نہ کرو گے اور نہ کرنے دو گے
کیا لوگ آرام سے بیٹھ جائیں گے اور لاڈلا چاند سے جس طرح چاہے کھیلنا شروع کر دے گا
ہمیں بڑی چنتا ہو رہی تھی کہ وہ پانامہ لیکس کا سلسلہ بھی پرانا ہو گیا، لندن لیکس کا ایک پٹاخہ پھوٹا تھا وہ چلا نہیں اس طرح اور بھی جو کچھ تھا کسی میں اب جان نہیں رہی، نیا پاکستان بھی بن چکا ہے کم از کم ایک صوبے میں تو اس کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے صرف پلستر اور رنگ روغن باقی ہے، اب ایسا کیا ہو گا جس سے نواز شریف کا ناک میں دم کیا جائے تاکہ پاکستان میں اگر تھوڑا بہت ہونا ہے وہ نہ ہو سکے۔ وہ ایک شکی مزاج شخص نماز پڑھنے کھڑا ہوا تھا اور بلند آواز سے نیت باندھ رہا تھا، نیت کرتا ہوں اخلاص کے ساتھ ...چار رکعت نہیں دو ... نہیں چار ہاں چار رکعت پڑھ رہا ہوں عصر کے لیے نہیں فجر کے لیے نہیں ظہر کے لیے، نہیں عصر کے ... منہ کیا میں نے قبلے کی طرف نہیں کعبے کی طرف نہیں قبلے کی طرف ... پھر دوبارہ شروع ہوتا ہے۔
نیت کرتا ہوں اخلاص کے ساتھ کہ چار رکعت نہیں دو ہاں دو نہیں چار رکعت بوقت فجر نہیں ظہر نہیں عصر ہاں عصر کے وقت منہ کیا قبلے کی طرف قبلے قبلے قبلے ... نہیں نیت کرتا ہوں اخلاص کے ساتھ ... اس طرح وہ بار بار کبھی کچھ بولا جارہا تھا ادھر امام نے اللہ اکبر بھی کیا لیکن اس کا سلسلہ جاری تھا پاس کھڑے ہوئے نمازی نے زچ ہو کر کہا ... نہ پڑھتے ہو نہ پڑھو گے لیکن ہماری نماز ضرور غارت کر دو گے۔ دیکھا جائے تو گذشتہ چند سال سے جب سے نواز شریف وزیراعظم بنے ہیں کہیں نہ کہیں سے ہمارے کپتان صاحب کوئی توپ چلاتے رہتے ہیں کبھی دھرنا کبھی کرنا کبھی ورنہ کبھی ڈرنا ... وہ جو کسی نے کہا ہے کہ چیونٹی کا گھر ماتم سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دھاندلی نہیں ہوئی ہے لیکن دھاندلی کہاں نہیں ہوئی۔ ابھی جو جناب کپتان کے اپنے ملکیتی صوبے میں بلدیاتی الیکشن ہوئے وہاں تو انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ دھاندلی میں انتخابات ہوئے۔
ایک روز پہلے ہی اپنوں کو ووٹوں کے بنڈل ایشو ہوئے اور بڑے آرام سے غیر جانبدارانہ انتخابات ہو گئے۔ مطلب یہ کہ دھاندلی تو پاکستان کی سب سے مشہور و مقبول کراپ ہے اور جب باقی سارے پتھر تمام ہوئے تو اب یہ نااہلی کیس ... اس میں یہ مطالبہ بھی آسکتا ہے کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا تب تک اسٹے آرڈر لے کر نواز شریف کو کام کرنے سے روک لیا جائے، یوں کیس کے فیصلہ ہونے تک بلکہ اس سے پہلے ہی نئے انتخابات کا وقت آجائے گا ... اور جناب کپتان کی مراد بن جائے گی۔ یہ ہم نے محض حالات کے سیاق و سباق اور کپتان صاحب کی خواہش کے پیش نظر کہا ہے ورنہ درمیان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اچانک دریا کا رخ موڑ کر کسی اور طرف بھی بہنا شروع ہو سکتا ہے لیکن فی الحال تو ہم لاڈلے کی ضد کی بات کر رہے ہیں جو کھیلن کو مانگے چاند ... اور چاند سے کم اور کچھ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں لیکن فرض کریں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور کھیلن کو چاند بھی مل جاتا ہے تو
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیںگے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا
کیا لوگ آرام سے بیٹھ جائیں گے اور لاڈلا چاند سے جس طرح چاہے کھیلنا شروع کر دے گا لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ پاکستان کے عوام کو عادت سی پڑی ہوئی ہے کہ برسر اقتدار حکومت چاہے کسی کی بھی ہو اسے چین سے نہ بیٹھنے دیا جائے کیوں کہ لہو گرم رکھنے کے لیے اب یہ جھپٹنا پلٹنا، پلٹ کے جھپٹنا اب ان کی عادت سی ہو گئی اور عادت کبھی چھوٹتی نہیں
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
کیوں کہ پورے کا پورا نظام تو بدلنے سے رہا کیوں کہ انگریز کم بخت نہ پٹواری کو ساتھ لے گئے، نہ تھانیدار کو، نہ دفتری نظام کو نہ افسر شاہی اور نوکر شاہی نظام کو ... سب کچھ وہی ہوتا ہے صرف چہرے بدل جاتے ہیں تو جناب کپتان صاحب جب وزیراعظم کا ''پد'' سنبھال لیں گے تو یہ سب کے سب انھی کی طرح ہو جائیں گے مطلب یہ کہ کتا بدستور کنوئیں میں پڑا رہے گا، بلکہ یہ آزمائش تو ایک مرتبہ ہو بھی چکی ہے ایک صوبے میں مکمل طور پر اس کا راج ہے کیا کچھ بدلا؟ ہاں صرف ایک چیز بدلی ہے کہ پہلے والی حکومتیں ''یہ کریں گے وہ کریں گے'' کہتے تھے اور انھوں نے بیان کا صیغہ بدل کر ''گے'' کی جگہ ''ہے'' لگا دیا ہے یعنی یہ بھی کر دیا ہے وہ بھی کر دیا ہے وہ بھی کر دیا ہے جب کہ ... لیکن اس جب کہ پر کبھی اور وقت بات کریں گے کیوں کہ، سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
چلیے فرض کیے لیتے ہیں کہ لاڈلے کو کھیلن کے لیے چاند مل جاتا ہے تو کیا وہ آرام سے کھیل پائے گا؟ آخر یہ جو اتنے سارے دوسرے ہیں یہ بھی تو لہو گرم رکھنے کے لیے کچھ سبیل نکال ہی لیں گے اور یقین واثق ہے کہ وہی کریں گے جو کپتان صاحب اب کر رہے ہیں، آخر جب ان سے اپنی شکست مان کر شریفانہ طریقے سے انتظار نہ ہو سکا تو وہ تو ''عادی'' ہے کیسے نچلے بیٹھیں گے، گویا پھر وہی سلسلہ ہو گا
پھر بہار آئی وہی دشت و بیاباں ہوں گے
پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے
پھر وہی ہاتھ وہی سنگ وہ ہی سر اور داغ جنوں
وہی ہم ہوں گے وہی دشت و بیابان ہوں گے
مطلب یہ کہ اس طرح ہر ایک دوسرے کو حکومت نہیں کرنے دے گا تو اس کا انجام کیا ہو گا، عوام کی حیثیت تو اس دانے کی سی ہو جائے گی جو چکی کے دوپاٹوں کے درمیان آجاتا ہے یعنی جس گھر میں ہمیشہ جو تم پیزار اور دھینگا مشتی چلتی رہے گی وہاں کوئی خاک کام کر پائے گا بلکہ اس سے بھی بدتر حالت دو بیویوں کے شوہر کی ہو سکتی ہے، کیا خیال ہے اس موقع پر ایک دل چسپ سی کہانی نہ ہو جائے، اگرچہ یہ صرف دو بیویوں کے شوہر کی ہے اور پاکستان کے عوام نہ جانے کتنی بیویوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، ہوا یوں کہ ایک شخص جب کام کرنے کو کھیت جاتا تھا تو ایک شخص ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھ کر بانسری بجاتا ہوا دیکھتا، اس نے سوچا کتنا بے غم آدمی ہے کہ آرام سے بانسری بجاتا ہے۔
ایک دن یہ اس کے پاس گیا اور اس مستقل بے غمی کی وجہ پوچھی، بانسری بجانے والے نے کہا کہ بھائی ایسا ہے کہ میری دو بیویاں ہیں ایک گھر کا کام کرتی ہے اور دوسری کھیتوں کا کام سنبھالتی ہے اور میں نچنت ہو کر آرام سے اپنی بانسری بجانے کا شغل کرتا ہوں۔ اس شخص نے سوچا جب دو بیویوں میں اتنا آرام ہے تو کیوں نہ میں دوسری کر لوں اور ایسا ہی اس نے کیا، ایک بیوی کو اوپری منزل کا کمرہ دیا اور دوسری نیچے رہنے لگی ان میں پہلی بیوی جو اب ادھیڑ عمر کی ہو گئی تھی کہ اسے اپنا ہم عمر رکھا جائے، چنانچہ وہ جب سو جاتا تھا تو اس کی داڑھی سے کالے بال اکھیڑتی، دوسری نے اپنے لائق بنانے کے لیے سفید بالوں کو چننا شروع کر دیا۔
یوں کچھ ہی عرصے بعد بے چارے کی داڑھی اڑ گئی لیکن اس کا خیال تھا کہ یہ کوئی بال جھڑ قسم کا مرض ہے اس لیے علاج معالجہ کرنے لگا حالانکہ بے چارے کو ''بال جھڑ'' کا نہیں بیوی جھڑ کا مرض لاحق تھا۔ ایک دن ہوا یوں کہ اس سے دنوں کے حساب میں کچھ بھول چوک ہو گئی اور سیدھا جا کر سیڑھی پر چڑھنے لگا، نیچے والی بیوی نے دیکھا تو دوڑ کر آئی اسے پائنچے سے پکڑ لیا کہ کدھر جاتے ہو کدھر کا خیال ہے، شور سن کر اوپر والی بھی میدان میں آگئی اور اسے کالر سے پکڑ لیا ایک مرتبہ دونوں نے جب زور لگایا تو شلوار نیچے والی کے ہاتھ میں آگئی اور قمیض دوسری کے ہاتھ میں رہ گئی، یاں سے خلاصی پائی تو سیدھا اس بانسری والے کے پاس گیا اور برا بھلا کہنے لگا کہ خود تو ''ٹیلے'' کے تھے مجھے بھی ''ٹیلے'' کا بنا دیا، بانسری والے نے ایک خوشی کی دھن بجا کر بانسری منہ سے ہٹائی اور بولا ... یار دراصل میں یہاں ایک عرصے سے اکیلا تھا۔
سوچا کسی کو اپنا ساتھی بنا لوں، اس طرح اگر ہر پارٹی دوسری پارٹی کو حکومت نہیں کرنے دے گی تو بے چارے عوام کی حالت بھی ٹیلے والوں کی طرح ہو جائے گی بلکہ تقریباً ہو چکی ہے کیوں کہ گذشتہ ستر سال سے یہی چکر چل رہا ہے کہ کوئی ان کی داڑھیوں سے سفید بال نوچ رہا ہے اور کوئی کالے بال اکھیڑ رہا ہے اور ایک دن وہ بھی ہو جائے گا جو سیڑھی کے درمیان وقوع پذیر ہوا تھا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ لوگ اس بے چاری خدا ماری قوم کو اپنی خدمات سے یکسر محروم کر دیں اور ان کو فردوس گم گشتہ لے جانے کے بجائے اپنی ٹوٹی پھوٹی کٹیا اور جھلنگی چارپائی پر آرام سے رہنے دیں، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اگر اس قوم پر احسان ہی کرنا چاہتا ہے تو احسان کرنا چھوڑ دے یہی بہت ہے
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
نیت کرتا ہوں اخلاص کے ساتھ کہ چار رکعت نہیں دو ہاں دو نہیں چار رکعت بوقت فجر نہیں ظہر نہیں عصر ہاں عصر کے وقت منہ کیا قبلے کی طرف قبلے قبلے قبلے ... نہیں نیت کرتا ہوں اخلاص کے ساتھ ... اس طرح وہ بار بار کبھی کچھ بولا جارہا تھا ادھر امام نے اللہ اکبر بھی کیا لیکن اس کا سلسلہ جاری تھا پاس کھڑے ہوئے نمازی نے زچ ہو کر کہا ... نہ پڑھتے ہو نہ پڑھو گے لیکن ہماری نماز ضرور غارت کر دو گے۔ دیکھا جائے تو گذشتہ چند سال سے جب سے نواز شریف وزیراعظم بنے ہیں کہیں نہ کہیں سے ہمارے کپتان صاحب کوئی توپ چلاتے رہتے ہیں کبھی دھرنا کبھی کرنا کبھی ورنہ کبھی ڈرنا ... وہ جو کسی نے کہا ہے کہ چیونٹی کا گھر ماتم سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دھاندلی نہیں ہوئی ہے لیکن دھاندلی کہاں نہیں ہوئی۔ ابھی جو جناب کپتان کے اپنے ملکیتی صوبے میں بلدیاتی الیکشن ہوئے وہاں تو انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ دھاندلی میں انتخابات ہوئے۔
ایک روز پہلے ہی اپنوں کو ووٹوں کے بنڈل ایشو ہوئے اور بڑے آرام سے غیر جانبدارانہ انتخابات ہو گئے۔ مطلب یہ کہ دھاندلی تو پاکستان کی سب سے مشہور و مقبول کراپ ہے اور جب باقی سارے پتھر تمام ہوئے تو اب یہ نااہلی کیس ... اس میں یہ مطالبہ بھی آسکتا ہے کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا تب تک اسٹے آرڈر لے کر نواز شریف کو کام کرنے سے روک لیا جائے، یوں کیس کے فیصلہ ہونے تک بلکہ اس سے پہلے ہی نئے انتخابات کا وقت آجائے گا ... اور جناب کپتان کی مراد بن جائے گی۔ یہ ہم نے محض حالات کے سیاق و سباق اور کپتان صاحب کی خواہش کے پیش نظر کہا ہے ورنہ درمیان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اچانک دریا کا رخ موڑ کر کسی اور طرف بھی بہنا شروع ہو سکتا ہے لیکن فی الحال تو ہم لاڈلے کی ضد کی بات کر رہے ہیں جو کھیلن کو مانگے چاند ... اور چاند سے کم اور کچھ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں لیکن فرض کریں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور کھیلن کو چاند بھی مل جاتا ہے تو
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیںگے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا
کیا لوگ آرام سے بیٹھ جائیں گے اور لاڈلا چاند سے جس طرح چاہے کھیلنا شروع کر دے گا لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ پاکستان کے عوام کو عادت سی پڑی ہوئی ہے کہ برسر اقتدار حکومت چاہے کسی کی بھی ہو اسے چین سے نہ بیٹھنے دیا جائے کیوں کہ لہو گرم رکھنے کے لیے اب یہ جھپٹنا پلٹنا، پلٹ کے جھپٹنا اب ان کی عادت سی ہو گئی اور عادت کبھی چھوٹتی نہیں
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
کیوں کہ پورے کا پورا نظام تو بدلنے سے رہا کیوں کہ انگریز کم بخت نہ پٹواری کو ساتھ لے گئے، نہ تھانیدار کو، نہ دفتری نظام کو نہ افسر شاہی اور نوکر شاہی نظام کو ... سب کچھ وہی ہوتا ہے صرف چہرے بدل جاتے ہیں تو جناب کپتان صاحب جب وزیراعظم کا ''پد'' سنبھال لیں گے تو یہ سب کے سب انھی کی طرح ہو جائیں گے مطلب یہ کہ کتا بدستور کنوئیں میں پڑا رہے گا، بلکہ یہ آزمائش تو ایک مرتبہ ہو بھی چکی ہے ایک صوبے میں مکمل طور پر اس کا راج ہے کیا کچھ بدلا؟ ہاں صرف ایک چیز بدلی ہے کہ پہلے والی حکومتیں ''یہ کریں گے وہ کریں گے'' کہتے تھے اور انھوں نے بیان کا صیغہ بدل کر ''گے'' کی جگہ ''ہے'' لگا دیا ہے یعنی یہ بھی کر دیا ہے وہ بھی کر دیا ہے وہ بھی کر دیا ہے جب کہ ... لیکن اس جب کہ پر کبھی اور وقت بات کریں گے کیوں کہ، سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
چلیے فرض کیے لیتے ہیں کہ لاڈلے کو کھیلن کے لیے چاند مل جاتا ہے تو کیا وہ آرام سے کھیل پائے گا؟ آخر یہ جو اتنے سارے دوسرے ہیں یہ بھی تو لہو گرم رکھنے کے لیے کچھ سبیل نکال ہی لیں گے اور یقین واثق ہے کہ وہی کریں گے جو کپتان صاحب اب کر رہے ہیں، آخر جب ان سے اپنی شکست مان کر شریفانہ طریقے سے انتظار نہ ہو سکا تو وہ تو ''عادی'' ہے کیسے نچلے بیٹھیں گے، گویا پھر وہی سلسلہ ہو گا
پھر بہار آئی وہی دشت و بیاباں ہوں گے
پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے
پھر وہی ہاتھ وہی سنگ وہ ہی سر اور داغ جنوں
وہی ہم ہوں گے وہی دشت و بیابان ہوں گے
مطلب یہ کہ اس طرح ہر ایک دوسرے کو حکومت نہیں کرنے دے گا تو اس کا انجام کیا ہو گا، عوام کی حیثیت تو اس دانے کی سی ہو جائے گی جو چکی کے دوپاٹوں کے درمیان آجاتا ہے یعنی جس گھر میں ہمیشہ جو تم پیزار اور دھینگا مشتی چلتی رہے گی وہاں کوئی خاک کام کر پائے گا بلکہ اس سے بھی بدتر حالت دو بیویوں کے شوہر کی ہو سکتی ہے، کیا خیال ہے اس موقع پر ایک دل چسپ سی کہانی نہ ہو جائے، اگرچہ یہ صرف دو بیویوں کے شوہر کی ہے اور پاکستان کے عوام نہ جانے کتنی بیویوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، ہوا یوں کہ ایک شخص جب کام کرنے کو کھیت جاتا تھا تو ایک شخص ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھ کر بانسری بجاتا ہوا دیکھتا، اس نے سوچا کتنا بے غم آدمی ہے کہ آرام سے بانسری بجاتا ہے۔
ایک دن یہ اس کے پاس گیا اور اس مستقل بے غمی کی وجہ پوچھی، بانسری بجانے والے نے کہا کہ بھائی ایسا ہے کہ میری دو بیویاں ہیں ایک گھر کا کام کرتی ہے اور دوسری کھیتوں کا کام سنبھالتی ہے اور میں نچنت ہو کر آرام سے اپنی بانسری بجانے کا شغل کرتا ہوں۔ اس شخص نے سوچا جب دو بیویوں میں اتنا آرام ہے تو کیوں نہ میں دوسری کر لوں اور ایسا ہی اس نے کیا، ایک بیوی کو اوپری منزل کا کمرہ دیا اور دوسری نیچے رہنے لگی ان میں پہلی بیوی جو اب ادھیڑ عمر کی ہو گئی تھی کہ اسے اپنا ہم عمر رکھا جائے، چنانچہ وہ جب سو جاتا تھا تو اس کی داڑھی سے کالے بال اکھیڑتی، دوسری نے اپنے لائق بنانے کے لیے سفید بالوں کو چننا شروع کر دیا۔
یوں کچھ ہی عرصے بعد بے چارے کی داڑھی اڑ گئی لیکن اس کا خیال تھا کہ یہ کوئی بال جھڑ قسم کا مرض ہے اس لیے علاج معالجہ کرنے لگا حالانکہ بے چارے کو ''بال جھڑ'' کا نہیں بیوی جھڑ کا مرض لاحق تھا۔ ایک دن ہوا یوں کہ اس سے دنوں کے حساب میں کچھ بھول چوک ہو گئی اور سیدھا جا کر سیڑھی پر چڑھنے لگا، نیچے والی بیوی نے دیکھا تو دوڑ کر آئی اسے پائنچے سے پکڑ لیا کہ کدھر جاتے ہو کدھر کا خیال ہے، شور سن کر اوپر والی بھی میدان میں آگئی اور اسے کالر سے پکڑ لیا ایک مرتبہ دونوں نے جب زور لگایا تو شلوار نیچے والی کے ہاتھ میں آگئی اور قمیض دوسری کے ہاتھ میں رہ گئی، یاں سے خلاصی پائی تو سیدھا اس بانسری والے کے پاس گیا اور برا بھلا کہنے لگا کہ خود تو ''ٹیلے'' کے تھے مجھے بھی ''ٹیلے'' کا بنا دیا، بانسری والے نے ایک خوشی کی دھن بجا کر بانسری منہ سے ہٹائی اور بولا ... یار دراصل میں یہاں ایک عرصے سے اکیلا تھا۔
سوچا کسی کو اپنا ساتھی بنا لوں، اس طرح اگر ہر پارٹی دوسری پارٹی کو حکومت نہیں کرنے دے گی تو بے چارے عوام کی حالت بھی ٹیلے والوں کی طرح ہو جائے گی بلکہ تقریباً ہو چکی ہے کیوں کہ گذشتہ ستر سال سے یہی چکر چل رہا ہے کہ کوئی ان کی داڑھیوں سے سفید بال نوچ رہا ہے اور کوئی کالے بال اکھیڑ رہا ہے اور ایک دن وہ بھی ہو جائے گا جو سیڑھی کے درمیان وقوع پذیر ہوا تھا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ لوگ اس بے چاری خدا ماری قوم کو اپنی خدمات سے یکسر محروم کر دیں اور ان کو فردوس گم گشتہ لے جانے کے بجائے اپنی ٹوٹی پھوٹی کٹیا اور جھلنگی چارپائی پر آرام سے رہنے دیں، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اگر اس قوم پر احسان ہی کرنا چاہتا ہے تو احسان کرنا چھوڑ دے یہی بہت ہے
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو