے زخمی ہوئے اور اتنے بچ گئے، پرانے زمانے کے عجائبات میں اس وقت مصر کے اہرام برسر زمین موجود ہیں اور دنیا کے سارے انجینئر اور دانا دانشور ابھی تک یہ معلوم نہیں کر پائے کہ اس زمانے میں ایسے عجوبے کیسے تعمیر ہوئے۔
کوئی کہتا ہے کہ اس کے اردگرد پل بنائے جاتے تھے جس کے ذریعے اتنے بڑے بڑے پتھر اوپر چڑھائے جاتے تھے لیکن اس لیے ممکن نہیں کہ ان میں سے اکثر پتھر ستر ستر ٹن کے ہیں اور آج کے دور میں جب ھمہ اقسام کی مشینری اور توانائیاں میسر ہیں بہت کم پل یا سڑکیں ایسی ہونگی جو اتنے وزن کو سہار سکیں صرف ایک سلوپ یا ڈھلان والا نظریہ کچھ کچھ دل کو لگتا ہے۔
یعنی پتھروں کی ایک قطار کے بعد دوسری قطار کے لیے مٹی چڑھا کر ڈھلوان بنائے جاتے تھے جب یہ قطار بھی لگ جاتی تھی تو ڈھلوان کو بھی اسی کے حساب سے اونچا کیا جاتا اور پھر سیکڑوں ہزاروں لوگ ان پتھروں کو لڑھکا کر اوپر چڑھاتے تھے شاید رسیوں کا استعمال بھی ہوتا ہو اور اس تکنیک کا بھی جو آج گاڑیوں کے ساتھ عام ہے کہ فوراً پہئے کو روکنے کے لیے کوئی پتھر یا لکڑی کا ٹکڑا یا کوئی بھی چیز رکھ دی جاتی ہے دم لینے کے بعد تھوڑا اور اوپر دھکیل دیا جاتا ہے اور پھر وہیں پر روک لگا دی جاتی ہے۔
لیکن اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو تصور کیجیے کہ ڈھلان کے لیے مٹی لانے میں اور پتھر کو لڑھکانے میں کتنے ''ہندسے'' استعمال کیے گئے ہوں گے اور یہ ایک عجوبہ کہ یہ پتھر مصر میں نہیں تھے بلکہ کہیں اور سے لائے گئے ہیں اب ان اہراموں میں کتنے ''ہندسے'' موت کے جھاڑن سے مٹ گئے ہوں گے اس کا حساب کوئی نہیں لگا سکتا، کیونکہ ذکر تو ناموں کا ہوتا ہے ہندسے تو لکھے جاتے ہیں اور مٹا دیے جاتے ہیں۔
اس طرح لال قلعہ اور تاج محل میں جو سنگ مر مر استعمال ہوا ہے وہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہیں کیونکہ اچھی خاصی لمبی دیواریں تک ایک ہی پتھر کو تراش کر بنائی گئی ہیں لال قلعے میں دریائے جمنا کی جانب آخری سرے پر ایک عمارت ہے جس کی سامنے والی دیوار پوری کی پوری ایک ہی پتھر کی ہے لیکن ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ اسے اورنگزیب نے بنایا تھا، اگر اس بات کو ئی اس پہلو سے دیکھے جیسا کہ ہمارے ایک دانشور اکثر کہا کرتے تھے کہ شاہ جہان نے تاج محل تعمیر کر کے صرف محبت کی ایک نشانی ہی قائم نہیں کی تھی جیسا کہ شکیل بدایونی نے ساحر لدھیانوی کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسین تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دے دی
بلکہ بقول ہمارے اس سرکاری دانشور کے اس نے ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی مہیا کیا کیونکہ سالہا سال تک ہزاروں مزدوروں اور ان کے خاندانوں کی کفالت اسی سے ہوتی رہی تھی، اس وقت نہ صنعتیں تھیں نہ کارخانے تھے نہ کچھ اور ذرایع روزگار کے موجود تھے اس لیے بادشاہ لوگ محض لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کے لیے ایسی تعمیرات کرواتے رہتے تھے، لیکن آں محترم سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ بادشاہ کے پاس اتنی رقم کس ذریعے سے آئی تھی کیونکہ باہر سے تو اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لایا تھا اور پھر مغلیہ خاندان کے کس فرد کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے کوئی کام بھی کیا تھا کوئی زراعت کی تھی تجارت کی تھی یا مزدوری وغیرہ کی تھی صرف ایک عالمگیر صاحب البتہ ٹوپیاں بناتے تھے لیکن وہ دن میں کتنی ٹوپیاں بناتے ہوں گے۔
بادشاہوں کے پاس بھاری بھاری خزانے اخراجات کے علاوہ اس لیے ہوتے تھے کہ ان ہی عوام کو نچوڑا جاتا تھا جن کو روزگار بنانے کے لیے وہ تعمیرات کرتے تھے، صرف بادشاہوں کے دور تک یہ بات محدود نہیں ہے بلکہ حکومت نام کی جو چیز ہوتی ہے وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جو زرکثیر صرف کرتی ہے وہ آتی کہاں سے ہے، حضرت زرداری نے جو حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ پڑھنے کے لیے جو انکم سپورٹ اسکیم شروع کی ہے اور جو اب تک چل رہی ہے یہ رقم آتی کہاں سے ہے کیا انھوں نے اپنی جائیداد سے اس میں کچھ حصہ ڈالا۔
ٹھیک ہے جن کو دیا جاتا ہے وہ بھی عوام ہیں تو اتنا لمبا چکر کس لیے کہ پہلے چھینا جائے پھر تقسیم کیا جائے جب کہ مختلف ہاتھوں کی ''گرمی'' اس برف کی سل کو پگھلا کر آدھا بھی نہیں چھوڑتی، بظاہر بات موضوع سے ہٹی ہوئی ہے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے وہی کیتلی کی پیندے والی بات ہے یہ ''سچے برتن'' تو کبھی بھی اور کہیں بھی نہیں چلتے صرف تیار شدہ چائے لے کر آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ویسے تو قدم قدم پر ایسی مثالیں ہیں لیکن ہمارے صوبے کا ایک تو اس کا زبردست نمونہ ہے حالانکہ پہلے بھی جو نام اسے دیے گئے تھے وہ بھی چینک تھے، کیتلی نہیں تھے، کیتلی تو وہ ہیں جن کے پیندے جلتے ہیں اس معاملے پر ہم نے بہت سوچا بلکہ غور کیا کہ آخر کیتلی کیوں کیتلی ہے اور چینک کیوں چینک ہے یا یوں کہئے کہ اس کا پیندہ آگ پر کیوں رکھا جاتا ہے اور چینک کو نمائش کے لیے کیوں رکھا گیا ہے، سیدھی طرح تو بات قسمت پر لے جا کر ختم کی جا سکتی ہے لیکن ہمارے خیال میں ایک اور وجہ مٹی اور میٹریل کی بھی ہے المونیم ایک سستی چیز ہے جب کہ اعلیٰ درجے کے چائنا کلے کی قیمت بیش بہا ہوتی ہے اور کیتلی کا پیندا اس لیے جلایا جاتا ہے کہ سستی چیز ہے اگر ضایع بھی ہو گئی تو کیا کیا؟
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
لیکن پیر و مرشد یہاں پر ذرا چوک گئے ہیں ''جام سفال'' اسی لیے توٹتے ہیں کہ وہ جام سفال ہوتے ہیں نہ اسے کوئی سنبھال کر رکھتا ہے نہ احتیاط سے استعمال کرتا ہے کیونکہ سستے میں دوسرے آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن ''ساغر جم'' کیوں ٹوٹے کہ اسے استعمال ہی احتیاط سے کیا جاتا ہے جس طرح چائنا کلے کے قیمتی برتن نہایت احتیاط نزاکت اور سنبھال سنبھال کر استعمال کیے جاتے ہیں ہر کوئی تو ہمارے اس دادا جیسا نہیں ہوتا کہ کیتلی کی اہمیت کو اس کے ''کام'' سے پہچانے۔۔۔ اگر ایسا ہو تو پھر تو یہ دنیا جنت نہ ہو جائے گی؟
عموماً تو لوگ چولہے پر کیتلی یا پتیلا وغیرہ رکھ کر چائے بناتے ہیں لیکن باہر نکالنے کے لیے خوب صورت چینک اور پیالیاں اور ٹرے وغیرہ استعمال کرتے تھے لیکن وہ سیدھے سیدھے اس کیتھلی کو اٹھا لاتے تھے پیالیاں البتہ ٹرے میں رکھ کر لاتے تھے اس بات پر اس کے بیٹے اور گھر والے نالاں رہتے تھے لیکن دبنگ آدمی تھے اس لیے روک بھی نہیں سکتے بلکہ بعد میں سب ان ہی کے ساتھ متفق ہو جاتے تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ سراسر ظلم اور بے انصافی ہے کہ ''پیندا'' تو اس بے چارے کا جلے اور نام کوئی اور کرے، سچے قیمتی اور نازک اندام برتن تو آرام سے الماری میں سجے رہتے ہیں اور جب خود کو جلا کر یہ بے چارا چائے تیار کر لیتا ہے تو وہ آ کر اپنا نام کر لیتے ہیں لیکن مجھے یہ گوارا نہیں کہ پیندا اس کا جلے اور نام دوسروں کا ہو۔
یہاں تک عام سی بات تھی لیکن اس بات کو اگر ہم تھوڑا پھیلا کر دیکھیں تو ہر طرف یہ ہی دکھائی دے گا کہ پیندا جس بے چارے کا جلتا ہے اس کا کوئی نام تک نہیں لیتا اور جب اس پر تختی لگتی ہے تو بدست جناب ۔۔۔۔ کی لگتی ہے، خلیل جبران نے لکھا ہے کہ ایک جگہ دریا پر ایک پل باندھا گیا تو بادشاہ کے نام کی تختی لگا دی گئی، حالانکہ بادشاہ نے اس پل کو دیکھا تک نہیں تھا اور ان مزدوروں اور گدھوں کا کہیں بھی نام نہیں تھا جو پل کے اصل معمار تھے بلکہ چند تو جان سے بھی گئے تھے۔
دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے عجائبات پائے جاتے ہیں چاہے وہ قدیم ہوں یا جدید، ان کے اصل معماروں کو کوئی یاد نہیں کرتا ہے چچلیے نام تو ان کے نہیں لکھے جا سکتے کیونکہ بدنصیب ہمیشہ اکثریت میں ہوتے ہیں یا اکثریت ہمیشہ بے نام ہوتی ہے ان کے اصل میں نام ہوتے بھی نہیں کیونکہ ہندسوں کے نام نہیں ہوتے زیادہ سے زیادہ اتنے مرے اتنے زخمی ہوئے اور اتنے بچ گئے، پرانے زمانے کے عجائبات میں اس وقت مصر کے اہرام برسر زمین موجود ہیں اور دنیا کے سارے انجینئر اور دانا دانشور ابھی تک یہ معلوم نہیں کر پائے کہ اس زمانے میں ایسے عجوبے کیسے تعمیر ہوئے۔
کوئی کہتا ہے کہ اس کے اردگرد پل بنائے جاتے تھے جس کے ذریعے اتنے بڑے بڑے پتھر اوپر چڑھائے جاتے تھے لیکن اس لیے ممکن نہیں کہ ان میں سے اکثر پتھر ستر ستر ٹن کے ہیں اور آج کے دور میں جب ھمہ اقسام کی مشینری اور توانائیاں میسر ہیں بہت کم پل یا سڑکیں ایسی ہونگی جو اتنے وزن کو سہار سکیں صرف ایک سلوپ یا ڈھلان والا نظریہ کچھ کچھ دل کو لگتا ہے۔
یعنی پتھروں کی ایک قطار کے بعد دوسری قطار کے لیے مٹی چڑھا کر ڈھلوان بنائے جاتے تھے جب یہ قطار بھی لگ جاتی تھی تو ڈھلوان کو بھی اسی کے حساب سے اونچا کیا جاتا اور پھر سیکڑوں ہزاروں لوگ ان پتھروں کو لڑھکا کر اوپر چڑھاتے تھے شاید رسیوں کا استعمال بھی ہوتا ہو اور اس تکنیک کا بھی جو آج گاڑیوں کے ساتھ عام ہے کہ فوراً پہئے کو روکنے کے لیے کوئی پتھر یا لکڑی کا ٹکڑا یا کوئی بھی چیز رکھ دی جاتی ہے دم لینے کے بعد تھوڑا اور اوپر دھکیل دیا جاتا ہے اور پھر وہیں پر روک لگا دی جاتی ہے۔
لیکن اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو تصور کیجیے کہ ڈھلان کے لیے مٹی لانے میں اور پتھر کو لڑھکانے میں کتنے ''ہندسے'' استعمال کیے گئے ہوں گے اور یہ ایک عجوبہ کہ یہ پتھر مصر میں نہیں تھے بلکہ کہیں اور سے لائے گئے ہیں اب ان اہراموں میں کتنے ''ہندسے'' موت کے جھاڑن سے مٹ گئے ہوں گے اس کا حساب کوئی نہیں لگا سکتا، کیونکہ ذکر تو ناموں کا ہوتا ہے ہندسے تو لکھے جاتے ہیں اور مٹا دیے جاتے ہیں۔
اس طرح لال قلعہ اور تاج محل میں جو سنگ مر مر استعمال ہوا ہے وہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہیں کیونکہ اچھی خاصی لمبی دیواریں تک ایک ہی پتھر کو تراش کر بنائی گئی ہیں لال قلعے میں دریائے جمنا کی جانب آخری سرے پر ایک عمارت ہے جس کی سامنے والی دیوار پوری کی پوری ایک ہی پتھر کی ہے لیکن ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ اسے اورنگزیب نے بنایا تھا، اگر اس بات کو ئی اس پہلو سے دیکھے جیسا کہ ہمارے ایک دانشور اکثر کہا کرتے تھے کہ شاہ جہان نے تاج محل تعمیر کر کے صرف محبت کی ایک نشانی ہی قائم نہیں کی تھی جیسا کہ شکیل بدایونی نے ساحر لدھیانوی کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسین تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دے دی
بلکہ بقول ہمارے اس سرکاری دانشور کے اس نے ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی مہیا کیا کیونکہ سالہا سال تک ہزاروں مزدوروں اور ان کے خاندانوں کی کفالت اسی سے ہوتی رہی تھی، اس وقت نہ صنعتیں تھیں نہ کارخانے تھے نہ کچھ اور ذرایع روزگار کے موجود تھے اس لیے بادشاہ لوگ محض لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کے لیے ایسی تعمیرات کرواتے رہتے تھے، لیکن آں محترم سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ بادشاہ کے پاس اتنی رقم کس ذریعے سے آئی تھی کیونکہ باہر سے تو اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لایا تھا اور پھر مغلیہ خاندان کے کس فرد کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے کوئی کام بھی کیا تھا کوئی زراعت کی تھی تجارت کی تھی یا مزدوری وغیرہ کی تھی صرف ایک عالمگیر صاحب البتہ ٹوپیاں بناتے تھے لیکن وہ دن میں کتنی ٹوپیاں بناتے ہوں گے۔
بادشاہوں کے پاس بھاری بھاری خزانے اخراجات کے علاوہ اس لیے ہوتے تھے کہ ان ہی عوام کو نچوڑا جاتا تھا جن کو روزگار بنانے کے لیے وہ تعمیرات کرتے تھے، صرف بادشاہوں کے دور تک یہ بات محدود نہیں ہے بلکہ حکومت نام کی جو چیز ہوتی ہے وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جو زرکثیر صرف کرتی ہے وہ آتی کہاں سے ہے، حضرت زرداری نے جو حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ پڑھنے کے لیے جو انکم سپورٹ اسکیم شروع کی ہے اور جو اب تک چل رہی ہے یہ رقم آتی کہاں سے ہے کیا انھوں نے اپنی جائیداد سے اس میں کچھ حصہ ڈالا۔
ٹھیک ہے جن کو دیا جاتا ہے وہ بھی عوام ہیں تو اتنا لمبا چکر کس لیے کہ پہلے چھینا جائے پھر تقسیم کیا جائے جب کہ مختلف ہاتھوں کی ''گرمی'' اس برف کی سل کو پگھلا کر آدھا بھی نہیں چھوڑتی، بظاہر بات موضوع سے ہٹی ہوئی ہے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے وہی کیتلی کی پیندے والی بات ہے یہ ''سچے برتن'' تو کبھی بھی اور کہیں بھی نہیں چلتے صرف تیار شدہ چائے لے کر آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ویسے تو قدم قدم پر ایسی مثالیں ہیں لیکن ہمارے صوبے کا ایک تو اس کا زبردست نمونہ ہے حالانکہ پہلے بھی جو نام اسے دیے گئے تھے وہ بھی چینک تھے، کیتلی نہیں تھے، کیتلی تو وہ ہیں جن کے پیندے جلتے ہیں اس معاملے پر ہم نے بہت سوچا بلکہ غور کیا کہ آخر کیتلی کیوں کیتلی ہے اور چینک کیوں چینک ہے یا یوں کہئے کہ اس کا پیندہ آگ پر کیوں رکھا جاتا ہے اور چینک کو نمائش کے لیے کیوں رکھا گیا ہے، سیدھی طرح تو بات قسمت پر لے جا کر ختم کی جا سکتی ہے لیکن ہمارے خیال میں ایک اور وجہ مٹی اور میٹریل کی بھی ہے المونیم ایک سستی چیز ہے جب کہ اعلیٰ درجے کے چائنا کلے کی قیمت بیش بہا ہوتی ہے اور کیتلی کا پیندا اس لیے جلایا جاتا ہے کہ سستی چیز ہے اگر ضایع بھی ہو گئی تو کیا کیا؟
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
لیکن پیر و مرشد یہاں پر ذرا چوک گئے ہیں ''جام سفال'' اسی لیے توٹتے ہیں کہ وہ جام سفال ہوتے ہیں نہ اسے کوئی سنبھال کر رکھتا ہے نہ احتیاط سے استعمال کرتا ہے کیونکہ سستے میں دوسرے آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن ''ساغر جم'' کیوں ٹوٹے کہ اسے استعمال ہی احتیاط سے کیا جاتا ہے جس طرح چائنا کلے کے قیمتی برتن نہایت احتیاط نزاکت اور سنبھال سنبھال کر استعمال کیے جاتے ہیں ہر کوئی تو ہمارے اس دادا جیسا نہیں ہوتا کہ کیتلی کی اہمیت کو اس کے ''کام'' سے پہچانے۔۔۔ اگر ایسا ہو تو پھر تو یہ دنیا جنت نہ ہو جائے گی؟