عدل و انصاف امن و سلامتی کی ضمانت
ملکی سلامتی، معاشرتی امن اور معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص انصاف پرور بنے اور اہل عدل کا ساتھ دے۔
دنیا کا کوئی بھی صاحبِ عقل اور ذی شعور انسان، عدل و انصاف کی اہمیت کا انکار نہیں کرسکتا خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب، کسی بھی زبان اور کسی بھی علاقے سے ہو۔ کیوں کہ اس کی افادیت بین الاقوامی طور پر مسلمہ ہے۔ ہر حق دار کو اس کا جائز حق دے دینا اور روزمرہ زندگی کے اقوال و اشغال میں توازن قائم کرنا ہی عدل و انصاف ہے۔ اﷲ رب العزت اور نبی کریم ﷺ کے صفاتی ناموں میں سے ایک مشترکہ نام ''الحق'' ہے جس کا مطلب ہے کہ اﷲ تعالی اور رسول کریم ﷺ کی نصرت و اعانت ہمیشہ حق پسند اور عدل و انصاف کو فروغ دینے والوں کے ساتھ ہی ہوگی۔ جب کہ ظالم اور اس کے سہولت کاروں کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں لعنت و پھٹکار اور ذلت و رسوائی ہوگی۔
قرآن کریم میں بار بار عدل و انصاف کرنے کی تلقین کی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ، ''بے شک اﷲ تعالی عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔'' (النحل16:90) اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے کہ عدل کرو جو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ (المائدہ5:8)
تو گویا جو شخص جتنا بڑا منصف ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ تقوٰے کی منازل طے کرکے اﷲ تعالی کا قرب حاصل کرے گا۔
'' اے ایمان والو! تم انصاف کرنے میں خواہش نفس کی پیروی نہ کرو'' (النساء 135:4) لہٰذا انسان کی ذاتی منشا چاہے جو بھی ہو مگر انصاف ہمیشہ قرآن و سنت کی واضح ہدایات کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ بے شک اﷲ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کردو اور جب بھی لوگوں کے مابین فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ (النساء 58:4)
عدل کی دھجیاں اڑانے والوں کے لیے اﷲ رب العزت نے قرآن کریم میں سخت وعید کا اعلان فرمایا ہے، ''جو لوگ اﷲ تعالی کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی کافر ہیں'' (المائدہ 5:44)
''جو لوگ اﷲ تعالی کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں۔'' (المائدہ 5:44)
''جو لوگ اﷲ تعالی کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ فاسق ہیں۔'' (المائدہ 5:47) یعنی جو لوگ اﷲ رب العزت کے بیان کردہ واضح احکامات و ہدایات کو پس پشت ڈال کر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ لوگ کافر، ظالم اور فاسق ہیں۔ اتنی سخت وعیدیں، اﷲ تعالی اپنی پناہ میں رکھے اور دنیا و آخرت میں ہر قسم کے نقصان و خسارے سے محفوظ فرما کر عدل و انصاف کی فراوانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
شومی قسمت کہ اتنی سخت تہدید کے باوجود آج ظالم بننے کو باعث افتخار اور عادل بننے کو باعث رسوائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہم اس معاشرہ میں اس تلخ حقیقت کے ساتھ زندہ ہیں کہ یہاں پر ظالم اور منافق شخص کو عزت و تکریم سے نوازا جاتا ہے جب کہ انصاف پسند اور حقیقت شناس انسان کو ذلت و اہانت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ظلم بالائے ظلم کہ جو عدل و انصاف کی مسند پر براجمان ہیں یا جو انصاف دلانے کے علم بردار ہیں وہی آئے روز انصاف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
حدیث شریف میں بیان کردہ برائی کو ختم کرنے کے تین طریقے اس با ت کے متقاضی ہیں کہ کسی بھی صورت ظلم کو نہ تو پسند کرنا ہے اور نہ ہی کسی طور اس میں حصہ دار بننا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دوسروں سے انصاف کا تقاضا کرنا اور خود ظلم کرتے رہنے سے کبھی بھی عدل و انصاف کا ماحول پروان نہیں چڑھتا۔
یہاں اس بات کو ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ ہر اسلامی و غیر اسلامی معاشرے کی بقا و ترقی کا انحصار عدل و انصاف پر ہوتا ہے۔ عدل کرنے والے معاشرے میں ہر شخص کی جان، مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوتی ہے، جس کی بنا پر ہر شخص اپنے فرائض منصبی خوش دلی و سکون سے سرانجام دیتا ہے۔ کیوں کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ کوئی شخص نہ تو اس کی حق تلفی کرے گا اور نہ ہی کسی سلسلے میں اس سے امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔ نتیجتا ملک میں داخلی امن و سلامتی پیدا ہوجاتی ہے اور معاشرہ خوب ترقی کرتا ہے۔ لیکن جس ملک سے عدل و انصاف ناپید ہوجائے تو اس معاشرے کا انجام تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ہر شخص کو ہر وقت حق تلفی کا کھٹکا رہتا ہے، لہٰذا وہ نہ تو دل جمعی سے کوئی تعمیری کام کرتا ہے اور نہ ہی اپنے فرائض خوش دلی و تن دہی سے سرانجام دیتا ہے بل کہ الٹا ہر وقت بدلہ لینے کے لیے دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ یہی حال ہمارے پیارے ملک پاکستان میں رہنے والے کچھ لوگوں کا بھی ہے، جو ہر وقت اپنے حقوق کے لیے ملک و قوم کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے جب کہ اگر کوئی ان سے ان کے فرائض کی ادائی کی بات کرے تو ظلم و تشدد کرنے کو دوڑتے ہیں۔
ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدل و انصاف کو اپنائے کیوں کہ اس کے سبب ہی حقیقی معنوں میں، وطن عزیز کا معاشرتی نظام اخوت و بھائی چارے پر مبنی ہوگا، معاشی نظام مساوات کا آئینہ دار ہوگا، سیاسی نظام اخلاص اور حقیقی نمائندگی کے اصول پر کار فرما ہوگا، عدالتی نظام عدل و انصاف کا مرقع ہوگا، تعلیمی نظام اعلی اخلاقی اقدار کا حامل ہوگا اور دفاعی نظام مضبوط تر ہوگا صرف یہی نہیں بل کہ مکمل معاشرتی امن و سلامتی اور انفرادی و اجتماعی مفادات کا تحفظ بھی اسی میں مضمر ہے۔
ہمارے معاشرہ میں پائی جانے والی کرپشن، لوٹ کھسوٹ، رشوت، ڈاکا زنی ، زنا کاری وغیرہ سب کی سب ظلم و ناانصافی کی مختلف صورتیں ہیں۔ ملکی سلامتی، معاشرتی امن اور معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص انصاف پرور بنے اور اہل عدل کا ساتھ دے ۔ خود ظلم کرنے سے بچے اور ظالموں کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ کیوں کہ منشاء ایزدی یہی ہے کہ ہر انسان عاد ل و مصنف ہونے کے ساتھ انصاف پرور بھی ہو۔
(آس محمد مصطفوی)
قرآن کریم میں بار بار عدل و انصاف کرنے کی تلقین کی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ، ''بے شک اﷲ تعالی عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔'' (النحل16:90) اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے کہ عدل کرو جو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ (المائدہ5:8)
تو گویا جو شخص جتنا بڑا منصف ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ تقوٰے کی منازل طے کرکے اﷲ تعالی کا قرب حاصل کرے گا۔
'' اے ایمان والو! تم انصاف کرنے میں خواہش نفس کی پیروی نہ کرو'' (النساء 135:4) لہٰذا انسان کی ذاتی منشا چاہے جو بھی ہو مگر انصاف ہمیشہ قرآن و سنت کی واضح ہدایات کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ بے شک اﷲ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کردو اور جب بھی لوگوں کے مابین فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ (النساء 58:4)
عدل کی دھجیاں اڑانے والوں کے لیے اﷲ رب العزت نے قرآن کریم میں سخت وعید کا اعلان فرمایا ہے، ''جو لوگ اﷲ تعالی کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی کافر ہیں'' (المائدہ 5:44)
''جو لوگ اﷲ تعالی کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں۔'' (المائدہ 5:44)
''جو لوگ اﷲ تعالی کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ فاسق ہیں۔'' (المائدہ 5:47) یعنی جو لوگ اﷲ رب العزت کے بیان کردہ واضح احکامات و ہدایات کو پس پشت ڈال کر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ لوگ کافر، ظالم اور فاسق ہیں۔ اتنی سخت وعیدیں، اﷲ تعالی اپنی پناہ میں رکھے اور دنیا و آخرت میں ہر قسم کے نقصان و خسارے سے محفوظ فرما کر عدل و انصاف کی فراوانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
شومی قسمت کہ اتنی سخت تہدید کے باوجود آج ظالم بننے کو باعث افتخار اور عادل بننے کو باعث رسوائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہم اس معاشرہ میں اس تلخ حقیقت کے ساتھ زندہ ہیں کہ یہاں پر ظالم اور منافق شخص کو عزت و تکریم سے نوازا جاتا ہے جب کہ انصاف پسند اور حقیقت شناس انسان کو ذلت و اہانت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ظلم بالائے ظلم کہ جو عدل و انصاف کی مسند پر براجمان ہیں یا جو انصاف دلانے کے علم بردار ہیں وہی آئے روز انصاف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
حدیث شریف میں بیان کردہ برائی کو ختم کرنے کے تین طریقے اس با ت کے متقاضی ہیں کہ کسی بھی صورت ظلم کو نہ تو پسند کرنا ہے اور نہ ہی کسی طور اس میں حصہ دار بننا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دوسروں سے انصاف کا تقاضا کرنا اور خود ظلم کرتے رہنے سے کبھی بھی عدل و انصاف کا ماحول پروان نہیں چڑھتا۔
یہاں اس بات کو ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ ہر اسلامی و غیر اسلامی معاشرے کی بقا و ترقی کا انحصار عدل و انصاف پر ہوتا ہے۔ عدل کرنے والے معاشرے میں ہر شخص کی جان، مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوتی ہے، جس کی بنا پر ہر شخص اپنے فرائض منصبی خوش دلی و سکون سے سرانجام دیتا ہے۔ کیوں کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ کوئی شخص نہ تو اس کی حق تلفی کرے گا اور نہ ہی کسی سلسلے میں اس سے امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔ نتیجتا ملک میں داخلی امن و سلامتی پیدا ہوجاتی ہے اور معاشرہ خوب ترقی کرتا ہے۔ لیکن جس ملک سے عدل و انصاف ناپید ہوجائے تو اس معاشرے کا انجام تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ہر شخص کو ہر وقت حق تلفی کا کھٹکا رہتا ہے، لہٰذا وہ نہ تو دل جمعی سے کوئی تعمیری کام کرتا ہے اور نہ ہی اپنے فرائض خوش دلی و تن دہی سے سرانجام دیتا ہے بل کہ الٹا ہر وقت بدلہ لینے کے لیے دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ یہی حال ہمارے پیارے ملک پاکستان میں رہنے والے کچھ لوگوں کا بھی ہے، جو ہر وقت اپنے حقوق کے لیے ملک و قوم کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے جب کہ اگر کوئی ان سے ان کے فرائض کی ادائی کی بات کرے تو ظلم و تشدد کرنے کو دوڑتے ہیں۔
ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدل و انصاف کو اپنائے کیوں کہ اس کے سبب ہی حقیقی معنوں میں، وطن عزیز کا معاشرتی نظام اخوت و بھائی چارے پر مبنی ہوگا، معاشی نظام مساوات کا آئینہ دار ہوگا، سیاسی نظام اخلاص اور حقیقی نمائندگی کے اصول پر کار فرما ہوگا، عدالتی نظام عدل و انصاف کا مرقع ہوگا، تعلیمی نظام اعلی اخلاقی اقدار کا حامل ہوگا اور دفاعی نظام مضبوط تر ہوگا صرف یہی نہیں بل کہ مکمل معاشرتی امن و سلامتی اور انفرادی و اجتماعی مفادات کا تحفظ بھی اسی میں مضمر ہے۔
ہمارے معاشرہ میں پائی جانے والی کرپشن، لوٹ کھسوٹ، رشوت، ڈاکا زنی ، زنا کاری وغیرہ سب کی سب ظلم و ناانصافی کی مختلف صورتیں ہیں۔ ملکی سلامتی، معاشرتی امن اور معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص انصاف پرور بنے اور اہل عدل کا ساتھ دے ۔ خود ظلم کرنے سے بچے اور ظالموں کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ کیوں کہ منشاء ایزدی یہی ہے کہ ہر انسان عاد ل و مصنف ہونے کے ساتھ انصاف پرور بھی ہو۔
(آس محمد مصطفوی)