کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران اویس شاہ اغوا سے متعلق رپورٹ پیش

اس طرح سندھ حکومت چل رہی ہے، جسے چاہیں پے رول پر رہا کردیا جاتا ہے، عدالت کا اظہار برہمی

اس طرح سندھ حکومت چل رہی ہے، جسے چاہیں رہا کردیا جاتا ہے، عدالت کا اظہار برہمی. فوٹو: فائل

سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ کے اغوا سے متعلق رپورٹ پیش کردی گئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری سندھ نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے اویس شاہ کے اغوا سے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ ایس ایس پی محمد فاروق کے خلاف کارروائی کے لئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی گئی ہے اور کمیٹی کے پاس 19 جولائی تک سفارشات دینے کا وقت ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ایس پی کلفٹن اور دیگر افسران اب تک وردی میں کیوں ہیں جس پر کمرہ عدالت میں موجود آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ غفلت برتنے پر ایس پی ، اے ایس پی اور ایس ایچ او کلفٹن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے جب کہ ڈی آئی جی ایسٹ نے تحقیقات کے بعد کارروائی کی سفارش کی ہے۔

جسٹس گلزار نے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ جب اویس شاہ کے اغوا کی خبر آئی تو تمام راستے بند کیوں نہیں کیے گئے جس پر آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ جن افسران کو واقعہ کا علم ہوا انہوں نے مجھے بروقت نہیں بتایا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف کتابی باتیں کر رہے ہیں اور آپ کتابی آئی جی نہیں ہیں۔


دوران سماعت آئی جی سندھ نے موقف اختیار کیا کہ ون فائیو مددگار کا ریکارڈنگ سسٹم کئی ماہ سے خراب ہے اور ون فائیو مددگار کے سربراہ ایس پی اسد کے خلاف کارروائی بھی شروع کردی ہے جس پر جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ کوئی چیز صحیح بھی ہے، ایک این جی او کے کال سینٹر کا ریکارڈنگ سسٹم ٹھیک ہے مگر سرکار کی کوئی چیز ٹھیک نہیں۔

سماعت کے دوران چیف سیکریٹری نے پیرول پر ملزمان کو رہا کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ سزا یافتہ مجرموں کی رہائی کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی ہے تاہم عدالت نے پیرول کمیٹی کے سربراہ نیاز عباسی کی رپورٹ پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ بتائیں کس قانون کے تحت ملزمان کو پیرول پرچھوڑا جاتا ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ سزا یافتہ مجرم کو چھوڑدیا جائے، جسٹس گلزار احمد نے پولیس افسران سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کسی افسر کو قانون کا علم نہیں، کیا آپ کو الف، ب کا قاعدہ پڑھائیں، اس طرح سندھ حکومت چل رہی ہے، جسے چاہیں رہا کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ 4 سزا یافتہ قیدیوں کو چھوڑا گیا تھا ان میں سے 3 کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر پولیس کی بھاری نفری کی تعیناتی پر بینچ نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ آئی جی صاحب اتنی پولیس کیوں کھڑی ہے جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ عدالت اور ججز کی سیکیورٹی کے لئے پولیس آئی ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ہدایت کی کہ پولیس فوری طور پر ہٹا دیں اور راستہ کھولیں، لوگوں کو سپریم کورٹ آنے دیں۔ اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ پولیس اورعوام میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں، لوگ تھانے جاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔

Load Next Story