عبدالستار ایدھی کا سبق
تا قیامت وہ رہے گا جاوداں<br />
کوئی نہ کہنا کہ ایدھی مر گیا
سوچتا ہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے
معروف عالمی شہرت یافتہ خدائی انسانی خدمت گار عبدالستار ایدھی کی موت یقینی تھی۔ وہ جس عمر اور بیماری کی حالت میں تھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے حصہ کا کام مکمل کر چکے ہیں۔ اگرچہ دل بہت اداس ہے، لیکن فخر بھی ہے کہ عبدالستار ایدھی کوئی معمولی انسان کے طور پر دنیا سے رخصت نہیں ہوئے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی انجمن تھے جو اپنے اندر غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواووں، معذوروں، بچوں، بچیوں، جانوروں، بے کسوں اور ضرورت مندوں کو سجائے ہوئے تھے۔
1928ء میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر جونا گڑھ میں پیدا ہونے والے عبدالستار ایدھی نے ایک فرد کی حیثیت سے وہ سب کچھ کیا جو عمومی طور پر ریاستوں اور حکومتوں کی ذمے داری ہوا کرتی تھی، محض پاکستان ہی نہیں عالمی دنیا بھی ان کے کام کو محو حیرت بنی دیکھتی تھی۔
عبدالستار ایدھی کی اس فلاحی اور انسانیت کے کاموں کی طرف رغبت کی وجہ بھی ان کی ماں تھی۔ وہ ابھی محض11 برس کے ہی تھے کہ ان کی والدہ کو فالج کا حملہ ہوا اور دماغ بھی متاثر ہوا۔ وہ سارا دان اپنی والدہ کی خدمت کرتے ان کے تمام لوازمات کو پورا کرتے اور اسی عمل نے ان کے اندر اس طرز کے کاموں کی رغبت پیدا کی۔ وہ تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں خاندان کے ہمرا ہ پاکستان میں کراچی آ گئے اور پھر ساری زندگی اسی کراچی کے شہر میں گزار دی۔
کراچی آ کر انھوں 1951ء میں اپنے خاندان، برادری اور کچھ دوستوں کی مدد سے علاقے میں فری ڈسپنسری کھولی، یہ ان کے کام کی ابتدا تھی اور اس کے بعد وہ رکے نہیں، تھکے نہیں، گھبرائے نہیں، پریشانی سے امید کا دامن نہیں چھوڑا، بے شمار خطرات اور دھمکیوں کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ کراچی کے ایک چھوٹے سے علاقے سے فری ڈسپنسری سے آغاز کرنے والے عبدالستار ایدھی اپنی محنت سے پورے پاکستان میں پھیل گئے، وہ واقعی قوم کے حقیقی ہیرو کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
میں ابھی زمانہ طالب علمی میں تھا۔ ایک دن معلوم ہوا کہ عبدالستار ایدھی لاہور آ رہے ہیں۔ وہ اس دورے میں لاہور کے معروف کاروباری مرکز مال روڈ پر جھولی مارچ کریں گے۔ ہم بھی ان سے ملاقات کی خواہش رکھتے تھے، مال روڈ پر چلے آئے تو دیکھا کہ سیاہ ملیشا کے عام سے لباس میں ا ور پاوں میں ہوائی چپل پہنے ہوئے عبدالستار ایدھی جھولی پھیلائے مال روڈ پر موجود تھے۔ کچھ لوگ ان کے اس عمل پر حیرا ن تھے اور کچھ کو تجسس تھا کہ یہ فرد جو معمولی حیثیت رکھتا ہے کیسے یہ کام کر سکے گا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے بچو ں، بچیوں، نوجوان لڑکوں، لڑکیوں اور عام آدمیوں کو ایک روپے، پانچ روپے اور دس روپے کا چندہ دیتے دیکھا تو میں نے محسوس کیا کہ عبدالستار ایدھی مسکراتے، ان کے اندر ایک جوش پیدا ہوتا تھا۔ ان کے الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں کہ ان کے بقول دینے والا کیا دے رہا ہے یہ اہم نہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ اس کار خیر میں شریک ہے۔ ہم نے ان کے ساتھ انارکلی تک مارچ کیا، زیادہ تر بڑے کاروباری طبقہ باہر نہیں نکلا بلکہ عام آدمی نے زیادہ اپنا حصہ ڈالا۔ دوسری ملاقات عبدالستار ایدھی سے ان کے ایدھی سینٹر کراچی میں ہوئی۔ اس ملاقات میں انھوں نے مجھ سمیت کچھ دوستوں کو تفصیل سے اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا۔
عبدالستار ایدھی کے کاموں کا بنیادی مرکز کراچی تھا، وہ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا لیکن پچھلی کچھ دہائیوں میں کراچی امن سے زیادہ بربادی، تشدد اور بربریت کا شہر بنا۔ اس شہر میں انسانی زندگی کی جو تذلیل ہوئی اور جس انداز سے لوگوں کی قتل وغارت ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ اس شہر میں عبدالستار ایدھی نے جس جوانمردی سے کام کیا اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کم ہی مل سکے گی۔
لسانی بنیادوں پر شہر کی تقسیم میں ایدھی نے مذہب، رنک، نسل، فرقہ، گروہ سے بالاتر ہو کر جس انداز سے کراچی کے لوگوں کو سہار ا دیا وہ لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں۔ ریاست، حکومت اور ادارے جہاں ہمت ہار گئے، وہاں عبدالستار ایدھی کی ہمت کام آئی اور وہ گولیوں اور تشدد کی سیاست کی بوچھاڑ میں لاشیں اٹھاتے، ان کی تکفین کرتے، زخمیوں کو اسپتال پہنچاتے اور بے نام لاشوں کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیتے تھے۔ یتیم بچوں اور بچیوں کی کفالت، ایدھی ہوم، شیلٹر، ویلج، چائلڈ ہوم، فری لنگر، لیبارٹری اس کہ اہم کام تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی نجی فری ایمبولینس چلانے کا اعزاٖز بھی ایدھی کو حاصل تھا۔
عبدالستار ایدھی بنیادی طور پر اس نظام کے خلاف عملی جنگ کر رہے تھے۔ وہ کبھی بھی ریاست، حکومت اور بالادست طبقات کے قریب نظر آنے کی بجائے عام لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ آپ ان کے بے شمار ٹی وی اور اخباری انٹرویو دیکھیں تو وہ صرف اور صرف اس نظام کو چیلنج کرتے ہوئے عام اور محروم سمیت کمزور افراد کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آئے۔
وہ معاشرے میں بدترین پھیلی ہوئی سیاسی، سماجی اور معاشی تفریق کے خلاف تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکمرانوں اور بالادست طبقات نے بھی ان کو اپنا دوست کم اور دشمن زیادہ سمجھا۔ کیونکہ وہ بے باک تھے اور بڑے بڑے لوگوں کے سامنے بڑی بات کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ عبدالستار ایدھی کے بقول یہ جو میںنے اتنا کام پھیلایا ہے، اس کی وجہ معاشرے کا پیسے والا اور اختیار رکھنے والا طبقہ نہیں، بلکہ عام آدمی ہے۔
اگرچہ عبدالستار ایدھی کی موت پر سب ہی ریاستی، حکومتی اور بالادست طبقات ان کی شان میں قصیدے گا رہے ہیں اور ان کو زبردست خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، لیکن عملی طور پر ان سب کو شرم آنی چاہیے کہ ان کی ناکامی کا سارا بوجھ ایدھی اور اس کے تحت چلنے والے اداروں نے اٹھایا ہوا ہے۔ عبدالستار ایدھی بیمار ہوئے تو ان کے چلیے باہر سے علاج کی حکومتی آفر بھی آئی، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ وہ پاکستان میں بیٹھ کر اپنا علاج کروائیں گے۔
یہ ایک ایسے فرد کا فیصلہ تھا جس کی ریاست، حکومت اور بالادست طبقات دانتوں میں درد ہو جائے تو وہ بھی علاج کے لیے باہر جاتے ہیں۔ حکمرانی اور سیاست کا سارا نظام اس حمام میں ننگا ہے۔ حکمران طبقات کو واقعی شرم آنی چاہیے جو اقتدار میں رہنے کے باوجود ایک بھی ایسا اسپتال اس ملک میں نہیں بنا سکے جہاںوہ اپنا علاج کروا سکتے۔ دعویٰ حق حکمرانی کا ہے اور عوام کی خدمت کا جب کہ عمل تضادات اور منافقت سے بھرا ہوا، اسی تضاد نے عبدالستار ایدھی کو ہمیشہ سیاست اور سیاست دانوں سے دور رکھا۔
عبدالستار ایدھی ساری عمر ایمبولینس میں ہی سفر کرتے تھے اور ایدھی فاونڈیشن کے اندر ہی دو کمروں پر مشتمل ان کا گھر تھا۔ اگرچہ وہ ذات کے میمن تھے، لیکن انھوں نے اپنے آپ کو براداری تک محدود نہیں کیا، بلکہ پوری انسانیت کی خدمت کی۔ ایدھی فاونڈیشن کے باہر ایک جھولا ہوتا تھا۔ ان کے بقول بچوں اور بچیوں کو مارنے کی بجائے اس جھولے میں ڈال دیا کرو، ہم کفالت کریں گے۔
وہ کوئی تعلیم یافتہ نہیں تھے، ان کے بقول دنیا کے غم میرے استاد، دانائی اور حکمت ہے۔ یہ ہی معاشرے کا سچ ہے اور یہ ہی میری تعلیم بھی ہے۔ ایدھی جیسے لوگ بار بار اس دنیا میں نہیں آتے۔ وہ تو اپنا کام کر چکے اب ہمیں کئی اور ایدھی درکار ہیں۔ کیونکہ ہم ایک ایسی بدترین حکمرانی پر مبنی نظام کا شکار ہیں جس کی بنیاد طبقاتی استحصال پر مبنی ہے ۔
بقول شاعر
ڈھونڈتے ہی پھرو گے اس وقت کے مسیحا کو
جو آنکھوں سے محروم قوم کو بینائی دے گیا
دو ملیشیا کے لباس اور دو ہوائی چپلوں سے اپنی زندگی کا نظام چلانے والے عبدالستار ایدھی اس پورے ظالمانہ اور حکمرانی کے نظام کے منہ پر بڑا طمانچہ ہے۔ اس پر کفر کے فتوی بھٖی لگے، کچھ نے اس کو ملک دشمن بھی قرار دیا، کچھ مذہب مخالف کہتے تھے، لیکن وہ ان باتوں کی پروا کیے بغیر اپنی دھن میں کام کرتا رہا، کیونکہ اس کے سامنے ایک مقصد تھا، منزل تھی اور لاکھوں وہ ضرورت مند لوگ تھے جس کو اس کی ضرورت تھی۔ اس نے کبھی بھی ریاست اور حکومت کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، وہ لو گوں کے پاس گیا اور ان ہی کو اپنا سہارا بنایا۔ کیا واقعی ہمارا حکمرانی کا نظام اور اس میں شامل حکمران و بالادست طبقہ ایدھی سے کچھ سیکھ سکے گا، تو جواب نفی میں ہے، یہ ہی قوم کا المیہ بھی ہے۔
بقول شاعر
کتنے قطروں کو سمندر کر گیا
کام پورا کر کے اپنے گھر گیا
تا قیامت وہ رہے گا جاوداں
کوئی نہ کہنا کہ ایدھی مر گیا
لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے
معروف عالمی شہرت یافتہ خدائی انسانی خدمت گار عبدالستار ایدھی کی موت یقینی تھی۔ وہ جس عمر اور بیماری کی حالت میں تھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے حصہ کا کام مکمل کر چکے ہیں۔ اگرچہ دل بہت اداس ہے، لیکن فخر بھی ہے کہ عبدالستار ایدھی کوئی معمولی انسان کے طور پر دنیا سے رخصت نہیں ہوئے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی انجمن تھے جو اپنے اندر غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواووں، معذوروں، بچوں، بچیوں، جانوروں، بے کسوں اور ضرورت مندوں کو سجائے ہوئے تھے۔
1928ء میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر جونا گڑھ میں پیدا ہونے والے عبدالستار ایدھی نے ایک فرد کی حیثیت سے وہ سب کچھ کیا جو عمومی طور پر ریاستوں اور حکومتوں کی ذمے داری ہوا کرتی تھی، محض پاکستان ہی نہیں عالمی دنیا بھی ان کے کام کو محو حیرت بنی دیکھتی تھی۔
عبدالستار ایدھی کی اس فلاحی اور انسانیت کے کاموں کی طرف رغبت کی وجہ بھی ان کی ماں تھی۔ وہ ابھی محض11 برس کے ہی تھے کہ ان کی والدہ کو فالج کا حملہ ہوا اور دماغ بھی متاثر ہوا۔ وہ سارا دان اپنی والدہ کی خدمت کرتے ان کے تمام لوازمات کو پورا کرتے اور اسی عمل نے ان کے اندر اس طرز کے کاموں کی رغبت پیدا کی۔ وہ تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں خاندان کے ہمرا ہ پاکستان میں کراچی آ گئے اور پھر ساری زندگی اسی کراچی کے شہر میں گزار دی۔
کراچی آ کر انھوں 1951ء میں اپنے خاندان، برادری اور کچھ دوستوں کی مدد سے علاقے میں فری ڈسپنسری کھولی، یہ ان کے کام کی ابتدا تھی اور اس کے بعد وہ رکے نہیں، تھکے نہیں، گھبرائے نہیں، پریشانی سے امید کا دامن نہیں چھوڑا، بے شمار خطرات اور دھمکیوں کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ کراچی کے ایک چھوٹے سے علاقے سے فری ڈسپنسری سے آغاز کرنے والے عبدالستار ایدھی اپنی محنت سے پورے پاکستان میں پھیل گئے، وہ واقعی قوم کے حقیقی ہیرو کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
میں ابھی زمانہ طالب علمی میں تھا۔ ایک دن معلوم ہوا کہ عبدالستار ایدھی لاہور آ رہے ہیں۔ وہ اس دورے میں لاہور کے معروف کاروباری مرکز مال روڈ پر جھولی مارچ کریں گے۔ ہم بھی ان سے ملاقات کی خواہش رکھتے تھے، مال روڈ پر چلے آئے تو دیکھا کہ سیاہ ملیشا کے عام سے لباس میں ا ور پاوں میں ہوائی چپل پہنے ہوئے عبدالستار ایدھی جھولی پھیلائے مال روڈ پر موجود تھے۔ کچھ لوگ ان کے اس عمل پر حیرا ن تھے اور کچھ کو تجسس تھا کہ یہ فرد جو معمولی حیثیت رکھتا ہے کیسے یہ کام کر سکے گا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے بچو ں، بچیوں، نوجوان لڑکوں، لڑکیوں اور عام آدمیوں کو ایک روپے، پانچ روپے اور دس روپے کا چندہ دیتے دیکھا تو میں نے محسوس کیا کہ عبدالستار ایدھی مسکراتے، ان کے اندر ایک جوش پیدا ہوتا تھا۔ ان کے الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں کہ ان کے بقول دینے والا کیا دے رہا ہے یہ اہم نہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ اس کار خیر میں شریک ہے۔ ہم نے ان کے ساتھ انارکلی تک مارچ کیا، زیادہ تر بڑے کاروباری طبقہ باہر نہیں نکلا بلکہ عام آدمی نے زیادہ اپنا حصہ ڈالا۔ دوسری ملاقات عبدالستار ایدھی سے ان کے ایدھی سینٹر کراچی میں ہوئی۔ اس ملاقات میں انھوں نے مجھ سمیت کچھ دوستوں کو تفصیل سے اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا۔
عبدالستار ایدھی کے کاموں کا بنیادی مرکز کراچی تھا، وہ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا لیکن پچھلی کچھ دہائیوں میں کراچی امن سے زیادہ بربادی، تشدد اور بربریت کا شہر بنا۔ اس شہر میں انسانی زندگی کی جو تذلیل ہوئی اور جس انداز سے لوگوں کی قتل وغارت ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ اس شہر میں عبدالستار ایدھی نے جس جوانمردی سے کام کیا اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کم ہی مل سکے گی۔
لسانی بنیادوں پر شہر کی تقسیم میں ایدھی نے مذہب، رنک، نسل، فرقہ، گروہ سے بالاتر ہو کر جس انداز سے کراچی کے لوگوں کو سہار ا دیا وہ لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں۔ ریاست، حکومت اور ادارے جہاں ہمت ہار گئے، وہاں عبدالستار ایدھی کی ہمت کام آئی اور وہ گولیوں اور تشدد کی سیاست کی بوچھاڑ میں لاشیں اٹھاتے، ان کی تکفین کرتے، زخمیوں کو اسپتال پہنچاتے اور بے نام لاشوں کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیتے تھے۔ یتیم بچوں اور بچیوں کی کفالت، ایدھی ہوم، شیلٹر، ویلج، چائلڈ ہوم، فری لنگر، لیبارٹری اس کہ اہم کام تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی نجی فری ایمبولینس چلانے کا اعزاٖز بھی ایدھی کو حاصل تھا۔
عبدالستار ایدھی بنیادی طور پر اس نظام کے خلاف عملی جنگ کر رہے تھے۔ وہ کبھی بھی ریاست، حکومت اور بالادست طبقات کے قریب نظر آنے کی بجائے عام لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ آپ ان کے بے شمار ٹی وی اور اخباری انٹرویو دیکھیں تو وہ صرف اور صرف اس نظام کو چیلنج کرتے ہوئے عام اور محروم سمیت کمزور افراد کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آئے۔
وہ معاشرے میں بدترین پھیلی ہوئی سیاسی، سماجی اور معاشی تفریق کے خلاف تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکمرانوں اور بالادست طبقات نے بھی ان کو اپنا دوست کم اور دشمن زیادہ سمجھا۔ کیونکہ وہ بے باک تھے اور بڑے بڑے لوگوں کے سامنے بڑی بات کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ عبدالستار ایدھی کے بقول یہ جو میںنے اتنا کام پھیلایا ہے، اس کی وجہ معاشرے کا پیسے والا اور اختیار رکھنے والا طبقہ نہیں، بلکہ عام آدمی ہے۔
اگرچہ عبدالستار ایدھی کی موت پر سب ہی ریاستی، حکومتی اور بالادست طبقات ان کی شان میں قصیدے گا رہے ہیں اور ان کو زبردست خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، لیکن عملی طور پر ان سب کو شرم آنی چاہیے کہ ان کی ناکامی کا سارا بوجھ ایدھی اور اس کے تحت چلنے والے اداروں نے اٹھایا ہوا ہے۔ عبدالستار ایدھی بیمار ہوئے تو ان کے چلیے باہر سے علاج کی حکومتی آفر بھی آئی، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ وہ پاکستان میں بیٹھ کر اپنا علاج کروائیں گے۔
یہ ایک ایسے فرد کا فیصلہ تھا جس کی ریاست، حکومت اور بالادست طبقات دانتوں میں درد ہو جائے تو وہ بھی علاج کے لیے باہر جاتے ہیں۔ حکمرانی اور سیاست کا سارا نظام اس حمام میں ننگا ہے۔ حکمران طبقات کو واقعی شرم آنی چاہیے جو اقتدار میں رہنے کے باوجود ایک بھی ایسا اسپتال اس ملک میں نہیں بنا سکے جہاںوہ اپنا علاج کروا سکتے۔ دعویٰ حق حکمرانی کا ہے اور عوام کی خدمت کا جب کہ عمل تضادات اور منافقت سے بھرا ہوا، اسی تضاد نے عبدالستار ایدھی کو ہمیشہ سیاست اور سیاست دانوں سے دور رکھا۔
عبدالستار ایدھی ساری عمر ایمبولینس میں ہی سفر کرتے تھے اور ایدھی فاونڈیشن کے اندر ہی دو کمروں پر مشتمل ان کا گھر تھا۔ اگرچہ وہ ذات کے میمن تھے، لیکن انھوں نے اپنے آپ کو براداری تک محدود نہیں کیا، بلکہ پوری انسانیت کی خدمت کی۔ ایدھی فاونڈیشن کے باہر ایک جھولا ہوتا تھا۔ ان کے بقول بچوں اور بچیوں کو مارنے کی بجائے اس جھولے میں ڈال دیا کرو، ہم کفالت کریں گے۔
وہ کوئی تعلیم یافتہ نہیں تھے، ان کے بقول دنیا کے غم میرے استاد، دانائی اور حکمت ہے۔ یہ ہی معاشرے کا سچ ہے اور یہ ہی میری تعلیم بھی ہے۔ ایدھی جیسے لوگ بار بار اس دنیا میں نہیں آتے۔ وہ تو اپنا کام کر چکے اب ہمیں کئی اور ایدھی درکار ہیں۔ کیونکہ ہم ایک ایسی بدترین حکمرانی پر مبنی نظام کا شکار ہیں جس کی بنیاد طبقاتی استحصال پر مبنی ہے ۔
بقول شاعر
ڈھونڈتے ہی پھرو گے اس وقت کے مسیحا کو
جو آنکھوں سے محروم قوم کو بینائی دے گیا
دو ملیشیا کے لباس اور دو ہوائی چپلوں سے اپنی زندگی کا نظام چلانے والے عبدالستار ایدھی اس پورے ظالمانہ اور حکمرانی کے نظام کے منہ پر بڑا طمانچہ ہے۔ اس پر کفر کے فتوی بھٖی لگے، کچھ نے اس کو ملک دشمن بھی قرار دیا، کچھ مذہب مخالف کہتے تھے، لیکن وہ ان باتوں کی پروا کیے بغیر اپنی دھن میں کام کرتا رہا، کیونکہ اس کے سامنے ایک مقصد تھا، منزل تھی اور لاکھوں وہ ضرورت مند لوگ تھے جس کو اس کی ضرورت تھی۔ اس نے کبھی بھی ریاست اور حکومت کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، وہ لو گوں کے پاس گیا اور ان ہی کو اپنا سہارا بنایا۔ کیا واقعی ہمارا حکمرانی کا نظام اور اس میں شامل حکمران و بالادست طبقہ ایدھی سے کچھ سیکھ سکے گا، تو جواب نفی میں ہے، یہ ہی قوم کا المیہ بھی ہے۔
بقول شاعر
کتنے قطروں کو سمندر کر گیا
کام پورا کر کے اپنے گھر گیا
تا قیامت وہ رہے گا جاوداں
کوئی نہ کہنا کہ ایدھی مر گیا