فلوجہ سے مدینہ منورہ تک

آج سے تقریباً دو برس سے کچھ زیادہ عرصہ گزرا کہ عراق کے ایک بڑے شہر فلوجہ پر داعش نے بڑی سرعت سے حملہ کیا

anisbaqar@hotmail.com

آج سے تقریباً دو برس سے کچھ زیادہ عرصہ گزرا کہ عراق کے ایک بڑے شہر فلوجہ پر داعش نے بڑی سرعت سے حملہ کیا اور ایک ہفتہ بھی مشکل سے گزرا ہوگا کہ یہ عسکریت پسند حملہ آور اس شہر پر قابض ہوگئے۔ پھرکیا تھا بازار قتل و غارت گری سجایا گیا، مخالف عقائد کے لوگوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس فوج میں فکری جدت پسندی اورعسکری شدت پسندی نمایاں تھی جب کہ اسلام سلامتی کا دین ہے۔ ایک لبنانی تجزیہ نگارکے نے اس تنظیم کو اسرائیل کے نیتن یاہوکی کاوشوں کا نتیجہ قراردیا ہے ۔

اگراس تجزیے کو ہم پرکھنا چاہیں تو واقعی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ داعش نے ایک گولی بھی اسرائیل کے خلاف نہیں چلائی۔ اس تنظیم کو جو خودکو دعوت اسلامی کے نام سے بھی نوازتی ہے اس کا ہدف صرف مسلم ہیں یا اکادکا واقعاتمغربی ممالک میں جہاں زیادہ تر آبادی عیسائی ہے ۔اس کا مقصد دہشت پھیلا کر خلق خدا کی نظروں میں اسلام کو بدنام کرنا ہے کیونکہ انھوں نے جس طرح عراق میں اپنی حکومت قائم کی، تیل کی دولت پر قابض ہوئے اور جنگ کرتے رہے، اپنے سیاہ جھنڈے پر اللہ اور رسول کا نام لکھ کر خلق خدا میں اسلام کے نام کو گمراہ کن طریقے سے استعمال کرنا اور انھی ملکوں کو اپنا ہدف کامل بنانا جہاں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں۔

افریقی ممالک میں بوکوحرام نامی تنظیم جس نے ایک اسکول سے دو ڈھائی سولڑکیاں غائب کردیں اور وہاں بھی اسلام کا پاکیزہ نام استعمال کیا گیا ،کیونکہ آنحضرت نے رنگ اور نسل کی بنیاد پر برتری قرار نہیں دی بلکہ کردارکی بنیاد پر برتری قرار دی۔ حضرت بلال حبشیؓ کو اعلیٰ مقام اور فضیلت عطا کی اور امریکا میں سیاہ فام خصوصی طور پر رسول اکرمؐ کے اقوال اورکردار سے متاثر ہوکر اسلام قبول کررہے تھے مگر اسلام کے نام پر بلاجواز قتال نے لوگوں کے مسلمان ہونے کے عمل میں رکاوٹ ڈال دی ہے اور اسرائیلی انتہا پسندوں کواس تنظیم سے خاصی تقویت مل رہی ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم نے دبے الفاظ میں ان کی حمایت بھی کرتے ہیں۔

اس تنظیم نے اسلام کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دیا اور اسلام کے موجودہ مسالک میں تفریق کے عمل کو بڑھایا۔ عراق میں سنی، شیعہ تفریق کوبڑھانا چاہا جیساکہ بظاہر بعض سیکولر حکومتیں شیعہ، سنی کے مابین اختلاف چاہتی تھیں۔ اس تنظیم نے سعودی عرب کے بعض شہروں میں شیعہ مساجد پرحملے بھی کیے مگر وہاں بھی عوامی سطح اورحکومتی سطح پر ان کو اچھا نہ سمجھا گیا اور تفریق اور تقسیم کا عمل آگے نہ بڑھ سکا مگر ابھی بھی تیل کی آمدنی اوراسلام دشمن قوتوں کی مدد سے داعش فکری طور پر زیادہ کمزور نہیں ہوئی ہے ۔ عراق کے شہر فلوجہ میں شیعہ سنی اتحاد قابل دید طور پر دیکھا جاسکتا ہے جہاں عراقی فوج اور شیعہ ملیشیا نے مل کر داعش کو فلوجہ سے بھگادیا ۔ اس موقعے پر عوام کا اتحاد دیکھنے میں آیا۔ ایک طرف داعش اسلام کا نام لیتی ہے جب کہ وہ ملت اسلامیہ میں اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے سرگرم ہے۔

اب البتہ مغربی میڈیا نے داعش کی ہلکی برائی شروع کی ہے کیونکہ ان لوگوں سے جو لوگ فاصلے پر تھے ازخود مغربی ممالک میں بھی تخریبی کارروائیاں کیں۔ گزشتہ 5-4 ماہ میں مغربی دنیا کے میڈیا ان لوگوں کے خلاف ہوگئے ہیں کیونکہ ازخود دور رہنے والے نوجوان جرمنی، فرانس، بیلجیم میں تخریبی کارروائیاں کرنے لگے تو مغرب اورامریکا کا سیاسی زاویہ نگاہ بھی بدلنے لگا۔ فلوجہ کی جنگی کارروائی میں داعش کی شکست میں امریکا نے خود اپنی حمایت جاری رکھنے کا دعویٰ کیا جب کہ عراق میں کشت وخون کا آغاز امریکی اسٹیبلشمنٹ نے 2003 میں شروع کیا اور (Regime Change) رجیم چینج کا نعرہ صدر بش سے لگوایا گیا یعنی غیرملکی حکمران باہر بیٹھ کر یہ کہنے لگے کہ فلاں حاکم رکھیں گے اور فلاں کو نہیں رکھیں گے۔


صدر بش کے بعد بھی یہی طرزعمل صدرمعمر قذافی کے لیے جاری رکھا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں بھی داعش تیل پر قابض ہوگئی اورلیبیا ایک بے لگام ملک ہوگیا جس کو امریکی حکومت نے خود تسلیم کیا ۔ ہیلری کلنٹن نے میڈیا پر اپنی غلطی کا اعتراف کیا مگر عراق کے معاملے پر زبان ابھی تک بند ہے کیونکہ عراق پر امریکا کی مکمل سیاسی حکمرانی نہ چل سکی اور مسالک کی تقسیم جس درجہ مغرب کے ممالک بشمول امریکا چاہتا تھا وہ نہ ہوسکی کیونکہ شیعہ سنی مناقشہ اسلام کے لیے انتہائی خطرناک اور خانہ جنگی کا سبب بن سکتا ہے اور اسلام کی قوت میں کمی آسکتی ہے وہ نہ ہوا۔

داعش مسلک کے لحاظ سے خود کو سنی قرار دیتی ہے مگر اس کا دعویٰ گمراہ کن ہے کیونکہ اہلسنت کے چاروں طبقے متفقہ طور پر داعش (آئی ایس آئی ایس) سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے، ابھی حالیہ دنوں میں خصوصاً فلوجہ رمضان المبارک کے آخری ایام میں داعش کو شکست ہوئی لہٰذا ردعمل بھی عجیب وغریب نظر آیا۔ بغداد میں تاریخ کے 2 بہت بڑے دھماکے ہوئے جن میں تقریباً سوا دو سو افراد شہید ہوئے اورکئی سو زخمی ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ بغداد کے ایک بہت بڑے شاپنگ سینٹر میں ہوئے جس میں عورتیں، بوڑھے اور بچے خصوصیت سے اور گھرکے کفیل شہید ہوئے۔ عید کی خوشیاں دو روز قبل خاک میں مل گئیں۔

آخر یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ ان کے مقاصد کیا ہیں ، ابھی تک تو صورتحال واضح نہ تھی کہ یہ تنظیم کس راستے پر چل رہی ہے مگر 28 رمضان کی افطار کے وقت جو عمل سعودی عرب میں کیا گیا ہے اس سے اس کے مقاصد اور نظریات واضح ہوگئے ہیں۔ مدینہ منورہ جیسی مقدس جگہ کو بھی انھوں نے نہیں چھوڑا، مسجد نبوی سے کچھ فاصلے پر خودکش دھماکا کیا گیا جس میں سیکیورٹی کے چار افراد شہید ہوئے۔ قطیف میں مسجد کے باہر ایک دھماکا کیا گیا، اصل میں یہ تنظیم خود کو اسلامی کہتی ہے مگر حرمت رسول سے واقف نہیں۔ جو رحمت بن کر عالم میں آئے مگر اپنے پرچم پر رسول کا نام لکھ کر دنیا کو فریب دینے کے لیے یہ سرگرداں ہیں اور سادہ لوح کم علم لوگوں کو یہ گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

سن 2003 میں امریکا کا حملہ عراقی فوج کو تباہ کر بیٹھا لہٰذا عراق کا بڑا علاقہ ابھی بھی آئی ایس کے قبضے میں آنا تھا مگر رفتہ رفتہ ان کی سیاسی قوت کمزور ہورہی ہے مگر مسلم ممالک میں چھوٹے چھوٹے پاکٹ بنانے کا ان کا عمل جاری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں لوگوں کو انصاف، عدل، معاشی انصاف، عوام کو نصیب نہیں ہے اس لیے وہاں کے سادہ لوح اورکم فقہی علم والے جوان ان کے نعروں کے فریب میں آجاتے ہیں، پہلے ترکی پھر ڈھاکا میں ازخود کچھ لوگوں نے اس تنظیم سے رابطہ کیا اور استعمال ہوئے ان خودکش حملہ آوروں کو یہ درس دیا جاتا ہے کہ خودکش حملے میں ایک لمحہ بھی تکلیف کا نہیں ہوگا، تم ادھر پھٹے اور حوریں تمہارے استقبال کو آئیں گی، اسی لیے عام طور پر نوجوانوں کو اس مشن پر تیارکیا جاتا ہے۔

درحقیقت خود کش بمبار تامل ٹائیگر کی ایجاد ہے جس کو گمراہ مذہبی ٹولے نے اپنالیا۔ پربھا کرن نے یہ خیال دنیا میں عام کیا اور اپنی جدوجہد کو بھی تباہ کیا اسی طرح چند برس اور لگیں گے مگر جنگ کی یہ کاری گری دیرپا نہیں رہے گی۔ شعور اورمذہب کا صحیح علم ان کو راہ راست پر جلد لوٹا دے گا مگر مسلمان اکثریتی ممالک کے حکمرانوں کو اسلامی عدل اورمعاشی مساوات کے نظام کو بھی رائج کرنا ہوگا۔
Load Next Story