دولت کی ایک صفت
ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے ہرآدمی کو دولت کی ضرورت ہوتی ہے
ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے ہرآدمی کو دولت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دولت کے حصول کے لیے لوگ دن رات محنت کرتے ہیں۔دولت کی کئی صفات ہیں۔ دولت کی ایک صفت تو بہت ہی عجیب ہے۔ یہ صفت آدمی کی اصل شخصیت کو بھی بآسانی نمایاں کردیتی ہے۔ اس صفت کو بیان کرنے سے پہلے دو واقعات لکھتا ہوں۔
سلیم کی تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے ہے۔ سلیم اپنی بیوی صغریٰ اور دو ننھے بچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر میں رہتا ہے۔ بجلی گیس وغیرہ کے بلز میں سانجھا ہے۔ جن دنوں کا یہ واقعہ ہے ان کے ہاں تیسرے بچے کی آمد بھی چند ہفتے بعد متوقع تھی۔ سلیم کے لائے ہوئے اٹھارہ ہزار روپے میں صغریٰ اپنے گھرکا خرچ کسی نہ کسی طرح چلا ہی لیتی ہے۔ گوکہ مہینے کے آخری دنوں میں کوئی دن ایسا بھی آجاتا ہے کہ ان کے گھر میں پچاس روپے کا نوٹ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن آٹا دال اتنا ہوتا ہے کہ میاں بیوی اور بچے کھانا کھا کر ہی سوتے ہیں۔
یکم مارچ کو سلیم کے سیٹھ کو نجانے کیا ہوا کہ اس نے تنخواہ کے اٹھارہ ہزار تو سلیم کو دیے ہی ساتھ میں دو ہزار روپے مزید دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے دو ماہ سے تم کام میں بہت زیادہ محنت کر رہے ہو یہ اس کا انعام ہے۔ دو ہزار روپے کے اس غیر متوقع انعام پر سلیم تو جیسے خوشی سے پاگل ہی ہونے لگا۔ وہ سیٹھ صاحب کا بہت شکریہ ادا کر کے ان کے کمرے سے باہر آگیا۔ اتنی بڑی خبر اپنی بیوی صغریٰ کو سنانے کے لیے وہ اپنے موبائل پر بیگم کا نمبر ملانے لگا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ وہ گھر جاکر صغریٰ کو اپنے سامنے بٹھا کر یہ خبر سنائے گا اس نے فون بند کردیا۔ گھر پہنچ کر سلیم نے صغریٰ کو تنخواہ کے اٹھارہ ہزار روپے دینے کے بعد جب دو ہزار روپے مزید دیے تو صغریٰ بھی خوشی سے جھوم اٹھی۔ دو ہزار روپے... تنخواہ کے علاوہ ... یا اللہ تیرا شکر... میں تو اپنے ہونے والے بچے کے لیے یہ خریدوں گی، وہ خریدوں گی۔
اب دوسرا واقعہ لکھتا ہوں۔ جنید کی تنخواہ دو لاکھ پچیس ہزار روپے ہے۔ دفتر سے ملنے والی کار اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ چند ماہ سے جنید کی کمپنی کو نئے ٹھیکوں کے حصول اور پرانے واجبات کی وصول یابی میں بہت دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ اس صورتحال میں سیٹھ صاحب نے اپنی کمپنی کے کئی جونیئر افسروں کی برطرفی اور سینیئر افسران کی تنخواہوں اور مراعات میں عارضی کمی کا فیصلہ کیا۔
اپریل کے مہینے میں جنید کو دولاکھ پچیس ہزار کے بجائے صرف دو لاکھ روپے تنخواہ ملی۔ اپنی کمپنی کے حالات جاننے کے باوجود جنید اس کٹوتی پر ناراض اور فکرمند ہوا۔ گھرآکر جنید نے یہ بات جب اپنی بیوی ثمرکو بتائی تو اس کا منہ اتر گیا۔ وہ سخت پریشان ہوگئی اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سرتھام لیا اور سخت فکرمند لہجے میں کہنے لگی کہ اس مہینے میں اپنا گھرکیسے چلاؤں گی۔ مجھے تو اگلے ہفتے گھرکے لیے فلاں فلاں چیزیں خریدنی تھیں۔ یہ کرنا تھا، وہ کرنا تھا ۔ اب یہ سب کام میں کیسے کر پاؤں گی۔
قارئین کرام...! یہ دونوں واقعات اور مذکورہ چاروں افراد کے تاثرات ہمارے ملک میں ایک ہی سال میں ہوئے۔ ان واقعات کو سن کر دولت کی ایک اہم صفت مجھ پر مزید واضح ہوئی۔ وہ یہ کہ
دولت جب زیادہ ہوجاتی ہے تو کم لگنے لگتی ہے۔
آدمی کم پیسوں میں تو کسی نہ کسی طرح گزارا کرکے شکرگزار نظر آتا ہے، لیکن دولت کی زیادتی میں اکثر لوگوں کے دل تنگ اور ظرف گھٹیا ہونے لگتے ہیں۔ دولت بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے۔ کسی آدمی کی نیت اوراس کا ظرف دولت کو اس کے لیے اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔
ہم ایک غریب ملک ہیں(گوکہ ہم جیسے کئی ملکوں کی تسلی کے لیے ترقی پذیر ممالک کی دل فریب اصطلاح وضع کرلی گئی ہے)
ہم ناخواندہ ملک بھی ہیں۔ ہمارے ملک میں کروڑوں بچے اسکول نہیں جاتے یا مڈل سے پہلے ہی اسکول چھوڑدیتے ہیں۔
ہم ایک بیمار ملک ہیں۔ ہیپاٹایٹس، ملیریا اور دیگر کئی متعدد امراض کے ساتھ ساتھ امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، کینسر، ہڈیوں کی کمزوری، ڈپریشن اور دیگر کئی امراض ہمارے ملک میں عام ہیں۔
عالمی دانشوروں کے تیارہ کردہ انڈیکیٹرز کے مطابق ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ خط غربت (Poverty Line ) سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان سنگین مسائل کے یقیناً بہت سے اسباب ہیں۔ ان میں سے ہر سبب کا جائزہ لینے اور لائحہ عمل طے کرنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے ماہرین کے سیمینارز، کانفرنسز، ورکشاپس وغیرہ منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ عالم اور قابل لوگ اپنی اپنی رائے دیتے ہیں۔ ان کی اچھی یا بری سفارشات اکثر داخل دفتر کردی جاتی ہیں۔
میں ایک پاکستانی ہوں۔ ایک مڈل کلاس پاکستانی۔ اپنے پیارے وطن کو درپیش مسائل کے بارے میں سنتا ہوں، پڑھتا ہوں لوگوں کو اذیتیں سہتے ، تکلیفیں اٹھاتے، وی آئی پی پروٹوکول کے نام پر بند کردی جانے والی سڑکوں پر ایمبولینس میں مریضوں کو تڑپتے ہوئے ، ایک وقت کی روٹی کے لیے اپنے ہم وطنوں کی لمبی لمبی قطاریں بھی دیکھتا ہوں۔ اپنے ملک کے حالات پر سوچتا بھی ہوں۔ مجھے تو اپنے وطن کے کئی مسائل کا ایک ہی سبب نظر آتا ہے۔ وہ سبب ہے ہوس۔دولت کی ہوس، اقتدار کی ہوس۔
دولت کی یہ صفت ہے کہ جب وہ زیادہ ہوتی ہے تو کم لگنے لگتی ہے۔ اس صفت کا مختلف رنگوں اور مختلف طریقوں سے بھرپور اظہار ہمیں اپنے معاشرے میں جابجا نظر آتا ہے۔ بازار ہوں، دفاتر ہوں یا ایوان۔ دولت کی ہوس کے منفی اثرات ہر جگہ خرابیاں پھیلا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں غربت، جہالت اور بیماریوں کی بڑی وجہ سرمایہ دار طبقات کا دولت کو اپنے پاس روک لینا اور مزید دولت جمع کرتے چلے جانا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی بہت بڑے پیمانے پر خیرات بھی کرتے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی خدمت کے کئی دوسرے شعبوں میں بڑے بڑے ادارے پاکستانیوں کے عطیات سے ہی چل رہے ہیں۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ معاشی تنگی سے عام آدمی کی زندگی روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا شاید یہ روایت امام غزالی ؒ سے منسوب کی گئی تھی۔
ایک شخص نے حضرت سے شہر میں رہنے والے دو افراد کا ذکر کیا۔ ان میں سے ایک بہت امیر تاجر تھا۔ دوسرا ایک غریب مزدور۔ بتانے والے نے حضرت کو بتایا کہ امیر تاجر بہت ہی عبادت گزار ہے وہ ساری رات عبادت کرتا رہتا ہے اور مزدور بہت بڑے دل کا مالک ہے اپنی تھوڑی سی مزدوری میں سے بھی کافی رقم خیرات کرتا ہے۔
حضرت نے یہ سن کر فرمایا۔ دونوں کو اپنے اپنے طرز عمل میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ امیر آدمی کو چاہیے کہ وہ خیرات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرے اس کے بعد نفلیں پڑھے اور مزدورکو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے اہل وعیال کی ضرورتیں پوری کرے۔
ہماری قوم میں ارب پتی اورکروڑ پتی افراد اور زکوٰۃ دینے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک سے غربت کم کیوں نہیں ہورہی...؟
میرے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم غریب آدمی کو کھانا کھلا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ غریب آدمی کو کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ وہ اپنی روٹی خود کمانے کے قابل ہوجائے اور آیندہ سال وہ زکوٰۃ لینے کے بجائے زکوٰۃ دینے والوں کی صف میں نظر آئے۔
.........
ایدھی کے نام: عبدالستار ایدھی انسانیت سے محبت اور خدمت کا استعارہ تھے۔ وہ اندھیروں میں روشنی کی کرن تھے۔ دعا ہے کہ ان کی جلائی ہوئی شمع ہمیشہ روشن رہے۔
ایدھی کی تعریفیں کرتے ہیں اتنے اتنے لوگ
ایدھی جیسے بنیں گے لیکن ہم میں کتنے لوگ
سلیم کی تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے ہے۔ سلیم اپنی بیوی صغریٰ اور دو ننھے بچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر میں رہتا ہے۔ بجلی گیس وغیرہ کے بلز میں سانجھا ہے۔ جن دنوں کا یہ واقعہ ہے ان کے ہاں تیسرے بچے کی آمد بھی چند ہفتے بعد متوقع تھی۔ سلیم کے لائے ہوئے اٹھارہ ہزار روپے میں صغریٰ اپنے گھرکا خرچ کسی نہ کسی طرح چلا ہی لیتی ہے۔ گوکہ مہینے کے آخری دنوں میں کوئی دن ایسا بھی آجاتا ہے کہ ان کے گھر میں پچاس روپے کا نوٹ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن آٹا دال اتنا ہوتا ہے کہ میاں بیوی اور بچے کھانا کھا کر ہی سوتے ہیں۔
یکم مارچ کو سلیم کے سیٹھ کو نجانے کیا ہوا کہ اس نے تنخواہ کے اٹھارہ ہزار تو سلیم کو دیے ہی ساتھ میں دو ہزار روپے مزید دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے دو ماہ سے تم کام میں بہت زیادہ محنت کر رہے ہو یہ اس کا انعام ہے۔ دو ہزار روپے کے اس غیر متوقع انعام پر سلیم تو جیسے خوشی سے پاگل ہی ہونے لگا۔ وہ سیٹھ صاحب کا بہت شکریہ ادا کر کے ان کے کمرے سے باہر آگیا۔ اتنی بڑی خبر اپنی بیوی صغریٰ کو سنانے کے لیے وہ اپنے موبائل پر بیگم کا نمبر ملانے لگا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ وہ گھر جاکر صغریٰ کو اپنے سامنے بٹھا کر یہ خبر سنائے گا اس نے فون بند کردیا۔ گھر پہنچ کر سلیم نے صغریٰ کو تنخواہ کے اٹھارہ ہزار روپے دینے کے بعد جب دو ہزار روپے مزید دیے تو صغریٰ بھی خوشی سے جھوم اٹھی۔ دو ہزار روپے... تنخواہ کے علاوہ ... یا اللہ تیرا شکر... میں تو اپنے ہونے والے بچے کے لیے یہ خریدوں گی، وہ خریدوں گی۔
اب دوسرا واقعہ لکھتا ہوں۔ جنید کی تنخواہ دو لاکھ پچیس ہزار روپے ہے۔ دفتر سے ملنے والی کار اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ چند ماہ سے جنید کی کمپنی کو نئے ٹھیکوں کے حصول اور پرانے واجبات کی وصول یابی میں بہت دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ اس صورتحال میں سیٹھ صاحب نے اپنی کمپنی کے کئی جونیئر افسروں کی برطرفی اور سینیئر افسران کی تنخواہوں اور مراعات میں عارضی کمی کا فیصلہ کیا۔
اپریل کے مہینے میں جنید کو دولاکھ پچیس ہزار کے بجائے صرف دو لاکھ روپے تنخواہ ملی۔ اپنی کمپنی کے حالات جاننے کے باوجود جنید اس کٹوتی پر ناراض اور فکرمند ہوا۔ گھرآکر جنید نے یہ بات جب اپنی بیوی ثمرکو بتائی تو اس کا منہ اتر گیا۔ وہ سخت پریشان ہوگئی اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سرتھام لیا اور سخت فکرمند لہجے میں کہنے لگی کہ اس مہینے میں اپنا گھرکیسے چلاؤں گی۔ مجھے تو اگلے ہفتے گھرکے لیے فلاں فلاں چیزیں خریدنی تھیں۔ یہ کرنا تھا، وہ کرنا تھا ۔ اب یہ سب کام میں کیسے کر پاؤں گی۔
قارئین کرام...! یہ دونوں واقعات اور مذکورہ چاروں افراد کے تاثرات ہمارے ملک میں ایک ہی سال میں ہوئے۔ ان واقعات کو سن کر دولت کی ایک اہم صفت مجھ پر مزید واضح ہوئی۔ وہ یہ کہ
دولت جب زیادہ ہوجاتی ہے تو کم لگنے لگتی ہے۔
آدمی کم پیسوں میں تو کسی نہ کسی طرح گزارا کرکے شکرگزار نظر آتا ہے، لیکن دولت کی زیادتی میں اکثر لوگوں کے دل تنگ اور ظرف گھٹیا ہونے لگتے ہیں۔ دولت بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے۔ کسی آدمی کی نیت اوراس کا ظرف دولت کو اس کے لیے اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔
ہم ایک غریب ملک ہیں(گوکہ ہم جیسے کئی ملکوں کی تسلی کے لیے ترقی پذیر ممالک کی دل فریب اصطلاح وضع کرلی گئی ہے)
ہم ناخواندہ ملک بھی ہیں۔ ہمارے ملک میں کروڑوں بچے اسکول نہیں جاتے یا مڈل سے پہلے ہی اسکول چھوڑدیتے ہیں۔
ہم ایک بیمار ملک ہیں۔ ہیپاٹایٹس، ملیریا اور دیگر کئی متعدد امراض کے ساتھ ساتھ امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، کینسر، ہڈیوں کی کمزوری، ڈپریشن اور دیگر کئی امراض ہمارے ملک میں عام ہیں۔
عالمی دانشوروں کے تیارہ کردہ انڈیکیٹرز کے مطابق ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ خط غربت (Poverty Line ) سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان سنگین مسائل کے یقیناً بہت سے اسباب ہیں۔ ان میں سے ہر سبب کا جائزہ لینے اور لائحہ عمل طے کرنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے ماہرین کے سیمینارز، کانفرنسز، ورکشاپس وغیرہ منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ عالم اور قابل لوگ اپنی اپنی رائے دیتے ہیں۔ ان کی اچھی یا بری سفارشات اکثر داخل دفتر کردی جاتی ہیں۔
میں ایک پاکستانی ہوں۔ ایک مڈل کلاس پاکستانی۔ اپنے پیارے وطن کو درپیش مسائل کے بارے میں سنتا ہوں، پڑھتا ہوں لوگوں کو اذیتیں سہتے ، تکلیفیں اٹھاتے، وی آئی پی پروٹوکول کے نام پر بند کردی جانے والی سڑکوں پر ایمبولینس میں مریضوں کو تڑپتے ہوئے ، ایک وقت کی روٹی کے لیے اپنے ہم وطنوں کی لمبی لمبی قطاریں بھی دیکھتا ہوں۔ اپنے ملک کے حالات پر سوچتا بھی ہوں۔ مجھے تو اپنے وطن کے کئی مسائل کا ایک ہی سبب نظر آتا ہے۔ وہ سبب ہے ہوس۔دولت کی ہوس، اقتدار کی ہوس۔
دولت کی یہ صفت ہے کہ جب وہ زیادہ ہوتی ہے تو کم لگنے لگتی ہے۔ اس صفت کا مختلف رنگوں اور مختلف طریقوں سے بھرپور اظہار ہمیں اپنے معاشرے میں جابجا نظر آتا ہے۔ بازار ہوں، دفاتر ہوں یا ایوان۔ دولت کی ہوس کے منفی اثرات ہر جگہ خرابیاں پھیلا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں غربت، جہالت اور بیماریوں کی بڑی وجہ سرمایہ دار طبقات کا دولت کو اپنے پاس روک لینا اور مزید دولت جمع کرتے چلے جانا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی بہت بڑے پیمانے پر خیرات بھی کرتے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی خدمت کے کئی دوسرے شعبوں میں بڑے بڑے ادارے پاکستانیوں کے عطیات سے ہی چل رہے ہیں۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ معاشی تنگی سے عام آدمی کی زندگی روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا شاید یہ روایت امام غزالی ؒ سے منسوب کی گئی تھی۔
ایک شخص نے حضرت سے شہر میں رہنے والے دو افراد کا ذکر کیا۔ ان میں سے ایک بہت امیر تاجر تھا۔ دوسرا ایک غریب مزدور۔ بتانے والے نے حضرت کو بتایا کہ امیر تاجر بہت ہی عبادت گزار ہے وہ ساری رات عبادت کرتا رہتا ہے اور مزدور بہت بڑے دل کا مالک ہے اپنی تھوڑی سی مزدوری میں سے بھی کافی رقم خیرات کرتا ہے۔
حضرت نے یہ سن کر فرمایا۔ دونوں کو اپنے اپنے طرز عمل میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ امیر آدمی کو چاہیے کہ وہ خیرات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرے اس کے بعد نفلیں پڑھے اور مزدورکو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے اہل وعیال کی ضرورتیں پوری کرے۔
ہماری قوم میں ارب پتی اورکروڑ پتی افراد اور زکوٰۃ دینے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک سے غربت کم کیوں نہیں ہورہی...؟
میرے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم غریب آدمی کو کھانا کھلا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ غریب آدمی کو کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ وہ اپنی روٹی خود کمانے کے قابل ہوجائے اور آیندہ سال وہ زکوٰۃ لینے کے بجائے زکوٰۃ دینے والوں کی صف میں نظر آئے۔
.........
ایدھی کے نام: عبدالستار ایدھی انسانیت سے محبت اور خدمت کا استعارہ تھے۔ وہ اندھیروں میں روشنی کی کرن تھے۔ دعا ہے کہ ان کی جلائی ہوئی شمع ہمیشہ روشن رہے۔
ایدھی کی تعریفیں کرتے ہیں اتنے اتنے لوگ
ایدھی جیسے بنیں گے لیکن ہم میں کتنے لوگ