سہ جہتی تقسیم اور احکامات

اردو بولنے والوں کی بھاری اکثریت نے ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔

Abbasather@express.com.pk

عدلیہ میں ایسے کئی کیس زیر سماعت ہیں جن کے نتائج ملکی سیاست میں چند ہفتوں تک ہلچل پیدا کر سکتے ہیں۔ ان میں صدر کے دو عہدوں کا کیس، ریکوڈک کیس اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کا معاملہ بھی شامل ہے۔

کراچی سے متعلق کیس زیادہ خطرناک ہیں جنھیں شروع میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا لیکن اب یہ آہستہ آہستہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اپنے نتائج کے حوالے سے یہ کیس بہت اہم اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ کراچی بدامنی کیس میں ایسے ہی ریمارکس سامنے آ سکتے ہیں جو بلوچستان کیس میں دیے گئے اور ایک دوسرا اہم کیس کراچی کی حلقہ بندیوں کا ہے۔ کراچی ہی کی بعض جماعتوں کا مؤقف ہے کہ کراچی کے 30 لاکھ ووٹروں کے نام ان کے حلقوں سے باہر درج کر دیے گئے ہیں اور کراچی کی ایسی حلقہ بندی کی گئی ہے کہ وہ لسانی طور پر تقسیم ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کراچی میں لسانی تقسیم ختم کی جائے اور ملی جلی حلقہ بندیاں کی جائیں۔

ملی جلی حلقہ بندیاں یعنی جو منی پاکستان کی نمائندگی کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام کا جو مؤقف ہے، اس کا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ یہ کام اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ آنے والی سطروں میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے، ان کا مقصد عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرنا نہیں ہے بلکہ کراچی کی صورتحال پر ایک نظر ڈالنا ہے۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس اور ایکشن کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس سے کراچی کی صورت حال کی طرف ذہن چلا گیا۔ یہ صورتحال اتنی مشکل ہے کہ کبھی کبھی تو یوںلگتا ہے جیسے کراچی کا مسئلہ حل ہونے کی حدود سے باہر نکل چکا ہے۔

کراچی کا مسئلہ آج کا نہیں، مشرف دور کا بھی نہیں، بینظیر کے دور کا بھی نہیں، حتیٰ کہ ضیا دور کا بھی نہیں ہے، یہ ایوب خان کے دور سے بھی شروع نہیں ہوا بلکہ اس کا آغاز لیاقت علی خان کے دور میں ہوا، پھر مرحلہ بہ مرحلہ ان تمام ادوار حکومت میں اس کی جہت بدلتی اور حجم بڑھتا رہا جن کا اوپر ذکر ہوا۔ لیاقت علی خان کے دور میں بھارت سے آنے والے اردو اسپیکنگ مہاجرین کو پاکستان بھر میں پھیلانے کی بجائے کراچی اور حیدر آباد میں مرتکز کیا گیا۔ یہ بہت اچھی پالیسی رہی ہو گی لیکن اس سے یہ ہوا کہ سندھ کی قدیم آبادی جس نے مہاجرین کا بازو کھول کر استقبال کیا، آہستہ آہستہ ردعمل کا شکار ہونے لگے اور انھیں یہ محسوس ہونے لگا کہ صوبے کا سب سے اہم شہر ان سے چھینا جا رہا ہے۔ اس وقت تک ردعمل کا شکار صرف سندھی تھے۔ اردو بولنے والوں میں نسلی تحفظ کا احساس ایوب خان کے دور میں ہوا۔

اردو بولنے والوں کی بھاری اکثریت نے ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ وہ الیکشن ہار گئیں اور ایوب خان کے صاحبزادوں نے کراچی میں محترمہ کے حامیوں پر فائرنگ کی اور انھیں مہاجر ہونے کا طعنہ دیا۔ اردو بولنے والوں کو اپنے الگ ہونے کا پہلی مرتبہ احساس اسی واقعے کے بعد ہوا۔ ایوب کے بعد یحییٰ خان آئے۔ پھر اقتدار منتخب حکومت کو ملا اور ممتاز بھٹو سندھ کے گورنر بنے۔ ان کے دور میں سندھی زبان کو سرکاری بنانے پر کراچی اور حیدر آباد میں پرتشدد احتجاج ہوا۔ پولیس فائرنگ سے بہت سی ہلاکتیں ہوئیں۔ جاں بحق ہونے والوں کو اہل کراچی نے شہدائے اردو کا نام دیا جن کے مزار آج بھی موجود ہیں۔ یہ وہ دن تھے جب سندھ کی دونوں بڑی نسلی برادریاں ایک دوسرے سے بہت دور ہو گئیں۔ ورنہ اس سے پہلے صورتحال یہ تھی کہ سندھی بھٹو کے دور میں ان کا ایک جانشین اردو بولنے والا معراج محمد خان تھا۔


ضیا الحق کے دور میں افغان مسئلے کی وجہ سے کراچی کی پشتون آبادی تیزی سے بڑھی، ٹرانسپورٹ کا زیادہ تر کاروبار پٹھانوں کے پاس تھا۔ ایک اردو بولنے والی بچی بشریٰ زیدی کو بس نے کچل دیا۔ لوگوں نے بس کو آگ لگا دی اور مہاجر پٹھان فسادات شروع ہوئے۔ بعد میں کئی اور سانحات سمیت سہراب گوٹھ کا واقعہ پیش آیا۔ یوں سندھ کی تقسیم کو تیسری جہت مل گئی۔ بے نظیر کے دور میں پکا قلعہ حیدر آباد کا واقعہ پیش آیا جس نے سندھی اردو تقسیم کو اور گہرا کر دیا۔ مشرف کے دور میں متحدہ کو عروج ملا اور اس سے ہونے والی زیادتیوں کا بڑی حد تک ازالہ ہوا' اس وجہ سے اس کے لہجے میں بھی تبدیلی آئی۔

یہ سارا دور یونہی گزر جاتا لیکن عدلیہ بحالی کی تحریک میں 12 مئی کا موڑ آیا۔ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس روز ہونے والی خونریزی ایجنسیوں کی شرارت تھی۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کا مؤقف کچھ اور تھا لیکن یہ بہت اہم واقعہ تھا جس نے کراچی کی سہ جہتی تقسیم کے نقش بہت زیادہ گہرے کر دیے۔ آصف علی زرداری صدر بنے تو انھوں نے اس تقسیم کو کم کرنے کے لیے قومی مصالحت کی پالیسی اپنائی۔ ان کا خیال تھا اور درست خیال تھا کہ تمام فریق جب ایک ہی حکومت میں شامل ہوں گے تو ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ ایک دوسرے کے شکوے سمجھ سکیں گے اور دور بھی کر سکیں گے۔ ان کا یہ خیال کہ مختلف ملکوں اور علاقوں میں ماضی میں کیے گئے ایسے تجربات صحیح ثابت ہو چکے ہیں لیکن کراچی کی قسمت ذرا انوکھی ہے۔

یہاں تلخیاں اور بڑھ گئیں، سوات اور فاٹا میں ہونے والے آپریشنوں کے نتیجے میں پشتونوں کی مزید آبادی کراچی منتقل ہو گئی اور اب کہا جاتا ہے کہ اگر کراچی کی آبادی دو کروڑ ہے تو اس میں سے چالیس پچاس لاکھ پشتون ہیں۔ ممکن ہے یہ تعداد مبالغہ آمیز ہو لیکن اس کے باوجود طے ہے کہ پشتون اب کراچی کی دوسری بڑی برادری ہیں، سندھی اور بلوچ مل کر تیسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔ پنجابی کسی دور میں قابل لحاظ تعداد میں آباد تھے لیکن مشرف دور میں انھیں ایسے حالات پیش آئے کہ کراچی سے بھاگ کر پنجاب آ گئے۔ اب کراچی میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔

اس دور میں کراچی کی سہ جہتی تقسیم کے اندر ایک اور زاویئے کی تقسیم ہوئی۔ متحدہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں طالبان آ گئے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں طالبان کی سب سے بڑی دشمن اے این پی کہتی ہے کہ کراچی میں طالبان نہیں ہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں واقعتاً کوئی طالبان نہیں ہیں حالانکہ وہاں طالبان کی خاصی بڑی تعداد آباد ہے۔ یہ متضاد باتیں اس طرح موافق ہوتی ہیں کہ طالبان کراچی سے باہر طالبان ہوتے ہیں' کراچی آ کر وہ محض پشتون ہو جاتے ہیں۔ بڑی انوکھی بات ہے کہ کراچی کے پشتون علاقوں میں کوئی جماعت اسلامی ہے نہ جے یو آئی' کوئی اے این پی ہے نہ تحریک انصاف' وہاں سارے کے سارے پشتون ہیں جن کو اردو بولنے والوں سے خطرہ ہے۔ اسی طرح اردو بولنے والوں کے جو علاقے پشتون علاقوں سے خطرہ محسوس کرتے ہیں' وہاں کوئی شیعہ ہے نہ سنی' جماعت اسلامی ہے نہ پیپلز پارٹی سب ''متحدہ'' ہیں جن کو پشتونوں سے ڈر لگتا ہے۔

ایک چوتھی جہت ''لبرل'' جماعت میں شیعہ سنی کشمکش کی ہے جو نہایت افسوسناک ہے لیکن حلقہ بندیوں کے معاملے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ قصہ مختصر یہ سہ جہتی تقسیم اتنی گہری ہے کہ محض ''احکامات'' کی بنیاد پر ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ تو الجھا ہوا جال ہے اور مجھے حیرت ہے کہ کیسے سلجھے گا۔ یہاں تین فریق ہیں اور تینوں بیک وقت حق پر ہیں اور ان تین برحق فریقوں کی چپقلش میں ناحق تو بس وہی ہیں جو مارے جا رہے ہیں۔ دیکھیے' الیکشن تک کیا نقشہ بنتا ہے۔
Load Next Story