قومی خزانہ خالی جنوبی سوڈان میں یوم آزادی نہیں منایا گیا

جنوبی سوڈان کی آمدنی کا 90 فی صد سے زائد انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔

جنوبی سوڈان کی آمدنی کا 90 فی صد سے زائد انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔:فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
جنوبی سوڈان دنیا کے نقشے پرابھرنے والی نوزائیدہ ریاست ہے، پانچ سال پہلے تک یہ سوڈان کی اسلامی مملکت کا حصہ تھی۔ عشروں تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد 9 جولائی 2011ء کو جنوبی سوڈان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے عالمی نقشے پرابھرا۔

اس برس ہونے والے ریفرنڈم میں 99 فی صد آبادی نے سوڈان سے آزادی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ نتیجتاً جنوبی سوڈان کو آزاد اور خود مختار حیثیت حاصل ہوگئی۔ یہاں عیسائیت کے پیروکاروں کی اکثیرت ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مشرقی تیمور کی طرح جنوبی سوڈان کو بھی آزاد عیسائی ریاست کا درجہ مل گیا۔

گذشتہ برس جنوبی سوڈان کے عوام نے یوم آزادی دھوم دھام سے منایا تھا مگر اس بار یہ دن 'سوکھا سوکھا' ہی گزرگیا۔ حکومت نے کئی ماہ پہلے اس سال یوم آزادی نہ منانے کا اعلان کردیا تھا۔ اس کی وجہ نہ تو کوئی قومی سانحہ تھی اور نہ ہی بڑے پیمانے پر آنے والا زلزلہ یا کوئی اور قدرتی آفت ۔ یوم آزادی کی خوشیاں نہ منانے کا سیدھا سادھا سبب یہ تھا کہ سرکاری تقاریب کے لیے قومی خزانے میں رقم موجود نہیں تھی۔ خزانہ خالی ہونے کے باعث حکومت نے رواں برس یوم آزادی کے موقع پر سرکاری تقاریب منعقد نہ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔


یوم آزادی ایک ملک کے لیے انتہائی اہم موقع ہوتا ہے جب آزادی جیسی عظیم نعمت حاصل ہونے کی خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ یہ دن سادگی سے بھی منایا جاسکتا ہے پھر بھی یوم آزادی کی تقریب پر اخراجات تو ہوتے ہی ہیں۔ جنوبی سوڈان کے سرکاری خزانے میں اتنی رقم یقیناً موجود ہوگی کہ سادگی سے یوم آزادی منایا جاسکتا مگر مالی مشکلات کے پیش نظر صدر سالواکیر مایاردیت اور ان کے رفقاء نے نے اس موقع پر کوئی تقریب منعقد نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس سے ان کی دانش مندی اور نوزائیدہ مملکت کو درپیش مسائل کے احساس کا اظہار ہوتا ہے۔

سرزمین سوڈان عشروں سے خانہ جنگی کا شکار چلی آرہی ہے۔ جس خطے میں جنگ و جدل جاری ہو وہاں اقتصادی اور معاشی سرگرمیاں پنپ نہیں سکتیں۔ نہ تو وہاں غیر ملکی سرمایہ کار دل چسپی لیتے ہیں اور نہ ہی قدرتی وسائل کی تلاش اور ان سے استفادے کے لیے منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ جنوبی سوڈان کو اگرچہ آزادی حاصل کیے پانچ برس گزرچکے ہیں مگر ہنوز یہ ملک معاشی و اقتصادی مسائل کے بھنور میں گھرا ہوا ہے۔ ملک کے مرکزی بینک کی جانب سے گذشتہ دنوں جاری کئے گئے بیان میں بتایاگیا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم رہ گئے ہیں کہ ان سے صرف ایک ماہ کے ملکی اخراجات پورے ہوسکتے ہیں۔

آزادی کے پانچ برسوں میں بھی عمومی صورت حال میں بہتری نہ آنے کی دو اہم وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ گزشتہ برس تک یہاں لڑائی جاری تھی۔ باغی لیڈر ریاک مشار کی قیادت میں اس کی ملیشیا سرکاری فوجوں سے برسر پیکار تھی۔ گذشتہ برس اپریل میں حکومت اور باغی لیڈر کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کے بعد ریاک کو نائب صدر کا عہدہ دے دیا گیا اور ملک سے خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔ مگر ریاست ہنوز اقتصادی مشکلات میں گھری ہوئی ہے جس کا دوسرا سبب تیل کے نرخوں کا منھ کے بل آگرنا ہے۔

جنوبی سوڈان کی آمدنی کا 90 فی صد سے زائد انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔ عالمی بینک اسے تیل پر سب سے زیادہ انحصار کرنے والا ملک قرار دے چکا ہے۔ تیل کے نرخوں میں نمایاں گراوٹ کے باعث برآمدات سے ہونے والی آمدنی بہت محدود ہوگئی ہے۔ دوسری جانب انفراسٹرکچر کی تعمیر سمیت عوام کو دوسری سہولتوں کی فراہمی کے لیے کثیر رقم درکار ہے۔ اس کے پیش نظر حکومت نہ صرف غیر ضروری اخراجات سے گریز کررہی ہے بلکہ ضروری اخراجات میں ممکنہ حد تک کٹوتی کی جارہی ہے۔ رواں سال یوم آزادی سے صرف نظر کرنا بھی حکومت کی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
Load Next Story