ابدی سچ
وہ زبان جس میں لوک ادب کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہو دنیا کی زرخیز زبان کہلاتی ہے
وہ زبان جس میں لوک ادب کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہو دنیا کی زرخیز زبان کہلاتی ہے۔ سندھی نہ فقط قدیم زبان ہے بلکہ اس خطے کے لوک ادب کی ترجمان بھی ہے۔ یہ ادبی ذخیرہ منفرد نوعیت کا ہے اور عوامی احساسات و امنگوں کا حقیقی عکاس بھی ہے۔ خاص طور پر سندھی صوفی شاعری کا انوکھا باب تاریخ کی کتاب میں ملتا ہے۔ حالانکہ یہ شاعری دیہی سطح پر تو اپنی پہچان رکھتی ہے البتہ شہری سماج، صوفی شعرا کے فن و فکر سے استفادہ نہیں کر سکتا ہے۔
سندھی صوفی شاعری کا مکتبہ فکر ایشیا کے دیگر شعرا سے منفرد اور زندگی کے قریب تر ہے۔ مثال کے طور پر جین مت یا بدھ شعرا کے پاس فطرت کی خوبصورتی، سکوت اور اثر ویسا ہی ہے جو سندھ کے صوفیوں کے کلام میں ملتا ہے۔ مگر یہ شاعر زندگی کی سچائیوں کے اس قدر قریب تر نہیں ہو پائے، جس طرح سندھ کی صوفی شاعری میں روزمرہ زندگی اور مثالوں میں تذکرہ ملتا ہے۔
سندھ کے صوفیوں شاہ لطیف، سچل سرمست، سامی، بیدل، روحل، عبدالکریم بلڑی وارو، خواجہ محمد زماں شاہ، شاہ عنایت شہید، مخدوم فرح سرور ودیگر شعرا شامل ہیں جو ابدی سچ کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ سندھ کے قدیم صوفی شعرا میں ایک اہم نام چئن رائلند ''سامی'' کا بھی ہے۔ شکارپور سندھ سے تعلق رکھنے والے اس ویدانتی شاعر نے اپنی شاعری میں امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شکارپور شہر میں قندھار کے حاکم تیمور شاہ نے سن 1773ء میں ہندؤں کو شکارپور میں آباد کیا تھا اور انھیں تجارت کے لیے آمادہ کیا۔ قدیم زمانے سے شکارپور میں ہندوؤں کی بڑی تعداد رہائش پذیر تھی۔ یہ ہندو وضع دار تھے اور اجتماعی شعور رکھتے تھے۔ ان کے مسلمانوں کے ساتھ اچھے روابط تھے۔اکثر مسلمانوں کے مذہبی تہواروں میں ان کے ساتھ شریک ہوتے۔
صوفی شاعر سامی پر اپنے خطے کی رنگارنگ ثقافت، لوک ورثے اور ادب کا گہرا اثر تھا۔ سامی چھوٹی پرچیوں پر شعر لکھتا اور انھیں مٹکے میں ڈالتا جاتا۔ سامی کی وفات کے بعد یہ اشعار اس کی اولاد نے دریافت کیے۔ بعد میں انھیں کتابی صورت میں سامی کے سلوک کے عنوان کے تحت چھپوایا گیا۔ یہ فکری ورثہ وحدت الوجود کے فلسفے کا پرچارکرتا ہے۔ محققین کے مطابق یہ نظریہ شیخ اکبر محی الدین نے چھ ہجری میں متعارف کروایا۔ اسپین سے تعلق رکھنے والے اس مفکر کے مطابق ، کائنات کی تمام اشیا تخلیق کار سے الگ نہیں ہیں۔ لہٰذا ذات برتر نے خود کو مختلف مظاہرکے ذریعے واضح کیا ہے۔ یہ تمام رنگینیاں فطرت کی، اس کی عظمت کا عکس ہیں۔
سامی نے راز ازل کو سینے میں دھڑکتے ہوئے پایا۔ یہ شاعری اس کے ذاتی مشاہدے کا عکس ہے۔ کیونکہ تصوف کا سرا کتابوں کے بجائے من کے کھوج سے ملتا ہے۔ درحقیقت، انسانی دل ایک کرشماتی تخلیق ہے۔ یہ نہ صرف زندگی کے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے، بلکہ مختلف دنیاؤں کا مرکز بھی ہے۔ صوفی، باہرکی دنیا کا رچاؤ اپنے اندر جذب کرکے ظاہری دنیا سے کنارہ کشی کرلیتا ہے۔ پھر من کے عمیق دریا سے مطلب کے موتی چنتا ہے۔ باہر سے کچھ نہیں ملتا، تمام راستے من کے قریب سے گزرتے ہوئے منزل تک پہنچتے ہیں۔
سامی کہتا ہے۔ سیپ سمندر میں رہتے ہوئے کھارے پانی سے دور رہتی ہے۔ ابرکی میٹھی بوند کا انتظار کرتی ہے جو اس کے بطن سے موتی پیدا کرے گی۔
انسان کو بھی کھوج کے سفر میں صبر و برداشت سے کام لینا ہے۔ تب جا کے منزل کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
سامی کی شاعری وید، پران، گیتا، اپشند اور یوگ شاستر کا امتزاج ہے۔
سامی نے خودشناسی کا جوہر حاصل کرنے پر زیادہ زور دیا ہے۔ ذات کی آگہی کے بعد تمام سچ ایک ایک کرکے آشکار ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ خود آگہی، غوروفکر اوریکسوئی کا ثمر ہے۔
زندگی کے شوروغل یا انتشار میں کہاں خود سے ملاقات ہوپاتی ہے۔ ذات کے مقابل کھڑے ہونے کے لیے ذات کے شور سے نجات ضروری ہوجاتی ہے۔ خاموشی سے دوستی کرنی پڑتی ہے۔
جوگیوں، سنیاسیوں و سادھوؤں سے من لگانا پڑے گا۔ تب کہیں جاکر سوچ کے آسمان سے معرفت کا چاند طلوع ہوگا۔
سادھو کی سنگت من کا میل اتار دیتی ہے۔ سادھو من کے سچے اور دھن کے پکے ہیں۔
سامی کی بولی میٹھی ہے جیسے سندھو ندی کا پانی ہو۔ الفاظ میں سادھو بیلے جیسے چھایا۔ شمالی سندھ کا لہجہ میٹھا اور دل میں گھر کرنے والا ہے۔ سامی کی زبان میں دھرتی کا خاص رچاؤ محسوس ہوتا ہے۔ لہجے کا یہ خالص پن سامی کی شاعری کی انفرادیت ہے۔ سامی کی شاعری میں فارسی، عربی اور سنسکرت کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ الفاظ الہامی تصور کا تسلسل ہیں۔
آریاؤں کے آنے سے پہلے ہزاروں سال تک، سندھ امن کا گہوارا تھا۔ سکندر اعظم سندھ کی کپاس دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لہٰذا مصر میں بادشاہوں کی ممی سندھ کی ململ میں فخر سے لپیٹی جاتی تھیں۔ موئن جو دڑو کی تہذیب دنیا کی مہذب ترین تہذیبوں میں شمارکی جاتی ہے۔ جو فن و فکر کا گہوارا تھی۔ یہی ورثہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا شاہ، سچل اور سامی تک پہنچا۔
سامی کا کلام عام نہیں ہوسکا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ دقیق سندھی الفاظ کا استعمال ہے۔ بدقسمتی سے سامی پر لکھا بھی کم گیا ہے۔ البتہ شیخ ایاز نے شاعری ونثر میں سامی کا ذکر کرکے اس صوفی شاعر سے محبت کا حق ادا کیا ہے۔ ایاز لکھتے ہیں ''بھٹائی کے بعد سندھ کا بڑا شاعر سامی میرے شہر شکارپور سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ میری شخصیت کا پراسرار حصہ بن کے رہا ہے۔ جب ماحول میری دسترس سے باہر چلا جاتا ہے تو میں سامی سے پناہ کا طلبگار ہوتا ہوں۔''
سندھی زبان کے اس کلاسیکی ویدانتی شاعر کا جنم، امیر گھرانے میں ہوا مگر اس نے زندگی کی آسائشیں ٹھکرا کے درویشی اختیارکی۔ زندگی کی بے ثباتی کا احساس، سامی کے دل میں اس قدر گہرا تھا کہ اس نے جابجا اس کا اظہارکیا ہے۔ سامی کی نظر میں ہر مسئلے کا حل فقط محبت کی روشنی میں پنہاں ہے۔ اگر دلوں میں اندھیرا ہے تو اس کی واحد وجہ محبت کی کمی ہے۔ انسان مایا سے محبت کرتا ہے۔ عارضی دنیا کی رنگینیوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ محبت سے منہ موڑ لیتا ہے۔ اگر وہ راز ازل کو جان لے تو سب کچھ چھوڑ دے۔ فقط پیار سے ناتا جوڑے۔ بس محبت ہی بانٹتا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ وقت جو آج حقیقتاً دکھائی دیتا ہے۔ انسان کے دنیا چھوڑ جانے پر ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ سامی کہتا ہے ''دیکھو کس قدر مختصر ہے یہ زندگی۔ یہی وجہ ہے کہ میں اور میرا احساس زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔ میں نے ابدی لمحہ پالیا ہے۔ ایک پل میں تین دنیا کی سیر کرسکتا ہوں۔ کہ یہ من ہوا کی طرح چنچل ہو چلا ہے۔ یہ اس قدر نفیر پسند ہے کہ شہنشاہی بھی اسے سکھ نہیں دے سکتی اورکبھی یہ من گھاس پر بسیرا کرکے بھی شادماں ہے۔'' پانچ ہزار سال کی تہذیب کی روشنی سامی کے افکار سے جھلکتی ہے۔ یہ روشنی آج بھی ابدی سچ کی تلاش میں محو سفر ہے۔
سندھی صوفی شاعری کا مکتبہ فکر ایشیا کے دیگر شعرا سے منفرد اور زندگی کے قریب تر ہے۔ مثال کے طور پر جین مت یا بدھ شعرا کے پاس فطرت کی خوبصورتی، سکوت اور اثر ویسا ہی ہے جو سندھ کے صوفیوں کے کلام میں ملتا ہے۔ مگر یہ شاعر زندگی کی سچائیوں کے اس قدر قریب تر نہیں ہو پائے، جس طرح سندھ کی صوفی شاعری میں روزمرہ زندگی اور مثالوں میں تذکرہ ملتا ہے۔
سندھ کے صوفیوں شاہ لطیف، سچل سرمست، سامی، بیدل، روحل، عبدالکریم بلڑی وارو، خواجہ محمد زماں شاہ، شاہ عنایت شہید، مخدوم فرح سرور ودیگر شعرا شامل ہیں جو ابدی سچ کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ سندھ کے قدیم صوفی شعرا میں ایک اہم نام چئن رائلند ''سامی'' کا بھی ہے۔ شکارپور سندھ سے تعلق رکھنے والے اس ویدانتی شاعر نے اپنی شاعری میں امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شکارپور شہر میں قندھار کے حاکم تیمور شاہ نے سن 1773ء میں ہندؤں کو شکارپور میں آباد کیا تھا اور انھیں تجارت کے لیے آمادہ کیا۔ قدیم زمانے سے شکارپور میں ہندوؤں کی بڑی تعداد رہائش پذیر تھی۔ یہ ہندو وضع دار تھے اور اجتماعی شعور رکھتے تھے۔ ان کے مسلمانوں کے ساتھ اچھے روابط تھے۔اکثر مسلمانوں کے مذہبی تہواروں میں ان کے ساتھ شریک ہوتے۔
صوفی شاعر سامی پر اپنے خطے کی رنگارنگ ثقافت، لوک ورثے اور ادب کا گہرا اثر تھا۔ سامی چھوٹی پرچیوں پر شعر لکھتا اور انھیں مٹکے میں ڈالتا جاتا۔ سامی کی وفات کے بعد یہ اشعار اس کی اولاد نے دریافت کیے۔ بعد میں انھیں کتابی صورت میں سامی کے سلوک کے عنوان کے تحت چھپوایا گیا۔ یہ فکری ورثہ وحدت الوجود کے فلسفے کا پرچارکرتا ہے۔ محققین کے مطابق یہ نظریہ شیخ اکبر محی الدین نے چھ ہجری میں متعارف کروایا۔ اسپین سے تعلق رکھنے والے اس مفکر کے مطابق ، کائنات کی تمام اشیا تخلیق کار سے الگ نہیں ہیں۔ لہٰذا ذات برتر نے خود کو مختلف مظاہرکے ذریعے واضح کیا ہے۔ یہ تمام رنگینیاں فطرت کی، اس کی عظمت کا عکس ہیں۔
سامی نے راز ازل کو سینے میں دھڑکتے ہوئے پایا۔ یہ شاعری اس کے ذاتی مشاہدے کا عکس ہے۔ کیونکہ تصوف کا سرا کتابوں کے بجائے من کے کھوج سے ملتا ہے۔ درحقیقت، انسانی دل ایک کرشماتی تخلیق ہے۔ یہ نہ صرف زندگی کے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے، بلکہ مختلف دنیاؤں کا مرکز بھی ہے۔ صوفی، باہرکی دنیا کا رچاؤ اپنے اندر جذب کرکے ظاہری دنیا سے کنارہ کشی کرلیتا ہے۔ پھر من کے عمیق دریا سے مطلب کے موتی چنتا ہے۔ باہر سے کچھ نہیں ملتا، تمام راستے من کے قریب سے گزرتے ہوئے منزل تک پہنچتے ہیں۔
سامی کہتا ہے۔ سیپ سمندر میں رہتے ہوئے کھارے پانی سے دور رہتی ہے۔ ابرکی میٹھی بوند کا انتظار کرتی ہے جو اس کے بطن سے موتی پیدا کرے گی۔
انسان کو بھی کھوج کے سفر میں صبر و برداشت سے کام لینا ہے۔ تب جا کے منزل کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
سامی کی شاعری وید، پران، گیتا، اپشند اور یوگ شاستر کا امتزاج ہے۔
سامی نے خودشناسی کا جوہر حاصل کرنے پر زیادہ زور دیا ہے۔ ذات کی آگہی کے بعد تمام سچ ایک ایک کرکے آشکار ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ خود آگہی، غوروفکر اوریکسوئی کا ثمر ہے۔
زندگی کے شوروغل یا انتشار میں کہاں خود سے ملاقات ہوپاتی ہے۔ ذات کے مقابل کھڑے ہونے کے لیے ذات کے شور سے نجات ضروری ہوجاتی ہے۔ خاموشی سے دوستی کرنی پڑتی ہے۔
جوگیوں، سنیاسیوں و سادھوؤں سے من لگانا پڑے گا۔ تب کہیں جاکر سوچ کے آسمان سے معرفت کا چاند طلوع ہوگا۔
سادھو کی سنگت من کا میل اتار دیتی ہے۔ سادھو من کے سچے اور دھن کے پکے ہیں۔
سامی کی بولی میٹھی ہے جیسے سندھو ندی کا پانی ہو۔ الفاظ میں سادھو بیلے جیسے چھایا۔ شمالی سندھ کا لہجہ میٹھا اور دل میں گھر کرنے والا ہے۔ سامی کی زبان میں دھرتی کا خاص رچاؤ محسوس ہوتا ہے۔ لہجے کا یہ خالص پن سامی کی شاعری کی انفرادیت ہے۔ سامی کی شاعری میں فارسی، عربی اور سنسکرت کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ الفاظ الہامی تصور کا تسلسل ہیں۔
آریاؤں کے آنے سے پہلے ہزاروں سال تک، سندھ امن کا گہوارا تھا۔ سکندر اعظم سندھ کی کپاس دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لہٰذا مصر میں بادشاہوں کی ممی سندھ کی ململ میں فخر سے لپیٹی جاتی تھیں۔ موئن جو دڑو کی تہذیب دنیا کی مہذب ترین تہذیبوں میں شمارکی جاتی ہے۔ جو فن و فکر کا گہوارا تھی۔ یہی ورثہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا شاہ، سچل اور سامی تک پہنچا۔
سامی کا کلام عام نہیں ہوسکا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ دقیق سندھی الفاظ کا استعمال ہے۔ بدقسمتی سے سامی پر لکھا بھی کم گیا ہے۔ البتہ شیخ ایاز نے شاعری ونثر میں سامی کا ذکر کرکے اس صوفی شاعر سے محبت کا حق ادا کیا ہے۔ ایاز لکھتے ہیں ''بھٹائی کے بعد سندھ کا بڑا شاعر سامی میرے شہر شکارپور سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ میری شخصیت کا پراسرار حصہ بن کے رہا ہے۔ جب ماحول میری دسترس سے باہر چلا جاتا ہے تو میں سامی سے پناہ کا طلبگار ہوتا ہوں۔''
سندھی زبان کے اس کلاسیکی ویدانتی شاعر کا جنم، امیر گھرانے میں ہوا مگر اس نے زندگی کی آسائشیں ٹھکرا کے درویشی اختیارکی۔ زندگی کی بے ثباتی کا احساس، سامی کے دل میں اس قدر گہرا تھا کہ اس نے جابجا اس کا اظہارکیا ہے۔ سامی کی نظر میں ہر مسئلے کا حل فقط محبت کی روشنی میں پنہاں ہے۔ اگر دلوں میں اندھیرا ہے تو اس کی واحد وجہ محبت کی کمی ہے۔ انسان مایا سے محبت کرتا ہے۔ عارضی دنیا کی رنگینیوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ محبت سے منہ موڑ لیتا ہے۔ اگر وہ راز ازل کو جان لے تو سب کچھ چھوڑ دے۔ فقط پیار سے ناتا جوڑے۔ بس محبت ہی بانٹتا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ وقت جو آج حقیقتاً دکھائی دیتا ہے۔ انسان کے دنیا چھوڑ جانے پر ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ سامی کہتا ہے ''دیکھو کس قدر مختصر ہے یہ زندگی۔ یہی وجہ ہے کہ میں اور میرا احساس زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔ میں نے ابدی لمحہ پالیا ہے۔ ایک پل میں تین دنیا کی سیر کرسکتا ہوں۔ کہ یہ من ہوا کی طرح چنچل ہو چلا ہے۔ یہ اس قدر نفیر پسند ہے کہ شہنشاہی بھی اسے سکھ نہیں دے سکتی اورکبھی یہ من گھاس پر بسیرا کرکے بھی شادماں ہے۔'' پانچ ہزار سال کی تہذیب کی روشنی سامی کے افکار سے جھلکتی ہے۔ یہ روشنی آج بھی ابدی سچ کی تلاش میں محو سفر ہے۔