خواتین اوراسلام

آج مغرب کے مہذب معاشرے میں آزادی کے نام پر عورتوں کی نمائش کی جارہی ہے اور اس کی عزت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں

آج مغرب کے مہذب معاشرے میں آزادی کے نام پر عورتوں کی نمائش کی جارہی ہے اور اس کی عزت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں: فوٹو : فائل

اﷲ تعالی اپنی آخری کتاب قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے ''بے شک اسلام کا کام کرنے والے مرد اور اسلام کا کام کرنے والی عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں، اور فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور بہ کثرت اﷲ کو یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اﷲ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔''

(سورہ احزاب، سورہ نمبر: 33، آیت نمبر:35)

دنیا بھر کے مذاہب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ جو عزت، احترام ، مرتبہ اور حقوق اسلام نے عورتوں کو دیے ہیں وہ دنیا کا کوئی مذہب نہ دے سکا۔ بل کہ اسلام سے پہلے عورت کس قدر ذلّت اور پستی کی زندگی گزار رہی تھی یہ ناقابل بیان ہے۔ مذاہب عالم میں نہ تو عورت کو وراثت کا حق حاصل تھا، نہ جائیداد رکھنے کا، نہ طلاق کا اور نہ خاوند کی وفات کے بعد دوسری شادی کا بل کہ ہندو مذہب میں لازم تھا کہ عورت کو خاوند کے مرنے پر ستی کیا جائے۔

اس کے برعکس اسلام نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے طور پر نہ صرف عزت و احترام سے نوازا ہے بل کہ تمام حقوق دیے جس کی وہ حق دار تھی۔ جیسا کہ درج بالا آیت میں واضح ہے اﷲ کے نزدیک مغفرت اور اجر عظیم کے مستحق وہ لوگ ہیں جو اﷲ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اﷲ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں، چاہے وہ مرد ہوں یا عورت۔

آج مغرب کے مہذب معاشرے میں آزادی کے نام پر عورتوں کی نمائش کی جارہی ہے اور اس کی عزت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتا چلے گا کہ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں 1925سے پہلے مرد وارث کے ہوتے ہوئے عورت کو حق وراثت سے محروم کردیا جاتا تھا اور جہاں1832 تک عورت کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا اور جہاں شادی کی صورت میں عورت کو اپنی تمام جایٔیداد سے دست بردار ہونا پڑتا تھا۔ مختصر یہ کہ عورت کو انسان نہیں بل کہ بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔

جب کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے عورت کو نہ صرف جایٔیداد رکھنے کی آزادی دی، وراثت میں حق دار بنایا بل کہ ہر لحاظ سے تحفظ فراہم کیا۔ عورت کا کھانا پینا اور رہائش سب مرد کے ذمے ہے۔ ماں کو اتنی عزت دی کہ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ بیٹی کے حقوق یہاں تک واضح کیے کہ شادی سے پہلے اس کی رضامندی لازم قرار دی گئی۔


جہاں تک بات حقوق زوجین کی ہے اور جو بڑی اہمیت کا حامل موضوع ہے تو سورہ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے ''عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسا دستور کے مطابق مردوں کا ( عورتوں پر) البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔'' اﷲ پاک نے مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق قرآن پاک میں واضح فرما دیے کہ دونوں کا ایک دوسرے پر برابری کا حق ہے البتہ مردوں کو عورتوں پر کچھ فضیلت ہے۔

جسمانی لحاظ سے، کمانے کے لحاظ سے، اخلاقی لحاظ سے اور بعض دوسرے معاملات میں۔ خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، لوگو! عورتوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو، تم نے اﷲ کی امانت سے انہیں لیا ہے۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا تم میں سے بہترین ہے وہ شخص جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے۔ ایک روایت میں بیان ہے ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا ہماری عورتوں کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ، جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے منہ پر نہ مارو، اسے گالیاں نہ دو، اس سے روٹھ کر کہیں اور نہ بھیج دو اور گھر میں ہی رکھو۔ حضرت ابن عباس ؓفرمایا کرتے تھے کہ میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے میں بھی اپنی زینت کروں جس طرح وہ مجھے خوش کرنے کے لیے اپنا بناؤ سنگھار کرتی ہے۔ (بہ حوالہ تفسیر ابن کثیر)

اﷲ پاک نے عورتوں کو بے شمار حقوق دیے جیسے شادی کے موقع پر حق مہر جو کہ مرد پر لازم کردیا گیا ہے کہ جب وہ شادی کرے توعورت کو اس کا مہر دے اور اس مہر سے وہ کچھ واپس نہیں لے سکتا، سوائے اس کے کہ عورت اپنی خوشی سے دے۔

بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں اﷲ پاک سورۃ النساء میں فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! تم کو یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کے جبراً مالک بن جاؤ اور ان عورتوں کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ جو کچھ تم لوگوں نے ان کو دیا ہے اس میں کو ئی حصہ وصول کرلو مگر یہ کہ وہ عورتیں کوئی صریح ناشائستہ حرکت کریں اور عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو اور اگر وہ تم کو ناپسند ہیں تو ممکن ہے تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اﷲ پاک اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے اور تم بجائے ایک بیوی کے دوسری بیوی کرنا چاہو اور تم اس کو ایک انبار کا انبار مال دے چکے ہو تو تم اس میں سے کچھ بھی مت لو کیا تم اس کو لیتے ہو بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہوکر اور تم اس کو کیسے لیتے ہو حالاں کہ تم باہم ایک دوسرے سے بے حجابانہ مل چکے ہو اور وہ عورتیں تم سے ایک گاڑھا اقرار لے چکی ہیں۔ '' مذکورہ آیت میں واضح ہے کہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔ مزید یہ کہ مردوں پر یہ جائز نہیں کہ مہر جو ایک دفعہ بیوی کو دے دیا اس میں سے کچھ واپس لیں۔ اگر لیں گے تو صریح گناہ کے مرتکب ہوں گے۔

رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں، تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا ہو۔ میں اپنی بیویوں سے بہت اچھی گھرداری برتتا ہوں۔'' نبی کریم ﷺ اپنی بیویوں کے ساتھ بہت لطف و خوشی سے بہت نرمی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے، انہیں اچھی طرح کھانے پینے کو دیتے، کشادہ دلی کے ساتھ ان پر خرچ کرتے تھے۔

ایسی خوش طبع باتیں کرتے جن سے وہ ہنس دیتی۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ آپ ﷺ نے دوڑ لگائی، جس دوڑ میں صدیقہؓ آگے نکل گئیں۔ کچھ مدت بعد پھر دوڑ ہوئی جب حضرت عائشہؓ پیچھے رہ گئیں تو آپؐ نے فرمایا ادلا بدلا ہوگیا۔ (بہ حوالہ تفسیر ابن کثیر) الغرض نہایت ہی محبت پیار کے ساتھ اپنی بیویوں کو رکھتے تھے۔

پس مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھی طرح راضی خوشی اور محبت و پیار سے پیش آئیں۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں تمہاری اچھائی میرے نبی ﷺ کی پیروی میں ہے۔ اﷲ کے نزدیک بڑائی والا وہ ہے جس کے اعمال اچھے ہیں چاہے مرد ہو یا عورت۔ سورۃالنساء میں فرمایا گیا ''اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہوگا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔''
Load Next Story