گاتی سریلا ہوں تو پکاتی بھی سریلا ہوں شبنم مجید

سابق صدر پرویز مشرف کو موسیقی کی سمجھ بوجھ تھی، کمپیوٹر سافٹ ویئر گلوکار کا ایک حد تک ساتھ دے سکتا ہے، گلوکارہ

سابق صدر پرویز مشرف کو موسیقی کی سمجھ بوجھ تھی، کمپیوٹر سافٹ ویئر گلوکار کا ایک حد تک ساتھ دے سکتا ہے، گلوکارہ

شبنم مجید سات سال کی تھی جب صدا اور لے کے سمندر میں اتری اور پھر آج ہے کہ اس کی اپنی ایک شناخت ہے۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ گلوگاری کے ساتھ ساتھ انسانی فلاح وبہبود کے بھی بہت سے کاموں میں بھی مصروف ہیں۔

وہ لاہور آرٹس کونسل کے اشتراک سے دس سال تک کے بچوں کے لیے میوزک کی کلاسیں لگاتی ہیں۔ راگوں پر مشتمل میوزک ویڈیو کی ریکارڈنگ اور منشیات کی لعنت میں مبتلا بچوں کے لیے این جی او بنانے جیسے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ کہتی ہیں ''بچوں کو آرٹ کی دنیا میں بڑوں کے مقابلے میں بہت کم مواقع ملتے ہیں، ان کے لیے اسکول کے علاوہ کوئی دوسرا پلیٹ فارم ہوتا ہی نہیں، اس لیے میں نے بچوں کو موسیقی سکھانا شروع کیا تا کہ موسیقی ان کے اندر کی جمالیات کو بروقت ابھار سکے۔ انسان میں حس جمال بہت ہی ضروری شے ہوتی ہے، اس کے علاوہ چھوٹی عمر میں موسیقی سیکھنے سے بچوں کو گلوکار بننے میں بہت آسانی ہوجاتی ہے کیوں کہ بڑوں کی نسبت بچے میوزک جلدی سیکھ لیتے ہیں''۔

گلوکارہ شبنم مجید الحمراء فلمز کے ساتھ مل کر مختلف راگوں کی شناخت کے حوالے سے ایک میوزک ٹریک ریکارڈ کرانے کا بھی منصوبہ رکھتی ہیں، جسے وہ خود کمپوز کرنے کے ساتھ اس کے لیے ہدایات بھی دیں گی۔ شبنم مجید نے آواز کے سفر کا آغاز نعت خوانی کے ایک مقابلے سے کیا، جسے پاکستان ٹیلی ویژن نے ریکارڈ کیا تھا۔اس پروگرام کے پروڈیوسرعبدالعزیز نے جب شبنم مجید کی آواز سنی تو انہوں نے اس بچی کوپی ٹی وی کے پروگرام ''ریشماں'' میں شرکت کی باقاعدہ دعوت دی۔

بقول شبنم مجید ''اس دعوت نے میری رات کی نیند ہی اُڑا دی اور میں ساری رات جاگتی رہی، سوچتی رہی کہ اب میں ٹی وی سکرین پر نظر آیا کروں گی۔ پی ٹی وی سے شروع ہونے والے اس سفر کا ایک مرحلہ اُس وقت ختم ہوا، جب شبنم مجید کو پی ٹی وی نے دس سالہ کارگردگی کا ایوارڈ دیا۔ ''پی ٹی وی پر میوزک کے حوالے سے میرے متعدد یادگار پروگرام ریکارڈ ہوئے۔ اس کے بعد مجھے اس ادارے نے تیرہ سالہ پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا۔ اس دوران جب میرا ریڈیو پاکستان پر آڈیشن ہوا تو انہوں نے بھی مجھے ڈبل اے کیٹیگری دی، اس اعزاز پر میں اللہ تعالی کی بے حد مشکور ہوں''۔

استاد نصرت فتح علی خان کی بات چلی تو شبنم مجید نے کہا ''میں نے ایک محفل میں میڈم نورجہاں کی گائی ہوئی یہ غزل ''دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ، وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا '' گائی تو میری آواز سن کے نصرت فتح علی خاں صاحب نے مجھے ڈالرز میں انعام دیا، یہ انعام میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا، اگلے دن انہوں نے موسیقار ایم اشرف صاحب کے توسط سے مجھے بلوایا، جب میں اُن کے پاس پہنچی تو انہوں نے مجھے سنا، پھر انہوں نے مجھے کہا کہ بیٹا، میں نے ایک دُھن تیار کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تمھاری آواز میں پورا گیت ریکارڈ کروں، یہ گیت ریاض الرحمٰن ساغر صاحب نے لکھا تھا اور نصرت صاحب نے یہ دھن اُس فلم کے موسیقار روبن گھوش صاحب کو بھی سُنا رکھی تھی۔

آج سوچتی ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے شروع میں ہی نام ور اساتذہ کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا، اس میں میرا کوئی کمال نہیں، یہ سب کچھ میرے ماں باپ کی دعاؤں کا نتیجہ تھا، یہ گیت میرے کیریئر کی پہلی فلم ''جوڈر گیا، وہ مر گیا'' تھی۔اس گیت کے بول تھے ''زندگی میں مجھے اتنا پیار مل گیا''۔ اس گیت پر مجھے الگ سے ایوارڈ بھی دیا گیا ۔اس کے بعد اللہ کی بہت مہربانی ہوئی کہ میں نے اپنے وقت کے ہر اچھے موسیقار اور فلم ڈائریکٹر کے ساتھ کام کیا''۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستانی فلم بول کے بعد کسی پاکستانی فلم میں گلوکاری کیوں نہیں کی؟ تو شبنم کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی پہلی فلم 'جو ڈر گیا وہ مر گیا' کے بعد محسوس کیاکہ نئی پاکستانی فلمیں مقامی سینما پر طویل عرصہ نہیں چلتیں، ہر نئی فلم کچھ ہفتوں میں ہی اتر جاتی ہے، دوسری جانب میوزک مسالا کمرشلز فلموں کا حصہ بن چکا ہے اور فلموں میں گانا گانے کی گنجائش کم ہورہی ہے، یوں میری دل چسپی ختم ہوگئی۔ شبنم مجیدکا مزید کہنا تھا '' اب تو زیادہ تر نئی فلموں کے پروڈیوسر، میوزک کمپوزر کے ساتھ معاہدہ کرلیتے ہیں اور پیسے بچانے کے لیے تجربہ کار گلوکاروں کے بجائے نئے گلوکاروں سے گیت ریکارڈ کرا لیتے ہیں۔

فلم بول کے روح رواں شعیب منصور کے ساتھ کام کرنے کا ذکرکرتے ہوئے کہنے لگیں ''جب انہوں نے ایک پراجیکٹ انار کلی شروع کیا تھا تو انہوں نے مجھے کام دیا، 'عشق محبت' کے نام سے اس پراجیکٹ میں میرا گیت بہت مقبول ہوا تھا، اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے دوسرے پراجیکٹس میں بھی شامل رکھا۔ گیت ''دل چیز ہے کیا جاناں'' کو وہ اپنی پہچان قرار دیتی ہیں۔ ''اس گیت نے پاپولر گیتوں کی رینکنگ میں مجھے عالمی سطح پر متعارف کرایا''۔


اپنے والد موسیقار اے مجید سے موسیقی کا ابتدائی درس لینے والی شبنم مجید نے، جو معروف موسیقار طافو کی بہو بھی ہیں، ایک سوال کے جواب میں کہا ''منشیات میں مبتلا بچوں کے لیے پوری قوم کو کام کرنا چاہیے، بچے کسی بھی قوم کے موتی ہوتے ہیں، ان کے بہتر مستقبل کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ، گھر سے بھاگے ہوئے اور منشیات کی لعنت میں مبتلا بچوں کو مسائل سے نکالنے کے لیے میں نے اس منصوبے پر کام کرنے کا ارادہ کیا ہے، میں تو کوشش ہی کرسکتی ہوں، جو میں کر رہی ہوں، کام یابی یا ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے، اب میںاپنے مرحوم بیٹے لکی علی کے نام پرایک ٹرسٹ بنانے کا سوچ رہی ہوں۔ میرا بیٹا 2010 میں دس سال کی عمر میں سیڑھیوں سے گرنے کے بعد مجھے چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا تھا لیکن وہ اب بھی ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے۔ اس ٹرسٹ کے تحت جہاں بچوں کو چھت، خوراک اور تعلیم فراہم کی جائے گی، وہیں انہیں موسیقی کا ہنر بھی سکھایا جائے گا''۔

گلوکارہ شبنم مجید نے اپنی پسند نا پسند کے حوالے سے بتایا ''کھانے پینے میں مجھے اپنے ہاتھ کی پکی ہوئی سبزیاں اور دالیں بہت اچھی لگتی ہیں، گوشت بھی اچھا لگتا ہے، اٹالین، چائینز اور انگریزی کھانوں پر میں ہمیشہ دیسی کھانوں کو ترجیح دیتی ہوں''۔ بقول شبنم مجید میں ''کھانے کے علاوہ سُریلے کھانے پکانا بھی جانتی ہوں''۔ سُریلے کھانے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا اس کا جب پہلا لُقمہ منہ میں جاتا ہے تو کھانے والے کے چہرے پر خوش گوار قسم کے تاثرات ابھرنے لگتے ہیں اور جن لوگوں کا ذائقہ سریلا ہوتا ہے تو وہ فوراً داد بھی دیتے ہیں، میں بھنڈی گوشت اور کریلے گوشت بہت اچھے پکا لیتی ہوں''۔ پہناوے میں گلوکارہ شبنم مجید کو شلوار قمیص پسند ہے ''میں کسی خاص رنگ کو ترجیح نہیں دیتی، مجھے سارے موسم اور سارے رنگ اچھے لگتے ہیں، ہر رنگ اور ہر موسم کا ایک اپنا لطف ہوتاہے، تمام رنگوں اور موسموں کو انجوائے کرنا چاہیے۔

پسند اور نا پسند کی قید میں نہیں رہنا چاہیے''۔ جب انہیں پوچھا گیا کہ لوگ کس طرح کے اچھے لگتے ہیں تو کہا ''جو بندہ دوسرے کا احساس نہیں کرتا، مجھے اچھا نہیں لگتا، چاہیے وہ بھائی ہو، بہن ہو، شوہر ہویا بیٹا، غیروں کی بات تو بعد میں آئے گی''۔ پسندیدہ گلوکار کے حوالے سے کہنے لگیں ''ہروہ گانے والا، جو سُرمیں گاتا ہو مجھے اچھا لگتا ہے، جس کا سُر دل کو نہ چھوئے، اُسے اپنی گائیکی پر ضرور توجہ دینی چاہیے، اس لیے میں اپنی زندگی میںکسی ایک گلوکار یا گلوکارہ سے مکمل طور پر انسپائیر نہیں ہوئی، جس کسی نے بھی گاتے ہوئے سُر میں تان لگائی، وہ مجھے ضرور اچھا لگا''۔ شبنم مجید نے گھریلو آرائش کے ساتھ ساتھ جوڈو کراٹے کا فن بھی سیکھ رکھا ہے۔

نیوانارکلی کے جونیئر ماڈل گرلز ہائی اسکول سے شبنم مجید نے تعلیم کا آغاز کیا، ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ساری توجہ موسیقی پر مرکوز کر دی، اس لیے مزید پڑھائی کا موقع نہ مل سکا۔ اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے کہا ''میں شرارتی نہیں تھی البتہ میں نے بہت کم عمری میں گُنگنانا شروع کردیا تھا۔ اب مجھے یاد نہیں کہ سب سے پہلے کس نے گھر میں یا اسکول میں میری آواز کو سراہا تھا، مجھے بس یہ یاد ہے کہ میری امی مجھ سے فرمائش کرکے اپنی پسند کے گیت سنا کرتی تھیں، اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے کہ میری ماں نے مجھے اس فیلڈ میں آنے کا حوصلہ دیا تو غلط نہ ہوگا۔ امی یہ چاہتی تھیں کہ میں بہت اچھی نعت خوں بنوں۔ میرے ننھیال کا تعلق میانوالی سے ہے، وہاں گانے بجانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میں نے جب نعت رسول مقبول ﷺ پڑھنا شروع کی تو سننے والوں نے کہا کہ نعت بھی جاری رکھو لیکن گانا بھی گایا کرو، یوں میں غیر ارادی طور پر موسیقی کی طرف آگئی''۔ شبنم مجید کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اُس نے آج تک کوئی ایسا گیت نہیں گایا، جس میں کوئی بے ہودہ لفظ شامل ہو۔

لاہور میں پیدا ہونے والی گلوکارہ شبنم مجید نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم استاد نذر حسین، استاد نصرت فتح علی خاں، استاد طالب حسین جعفری اور استاد کالے خان سے حاصل کی۔ اس حوالے سے شبنم مجید نے نئے گلوکاروں پر زور دیا کہ اگر کسی نے اس میدان میں نام بنانا ہے تو وہ دوسروں کو کاپی کرنا چھوڑ دیے، ریاض کرنے کے لیے کاپی ہوسکتی ہے لیکن اس کام کو اوڑھنا بچھونا نہیں بنانا چاہیے۔آج کل آواز کی ریکارڈنگ اور اس کو بہتر بنانے کے لیے درجنوں کمپیوٹرسافٹ ویئر مارکیٹ میں دستیاب ہیں، نئے گلوکار ان سافٹ ویئرز کا سہارا لیتے ہیں مگر وہ لائیو پرفارمنس میں پکڑے جاتے ہیں۔ اس لیے اُنہیں سی ڈیز چلا کر ہونٹ ہلانے کی ضرورت پڑتی ہے، یوں اُن کے سننے والے اُن سے تنگ آ جاتے ہیں اور سچ پوچھیں تو وہ خود بھی تنگ پڑجاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ نئے گلوکاروں کو محنت سے دور کر رہا ہے اور آخرکار یہ گلوکار بے کار ہو جاتے ہیں اور گمنامی اُن کا نصیب بن جاتی ہے۔ میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ لوگ مجھے میری آواز سے پہچانیں، گلوکار کی اپنی آواز ہی اُس کی اصل پہچان ہوتی ہے۔''

پاکستان میں خواتین کی گلوکاری کے مستقبل پر شبنم مجید نے کہا ''جو نئی لڑکیاں اس فیلڈ میں آ رہی ہیں، اُن میں سے اکثر کی آواز باریک ہے اور وہ بھارت کے فلمی گانوں کو کاپی کر کے آگے بڑھنا چاہتی ہیں، باریک آواز کو محنت اور ریاضت سے بہتر کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ بچیاں اپنے اوریجنل ٹیلنٹ کو سامنے لائیں تو انہیں آگے بڑھنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔ کمپیوٹر گلوکار کا ایک حد تک ساتھ دے سکتا ہے، اس حد سے آگے گلوکار کو خود ہی جانا پڑتا ہے''۔ اپنے نئے میوزک پراجیکٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شبنم مجید نے کہا کہ اس کے لیے میں نے خود گیت لکھے اور کمپوز بھی کیے، میں محنت کر رہی ہوں اور مجھے قوی امید ہے کہ سننے والوں کی طرف سے اچھا رسپانس ملے گا۔ یہ میوزک پراجیکٹ جون 2016 کے بعد میں متعارف کرادوںگی''۔

امریکا ،برطانیہ،کینیڈا سمیت درجنوں ممالک میں پرفارمنس دینے والی گلوکارہ شبنم مجید نے ایک سوال کے جواب میںکہا ''مجھے بھارت میں پرفارمنس کا بہت مزہ آیا، وہاں کے لوگ میوزک کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، اچھے سُر پر وہاں بروقت داد ملتی ہے''۔ زندگی میں دشواریوں کا ذکر کرتے ہوئے گلوکارہ شبنم مجید نے کہا ''جو دنیا میں آیا ہے، اُس کی زندگی میں اُونچ نیچ توآئے گی، میں نے بھی اپنے کیریئر میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کیا لیکن محنت اور لگن کی وجہ سے یہ دشواریاں آسانیوں میں بدل گئیں۔ جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو مجھے زندگی بہت کٹھن لگی، پھر والد صاحب اور اُس کے بعد میرا بیٹا جب دنیا سے رخصت ہوا تو میرے لیے دنیا بے معنی ہو کر رہ گئی لیکن میں نئے عزم کے ساتھ اس صورت حال سے باہر نکلی، یہ ہی زندگی ہے اور اسی طرح کی صورت حال سے ہر انسان کبھی نہ کبھی دوچار ہوتا ہے۔ جب ایک آدمی اپنی رضا کو اللہ کی رضا میں شامل کردے تو پھر وہ بڑی سے بڑی مشکل سے گزر جاتا ہے، یہ نظام قدرت اللہ کی رضا ہی کا دوسرا نام ہے''۔

شبنم مجید کے شوہر موسیقار واجد علی طافو ہیں، میاں بیوی کا تعلق موسیقی سے ہے، جب پوچھا گیا کہ موسیقی کی باریکیوں پر جھگڑا تو ہوتا ہوگا؟ کہنے لگیں ''اگر وہ گلوکار ہوتے تو شاید ایسا ہوتا لیکن وہ میری غلطیوں کی نشان دہی کر دیتے ہیں اور وہ واقعی غلطیاں ہوتی ہیں''۔ سات سال کی عمر سے گانا شروع کرنے والی شبنم مجید نے کہا ''میرے میاں مجھ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے البتہ میں ناراض ہوجاتی ہوں اور وہ مجھے منا لیتے ہیں''۔ ایک سوال کے جواب میں کہا ''پاکستان میں اب بھی گانے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، یہ گانے والا یا گانے والی کا لفظ ایک گالی بنا دیا گیا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں موسیقی کے فن کی اُس طرح قدر نہیں کی جاتی جس طرح دوسرے پیشے ہیں''۔ شوبز کی دنیا میں سادہ کپڑوں اور بغیر میک اپ کے ساتھ کام چلانے پر شبنم مجید نے کہا ''اگر آپ کے پاس ٹیلنٹ ہے تو پھر شکل وصورت ثانوی حیثیت اختیارکر جاتی ہے، لوگ کب تک صرف آپ کی شکل دیکھ دیکھ کر آپ کی آواز کو برداشت کریں گے؟۔''

پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف شبنم مجید کو بہت شوق سے سنا کرتے تھے، جب پوچھا گیا کہ وہ آپ کی آواز کے پرستار تھے، تو شبنم نے کہا ''پرستاری کا تو مجھے علم نہیں البتہ انہیں موسیقی کی باریکیوں کی سمجھ تھی مگر انہوں نے آپ کی گائیکی پر ایک بار رقص بھی کیا تھا؟ اس پر شبنم مجید نے صرف اتنا کہا آج کل وہ ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور بیمار بھی ہیں، اس لیے اُن کی ذات کو ڈسکس کرنا مناسب نہیں لگتا''۔
Load Next Story