قواعد کے بغیر اشتہاری مہم چلانا غیر قانونی ہے چیف جسٹس ایکسپریس کی خبر پر از خود نوٹس

سرکاری فنڈزسے12کروڑکی اشتہاری مہم کا نوٹس،سروسزفراہم کرنیوالی کمپنی اشتہاری مہم کیسے چلاسکتی ہے؟جسٹس عظمت

یوایس ایف کے سربراہ ریاض اشعرصدیقی کوبل کی منظوری نہ دینے پرہٹایاگیا،میڈاس نے بورڈکی منظوری سے پہلے اشتہار جاری کیے،وکیل عامرعباس

سپریم کورٹ نے سرکاری وسائل کے ذریعے سیاسی مہم اورسرکاری اشتہارات میں سیاسی شخصیات اورعہدیداروں کی تصاویرکی اشاعت فوری طور پر روکنے کی ہدایت کی ہے اور وزات اطلاعات و انفارمیشن ٹیکنالوجی سے اشتہاری ایجنسیوںکی فہرست طلب کرلی ہے۔

اس کے علاوہ دونوں وزارتوں سے تفصیل طلب کی گئی ہے کہ ان اشتہاری ایجنسیوںکوکس قیمت پر اشتہار فراہم کیے جا تے ہیں،ہر سال اشتہارات کیلیے کتنی رقم مختص کی جاتی ہے اورکس ادارے نے کتنی رقم پبلسٹی پر خرچ کی ہے۔ عدالت نے وزارت اطلاعات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ہدایت کی ہے کہ ان کے ذمے اشتہاری ایجنسی میڈاس کی کتنی رقم واجب الادا ہے اس بارے میں بھی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ منگل کوچیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سرکاری فنڈز سے 12 کروڑ روپے کی اشتہاری مہم چلانے کے بارے میں روزنامہ ایکسپریس کی خبر پر لئے گئے ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت شروع کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ یونیورسل سروسز فنڈ کے چیف ایگزیکٹو ریاض اشعر صدیقی نے اشتہاری مہم کیلیے بل کی منظوری دینے سے انکارکیا جس کی پاداش میں انھیں اس عہدے سے برطرف کیا گیااور ان کی جگہ احمد ریاض شیخ کے بیٹے کو تعینات کیا گیا ہے ۔ ریاض اشعر صدیقی کے وکیل عامر عباس نے بتایاکمپنی اور میڈاس نے مل کر سیاسی مہم چلائی ، چیف ایگزیکٹو نے کمپنی کے فنڈ سے رقم جاری کرنے سے انکارکیا۔ عدالت نے اس کا سخت نوٹس لیا ۔

چیف جسٹس نے کہا انیتا تراب کیس میں سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت کو مکمل تحفظ دیا گیا لیکن عدالت کے فیصلے کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی ہے کہ اس کی خلاف ورزی کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا سیاستدانوں کو اپنی تصاویر اخبارات میں چھپوانی ہیں تو اپنی جیب سے ادائیگی کرکے چھپوائیں،اگر سرکاری فنڈ سیاسی اشتہارات کیلیے استعمال کرنا ثابت ہوا تو ایک ایک پیسہ وصول کرائیں گے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے عوام کا پیسہ عوام کیلیے استعمال ہونا چاہیے، ذاتی شخصیت سازی کیلئے استعمال نہیں ہو سکتا۔جنرل منیجر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سبطین علی رضوی نے ان الزامات کو مستردکیا اور عدالت کو بتایا ریاض اشعر صدیقی کو ان کی غیر تسلی بخش کارکردگی پر برطرف کیا گیا۔انھوں نے بتایا یونیورسل سروسز فنڈ کمپنی کی مشہوری اور عوام میں آگاہی کیلیے اشتہاری مہم چلائی گئی جس کیلئے فنڈکی منظوری کی سفارش خود چیف ایگزیکٹو نے کی۔عدالت نے سماعت کچھ دیرکیلیے ملتوی کرکے تمام ریکارڈ اور سیکریٹری آئی ٹی کو طلب کیا۔سماعت دوبارہ شروع ہو ئی تو سیکریٹری آئی ٹی امیر طارق زمان پیش ہوئے اورکہا کہ کمپنی بنانے کیلیے پی ٹی اے ایکٹ میں خصوصی رولز بنائے گئے اور ٹیلی کام سیکٹرکی آمدن کا ایک اعشاریہ پانچ فیصد اس کیلیے مختص ہوا اس کے علاوہ ٹیلی کام کمپنیاں بھی امداد فراہم کر تی ہیں۔


انھوں نے کہا ملک کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں ٹیلی کام کیلیے انفرا اسٹرکچر بنانا کمپنی کی ذمہ داری ہے،کمپنی نے مستونگ اورگوادر میں آپٹک فائبر بچھائی ہے۔ عدالت کے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ کمپنی کے پاس گزشتہ سال 49ارب روپے کے فنڈ اکٹھے ہوئے جس میں سے 15 کروڑ عوام میں آگاہی پروگرام کیلیے مختص کیے گئے اور بورڈ میٹنگ میں میڈاس کے ذریعے مہم چلانے کا فیصلہ ہوا۔عدالت نے اس موقف کو مستردکردیا، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سروسز فراہم کرنے والی کمپنی اشتہاری مہم کیسے چلا سکتی ہے،چیف جسٹس نے کہا قواعدکے بغیر اشتہاری مہم چلانا غیر قانونی ہے ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا انگریزی اخبارات میں اشتہارات چھاپے گئے جبکہ کمپنی اس علاقے میںکام کررہی تھی جہاں لوگ انگریزی نہیں جانتے۔

عامر عباس ایڈووکیٹ نے کہا اس اشتہاری مہم پر بارہ کروڑ70 لاکھ خرچ کیے گئے، وزارت آئی ٹی کے وکیل نے بتایا چیف ایگزیکٹوکیخلاف نیب میں انکوائری بھی ہورہی ہے جبکہ چیف ایگزیکٹوکے وکیل کا کہنا تھا کہ نیب کو انھیں دبانے کیلیے استعمال کیا گیا، وزارت آئی ٹی کے وکیل نایاب گردیزی نے کہا اشتہارات کیلیے رقم ٹیلی کام کمپنیوں نے فراہم کی تھی اس موقف پر عدالت نے برہمی کا اظہارکیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا اس کا مطلب یہ ہے پیسے دینے پرکمپنی سے کوئی بھی کام لیا جا سکتا ہے خواہ وہ غیر قانونی کیوں نہ ہو۔

انھوں نے کہا یہ پرائیویٹ لمیٹڈکمپنی نہیں بلکہ حکومتی کمپنی ہے۔عامر عباس نے کہا میڈاس نے بورڈکی منظوری سے پہلے اشتہار جاری کیے،انھوں نے الزام عائد کیا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی سیاسی اشتہارات کیلیے فنڈ مختص کیے گئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا ادارے عوام میں شعور اجاگرکرنے کیلئے مہم ضرور چلائیں لیکن سرکاری وسائل ذاتی کردار سازی کیلیے استعمال نہ کیے جائیں،ادارے اس چیزکا خود خیال رکھیں اور ہر معاملے میں سپریم کورٹ کو ملوث نہ کیا جائے۔عدالت نے وزارت اطلاعات سے اداروں کی پبلسٹی کیلیے اشتہاری مہم چلانے اور اس میں سیاسی شخصیات کی تصاویرکے استعمال کے حق میں قوانین اور قواعدکی تفصیل طلب کرتے ہوئے مزید سماعت7 دسمبر تک ملتوی کردی۔

Recommended Stories

Load Next Story