آپ کی سو چ گری ہوئی ہے
Excuse Me میرے عزیز ہم وطنو! یہ لیجیے آپ کی سوچ مجھے گری ہوئی ملی تھی
Excuse Me میرے عزیز ہم وطنو! یہ لیجیے آپ کی سوچ مجھے گری ہوئی ملی تھی، یہ اس طرح گری ہوئی تھی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی سوچ اس حد تک بھی گر سکتی ہے۔ انسان اگر گر جائے تو اٹھ سکتا ہے لیکن اگر سوچ گر جائے تو پھر انسان نہیں اٹھ سکتا۔ ہمارے گرنے کی بس واحد یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سوچ گری ہوئی ہے اور ہم نے یہ بات نہ تو کبھی جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی کبھی سمجھنے کیلیے تیار ہوئے۔
یاد رہے انسان اپنی سوچ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے یعنی آپ صرف وہ ہی ہیں جو آپ سوچتے ہیں اور ہم سب پاکستانی جس میں سرمایہ دار، جاگیردار، بزنس مین، مذہبی رہنما، بلڈرز، بیوروکریٹس، ملاّ، سیاستدان شامل ہیں۔ سارا وقت کیا کچھ سوچتے ہیں یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کردار خود بولتے ہیں۔
ایمرسن نے کہا ہے کہ ''تم جو کچھ ہو، اس ہونے کا شور میرے کانوں میں اس قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا '' چلیے آپ ہی بتلا دیجیے کہ زندگی کے کونسے معاملے میں چاہے وہ سماجی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی معاملات ہوں یا ملکی، قومی اور سیاسی فیصلے ہوں یا اپنی زندگیوں کے خود کے فیصلے ہوں، کونسے آج تک ہم نے ایسے اقدامات یا فیصلے کیے ہیں کہ جن پر ہم فخر کر سکیں یا انھیں مثال بنا سکیں یا دنیا بھر کو اپنے باشعور ہونے کا ثبوت مہیا کر سکیں یا اپنی بلند سوچ کی گواہی دیں سکیں چلیے ایسا کیجیے ایک بار پھر سوچ لیجیے، آپ چاہیں تو لاکھ بار سوچ لیجیے لیکن ہر بار آخر میں آپ کو شرمندگی کا ہی منہ دیکھنا پڑے گا، ہم دنیا کی وہ واحد مخلوق ہیں کہ جن کا سفر آگے کے بجائے پیچھے کی جانب ہو رہا ہے جن کا سفر بلند ی کی بجائے پستی کی جانب ہو رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ہم نے پوری دنیا میں اپنی ترقی اور کامیابی کا شور مچا رکھا ہے۔
اخبارات اور مختلف ٹی وی چینلز پر روز اچھلتے کودتے پھرتے ہیں ایک جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے، دوسرا جاتا ہے، تو تیسرا آجاتا ہے اور اگر کوئی ان کے دعوؤں اور جھوٹے اعداد و شمار کا بھانڈا پھوڑنے شروع ہو جائے تو فوراً طیش میں آ جاتے ہیں۔ مارے غصے کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتے ہیں ان کی یہ حالت دیکھ کر ساتھ بیٹھے ہوئے اس قدر گھبرا جاتے ہیں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے اپنا فون نکال کر ایمبولینس کو بلا بیٹھتے ہیں ہمارے ان ترقی، خوشحالی، کامیابی کے نوحے پڑھنے والوں کے متعلق ہی عظیم یونانی شاعر ہوریس نے کہا تھا کہ ''کسی جنازے میں کرائے کے نوحہ گر بمقابلہ ان کے جو واقعی غمزدہ ہیں زیادہ شور کرتے ہیں'' جب کہ ان ہی کے متعلق یوری پیڈیز کہتا ہے ''بدترین مرض یہ ہے کہ اسے شرم نہ آئے'' ہم سب بیماروں کے بیمار خوابوں کی طرح ہو کے رہ گئے ہیں کسی بھی معاشرے کا ادراک ایک بہتے ہوئے دریا کے راستے کی طرح ہوتا ہے۔
اگر دریا بہہ رہا ہو تو لازمی طور پر اس کا راستہ بھی ہو گا، اگر ایک معاشرے میں خیالات زندہ ہونگے تو پھر معاشرہ زندہ ہو گا اور اس میں ادراک اور شعور بھی ہو گا، اگر ایک معاشرے میں خیالات مردہ ہونگے تو پھر معاشرہ بھی لازمی طور پر مردہ ہو جائے گا اور پھر اس معاشرے میں احساسات، اخلاقیات، شعور، فکر کی لاشیں زندہ درگور پڑی ہوں گی اور وہاں صرف اڑتی ہوئی خاک کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ہو گا اور اگر معاشرے کو مرے ہوئے عرصہ بیت جائے اور لاشیں زند ہ درگور پڑی ہوں تو پھر لازمی طور پر وہاں بھوت بھی پیدا ہو جائیں گے اور اگر یہ ہی صورتحال اور زیادہ دیر تک اسی طرح جاری رہے گی تو پھر انسانوں اور بھوتوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا ہے پھر انسان بھی بھوت بن جاتے ہیں اور آخر میں بھوت ایک دوسرے کو ڈراتے رہتے ہیں ۔ اسی لیے اب ہم نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی جیتے جاگتے ہیں صرف بھوت ہیں جو ایک دوسرے کو ڈراتے پھر رہے ہیں۔
ہماری اس صورتحال پر سلطان غازی کی ایک کہانی کا اقتباس یاد آ جاتا ہے کہ ''صدیوں کی نیند کے بعد جب اصحاب کہف بیدار ہوئے تو انھوں نے آنکھیں ملتے ہوئے تاریخ کے اندھیرے غار میں جھانکا باہر روشنی تھی اور اندر وہ سب کچھ تھا جو صدیوں ان کے وجود کا حصہ بنا رہا بدبو اور تاریکی! سروں پر کھردرے اور نوکیلے پتھروں کی کرختگی اور نیچے پسینے کی دلدل! پھر اصحاب کہف نے روشنی کا رخ کیا، صدیوں کی نیند نے انھیں ہر احساس اور سوچ سے بے نیاز کر دیا تھا۔ اب غار کے اندر اور باہر کی دنیا نے نئی اور ناقابل یقین صورتحال بنا دی۔ ان کے قدم باہر جاتے جاتے رک کیوں گئے یہ کوئی نہ جان سکا ان میں سے پانچ اپنی داڑھیاں نوچنے لگے اور چھٹے کی زبان پر ایک لفظ کانٹا بن کر اگلا ''خوف'' پھر اسے اپنا خواب یا د آیا ۔
سمندر کے کنارے سبز دلدل میں رینگتا ہوا اژدہا! وہ اژدہا کتنا بڑا تھا اس کے اپنے ہاتھ سے دس گنا بیس گنا ہزار لاکھ یا کروڑ گنا۔ بے کسی کے احساس نے اسے بے دم کر دیا لیکن وہ پھر بھی بھاگ رہا تھا اور اژدہا اپنی شکلیں بدل بدل کر اس کے سامنے پہنچ جاتا اس نے آسمان کی طرف آنکھ اٹھائی وہاں بجلی کوند گئی۔ اس نے سمندر کا رخ کیا وہاں طوفان آ گیا وہ تھک کر زمین پر بیٹھ گیا اور زمین زلزلے سے کانپنے لگی، آخر میں اژدہے نے سب سے زیادہ خوف ناک شکل اختیار کی اب اس کی کوئی شکل نہ تھی لیکن وہ ہر جگہ اور ہر وقت تھا وہ غار کے اندر بھی تھا اور باہر بھی ۔ ''یاد رکھیں گری ہوئی سوچ والی اور خوفزدہ قومیں کبھی بھی ترقی نہیں کرتیں اور نہ ہی کر سکتی ہیں علاوہ ایک دوسرے کو ڈرانے کے اور اپنے لیے روز نئے نئے مسائل پیدا کرنے کے۔ ایسی قومیں تھوڑا تھوڑا مرتی رہتی ہیں اور ایک روز پوری مر جاتی ہیں اور پھر مکمل بھوت بن جاتی ہیں یہ بات ہم جتنی جلدی سمجھ لیں گے ہم سب کے لیے بہتر ہے۔
ڈیموستھیینز کہتا ہے کہ ''تمام رحمتوں میں سب سے بڑی رحمت اچھی قسمت ہے اور اس کے بعد اچھا مشورہ آتا ہے جو کسی طرح بھی کم اہم نہیں ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ سب کچھ برباد ہو جاتا ہے جو اچھی قسمت سے حاصل ہوتا ہے۔'' اگر ہم سب کچھ ہی برباد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں تو پھر کوئی دوسرا کر بھی کیا کر سکتا ہے ۔
یاد رہے انسان اپنی سوچ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے یعنی آپ صرف وہ ہی ہیں جو آپ سوچتے ہیں اور ہم سب پاکستانی جس میں سرمایہ دار، جاگیردار، بزنس مین، مذہبی رہنما، بلڈرز، بیوروکریٹس، ملاّ، سیاستدان شامل ہیں۔ سارا وقت کیا کچھ سوچتے ہیں یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کردار خود بولتے ہیں۔
ایمرسن نے کہا ہے کہ ''تم جو کچھ ہو، اس ہونے کا شور میرے کانوں میں اس قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا '' چلیے آپ ہی بتلا دیجیے کہ زندگی کے کونسے معاملے میں چاہے وہ سماجی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی معاملات ہوں یا ملکی، قومی اور سیاسی فیصلے ہوں یا اپنی زندگیوں کے خود کے فیصلے ہوں، کونسے آج تک ہم نے ایسے اقدامات یا فیصلے کیے ہیں کہ جن پر ہم فخر کر سکیں یا انھیں مثال بنا سکیں یا دنیا بھر کو اپنے باشعور ہونے کا ثبوت مہیا کر سکیں یا اپنی بلند سوچ کی گواہی دیں سکیں چلیے ایسا کیجیے ایک بار پھر سوچ لیجیے، آپ چاہیں تو لاکھ بار سوچ لیجیے لیکن ہر بار آخر میں آپ کو شرمندگی کا ہی منہ دیکھنا پڑے گا، ہم دنیا کی وہ واحد مخلوق ہیں کہ جن کا سفر آگے کے بجائے پیچھے کی جانب ہو رہا ہے جن کا سفر بلند ی کی بجائے پستی کی جانب ہو رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ہم نے پوری دنیا میں اپنی ترقی اور کامیابی کا شور مچا رکھا ہے۔
اخبارات اور مختلف ٹی وی چینلز پر روز اچھلتے کودتے پھرتے ہیں ایک جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے، دوسرا جاتا ہے، تو تیسرا آجاتا ہے اور اگر کوئی ان کے دعوؤں اور جھوٹے اعداد و شمار کا بھانڈا پھوڑنے شروع ہو جائے تو فوراً طیش میں آ جاتے ہیں۔ مارے غصے کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتے ہیں ان کی یہ حالت دیکھ کر ساتھ بیٹھے ہوئے اس قدر گھبرا جاتے ہیں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے اپنا فون نکال کر ایمبولینس کو بلا بیٹھتے ہیں ہمارے ان ترقی، خوشحالی، کامیابی کے نوحے پڑھنے والوں کے متعلق ہی عظیم یونانی شاعر ہوریس نے کہا تھا کہ ''کسی جنازے میں کرائے کے نوحہ گر بمقابلہ ان کے جو واقعی غمزدہ ہیں زیادہ شور کرتے ہیں'' جب کہ ان ہی کے متعلق یوری پیڈیز کہتا ہے ''بدترین مرض یہ ہے کہ اسے شرم نہ آئے'' ہم سب بیماروں کے بیمار خوابوں کی طرح ہو کے رہ گئے ہیں کسی بھی معاشرے کا ادراک ایک بہتے ہوئے دریا کے راستے کی طرح ہوتا ہے۔
اگر دریا بہہ رہا ہو تو لازمی طور پر اس کا راستہ بھی ہو گا، اگر ایک معاشرے میں خیالات زندہ ہونگے تو پھر معاشرہ زندہ ہو گا اور اس میں ادراک اور شعور بھی ہو گا، اگر ایک معاشرے میں خیالات مردہ ہونگے تو پھر معاشرہ بھی لازمی طور پر مردہ ہو جائے گا اور پھر اس معاشرے میں احساسات، اخلاقیات، شعور، فکر کی لاشیں زندہ درگور پڑی ہوں گی اور وہاں صرف اڑتی ہوئی خاک کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ہو گا اور اگر معاشرے کو مرے ہوئے عرصہ بیت جائے اور لاشیں زند ہ درگور پڑی ہوں تو پھر لازمی طور پر وہاں بھوت بھی پیدا ہو جائیں گے اور اگر یہ ہی صورتحال اور زیادہ دیر تک اسی طرح جاری رہے گی تو پھر انسانوں اور بھوتوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا ہے پھر انسان بھی بھوت بن جاتے ہیں اور آخر میں بھوت ایک دوسرے کو ڈراتے رہتے ہیں ۔ اسی لیے اب ہم نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی جیتے جاگتے ہیں صرف بھوت ہیں جو ایک دوسرے کو ڈراتے پھر رہے ہیں۔
ہماری اس صورتحال پر سلطان غازی کی ایک کہانی کا اقتباس یاد آ جاتا ہے کہ ''صدیوں کی نیند کے بعد جب اصحاب کہف بیدار ہوئے تو انھوں نے آنکھیں ملتے ہوئے تاریخ کے اندھیرے غار میں جھانکا باہر روشنی تھی اور اندر وہ سب کچھ تھا جو صدیوں ان کے وجود کا حصہ بنا رہا بدبو اور تاریکی! سروں پر کھردرے اور نوکیلے پتھروں کی کرختگی اور نیچے پسینے کی دلدل! پھر اصحاب کہف نے روشنی کا رخ کیا، صدیوں کی نیند نے انھیں ہر احساس اور سوچ سے بے نیاز کر دیا تھا۔ اب غار کے اندر اور باہر کی دنیا نے نئی اور ناقابل یقین صورتحال بنا دی۔ ان کے قدم باہر جاتے جاتے رک کیوں گئے یہ کوئی نہ جان سکا ان میں سے پانچ اپنی داڑھیاں نوچنے لگے اور چھٹے کی زبان پر ایک لفظ کانٹا بن کر اگلا ''خوف'' پھر اسے اپنا خواب یا د آیا ۔
سمندر کے کنارے سبز دلدل میں رینگتا ہوا اژدہا! وہ اژدہا کتنا بڑا تھا اس کے اپنے ہاتھ سے دس گنا بیس گنا ہزار لاکھ یا کروڑ گنا۔ بے کسی کے احساس نے اسے بے دم کر دیا لیکن وہ پھر بھی بھاگ رہا تھا اور اژدہا اپنی شکلیں بدل بدل کر اس کے سامنے پہنچ جاتا اس نے آسمان کی طرف آنکھ اٹھائی وہاں بجلی کوند گئی۔ اس نے سمندر کا رخ کیا وہاں طوفان آ گیا وہ تھک کر زمین پر بیٹھ گیا اور زمین زلزلے سے کانپنے لگی، آخر میں اژدہے نے سب سے زیادہ خوف ناک شکل اختیار کی اب اس کی کوئی شکل نہ تھی لیکن وہ ہر جگہ اور ہر وقت تھا وہ غار کے اندر بھی تھا اور باہر بھی ۔ ''یاد رکھیں گری ہوئی سوچ والی اور خوفزدہ قومیں کبھی بھی ترقی نہیں کرتیں اور نہ ہی کر سکتی ہیں علاوہ ایک دوسرے کو ڈرانے کے اور اپنے لیے روز نئے نئے مسائل پیدا کرنے کے۔ ایسی قومیں تھوڑا تھوڑا مرتی رہتی ہیں اور ایک روز پوری مر جاتی ہیں اور پھر مکمل بھوت بن جاتی ہیں یہ بات ہم جتنی جلدی سمجھ لیں گے ہم سب کے لیے بہتر ہے۔
ڈیموستھیینز کہتا ہے کہ ''تمام رحمتوں میں سب سے بڑی رحمت اچھی قسمت ہے اور اس کے بعد اچھا مشورہ آتا ہے جو کسی طرح بھی کم اہم نہیں ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ سب کچھ برباد ہو جاتا ہے جو اچھی قسمت سے حاصل ہوتا ہے۔'' اگر ہم سب کچھ ہی برباد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں تو پھر کوئی دوسرا کر بھی کیا کر سکتا ہے ۔