فسادات کے دوران وہ پہنچ کر فائرنگ روکنے کی اپیل کرتے اور فائرنگ رُک جاتی تھی

شدید فائرنگ میں بھی لاشوں کو اٹھانے اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے تک وہ ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔

پاکستان کے سرمایۂ افتخار عبدالستارایدھی کے ساتھی ان کی یادوں کے چراغ جلاتے ہیں - فوٹو : فائل

عبدالستار ایدھی انسانیت کا دوسرا نام تھا، شہر قائد کی ہزاروں لاشیں اسی انسان دوست کے ہاتھوں سپرد خاک ہوئیں، اس سائباں جیسے انسان نے لاکھوں بے گھروں کو رہنے کے لیے ٹھکانا فراہم کیا۔ انسانیت کی خدمت سے سرشار اس مسیحا نے اپنے ہاتھوں کتنی ہی میتوں کو غسل دے کر سفر آخرت کے لیے تیار کیا۔ یہی وہ مسیحا تھا جس نے ایک طرف یتیم بچوں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا تو اولاد کی جانب سے دھتکارے گئے بوڑھے والدین کو ان کی عزت نفس متاثر کیے بنا سائبان فراہم کیا۔



اس کی مسیحائی کسی مخصوص مذہب، فرقے، زبان ذات تک محدود نہ تھی۔ وہ انسانیت کے لیے ایک روشن ستارہ تھا۔ وہ مسیحائی کا استعارہ تھا۔ گو کہ یہ ستارہ اب بجھ چکا ہے لیکن اس کی پھیلائی ہوئی روشنی ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کو منور کرتی رہے گی۔ اس ستارے کی روشنی خدمت انسانیت کے لیے اتنی ہی بے کراں اور روشن ہے جتنی آسمان پر کسی ستارے کی۔ عبدالستار ایدھی کی موت نے جہاں دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کو رنج و الم میں مبتلا کردیا ہے وہیں ایدھی فاؤنڈیشن میں ان کے ساتھ کام کرنے والے بھی غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہم سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالستارایدھی کی دمکتی مہکتی یادوں کو تازہ کیا۔ یہ گفتگو قارئین کے لیے پیش ہے۔

٭امان اللہ
سہراب گوٹھ پر واقع ایدھی سردخانے کے نگراں اور سرکل انچارج امان اللہ کی 28سال کے زاید عرصے تک عبدالستار ایدھی سے رفاقت رہی۔ انہوں نے ایدھی صاحب کے ساتھ اندرون و بیرون ملک بہت سی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ ایدھی کو دیکھ کر ان میں لوگوں کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوا۔ امان اللہ کا کہنا ہے، 'ایدھی صاحب سے بہت قربت رہی۔ ان سے ایک دلی رشتہ تھا۔ 1987سے آج تک اتنا عرصہ بیت جانے کے باوجود کبھی بھی انہیں چھوڑ کر کسی اور ادارے میں ملازمت کا خیال تک ذہن میں نہیں آیا اور یہ ان کی محبت تھی۔

میں نے اتنے طویل عرصے کی رفاقت میں انہیں مالک کم بڑا بھائی اور دوست زیادہ پایا۔ ان کے ساتھ لبنان اور افغانستان میں جنگ سے متاثر ہونے والے لوگوں کے لیے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس دوران ایسے کئی واقعات پیش آئے جن سے میرے دل میں ایدھی صاحب کے لیے عزت و احترام میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا۔ افغانستان لبنان میں ہونے والی جنگ کے دوران ایدھی صاحب کے ساتھ کام کرکے ہی میں نے سیکھا کہ درحقیقت انسانیت ہے کیا؟ زلزلہ ہو یا سیلاب، جنگ ہو یا لسانی یا فرقہ ورانہ فسادات انسانیت کی خدمت کے لیے وہ ہر جگہ آگے آگے ہوتے تھے۔

لبنان میں ہونے والی جنگ میں تو ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا ہم نے متاثرین جنگ کے لیے امدادی کیمپ لگایا۔ ایدھی صاحب نے متاثرین کے لیے اشیائے خورونوش کی تلاش شروع کردی۔ جنگ کی وجہ سے زیادہ تر دکانیں تباہ ہوچکی تھیں یا لوگ انہیں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے۔ بیروت کے ایک مضافاتی علاقے میں انہیں ایک بیکری کھلی ہوئی نظر آئی۔



ایدھی صاحب نے دکان کے مالک سے کہا کہ ہمیں بیکری میں موجود تمام اشیا خریدنا ہیں، دکان دار ایدھی صاحب کو نہیں جانتا تھا۔ اسی لیے اس نے ان کی بات کو مذاق سمجھ کر ہنسنا شروع کردیا۔ لیکن جب ایدھی صاحب نے اپنا تعارف کرایا تو وہ بہت متاثر ہوا اور تمام اشیاء انتہائی ارزاں نرخ پر ہمیں فروخت کردیں۔ یہ تمام اشیا ہم نے متاثرین میں تقسیم کردیں۔ اسی طرح جب سوات میں آپریشن چل رہا تھا کرفیو کی وجہ سے وہاں کے اسپتالوں میں ادویات کی قلت پیدا ہوگئی تھی اور ایدھی صاحب نے پیدل گھوم کر اہم ادویات خرید کر سوات کے اسپتالوں میں عطیہ کیں۔



قدرتی آفات یا سانحات میں انسانی جانوں کا ضیاع انہیں رنج میں مبتلا کردیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سانحہ بلدیہ ہو یا سانحہ کارساز، سیلاب ہو یا زلزلہ ایدھی صاحب زخمیوں کی اسپتال منتقلی، متاثرین کے لیے ادویات اور کھانا فراہم کرنے کے لیے اس وقت تک بھاگ دوڑ کرتے رہتے تھے جب تک ایک ایک فرد تک امدادی سامان نہ پہنچ جائے۔ ان کی اپنے کام سے لگن اور جذبہ دیکھ کر ہم بھی تازہ دم ہوجاتے اور ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ امدادی کام تیز کردیتے تھے۔ لیاری میں ہونے والی گینگ وار ہو، اورنگی میں ہونے والے لسانی فسادات، شدید فائرنگ اور جلاؤ گھیراؤ میں بھی ایدھی صاحب خود متاثرہ علاقے میں پہنچ کر زخمیوں کو اسپتال منتقل کرتے تھے۔

اور یہ ان کی کرشماتی شخصیت کا کرشمہ تھا کہ ہر فرد چاہے وہ گینگ وار کا حصہ ہو یا لسانی اور سیاسی فسادات برپا کرنے والی تنظیموں کا حصہ، وہ سب کے سب ایدھی صاحب کا بہت احترام کرتے تھے۔ جب ایدھی صاحب خراب حالات میں کسی علاقے میں جاتے اور متحارب گروپوں کو پتا چل جاتا کہ ایدھی صاحب خود اس علاقے میں موجود ہیں تو وہ لاشوں اور زخمیوں کی منتقلی تک فائرنگ کا تبادلہ روک دیتے تھے۔ کوئٹہ میں ہونے والی فرقہ واریت کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان اور سیلاب متاثرین کے لیےکی گئی کارروائیوں میں ایدھی صاحب کے ساتھ ساتھ رہا۔

ہر بڑے سانحے پر وہ خود وہاں پہنچ جاتے تھے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن نے ایدھی صاحب کو بہت رنجیدہ کردیا تھا۔ طبیعت خراب ہونے کے باوجود انہوں نے لاشوں کو خود غسل دینے، میتوں کو لواحقین کے حوالے کرنے سے لے کر ایدھی قبرستان مواچھ گوٹھ میں تدفین تک کے تما م تر انتظامات کی خود نگرانی کی۔ ہم سب اتنی ساری لاشوں کو غسل دے دے کر تھک چکے تھے۔ اپنے مقصد سے ان سے زیادہ مخلص شخص میں نے اپنی زندگی میں آج تک نہیں دیکھا۔ وہ غلطی کرنے پر ہمیں ڈانٹ ڈپٹ، تنبیہ بھی کرتے تھے، لیکن جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو ڈانٹتا ہے، اسی طرح اس کی ڈانٹ بھی شفقت بھری ہوتی تھی۔ وہ ہماری غلطیوں کو نظرانداز کرکے اس کام کو صحیح طریقے سے کرنے کا طریقہ بھی سمجھاتے تھے۔ وہ بہت جہاںدیدہ آدمی تھے، انسانوں کو اچھی طرح پرکھنا جانتے تھے، وہ بندے کو دیکھ کر ہی بتا دیتے تھے کہ وہ کس کام کے لیے آرہا ہے۔

ان کی اولین ترجیح ہمیشہ عوامی خدمت اور انسانیت رہی۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے اسپتالوں میں معائنے کے لیے آنے والے نادار اور لاوارث مریضوں کی بات کو اولین ترجیح دیتے تھے۔ ان کی ہمیشہ خواہش رہی کہ ایک بھی لاش بے گور و کفن نہ رہے۔ ایدھی صاحب نہ صرف انسانوں سے بل کہ جانوروں سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے جانوروں کے لیے اسپتال بنایا اور انہیں دفن کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ دنیا بھر میں اپنی خدمات کی وجہ سے جانے جانے والے عبدالستار ایدھی کو غرور یا گھمنڈ چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ ان کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کا ہر ملازم برابر تھا۔ ہر ملازم کسی بھی وقت بلاجھجک ان سے مل سکتا تھا۔ وہ ایدھی فاؤنڈیشن کے ہر ملازم کے ساتھ یکساں برتاؤ کرتے تھے۔

ایدھی صاحب کسی بھی ملازم کو نوکری سے برخاست کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو نوکری سے نکال دینا مسئلے کا حل نہیں ہے ہر شکایت کی وہ خود انکوائری کرتے تھے۔ اگر شکایت جائز ہوتی تو وہ تنبیہی نوٹس جاری کردیتے، ملازمت سے نہیں نکالتے تھے، لیکن کرپش میں ملوث ملازم کو وہ کسی صورت برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایدھی فاؤنڈیشن میں آنے والا ایک ایک پیسہ قوم کی امانت ہے اور میں کسی کو اس میں غبن کی اجازت نہیں دے سکتا۔

٭ محمد صفدر
گزشتہ بارہ سال سے ایدھی فاؤنڈیشن میں ڈرائیور کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دینے والے محمد صفدر کا عبدالستار ایدھی کے ساتھ قریبی تعلق رہا۔ محمد صفدر کا کہنا ہے کہ'ایدھی صاحب کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا، ان کے ساتھ پورے پاکستان میں امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا، ان کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ یادگار ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہمیں اپنی اولاد کی طرح رکھا۔ کراچی میں جب حالات زیادہ خراب تھے تو وہ ہماری حوصلہ افزائی کے لیے ایمبولینس میں ہمارے ساتھ متاثرہ علاقوں میں جاتے تھے۔ وہ ہمیں بہت مان دیتے تھے۔



جب اورنگی میں لسانی فسادات عروج پر تھے، لیاری میں گینگ وار عروج پر تھی تو وہ خود میرے ساتھ بیٹھ کر ان علاقوں میں گئے۔ شدید فائرنگ میں بھی لاشوں کو اٹھانے اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے تک وہ ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ وہ ہمارے کھانے پینے سے لے ہر معاملات کا اسی طرح خیال رکھتے تھے جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کا خیال رکھتا ہے۔

بیماری کے باوجود متعدد بار انہوں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ مجھے 2005کے تباہ کن زلزلے میں پہلی بار ان کے ساتھ رہنے ، کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کے ساتھ گزرے وہ لمحات میری زندگی کے یادگار لمحات ہیں۔ وہ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود نوجوانوں کے سے جذبے سے کام کر رہے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہر زخمی کو جلد از جلد طبی امداد مل جائے۔ ان کا بغیر تھکے کام کرنے کا جذبہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتا تھا۔

٭اظہر علی
ایدھی فاؤنڈیشن کے مرکزی کنٹرول روم کے شفٹ انچارج اظہر علی عبدالستار ایدھی کے ساتھ گزرے لمحات کو اپنی پوری زندگی کا اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے'ایدھی صاحب بچپن ہی سے میرے رول ماڈل تھے۔ میری خواہش تھی کہ میں بھی ان کی طرح انسانیت کی خدمت کروں۔ ہمارے محلے میں ایک عمارت کے گرنے کے بعد میری زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ عمارت گرنے کے حادثے میں ان کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کیا۔ بس ایدھی صاحب کے ساتھ گزرے ان چند گھنٹوں نے مجھے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کرنے پر مجبور کیا اور اس کے کچھ ہفتے بعد ہی میں نے ایدھی فاؤنڈیشن میں ملازمت کرلی۔ انہوں نے ہمیشہ بچوں کی طرح رکھا۔ وہ ایک باپ کی طرح ہماری ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔




ان کے ساتھ بہت سی امدادی کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔ وہ ہردل عزیزآدمی تھے۔ ہمہ وقت ہماری راہ نمائی کے لیے موجود رہتے تھے۔ ہمارا اور ان کا مالک اور ملازم کا رشتہ نہیں تھا۔ ہم میں سے کوئی بھی ملازم کسی بھی وقت ان سے مل سکتا تھا۔ ہمارے کنٹرول روم میں آنے والی ستر فی صد فون کالز جھوٹی ہوتی ہیں، لیکن ایدھی صاحب کی ہدایت تھی کہ ہر فون کال پر ایمبولینس روانہ کرنی ہے۔

ہر اٹینڈینٹ تک ایمبولینس پہنچنی چاہیے۔ ہر فرد کو بنیادی طبی سہولیات اور ہر زخمی کو فوری طبی امداد فراہم کرنا ان کی خواہش ہوتی تھی۔ انہوں نے ہمیں ہاتھ پکڑ کر ایک ایک بات سکھائی۔ کسی غلطی پر ڈانٹا بھی تو اس کام کو صحیح طریقے سے کرنے کا طریقہ بھی سمجھایا۔ ان کے ساتھ کام کرنے میں کبھی کسی قسم کی جھجک نہیں ہوتی تھی۔ وہ یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ مالک ہیں اور ہم ملازم۔جب لیاری کے حالات خراب تھے تو اکثر ایسا ہوا کہ کسی لاش کو اٹھانا ہے تو ایدھی صاحب بھی ہمارے ساتھ چل دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ خود کو اور زخمی کو بچاتے ہوئے کام کرنا ہے ۔

٭ محمد بلال
1986سے ایدھی فاؤنڈیشن سے وابستہ اور ہیڈ آفس کے سرکل انچارج محمد بلال نے شہر قائد کے وہ حالات بھی دیکھے ہیں جب سڑکیں خون سے رنگین ہوتی تھیں، اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوتے تھے اور سرد خانوں میں لاشوں کو رکھنے کے لیے جگہ کم پڑ جاتی تھی۔ لیکن ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود وہ خوش دلی سے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے، جس کا محرک وہ عبدالستار ایدھی کی شخصیت کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'زخمیوں کو اسپتال پہنچا نا ہو، یا لاشوں کو مردہ خانے، ایدھی صاحب کے ساتھ تقریباً ہر بڑے سانحے میں کام کیا۔ قدرتی آفات میں ایسا ہوتا تھا کہ ہم سامان بانٹ بانٹ کر تھک جاتے تھے مگر وہ بھیج بھیج کر نہیں تھکتے تھے۔

ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ہر ایک فرد تک امدادی اشیاء پہنچیں۔ پیرانہ سالی کے باوجود خود ہر کام کی نگرانی کرتے تھے۔ کام کے دوران میں نے انہیں کبھی رات کو دو بجے فون کیا، کبھی تین بجے فون کیا، لیکن وہ اس بات کا کبھی برا نہیں مانتے تھے۔ بل کہ وہ خود بھی اسی وقت ہمارے ساتھ چل دیتے تھے۔ انہیں اپنی نیند سے زیادہ عزیز لوگوں کی خدمت کرنا تھا۔'

وہ کہتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں جب کراچی کے حالات بہت خراب تھے، تب بھی ایدھی صاحب کی شخصیت اور ان کی اپنے کام سے لگن ہمیں تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اپنے فرائض سرانجام دینے کا جذبہ پیدا کرتی تھی۔ وہ ہماری حفاظت کے لیے بھی فکر مند رہتے تھے۔ جب انہیں لگتا کہ حالات بہت زیادہ خراب ہیں تو وہ خود ہمارے ساتھ جاتے تھے، اورنگی ٹاؤن میں اور سانحہ علی گڑھ، کے بعد جب حالات بہت خراب ہوئے تو ایدھی صاحب خود ہمارے ساتھ زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے کے لیے جاتے تھے۔



وہ ہم سے یہی کہتے تھے کہ ایک جان کے لیے دو جانوں کو خطرے میں مت ڈالو لیکن اگر کوئی زخمی ہے تو پھر ہمیں لازمی اسے اسپتال پہنچانا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ حالات بہت زیادہ خراب ہیں لیکن ہمیں زخمیوں کو اسپتال پہنچانا ہے تو پھر وہ خود ہمارے ساتھ بیٹھ کر جائے حادثہ پر پہنچ جاتے تھے۔ ایدھی صاحب وہ شخصیت تھے جن کی عزت پورے پاکستان کا ہر فرد کرتا تھا، جب کراچی میں لسانی فسادات عروج پر تھے تو متعدد بار ایسا ہوا کہ ایدھی صاحب خود ہمارے ساتھ گئے اور مساجد میں اعلان کروایا کہ ہمیں لاشیں اٹھانی ہیںاور زخمیوں کو اسپتال پہنچانا ہے، لہٰذا فائرنگ کا سلسلہ بند کیا جائے اور آپ یقین نہیں کریں گے کہ اعلان کے چند ہی لمحوں بعد فائرنگ کا سلسلہ اس طرح بند ہوجاتا تھا جیسے کہ وہاں کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔

کام کے دوران بہت سی غلطیاں بھی ہوئیں لیکن وہ تھوڑی بہت سرزنش کرکے بات کو ختم کردیتے تھے۔ وہ کبھی دل میں کوئی بات نہیں رکھتے تھے۔ ڈانٹنے کے بعد سب کچھ بھول کر اپنے کام میں لگ جاتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں آج تک کبھی ایسا فرد نہیں دیکھا جسے اپنے کام سے اتنی محبت ہو۔ آندھی ہو طوفان، کرفیو ہو لسانی یا فرقہ ورانہ فسادات ایدھی صاحب اپنے دفتر میں موجود ہوتے تھے۔ وہ ہمارے لیے مالک نہیں بڑے بھائی، والد سب کچھ تھے۔ وہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ تھے۔ وہ تمام عمر رنگ ونسل، مذہب، زبان ، فرقہ واریت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے لیے مصروف رہے۔ ان کے نزدیک ہر چیز سے زیادہ مقدم انسانیت تھی۔ ایدھی صاحب بہت اصول پسند اور وقت کے پابند تھے۔

٭کھتری فرید احمد
کھتری فرید نے عبدالستارایدھی کے پرسنل اسسٹنٹ کی حیثیت سے 18سال سے زاید عرصے کام کیا۔ فرید احمد کا کہنا ہے کہ 'وہ ہمارے مالک کبھی نہیں رہے، انہوں نے ہمیشہ بڑے بھائی کی حیثیت سے دوست کی حیثیت سے ہم سے کام لیا، وہ کام کرنے والوں کی قدر کرتے تھے۔ میں نے ذاتی معاون ہونے کی وجہ سے ان کی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھا۔ وہ ایک خوددار انسان تھے۔



ان کی قوت فیصلہ بہت مضبوط تھی۔ وہ بڑے بڑے سے فیصلے بھی چند ہی لمحوں میں کردیتے تھے اور انہیں کبھی اپنے فیصلوں کی وجہ سے نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان میں کام کرنے کی لگن بہت زیادہ تھی، شدید ترین بیماری میں بھی ان کی خواہش یہی ہوتی تھی کہ بس کسی طرح دفتر پہنچ جاؤں۔ انتقال سے کچھ عرصے قبل صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے وہیل چیئر پر بیٹھ کر، تپتی دھوپ میں کراچی کی سڑکوں پر انسانیت کی خدمت کے لیے چندہ جمع کیا۔ ان کی شخصیت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔



یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے پاکستان میں ایک ایسے کام کا بیڑا اٹھایا، جس سے متاثر ہوکر اب بہت سے ادارے انسانی خدمت کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی نیند ، سکون پر انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ آدھی رات کو کوئی حادثہ، سانحہ ہوا اور ایدھی صاحب ہم سے پہلے وہاں پہنچ جاتے تھے۔ ان کے دروازے ہر وقت ضرورت مندوں کے لیے کُھلے رہتے تھے۔ وہ ایک عظیم آدمی تھے، جس نے اپنی تمام تر خواہشات کو انسانیت کے لیے قربان کردیا۔'

٭لطافت حسین
ایدھی فاؤنڈیشن کے سہراب گوٹھ پر واقع سرد خانے میں گذشتہ دس سال سے لاشوں کو غسل دینے والے لطافت حسین کی ایدھی صاحب سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ درحقیقت انہیں ایدھی فاؤنڈیشن کا حصہ بنانے میں براہ راست عبدالستار ایدھی کا کردار ہے۔ اس بابت لطافت حسین کا کچھ یوں کہنا ہے'ایدھی صاحب کے نام اور کام کا تو شروع ہی سے شیدائی تھا، لیکن فکرِمعاش نے کبھی اس نیک کام میں ایدھی صاحب کا ہاتھ بٹانے کی مہلت نہیں دی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے ایدھی فاؤنڈیشن میں ملازمت کا فیصلہ کیا جس کا مقصد روزگار سے زیادہ انسانیت کی خدمت کرنا تھا۔ ایدھی صاحب کے ساتھ گزرے لمحات میری زندگی کے قیمتی لمحات ہیں، میں نے ان کے ساتھ سیکڑوں لاشوں کو غسل دیا۔



ان میں جلی ہوئی، کٹی پھٹی مسخ شدہ لاشیں بھی تھیں۔ ایدھی صاحب ہر لاش کو اسی طرح غسل دیتے تھے جیسے اس سے ان کا کوئی قریبی رشتہ ہو۔ بہت سی لاشیں ایسی بھی آتی تھیں، جن میں کیڑے پڑ چکے ہوتے تھے، مرنے والے کے بچے بدبو کی وجہ سے قریب آنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے، لیکن ایدھی صاحب اپنے ہاتھوں سے لاشوں کی ممکنہ حد تک صفائی کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ مالک ہیں اور ہم ملازم ، وہ مجھ سے ہمیشہ شفقت ہی سے پیش آئے۔ ان کے کردار، شخصیت کی تعریف کرنا سورج کو چاند دکھانے کے مترادف ہے۔ وہ بے مثال خوبیوں کے مالک تھے۔

٭عبدالستار
غسال عبدالستار کا ایدھی صاحب سے 36سال کا ساتھ رہا۔ ایدھی صاحب کے ساتھ گزرے عرصے کی بابت ان کا کہنا ہے، 'ایدھی نرم مزاج کے حامل تھے۔ اتنے عرصے ساتھ رہنے کے باوجود مجھے یاد نہیں کہ کبھی انہوں نے مجھ پر غصہ کیا ہو۔ ان کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ دوسروں کو بھی اپنی بات کا کہنے کا موقع دیتے تھے۔



ان کی بات سمجھتے تھے۔ طویل عرصے کی رفاقت میں انہوں نے کبھی مجھے ملازم ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ وہ ہر کسی کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔ ہمارے ساتھ کام کرلیا، کھانے کا وقت ہوا تو ہمارے ساتھ ہی روکھی سوکھی کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہ عاجزی اور انکساری کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ غسل کے لیے آنے والی لاش کو غسل دینے میں کبھی بھی خوف یا کراہیت کا اظہار نہیں کیا۔ بعض اوقات ایسی لاشیں بھی آتی تھی کہ بدبو کی وجہ سے اس کے پاس ایک لمحے کھڑا ہونا بھی دوبھر ہوتا تھا، لیکن وہ ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر اپنے ہاتھوں سے اس لاش کو غسل دیتے تھے۔

وہ مالک تھے، اگر وہ چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ اس لاش کو غسل تم لوگ دو، لیکن میں نے 36سال کے عرصے میں کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی لاش کو غسل دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہو۔
Load Next Story