آفاقی اصول
سورج مشرق سے طلوع ہوتاہے۔ایک خاص زاویہ پرموجودرہتاہے
قدرت کے اصول کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتے۔کسی شخص کے لیے،نہ کسی مذہب کے لیے اورنہ کسی ملک کے لیے۔یہ اٹل نہیں بلکہ اس درجہ مستقل ہیں کہ ہزاروں برس کی انسانی تاریخ میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بدلے۔ان اصولوں کی نفی یا گریزغیرمعمولی طورپرنقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ قدرتی اصول انتہائی سادہ سے ہیں۔ انکو پہچاننے یابیان کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن نہ پہچاننے میں حددرجہ پیچیدگی ہے۔
سورج مشرق سے طلوع ہوتاہے۔ایک خاص زاویہ پرموجودرہتاہے۔اس کے اردگردہماری زمین ایک مخصوص طریقے سے حرکت میں رہتی ہے۔سورج مغرب میں غروب ہوجاتاہے۔انتہائی نازک زاویہ سے پوری کائنات گردش میں ہے۔اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔بالکل اسی طرح انسانوں اورملکوں کے داخلی معاملات ہیں۔انسانی شعورنے اصل ترقی صنعتی انقلاب اور اس کے بعدوالے دور میں کی ہے۔ سوسے ڈیڑھ سوسال کے مختصرسے دورنے انسانی سوچ کو اتنا تبدیل کیاجسکی مثال پچھلے ہزاروں سالوں میں نہیں ملتی۔ تبدیلی ہرگزہرگزتکلیف سے مبرانھیں تھی۔ قدم قدم پربے مثال انسانی قربانیاں اور جدوجہد شامل ہے۔جس اکیسویں صدی میں ہم سانس لے رہے ہیں،وہ بنیادی طورپرصنعتی انقلاب کے بعدوالی تبدیلیوں کی مرہون منت ہے۔جن قوموں نے یہ پہچان رکھاہے،پوری دنیاان کے قدموں میں ہے۔ حقیقت یہی ہے اور تلخ حقیقت ہے۔
مختلف قوموں نے عظیم جدوجہدکے بعدآزادی کی دہلیزپرقدم رکھا۔یہی لمحہ تھاجس میں انھیں قائدین کی ضرورت تھی جوقدرت کے پایندہ اصولوں کے مطابق اپنی قوم کوترقی کرنے میں مددکرتے۔بیسویں صدی کے آغاز میں کئی نئے ممالک وجودمیں آئے۔ سنگاپور، ملائشیاء، چین، جنوبی کوریا، نیپال، برما اور دیگرریاستیں۔کسی تعصب کے بغیران ممالک کے موجودہ حالات دیکھیے۔دوبارہ عرض کرونگاکہ ان میں مسلم اورغیرمسلم کی کوئی تفریق نہیں۔ سنگاپورکولے لیجیے۔تقریباًہمارے ساتھ آزادہونے والا ملک،اس وقت ایشیاء کاسب سے ترقی یافتہ خطہ ہے۔کسی حوالے سے بھی نظرڈالیے۔جرائم مکمل طورپرختم ہوچکے ہیں۔انصاف کامثالی نظام موجودہے۔ایک ایسانظام جسکودیکھ کرآپ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔
صحت اورتعلیم کے شعبے قابل رشک ہیں۔ملائشیااس سے قدرے پیچھے ہے۔مگرنسلی بنیادپرتقسیم شدہ ملک نے ایک آئینی معاشرتی معاہدہ مرتب کیاہے جسکی بنیادپر تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ چین کے متعلق بات کرناویسے ہی عجیب سالگتاہے کیونکہ ان کی بے مثال ترقی کی عمرتوصرف تیس برس ہے۔بھرپورتوجہ اپنے ملک کی جانب مبذول کرواناچاہتاہوں۔تکلیف سے گزارش کررہاہوں کہ ہم نے بحیثیت قوم قدرت کے اصولوں کے خلاف رویہ اپنالیاہے۔بخوبی علم ہے کہ کس شاہراہ کے مسافرہیں لیکن ہمیں یقین دلایاجارہاہے کہ کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ہرچیزٹھیک رہے گی۔طالبعلم کی دانست میں یہ رویہ ہمیں داخلی طورپرختم کرچکاہے۔سچ یہ بھی ہے کہ دنیاکے جس حصے میں ہم زندہ ہیں،یہ تاریخ اور حال کے کسی بھی دورمیں علم دوست یاتحقیقی رویے کا مالک نہیں رہا۔ہم ایسٹ انڈیاکمپنی کوہزارگالیاں دیں۔ برطانوی سامراج کوبرابھلاکہیں۔لیکن ذرا دیکھیے کہ اگروہ نہ آتے، اوریہاں وہی بادشاہت یانسلی حکومتیں رہتیں،توہم کس حال میں ہوتے۔سوچتے ہوئے بھی خوف سامحسوس ہوتاہے۔
کوئی مشکل بات نہیں کرناچاہتا۔سادہ سے حقائق ہیں۔قدرت کابنیادی اصول "انصاف" ہے۔ہم اس کلیے سے انحراف کرتے ہیں۔مختلف دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں کہ ہم انصاف پسندلوگ ہیں۔اپنے نظام میں انصاف کوریڑھ کی ہڈی سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقت بالکل برعکس ہے۔
اداروں سے نکل کر انصاف کوسماج میں تلاش کرنے کی کوشش بھی کرلیجیے۔خواتین کوآج بھی برابری کے دنیاوی یادینی اصولوں کے مطابق مقام حاصل نہیں۔امیرترین یا غریب ترین خاندانوں کودیکھ لیجیے۔ جائیدادکااصل وارث بیٹاہی ہوگا۔بیٹی کوآج بھی خدمت،قربانی اوروفاشعاری کے ڈبہ میں مقیدکرکے اس کے انسانی وجودکی نفی کردی جاتی ہے۔سیکڑوں لوگوں کوجانتاہوںجوکہ انتہائی اصول پسند کہلوائے جاتے ہیں،مگرجہاں لڑکیوں کامعاملہ آئے، ان کے رویہ بالکل اسی طرح کے ہوتے ہیں جیسے ایک غیرتہذیب یافتہ انسان کے۔شہرکے ایک رئیس چندسال پہلے کہنے لگے کہ فیکٹری تواپنے بیٹے کودے دونگا،ہاں،بیٹی کوایک گھر بنادونگا۔معاملہ ٹھیک ہوجائیگا۔ہم اتنے مشکل لوگ ہیں کہ اپنے گھرکی بچیوں کوشادی میں اپنی مرضی کاحق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگرکوئی خاتون پڑھ لکھ کرانصاف مانگنے کی کوشش کرے تونتائج بہت بھیانک ہوسکتے ہیں۔
دوسال پہلے میرے پاس لندن سے ایک دوست تشریف لائے۔ لاہور سے منسلک ایک خاتون وکیل اورسماجی کارکن کی اتنی برائی کی کہ میں پریشان ہوگیا۔ کہنے لگے کہ وہ ایک بیرونی ایجنٹ ہے۔ غداراورملک دشمن ہے۔ اس کا ایجنڈاہی ملک کونقصان پہنچاناہے۔میں وکیل خاتون اور ان کے شوہرکونزدیکی طور پر جانتاتھا۔وہ خاندان عملی اورذاتی زندگی میں انتہائی شاندار لوگ تھے اور ہیں۔دیرتک سوچتارہاکہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ یہی سمجھ میں آیاکہ وہ سماجی اورقانونی کارکن، خواتین کو انصاف دلوانے کی مکمل کوشش کرتی ہیں۔ اکثرناکام ہوجاتی ہیں۔مگرکبھی کبھی کامیاب بھی رہتی ہیں۔انکااصل قصور صرف اورصرف یہی ہے کہ مردوں کے کنٹرول شدہ معاشرے میں کمزورفریق کاساتھ کیوں دے رہی ہیں۔ اگر قدرت ہم سے چندلمحے انصاف نہ کرے اورکشش ثقل کے اصول کوناپیدکردے تواربوں لوگ چند سیکنڈوں میں ختم ہوجائینگے۔معاشروں میں انصاف کی یہی اہمیت ہے۔ معاملہ صرف اورصرف ادراک کاہے۔
قدرت کے ایک اوراصول" نظم وضبط" کی طرف آئیے۔پوری کائنات اسی کلیے کے تحت کام کرتی ہے۔ بارش سے محض پانی ہی برستاہے اورآگ ہر چیز کو خاکستر کرنے پرقادرہے۔کیاواقعی بحیثیت قوم ہمارااس قیمتی قانون سے کسی قسم کاکوئی واسطہ ہے۔قطعاًنہیں ہرگز نہیں۔ 1947ء میں جب ملک وجودمیں آیاتواس علاقے نے اٹھارہ سے بیس لاکھ انسانوں کوتہہ تیغ ہوتے دیکھا۔لوگوں نے ایک دوسرے سے جانوروں سے بدترسلوک کیا۔ مذہبی منافرت نے انسانوں سے ہروہ کام کروایاجسے انسانیت سوز کہنابہت معمولی لفظ ہے۔نظم وضبط، نہ ذاتی حیثیت میں نصیب ہواناقومی سطح پر۔تقاریر،مناظرے اور لفاظی حد درجہ۔اصلیت یہی تھی اورہے کہ ہم اس قدرتی اصول سے تاریخی انحراف کرتے ہیں۔جاپان کے ایک حصے میں سیلاب آگیا۔
متاثرین خیموں اورپناہ گاہوں میں چلے گئے۔جب حکومت نے امدادبھجوائی تو کسی کے کہے بغیر خاموشی سے قطارمیں لگ کر امداد وصول کرلی۔کسی نے کسی کو دھکا نہیں دیا۔کسی نے دوسرے کویہ نہیں کہاکہ میں تو علاقے کا چوہدری ہوں، لہذاپہلے پانی یادوائیاں لونگا۔ کیا ہمارے خطہ میں اس رویہ کاتصوربھی کیاجاسکتاہے۔جواب آپ مجھ سے بہترجانتے ہیں۔چندسال پہلے کی ایک تصویر میرے ذہن پرنقش ہے۔سیکڑوں لوگ ہیلی کاپٹرکے نیچے امداد کے تھیلوں کے لیے اوپرکی جانب ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔ایسے لگتاہے کہ بے قابوانسانوں کاسیلاب ہے جو بیک وقت محض ایک تھیلے کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہے۔ ہر قدرتی آفت میں ایک جیسارویہ ہے۔
تحقیر آمیز، جہالت سے بھرپور۔پرسوچیے کہ ایسے کیوں ہے۔کس وجہ سے ہے۔ ہماری زندگیوں میں کسی قسم کاذاتی ڈسپلن نہیں۔دین کا ہر وقت نام لینے والوں کارویہ بھی بالکل اسی طرح کا ہے۔چلیے آپ ہمارے بسوں اورویگنوں کے اڈوں کو دیکھیے۔بس کے ایک دروازہ میں بیک وقت کئی لوگ داخل ہونے کی کوشش کرینگے۔قطاربنانے کاتوخیرتصورہی کوئی نہیں۔ شہروں میں ٹریفک کے معاملات قومی مزاج کی سچی عکاسی ہیں۔ حقائق عرض کررہاہوں جوہرایک کے ذہن میں ہیں۔ ہرایک کی زندگی پراس کے منفی اثرات ہیں۔ مگر کوئی رویہ بدلنے کوتیارنہیں۔کیوں۔کئی ماہرین کہتے ہیں کہ اس خطے کے لوگوں کی جینز(Genes) میں انصاف یانظم و ضبط یا دیگراصولی معاملات نہیں۔ اس سوچ کی مخالفت کرتاہوں کہ ہمارے ہی ہم وطن امریکا یابرطانیہ یادبئی جاکرقانون کی مکمل تابعداری کرتے ہیں۔اگریہ نقص ان کی جینزمیں ہوتا تو وہ باہرجاکرمنظم کیوں ہوتے۔
تحریرکوآپ ردفرمادیجئے۔مگرایک اورطرف بھی نظر ڈالیے۔ہمارے نظام میں سچ بولناکتنامشکل یاناممکن بنادیا گیاہے۔دل پرہاتھ رکھیے۔کیاہماری پوری زندگیاں، ہمارا پورانظام سچ پرقائم ہے یاسچ کی نفی پر۔جواب خودبخودمل جائیگا۔ہمارے جیسے ملک میں ہرمسئلہ کاحل ہرکوئی جانتا ہے۔مگرمسائل کوحل نہ کرناہماری سرشت ہے۔مسائل کو بڑھاناہماری خصلت ہے۔جب صورتحال پیچیدہ ہوجائے تو پھرذمے داری کودوسروں پرڈالناہماری عادت ہے۔قدرت کے انمٹ اصولوں سے مکمل انکار آج ہمیں وہاں پہنچا چکا ہے۔جہاں سے کوئی قوم واپس نہیں آئی۔یہ بھی آفاقی اصول ہے۔
سورج مشرق سے طلوع ہوتاہے۔ایک خاص زاویہ پرموجودرہتاہے۔اس کے اردگردہماری زمین ایک مخصوص طریقے سے حرکت میں رہتی ہے۔سورج مغرب میں غروب ہوجاتاہے۔انتہائی نازک زاویہ سے پوری کائنات گردش میں ہے۔اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔بالکل اسی طرح انسانوں اورملکوں کے داخلی معاملات ہیں۔انسانی شعورنے اصل ترقی صنعتی انقلاب اور اس کے بعدوالے دور میں کی ہے۔ سوسے ڈیڑھ سوسال کے مختصرسے دورنے انسانی سوچ کو اتنا تبدیل کیاجسکی مثال پچھلے ہزاروں سالوں میں نہیں ملتی۔ تبدیلی ہرگزہرگزتکلیف سے مبرانھیں تھی۔ قدم قدم پربے مثال انسانی قربانیاں اور جدوجہد شامل ہے۔جس اکیسویں صدی میں ہم سانس لے رہے ہیں،وہ بنیادی طورپرصنعتی انقلاب کے بعدوالی تبدیلیوں کی مرہون منت ہے۔جن قوموں نے یہ پہچان رکھاہے،پوری دنیاان کے قدموں میں ہے۔ حقیقت یہی ہے اور تلخ حقیقت ہے۔
مختلف قوموں نے عظیم جدوجہدکے بعدآزادی کی دہلیزپرقدم رکھا۔یہی لمحہ تھاجس میں انھیں قائدین کی ضرورت تھی جوقدرت کے پایندہ اصولوں کے مطابق اپنی قوم کوترقی کرنے میں مددکرتے۔بیسویں صدی کے آغاز میں کئی نئے ممالک وجودمیں آئے۔ سنگاپور، ملائشیاء، چین، جنوبی کوریا، نیپال، برما اور دیگرریاستیں۔کسی تعصب کے بغیران ممالک کے موجودہ حالات دیکھیے۔دوبارہ عرض کرونگاکہ ان میں مسلم اورغیرمسلم کی کوئی تفریق نہیں۔ سنگاپورکولے لیجیے۔تقریباًہمارے ساتھ آزادہونے والا ملک،اس وقت ایشیاء کاسب سے ترقی یافتہ خطہ ہے۔کسی حوالے سے بھی نظرڈالیے۔جرائم مکمل طورپرختم ہوچکے ہیں۔انصاف کامثالی نظام موجودہے۔ایک ایسانظام جسکودیکھ کرآپ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔
صحت اورتعلیم کے شعبے قابل رشک ہیں۔ملائشیااس سے قدرے پیچھے ہے۔مگرنسلی بنیادپرتقسیم شدہ ملک نے ایک آئینی معاشرتی معاہدہ مرتب کیاہے جسکی بنیادپر تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ چین کے متعلق بات کرناویسے ہی عجیب سالگتاہے کیونکہ ان کی بے مثال ترقی کی عمرتوصرف تیس برس ہے۔بھرپورتوجہ اپنے ملک کی جانب مبذول کرواناچاہتاہوں۔تکلیف سے گزارش کررہاہوں کہ ہم نے بحیثیت قوم قدرت کے اصولوں کے خلاف رویہ اپنالیاہے۔بخوبی علم ہے کہ کس شاہراہ کے مسافرہیں لیکن ہمیں یقین دلایاجارہاہے کہ کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ہرچیزٹھیک رہے گی۔طالبعلم کی دانست میں یہ رویہ ہمیں داخلی طورپرختم کرچکاہے۔سچ یہ بھی ہے کہ دنیاکے جس حصے میں ہم زندہ ہیں،یہ تاریخ اور حال کے کسی بھی دورمیں علم دوست یاتحقیقی رویے کا مالک نہیں رہا۔ہم ایسٹ انڈیاکمپنی کوہزارگالیاں دیں۔ برطانوی سامراج کوبرابھلاکہیں۔لیکن ذرا دیکھیے کہ اگروہ نہ آتے، اوریہاں وہی بادشاہت یانسلی حکومتیں رہتیں،توہم کس حال میں ہوتے۔سوچتے ہوئے بھی خوف سامحسوس ہوتاہے۔
کوئی مشکل بات نہیں کرناچاہتا۔سادہ سے حقائق ہیں۔قدرت کابنیادی اصول "انصاف" ہے۔ہم اس کلیے سے انحراف کرتے ہیں۔مختلف دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں کہ ہم انصاف پسندلوگ ہیں۔اپنے نظام میں انصاف کوریڑھ کی ہڈی سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقت بالکل برعکس ہے۔
اداروں سے نکل کر انصاف کوسماج میں تلاش کرنے کی کوشش بھی کرلیجیے۔خواتین کوآج بھی برابری کے دنیاوی یادینی اصولوں کے مطابق مقام حاصل نہیں۔امیرترین یا غریب ترین خاندانوں کودیکھ لیجیے۔ جائیدادکااصل وارث بیٹاہی ہوگا۔بیٹی کوآج بھی خدمت،قربانی اوروفاشعاری کے ڈبہ میں مقیدکرکے اس کے انسانی وجودکی نفی کردی جاتی ہے۔سیکڑوں لوگوں کوجانتاہوںجوکہ انتہائی اصول پسند کہلوائے جاتے ہیں،مگرجہاں لڑکیوں کامعاملہ آئے، ان کے رویہ بالکل اسی طرح کے ہوتے ہیں جیسے ایک غیرتہذیب یافتہ انسان کے۔شہرکے ایک رئیس چندسال پہلے کہنے لگے کہ فیکٹری تواپنے بیٹے کودے دونگا،ہاں،بیٹی کوایک گھر بنادونگا۔معاملہ ٹھیک ہوجائیگا۔ہم اتنے مشکل لوگ ہیں کہ اپنے گھرکی بچیوں کوشادی میں اپنی مرضی کاحق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگرکوئی خاتون پڑھ لکھ کرانصاف مانگنے کی کوشش کرے تونتائج بہت بھیانک ہوسکتے ہیں۔
دوسال پہلے میرے پاس لندن سے ایک دوست تشریف لائے۔ لاہور سے منسلک ایک خاتون وکیل اورسماجی کارکن کی اتنی برائی کی کہ میں پریشان ہوگیا۔ کہنے لگے کہ وہ ایک بیرونی ایجنٹ ہے۔ غداراورملک دشمن ہے۔ اس کا ایجنڈاہی ملک کونقصان پہنچاناہے۔میں وکیل خاتون اور ان کے شوہرکونزدیکی طور پر جانتاتھا۔وہ خاندان عملی اورذاتی زندگی میں انتہائی شاندار لوگ تھے اور ہیں۔دیرتک سوچتارہاکہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ یہی سمجھ میں آیاکہ وہ سماجی اورقانونی کارکن، خواتین کو انصاف دلوانے کی مکمل کوشش کرتی ہیں۔ اکثرناکام ہوجاتی ہیں۔مگرکبھی کبھی کامیاب بھی رہتی ہیں۔انکااصل قصور صرف اورصرف یہی ہے کہ مردوں کے کنٹرول شدہ معاشرے میں کمزورفریق کاساتھ کیوں دے رہی ہیں۔ اگر قدرت ہم سے چندلمحے انصاف نہ کرے اورکشش ثقل کے اصول کوناپیدکردے تواربوں لوگ چند سیکنڈوں میں ختم ہوجائینگے۔معاشروں میں انصاف کی یہی اہمیت ہے۔ معاملہ صرف اورصرف ادراک کاہے۔
قدرت کے ایک اوراصول" نظم وضبط" کی طرف آئیے۔پوری کائنات اسی کلیے کے تحت کام کرتی ہے۔ بارش سے محض پانی ہی برستاہے اورآگ ہر چیز کو خاکستر کرنے پرقادرہے۔کیاواقعی بحیثیت قوم ہمارااس قیمتی قانون سے کسی قسم کاکوئی واسطہ ہے۔قطعاًنہیں ہرگز نہیں۔ 1947ء میں جب ملک وجودمیں آیاتواس علاقے نے اٹھارہ سے بیس لاکھ انسانوں کوتہہ تیغ ہوتے دیکھا۔لوگوں نے ایک دوسرے سے جانوروں سے بدترسلوک کیا۔ مذہبی منافرت نے انسانوں سے ہروہ کام کروایاجسے انسانیت سوز کہنابہت معمولی لفظ ہے۔نظم وضبط، نہ ذاتی حیثیت میں نصیب ہواناقومی سطح پر۔تقاریر،مناظرے اور لفاظی حد درجہ۔اصلیت یہی تھی اورہے کہ ہم اس قدرتی اصول سے تاریخی انحراف کرتے ہیں۔جاپان کے ایک حصے میں سیلاب آگیا۔
متاثرین خیموں اورپناہ گاہوں میں چلے گئے۔جب حکومت نے امدادبھجوائی تو کسی کے کہے بغیر خاموشی سے قطارمیں لگ کر امداد وصول کرلی۔کسی نے کسی کو دھکا نہیں دیا۔کسی نے دوسرے کویہ نہیں کہاکہ میں تو علاقے کا چوہدری ہوں، لہذاپہلے پانی یادوائیاں لونگا۔ کیا ہمارے خطہ میں اس رویہ کاتصوربھی کیاجاسکتاہے۔جواب آپ مجھ سے بہترجانتے ہیں۔چندسال پہلے کی ایک تصویر میرے ذہن پرنقش ہے۔سیکڑوں لوگ ہیلی کاپٹرکے نیچے امداد کے تھیلوں کے لیے اوپرکی جانب ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔ایسے لگتاہے کہ بے قابوانسانوں کاسیلاب ہے جو بیک وقت محض ایک تھیلے کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہے۔ ہر قدرتی آفت میں ایک جیسارویہ ہے۔
تحقیر آمیز، جہالت سے بھرپور۔پرسوچیے کہ ایسے کیوں ہے۔کس وجہ سے ہے۔ ہماری زندگیوں میں کسی قسم کاذاتی ڈسپلن نہیں۔دین کا ہر وقت نام لینے والوں کارویہ بھی بالکل اسی طرح کا ہے۔چلیے آپ ہمارے بسوں اورویگنوں کے اڈوں کو دیکھیے۔بس کے ایک دروازہ میں بیک وقت کئی لوگ داخل ہونے کی کوشش کرینگے۔قطاربنانے کاتوخیرتصورہی کوئی نہیں۔ شہروں میں ٹریفک کے معاملات قومی مزاج کی سچی عکاسی ہیں۔ حقائق عرض کررہاہوں جوہرایک کے ذہن میں ہیں۔ ہرایک کی زندگی پراس کے منفی اثرات ہیں۔ مگر کوئی رویہ بدلنے کوتیارنہیں۔کیوں۔کئی ماہرین کہتے ہیں کہ اس خطے کے لوگوں کی جینز(Genes) میں انصاف یانظم و ضبط یا دیگراصولی معاملات نہیں۔ اس سوچ کی مخالفت کرتاہوں کہ ہمارے ہی ہم وطن امریکا یابرطانیہ یادبئی جاکرقانون کی مکمل تابعداری کرتے ہیں۔اگریہ نقص ان کی جینزمیں ہوتا تو وہ باہرجاکرمنظم کیوں ہوتے۔
تحریرکوآپ ردفرمادیجئے۔مگرایک اورطرف بھی نظر ڈالیے۔ہمارے نظام میں سچ بولناکتنامشکل یاناممکن بنادیا گیاہے۔دل پرہاتھ رکھیے۔کیاہماری پوری زندگیاں، ہمارا پورانظام سچ پرقائم ہے یاسچ کی نفی پر۔جواب خودبخودمل جائیگا۔ہمارے جیسے ملک میں ہرمسئلہ کاحل ہرکوئی جانتا ہے۔مگرمسائل کوحل نہ کرناہماری سرشت ہے۔مسائل کو بڑھاناہماری خصلت ہے۔جب صورتحال پیچیدہ ہوجائے تو پھرذمے داری کودوسروں پرڈالناہماری عادت ہے۔قدرت کے انمٹ اصولوں سے مکمل انکار آج ہمیں وہاں پہنچا چکا ہے۔جہاں سے کوئی قوم واپس نہیں آئی۔یہ بھی آفاقی اصول ہے۔