انتخابات سیاسی جماعتیں اور عوام
عوام کی ایک بہت بڑی تعداد انتخابات کے ہونے یا ملتوی ہو جانے میں قطعی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر پاتی .
آج کل ملک میں ہر طرف آیندہ انتخابات کے چرچے ہو رہے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ملک میں سیاسی ماحول بھی انتہائی گرم اور پُر اُمید ہو چلا ہے۔ سیاسی کارکنان بھی اس ضمن میں جوش و خروش دکھانے میں پیچھے نہیں، جب کہ ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی آیندہ ہونے والے انتخابات کے حوالے سے انتہائی متحرک اور اپنے اپنے حلقوں میں جلسے جلوسوں کا اہتمام کر کے سیاسی میدانِ کارزار میں اپنی اپنی پارٹیوں کی دھاک جمانے میں فعال کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں جو کسی حشر کے منظر سے کم نہیں۔
دوسری جانب جو لوگ اس حکومت کی پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں ، ان کی خواہش ہے کہ آیندہ انتخابات بغیر کسی تاخیر کے وقت مقررہ ہی پر کروائے جائیں تو اس ملک کے سیاسی اور اقتصادی حالات کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اس ارضِ وطن کی موجودہ لاء اینڈ آرڈر کی ناگفتہ بہ حالت کو دیکھتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں یہ سوال بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کیا ملک کے تمام مسائل کا واحد حل جن میں دہشت گردی کا عنصر سرفہرست ہے، آنے والے انتخابات سے جڑا ہے جن کے انعقاد میں بظاہر بہت کم وقت رہ گیا ہے۔
صدر مملکت، حکومتی حلقوں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ آیندہ ہونے والے انتخابات آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ کروائے جائیں گے۔ اس حوالے سے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک کو درپیش معروضی حالات، ان گنت چیلنجز کے پیش نظر حکومتی حلقوں اور خصوصاً وزیر اعظم پرویز اشرف نے گزشتہ دنوں جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے، اسے مسائل اور مشکلات میں گھری قوم اور دہشت گردی سے پریشان ریاست کے لیے ایک موہوم سی امید کا پیغام ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد انتخابات کے ہونے یا ملتوی ہو جانے میں قطعی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر پاتی کیونکہ ماضی میں ہونے والے زیادہ تر انتخابات مطلوبہ نتائج دینے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ اس وقت بھی انتخابی امیدوار جس طرح سے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک پارٹی سے نکل کر دوسری پارٹی کا رُخ کر رہے ہیں ۔ اس سے پاکستانی عوام اس امر کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کے درمیان سے اخلاقیات اور آئیڈیالوجی کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ا ب صرف اقتدار کی رسہ کشی اور اپنے اپنے مفادات کے حصول کا تحفظ ہی آیندہ ہونے والے انتخابات میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ان پیش گوئیوں اور اندازوں سے قطع نظر 2013ء میں ہونے والے انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ انھیں نہ صرف ملک کے اندر بلکہ دیگر ممالک میں بھی خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ بظاہر مشاہدے میں تو یہی آ رہا ہے کہ آیندہ ہونے والے انتخابات کا پیٹرن کسی حد تک Change ہو گیا ہے، کیونکہ اس مرتبہ قوم کے سامنے تھرڈ آپشن بھی موجود ہو گا۔ اس حوالے سے گمان یہی کیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ حکمرانوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ملکی سطح کے بجائے انتخاب علاقائی سطح پر بھی لڑنا پڑے گا، کیونکہ ملک کی دو بڑی اور اہم سیاسی جماعتوں کے سامنے ووٹ کی تقسیم کا مسئلہ بھی موجود ہو گا اور یہی ووٹ کی تقسیم یقینا انتخابات کے نتائج پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے منشور اور سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں میں عوام سے کیے گئے وعدے اور بلند بانگ دعوے بھی اپنا اثر دکھائیں گے۔ جب کہ دہشت گردی اور مہنگائی کے ہاتھوں ستائی ہوئی، حالات کے ہاتھوں ماری ہوئی قوم کی آنکھوں میں نئے فریب، نئے خوشنما جال اور پرانے لفظوں کی سیاست سے، امید کی شمع روشن کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ افسوس! ہمارے ملک میں جمہوریت کا پودا اپنی جڑیں مضبوط کر کے تن آور درخت کی حیثیت اختیار کرنے سے آج بھی قاصر نظر آتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ 65 سالہ پاکستان میں فقط 18 سال جمہوریت چلی، باقی فوجی اور نیم فوجی راج کے سائے آمریت کی بدنما شکل میں پاکستانی عوام کے سروں پر چھائے رہے۔ یہاں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج بھی پاکستان میں جمہوریت اتنی نوزائیدہ ہے کہ وہ بھاری بھرکم فوجی بوٹوں اور امریکا کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان عوامی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا لیکن نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی نہ تو یہاں پر صحیح معنوں میں جمہوریت کے پودے کی آبیاری کی جا سکی اور نہ ہی صحیح معنوں میں جمہور یعنی عوام کا زمانہ آ سکا۔ اس ضمن میں وجوہات جو بھی رہی ہوں، ریاستی ادارے، جاگیرداری نظام اور سیاستدان بھی اس میں برابر کے ذمے دا ر ہیں، جس کے باعث ہمارا ملک ترقی کے بجائے تنزلی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی حالیہ اُبھرنے والی شدید لہر کی لپیٹ میں ہے۔ وطن عزیز کے دگرگوں حالات کے پیش نظر آج ملک بھر کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ہوش کے ناخن لینے اور اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
بلا شبہ پاکستان کو اس وقت سنگین بحرانوں، اندرونی و بیرونی سازشوں کے علاوہ تاریخ کی بد ترین دہشت گردی اور ان گنت مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب عوام ہیں جو مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم و صحت کے مسائل، لاقانونیت اور ناانصافی کے شکنجے میں بری طرح جکڑ ے نظر آتے ہیں۔ ملک میں آیندہ منعقد ہونے والے انتخابات کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کی یہ اہم ذمے داری بنتی ہے کہ وہ تمام عوامی ایشوز کا حل اپنے اپنے منشور کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کریں۔
اور اس کے ساتھ ساتھ روڈ میپ بھی دیں کہ انھیں ان مسائل کے حل کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا، جب کہ امن عامہ کی مخدوش صورتحال پر قابو پانے اور قانون پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے لیے آنے والی حکومت کے کندھوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہو گی کہ جہاں ضرورت ہو، قانون سازی کرے اور جہاں قانون موجود ہو، وہاں قانون پر سختی سے عمل درآمد کروا کر حکومتی رِٹ کو صحیح معنوں میں قائم کر کے ملک کو دہشت گردی جیسے عفریت سے نجات دلوائے۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت دو ایسے اہم اور سنجیدہ نوعیت کے شعبے ہیں جس کی درستگی سے معاشرے کی صحت اور ملک کی ترقی مشروط ہوتی ہے۔
ان دونوں شعبوں میں مسائل کو حل کرنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسی اپنائی جائے تو اس سے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں قدم رکھنے کے باوجود بھی اربابِ اختیار اور ہماری سیاسی جماعتیں اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں کہ عوام کو تعلیم اور بہتر صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی ہی ملک اور قوم کو ذہنی اور جسمانی لحاظ سے صحت مند رکھنے کی ضمانت فراہم کر سکتی ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت، جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے نہیں تھکتیں مگر پھر بھی جمہوریت کی اصل روح کو اپنے ملک میں منطبق کرنے کو تیار نہیں ہوتیں۔
یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے نتائج کو دھونس، دھاندلی اور دولت کے بل بوتے پر اپنے حق میں کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نظام کوئی بھی برا نہیں ہوتا۔ وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی، اس میں نیک نیتی، سچائی، عدل و انصاف کے ذریعے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کا تحظ کرنا معنی رکھتا ہے۔ بس نظام کوئی سا بھی ہو، یہ نظام چلانے والوں کی نیت پر منحصر ہے کہ وہ اسے جھوٹ، مکرو فریب، بد دیانتی اور ظلم و ناانصافی سے چلاتے ہیں یا ایمانداری اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ذاتی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے اجتماعی مفادات کے حصول کے لیے چلاتے ہیں۔
ہم نے جن ممالک سے جمہوریت کا نظام لے کر اسے اپنے ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی، کیا ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے وہاں اس قسم کی صورتحال دیکھی جس کا سامنا پاکستان برسوں سے کر رہا ہے۔ امریکا کے ہونے والے حالیہ انتخابات اس کی روشن مثال ہیں۔ وہاں نہ تو بارک اوباما نے انتخابات کے دوران سیاسی دائو پیچ کھیل کر اپنے حریف مٹ رومنی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی اور نہ ہی مٹ رومنی نے کوئی گھٹیا سیاسی دائو پیچ آزمائے۔ بلکہ مٹ رومنی نے بارک اوباما کی جیت پر اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے انھیں انتخابات جیتنے پر مبارکباد دے کر جمہوری طرز عمل کی بہترین مثال قائم کی۔
دوسری جانب جو لوگ اس حکومت کی پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں ، ان کی خواہش ہے کہ آیندہ انتخابات بغیر کسی تاخیر کے وقت مقررہ ہی پر کروائے جائیں تو اس ملک کے سیاسی اور اقتصادی حالات کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اس ارضِ وطن کی موجودہ لاء اینڈ آرڈر کی ناگفتہ بہ حالت کو دیکھتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں یہ سوال بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کیا ملک کے تمام مسائل کا واحد حل جن میں دہشت گردی کا عنصر سرفہرست ہے، آنے والے انتخابات سے جڑا ہے جن کے انعقاد میں بظاہر بہت کم وقت رہ گیا ہے۔
صدر مملکت، حکومتی حلقوں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ آیندہ ہونے والے انتخابات آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ کروائے جائیں گے۔ اس حوالے سے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک کو درپیش معروضی حالات، ان گنت چیلنجز کے پیش نظر حکومتی حلقوں اور خصوصاً وزیر اعظم پرویز اشرف نے گزشتہ دنوں جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے، اسے مسائل اور مشکلات میں گھری قوم اور دہشت گردی سے پریشان ریاست کے لیے ایک موہوم سی امید کا پیغام ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد انتخابات کے ہونے یا ملتوی ہو جانے میں قطعی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر پاتی کیونکہ ماضی میں ہونے والے زیادہ تر انتخابات مطلوبہ نتائج دینے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ اس وقت بھی انتخابی امیدوار جس طرح سے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک پارٹی سے نکل کر دوسری پارٹی کا رُخ کر رہے ہیں ۔ اس سے پاکستانی عوام اس امر کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کے درمیان سے اخلاقیات اور آئیڈیالوجی کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ا ب صرف اقتدار کی رسہ کشی اور اپنے اپنے مفادات کے حصول کا تحفظ ہی آیندہ ہونے والے انتخابات میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ان پیش گوئیوں اور اندازوں سے قطع نظر 2013ء میں ہونے والے انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ انھیں نہ صرف ملک کے اندر بلکہ دیگر ممالک میں بھی خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ بظاہر مشاہدے میں تو یہی آ رہا ہے کہ آیندہ ہونے والے انتخابات کا پیٹرن کسی حد تک Change ہو گیا ہے، کیونکہ اس مرتبہ قوم کے سامنے تھرڈ آپشن بھی موجود ہو گا۔ اس حوالے سے گمان یہی کیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ حکمرانوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ملکی سطح کے بجائے انتخاب علاقائی سطح پر بھی لڑنا پڑے گا، کیونکہ ملک کی دو بڑی اور اہم سیاسی جماعتوں کے سامنے ووٹ کی تقسیم کا مسئلہ بھی موجود ہو گا اور یہی ووٹ کی تقسیم یقینا انتخابات کے نتائج پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے منشور اور سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں میں عوام سے کیے گئے وعدے اور بلند بانگ دعوے بھی اپنا اثر دکھائیں گے۔ جب کہ دہشت گردی اور مہنگائی کے ہاتھوں ستائی ہوئی، حالات کے ہاتھوں ماری ہوئی قوم کی آنکھوں میں نئے فریب، نئے خوشنما جال اور پرانے لفظوں کی سیاست سے، امید کی شمع روشن کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ افسوس! ہمارے ملک میں جمہوریت کا پودا اپنی جڑیں مضبوط کر کے تن آور درخت کی حیثیت اختیار کرنے سے آج بھی قاصر نظر آتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ 65 سالہ پاکستان میں فقط 18 سال جمہوریت چلی، باقی فوجی اور نیم فوجی راج کے سائے آمریت کی بدنما شکل میں پاکستانی عوام کے سروں پر چھائے رہے۔ یہاں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج بھی پاکستان میں جمہوریت اتنی نوزائیدہ ہے کہ وہ بھاری بھرکم فوجی بوٹوں اور امریکا کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان عوامی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا لیکن نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی نہ تو یہاں پر صحیح معنوں میں جمہوریت کے پودے کی آبیاری کی جا سکی اور نہ ہی صحیح معنوں میں جمہور یعنی عوام کا زمانہ آ سکا۔ اس ضمن میں وجوہات جو بھی رہی ہوں، ریاستی ادارے، جاگیرداری نظام اور سیاستدان بھی اس میں برابر کے ذمے دا ر ہیں، جس کے باعث ہمارا ملک ترقی کے بجائے تنزلی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی حالیہ اُبھرنے والی شدید لہر کی لپیٹ میں ہے۔ وطن عزیز کے دگرگوں حالات کے پیش نظر آج ملک بھر کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ہوش کے ناخن لینے اور اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
بلا شبہ پاکستان کو اس وقت سنگین بحرانوں، اندرونی و بیرونی سازشوں کے علاوہ تاریخ کی بد ترین دہشت گردی اور ان گنت مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب عوام ہیں جو مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم و صحت کے مسائل، لاقانونیت اور ناانصافی کے شکنجے میں بری طرح جکڑ ے نظر آتے ہیں۔ ملک میں آیندہ منعقد ہونے والے انتخابات کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کی یہ اہم ذمے داری بنتی ہے کہ وہ تمام عوامی ایشوز کا حل اپنے اپنے منشور کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کریں۔
اور اس کے ساتھ ساتھ روڈ میپ بھی دیں کہ انھیں ان مسائل کے حل کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا، جب کہ امن عامہ کی مخدوش صورتحال پر قابو پانے اور قانون پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے لیے آنے والی حکومت کے کندھوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہو گی کہ جہاں ضرورت ہو، قانون سازی کرے اور جہاں قانون موجود ہو، وہاں قانون پر سختی سے عمل درآمد کروا کر حکومتی رِٹ کو صحیح معنوں میں قائم کر کے ملک کو دہشت گردی جیسے عفریت سے نجات دلوائے۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت دو ایسے اہم اور سنجیدہ نوعیت کے شعبے ہیں جس کی درستگی سے معاشرے کی صحت اور ملک کی ترقی مشروط ہوتی ہے۔
ان دونوں شعبوں میں مسائل کو حل کرنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسی اپنائی جائے تو اس سے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں قدم رکھنے کے باوجود بھی اربابِ اختیار اور ہماری سیاسی جماعتیں اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں کہ عوام کو تعلیم اور بہتر صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی ہی ملک اور قوم کو ذہنی اور جسمانی لحاظ سے صحت مند رکھنے کی ضمانت فراہم کر سکتی ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت، جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے نہیں تھکتیں مگر پھر بھی جمہوریت کی اصل روح کو اپنے ملک میں منطبق کرنے کو تیار نہیں ہوتیں۔
یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے نتائج کو دھونس، دھاندلی اور دولت کے بل بوتے پر اپنے حق میں کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نظام کوئی بھی برا نہیں ہوتا۔ وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی، اس میں نیک نیتی، سچائی، عدل و انصاف کے ذریعے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کا تحظ کرنا معنی رکھتا ہے۔ بس نظام کوئی سا بھی ہو، یہ نظام چلانے والوں کی نیت پر منحصر ہے کہ وہ اسے جھوٹ، مکرو فریب، بد دیانتی اور ظلم و ناانصافی سے چلاتے ہیں یا ایمانداری اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ذاتی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے اجتماعی مفادات کے حصول کے لیے چلاتے ہیں۔
ہم نے جن ممالک سے جمہوریت کا نظام لے کر اسے اپنے ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی، کیا ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے وہاں اس قسم کی صورتحال دیکھی جس کا سامنا پاکستان برسوں سے کر رہا ہے۔ امریکا کے ہونے والے حالیہ انتخابات اس کی روشن مثال ہیں۔ وہاں نہ تو بارک اوباما نے انتخابات کے دوران سیاسی دائو پیچ کھیل کر اپنے حریف مٹ رومنی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی اور نہ ہی مٹ رومنی نے کوئی گھٹیا سیاسی دائو پیچ آزمائے۔ بلکہ مٹ رومنی نے بارک اوباما کی جیت پر اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے انھیں انتخابات جیتنے پر مبارکباد دے کر جمہوری طرز عمل کی بہترین مثال قائم کی۔