انتخابی شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت

امیدکی جانی چاہیےکہ عدلیہ، ارباب اختیار اوراپوزیشن جماعتیں الزام تراشیوں کے بجائے افہام وتفہیم کی سمت قدم بڑھائیں گی .

الیکشن کمیشن پری پول دھاندلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے. ,فوٹو: ایکسپریس

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ آیندہ انتخابات کا انعقاد ہر صورت یقینی بنایا جائے گا، کراچی میں نئی حلقہ بندی میں ترمیم پر تیار ہیں، اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی۔

امن وامان کی صورتحال پر انتخابات ملتوی کرنے کے حوالے سے عام انتخابات میں کسی درخواست پر غور نہیں کیا جائے گا، امن وامان کی صورتحال عام انتخابات میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کی سربراہی میں منگل کو الیکشن کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں نئی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن، انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ، آیندہ الیکشن کے لیے ضابطہ اخلاق اور دہری شہریت کے حامل45 ارکان اسمبلی کے خلاف درخواستوں کے معاملات کا جائزہ لیا گیا۔ ایک آزاد الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ کی فوقیت اور عدلیہ کی آزادی پر یقین کامل رکھنے والی منتخب جمہوری حکومت سے جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک اب جمہوری خطوط ، درست پارلیمانی روایات اور نظام اقدار کی سمت چل پڑا ہے جو نہ صرف خوش آیند ہے بلکہ عوام باوجود مسائل و مصائب میں گرفتار ہونے کے اس قومی ہم آہنگی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری اور نئے انتخابات کے انعقاد کے اقدامات پر اپنے اطمینان کااظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے اور یہی قومی اتحاد و اتفاق رائے جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے۔

ملک میں بلاشبہ الیکشن فیور میں تیزی آ رہی ہے، امید ہے کہ جمہوری عمل اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے قومی امنگوں اور ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے دور اندیشی پر مبنی حقیقت پسندانہ فیصلے سیاسی نظام کی انقلابی قلب ماہیت کا باعث بنیں گے اور ملک سیاسی اور اقتصادی استحکام کی نئی منزلوں کی طرف گرم سفر ہونے کے قابل ہو جائے گا۔مسئلہ اس یقین کو پختہ کرنے کا ہے جب کہ انتخابی حلقہ بندیوں کا تعین شفاف انتخابات کی شرط اول ہے تاکہ ہر بالغ ووٹر کو بلا کسی دبائو اور لالچ کے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی آزادی حاصل ہو اور انتخابی حلقے کسی کی سیاسی جاگیر نہ بننے پائیں۔چیف الیکشن کمشنر نے تفصیلی طور پر کہا کہ انتخابی فہرستیں بڑی محنت سے تیار کی گئی ہیں، کراچی میں ووٹر لسٹوں کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، ان میں کوئی چھوٹی موٹی غلطی رہ گئی ہو تو ٹھیک کر دی جائے گی، ملک بھر کے صرف حساس پولنگ اسٹیشنز پر کیمرے نصب کیے جائیں گے۔

الیکشن کمیشن پری پول دھاندلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے تاہم انتخابات کے شیڈول سے قبل کوئی ایکشن نہیں لیا جاسکتا، ووٹر لسٹوں سے مطمئن ہیں، سپریم کورٹ کے سامنے بھی حقائق کے ساتھ سب کچھ واضح کیا جائے گا کہ کمپیوٹرائزڈ لسٹوں میں ایک ووٹ کا بھی جعلی ہونا ممکن نہیں، جو 10لاکھ نئے ووٹر درج ہوئے ہیں ان سے متعلق اعتراضات کی سماعت ضلعی کمشنر کریں گے، کسی کو شکایت ہے تو اپیلیں دائر کرے اور ثبوت دے۔واضح رہے پیر کو مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کراچی میں کثیراللسانی انتخابی حلقہ بندیاں تشکیل دینے کا حکم دیا ہے ، جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے تاحال سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر28نومبر کو سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ذاتی طور پر متعلقہ ریکارڈکے ہمراہ پیش ہونے کا حکم دیا ہے ،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر عطاء الرحمٰن نے بینچ کے روبرو موقف اختیارکیا کہ نئی مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیوں میں رد و بدل نہیں ہوسکتا۔


یہ ایکٹ کی دفعہ151(5)(2)سے بھی متصادم ہے، جسٹس انورظہیر جمالی نے الیکشن کمیشن کے رویے کو معاندانہ قراردیتے ہوئے کہاکہ آپ قوانین کی غلط تشریح کر رہے ہیں ، آپ انتخابی نشستوں کی کمی بیشی کی بات کررہے ہیں جس کا انحصار مردم شماری پر ہوتا ہے تاہم عدالت عظمیٰ نے پہلے سے موجود نشستوں کے حلقوں میں پولرائزیشن کے خاتمے کے لیے ہدایت کی تھی کہ حلقہ بندیاں اس طرح تشکیل دی جائیں کہ یہ کسی ایک گروپ کی جیب میں نہ چلی جائیں بلکہ یہاں مختلف طبقات کی آبادی ہونا چاہیے تاکہ آزادانہ انتخابات ہوسکیں ۔ عدلیہ نے ایک اصولی اور وسیع المشرب سماجی ساخت ، اس کے بطن سے اٹھنے والی جمہوری اسپرٹ ، روادارانہ اوریکساں انتخابی مواقع کی موافقت پر جو انداز نظر اختیار کیا ہے اس میں انتخابات کے شفاف انعقاد کی امید زیادہ ہے ۔حلقہ بندی لسانی بنیاد پر ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔سیاسی جماعتوں کو حلقہ بندیوں کو اپنا قلعہ یا انتخابی فصیل ثابت کرنے کے بجائے حق رائے دہی کا مثالی فورم بنانے کی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے، کہتے ہیں کہ جمہوریت کو اس سے زیادہ کچھ ہونا چاہیے بجائے اس کے کہ دو بھیڑیوں کے درمیان اس بات پر ووٹنگ ہوجائے کہ کون بیچاری بھیڑ کو کھائے گا۔

ووٹر کو اپنے حلقہ انتخاب میں مساویانہ حق رائے دہی کا احساس ملنا ضروری ہے۔تبھی الیکشن میں پولنگ اسٹیشنزجعل سازی،دھاندلی ،دھونس ، اسلحے کے استعمال اور دھمکی کے ماحول سے آزاد ہوں گے۔ چنانچہ امید کی جانی چاہیے کہ عدلیہ ، ارباب اختیار اور اپوزیشن جماعتیں اپنا وقت انتخابات کے شفاف انعقاد پر مرکوز رکھیں گے اور اس عرصے میں جذباتی بیانات اور الزام تراشیوں کے بجائے قومی افہام وتفہیم کی سمت قدم بڑھائیں گی۔
وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ حکومت بروقت انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے، نگران سیٹ اپ کے لیے مشاورت جاری ہے، حکومتی ادارے الیکشن کمیشن کی مکمل معاونت کرنے کو تیار ہیں، وزیر اعظم کا یہ بیان بھی اہم ہے اور اس سے افواہیں دم توڑ سکیں گی جو الیکشن ملتوی کرانے کے بارے میں شدو مد سے پھیلائی جارہی ہیں۔ وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور اب تک کیے گئے اقدامات کی تعریف کی ہے ۔

یہ کمنٹس ''فرام دی ہارسز مائوتھ'' ہیں،جب کہ وزیراعظم نے انتہائی بلند آہنگ یقین دہانی کرائی کہ الیکشن بر وقت ہوں گے۔ادھر وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے مناسب بیان دیا ہے کہ نوازشریف کو الیکشن سے آئوٹ کرنے کی سوچ احمقانہ ہے، ضمنی انتخابات میں طاقت کا استعمال نہ روکا گیا تو عام انتخابات کا انعقاد مشکل ہو جائے گا۔ وزیر اطلاعات نے کہا حالات کی سنگینی کے باوجود الیکشن کی تاریخ کسی صورت آگے نہیں بڑھے گی، شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن سے تعاون کریں گے ' آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی موجودگی میں کوئی احمق ہی انتخابات میں تاخیرکا سوچ سکتا ہے۔ ضمنی انتخابات الیکشن کمیشن کے لیے چیلنج ہوں گے اگر ان انتخابات میں اسلحہ برداروں اور دھاندلی کو نہ روکا جا سکا تو عام انتخابات میں روکنا ممکن نہیں ہوگا 'نوازشریف سمیت کسی کو بھی عوام نے وزیراعظم منتخب کیا تو ان کے گھر جا کر ہار پہنائیں گے۔

نوازشریف نے وزیراعظم منتخب ہونے کی صورت میں صدر زرداری سے حلف لینے کا جو بیان دیا ہے ہم اس کو خوش آیند سمجھتے ہیں اور ان کا شہبازشریف کو صدر زرداری پر تنقید نہ کرنے کا مشورہ دینا بھی انتہائی اچھی بات ہے ۔ کائرہ صاحب نے درحقیقت جمہوری اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی چیز کی ضرورت ہے ،سیاسی محاذ آرائی کی جگہ ،مفاہمانہ اور روادارانہ کلچر کو فروغ ملنا چاہیے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابات کے التوا یا اقتدار کو طول دینے کے حوالہ سے غیر ذمے دارانہ اور اشتعال انگیز بیانات دینے سے بہتر ہے کہ قوم کو متفقہ انتخابی لائحہ عمل کی طرف سنجیدگی سے متوجہ کیا جائے۔انتخابی منشور پر توجہ دی جائے کیونکہ ملک اعصاب شکن بحرانوں سے گزر رہا ہے ، دہشت گردی کا آسیب انتخابات کے موقع پر بھی ملکی سالمیت کے لیے بدستور چیلنج بنا رہے گا ،اس امتحانی اور صبر آزما صورتحال میں کسی قسم کی انتخابی، سیاسی یا گروہی تعصبات پر مبنی مہم جوئی نہ صرف مہلک بلکہ بلا جواز بھی ہوگی۔اس لیے انتشار و بے یقینی کو ہوا دینے کی کوششوں میں مصروف عناصر کی حوصلہ افزائی کا ہر راستہ بند ہونا چاہیے ۔میڈیا محتاط رہے۔آزادانہ انتخابات ہوں گے تو یقین کرنا چاہیے کہ ہر محب وطن کو امن،انصاف،روزگار اور میرٹ پر ترقی کے مواقع ملیں گے۔
Load Next Story